تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

سجی

مکر کی اُس میں صنّاعی دکھلائی دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
بات بظاہر جو بھی کھری دکھلائی دے
مکر کی اُس میں صنّاعی دکھلائی دے
ماند کرے پل بھر میں گردِ ریا اُس کو
باغ میں کھِلتی جو بھی کلی دکھلائی دے
عُمر کی گاڑی جس کو پیچھے چھوڑ آئی
اُس جیسی اَب کون پری دکھلائی دے
دن کو بھی اَب یُوں ہے جیسے آنکھوں میں
سُرمے جیسی رات سجی دکھلائی دے
کینچلیوں سی برگ و شجر سے اُتری جو
آنے والی رُت بھی وُہی دکھلائی دے
آنکھ کا عالم پُوچھ نہ اُس کے بچھڑنے پر
کاسۂ گُل میں اوس بھری دکھلائی دے
تُو اُس مارِسیہ سے دُور ہی رہ
نیّت جس کی تجھ کو بُری دکھلائی دے
ماجد صدیقی

اک کھال بھی ہرن کی وہیں پر سجی ملی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
تحریر آشتی کی جہاں تھی لکھی ملی
اک کھال بھی ہرن کی وہیں پر سجی ملی
تیتر جہاں تھا پر تھے قفس میں وہاں پڑے
بلی زبان منہ پہ اُدھر پھیرتی ملی
ہاں بے قرار، صید گنوا کر تھا شیر بھی
نتھنوں میں بھیڑ کے بھی لگی دھونکنی ملی
تَیرا فضا میں بن کی جہاں بھی کہیں عقاب
مچتی نشیمنوں میں عجب کھلبلی ملی
سمجھے وہ چیل، دشت موافق سبھی کو ہے
چڑیوں پہ ٹوٹ کر ہے جسے تازگی ملی
یادوں کو بچپنے کی جو الٹا تو جا بجا
بہروپئے کے تن میں سمائی چھری ملی
ماجدؔ! ہوا کو جس نے دکھائی تھی سرکشی
کچھ روز میں وہ شاخ زمیں پر پڑی ملی
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑