تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سنسنی

شہ نگر میں یہ کھلبلی کیوں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 220
دل کی بستی اجاڑ سی کیوں ہے
شہ نگر میں یہ کھلبلی کیوں ہے
کونسی آگ کو ملی یہ ہوا
شہر بھر میں یہ سنسنی کیوں ہے
بھاگ اُلجھائے جو رعایا کے
اُلجھنوں سے وہی بری کیوں ہے
جسم تڑخے ذرا سی آنچ سے کیوں
یہ زمیں اِتنی بُھربھری کیوں ہے
وہ جو دندانِ آز رکھتے ہیں
ڈور ایسوں کی ہی کُھلی کیوں ہے
چال سہنے کی حکمِ ناخلفاں
اِک ہمِیں سے چلی گئی کیوں ہے
بے نیازی ہرایک منصف کی
اِک ہمِیں نے ہی بھگتنی کیوں ہے
تھی جو ماجد! عطائے استغنا
سلطنت ہم سے وہ چِھنی کیوں ہے
ماجد صدیقی

پسِ خیال عجب سنسنی سی شہر میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
دھڑکتی گونجتی اِک خامشی سی شہر میں ہے
پسِ خیال عجب سنسنی سی شہر میں ہے
لب و زباں پہ نہیں ہے، نظر نظر میں تو ہے
کوئی تو بات ہے جو اَن کہی سی شہر میں ہے
چھپا سکے نہ جسے کوئی بھی اَپَھل جوڑا
کچھ اِس طرح کی حزیں بیدلی سی شہر میں ہے
جھٹک رہے ہوں جسے آہوانِ رم خوردہ
وفورِ خوف میں وہ کھلبلی سی شہر میں ہے
ہُوا جو اُس کی خبر بھی ہے اور خبر بھی نہیں
چہار سُو یہی ناآگہی سی شہر میں ہے
دہک رہے ہیں گلابوں سے بام و در ماجد
جو آنچ میں ہو وہی تازگی سی شہر میں ہے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑