تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سرشار

پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 120
تم ایسے ہمہ لطف تھے جب یار ہمارے
پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے
فرہاد کی ضربت، کہیں قربِ سگِ لیلیٰ
اذہان میں کیا کیا نہیں آثار ہمارے
تم ایسے حسینوں سے بہ چشم و لب و آغوش
باغات کے باغات ہیں سرشار ہمارے
چہروں پہ مسرّت کے تھے کچھ ایسے کرشمے
چنداؤں میں، تاروں میں تھے انوار ہمارے
جو دکھ ہمیں ہونے تھے رقیبوں کے وہ سر تھے
گر تھے بھی تو ایسے ہی تھے آزار ہمارے
تم ذہن نشیں پہلے پہل جب سے ہوئے تھے
ابتک ہیں حسیں تب سے یہ افکار ہمارے
ہے اب بھی بہم قرب و تلطّف ہمیں اُن کا
ماجد تھے جو آغاز سے دلدار ہمارے
ماجد صدیقی

اچّھا ہے یہی آج کا اخبار نہ دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
منصور حقیقت کا سرِ دار نہ دیکھا
اچّھا ہے یہی آج کا اخبار نہ دیکھا
ہر فرد کو اِس عہد میں آزارِ بقا ہے
ہے کون جِسے مرگ سے دوچار نہ دیکھا
اِس دورِ منّور میں سرِ ارض ہے جیسا
انسان کو ایسا کبھی خونخوار نہ دیکھا
خدشوں نے جہاں دی نہ مری آنکھ بھی لگنے
اُس شہر کا اِک شخص بھی بیدار نہ دیکھا
ہوتا ہے ہر اِک پھُول مہک بانٹ کے جیسا
انسان کو ایسا کبھی سرشار نہ دیکھا
اک بار جو لاحق ہو دل و جان کو ماجدؔ
جاتا ہوا وُہ روگ، وُہ آزار نہ دیکھا
ماجد صدیقی

سارے ارکانِ سکوں، نادار ہیں اَب کے برس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
گل پریشاں ہیں تو جھونکے، نار ہیں اَب کے برس
سارے ارکانِ سکوں، نادار ہیں اَب کے برس
کھیت سے لے کر، کناروں تک کا عالم ایک ہے
خِستِ دریا سے سب، بیزار ہیں اَب کے برس
جال سے نکلے تو، تیروں کی چتا ہے سامنے
دل کو لاحق اور ہی آزار ہیں اَب کے برس
درمیاں میں جان لیوا، پیاس کا آسیب ہے
سارے پنگھٹ دشت کے اُس پار ہیں، اب کے برس
بے دلی ماجد اگر کُچھ ہے، تو وُہ چڑیوں میں ہے
جتنے شاہیں ہیں، بہت سرشار ہیں اب کے برس
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑