تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سنانے

سُبکیاں ہی ہاتھ آئیں حالِ دل سُنانے میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
دوسروں کے دروازے جا کے کھٹکھٹانے میں
سُبکیاں ہی ہاتھ آئیں حالِ دل سُنانے میں
سو تو مَیں گیا لیکن دشت کی عطا کردہ
سب تھکن اُتر آئی ہاتھ کے سرہانے میں
اِک لُغت نگل بیٹھا ناقبول لفظوں کی
میں جِسے تعّرض تھا کنکری چبانے میں
صَرف ہو گئیں کیا کیا سِیٹیوں کی آوازیں
سعد کو سُلانے میں چور کو جگانے میں
قربتوں کی لذّت تھی جو بھی، پر نکلنے پر
کھیت کھیت جا بکھری روزیاں کمانے میں
تیر پر قضا کے بھی دشت میں نظر رکھنا
ندّیاں لگا لیں گی اپنے گنگنانے میں
تذکرے وفاؤں کے کر کے، یار لوگوں کو
لے چلا ہے تُو ماجدؔ کون سے زمانے میں
ماجد صدیقی

کوئی نمو کا بھی رُخ دیجیے زمانے کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
کشید خاک سے آتش تو کی جلانے کو
کوئی نمو کا بھی رُخ دیجیے زمانے کو
لگے بھی ہاتھ تو کس کے ستم کشانِ جہاں
سجا رہا ہے جو کولہو میں دانے دانے کو
لہو میں لتھڑے ہوئے پاؤں لے کے دھرتی سے
چلا ہے چاند پہ انساں قدم جمانے کو
کسی بھی عہد میں وحشت کا تھا نہ یہ انداز
ہر ایک ہاتھ میں کب جال تھے بچھانے کو
ہر ایک شخص سے ہر ایک شخص بیگانہ
یہ کیا ہوا ہے یکایک مرے زمانے کو
وُہ سُن کے زخم بھی ماجدؔ ترے کُریدیں گے
جنہیں چلا ہے حکایاتِ غم سُنانے کو
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑