تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سرا

وہ جسے اوّل و آخر کا خدا کہتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 194
جسم در جسم ہے رگ رگ میں بسا، کہتے ہیں
وہ جسے اوّل و آخر کا خدا کہتے ہیں
کسی میدان میں جو جو بھی ہوئے عقدہ کُشا
اُن مسیحاؤں کو، جویائے شفا کہتے ہیں
کاش ہم آپ بھی اُس جیسا کھرا ہو دیکھیں
جنس در جنس جسے سارے کھرا کہتے ہیں
ایسا کہنے میں نہ دے ساتھ تو باطن، ورنہ
ہم ہیں مسجودِ ملائک، یہ کُھلا کہتے ہیں
کچھ تو پاس ایسوں کے ہوتی ہے کوئی اسکی دلیل
قُربِ جاناں کو جو جنّت کی ہوا کہتے ہیں
چشمِ جاناں سے بھی جھلکے تو ہے پرتو اُس کا
جس کو ہم وصفِ حیا، وصفِ خدا کہتے ہیں
کچھ تو ماجد ہے سبب اِس کا وگرنہ، کیسے
شوخ چہروں کا تجھے، مدح سرا کہتے ہیں
ماجد صدیقی

بادل کہ نشے میں جُھومتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
پاس اُس کے بہت پئے عطا ہے
بادل کہ نشے میں جُھومتا ہے
اُن سب کا کہ سنگدل ہیں جو
ہے جو بھی ستم سو برملا ہے
بچّے کو بہت ہے ہاتھ میں گر
اُس کے کوئی ایک جھنجھنا ہے
راحت پہ مقّربان کے بھی
دیکھا ہے جسے جلا کٹا ہے
پِھر پِھرنے لگیں کسی کی نظریں
پِھر ہاتھ مرا کہیں اُٹھا ہے
ماجِد ہے کہ نیم قرن سے جو
کُچھ پائے بِناں غزل سرا ہے
ماجد صدیقی

یہ کیا ہُوا کہ بجز اشک نم ہَوا میں نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کوئی نشانِ سکوں آنکھ کی فضا میں نہیں
یہ کیا ہُوا کہ بجز اشک نم ہَوا میں نہیں
لگاؤں چوٹ نہ کیوں میں بھی چوٹ کے بدلے
قصاص میں جو مزہ ہے وہ خوں بہا میں نہیں
رگوں میں دوڑتے خوں تک سے بدگمان ہیں ہم
مراد یہ کہ یقیں قربتِ خدا میں نہیں
نمو شجر کی نہ ڈھونڈو برستے ژالوں میں
کہ مسئلے کا جو حل ہے فقط سزا میں نہیں
ترے سخن میں چبھن جس طرح کی ہے ماجد
کسک یہ اور کسی بھی غزل سرا میں نہیں
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑