تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

زمستاں

بادلوں سا ہے میّسر مجھے ذیشاں ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 167
مجتمع ہونا، بہ یک وقت پریشاں ہونا
بادلوں سا ہے میّسر مجھے ذیشاں ہونا
زندگی میں کبھی وہ دن بھی فراہم تھے مجھے
بیٹھنا بِیچ میں بچّوں کے، گُلِستاں ہونا
میں ہوں شہکارِ خدا، میں نہ خدا کہلاؤں
مجھ کو یہ طَور سکھائے مرا انساں ہونا
گاہے گاہے جو سخن میں نہیں حدّت رہتی
طبعِ شاعر کا ہے یہ، مہرِ زمستاں ہونا
زر کہ جو وجہِ بشاشت ہے کہاں اپنا نصیب!
ہے تو قسمت میں فقط، رنجِ فراواں ہونا
وہ کہ ہیں اہلِ وسائل انہیں کھٹکا کس کا
ہے اُنہیں ہیچ غمِ جاں، غمِ جاناں ہونا
گاہے گاہے کی خطا ہے مرا خاصہ ماجد!
اور یہ عظمت ہے مری اس پہ پشیماں ہونا
ماجد صدیقی

بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
بہت مشکل ہے ملنا ہم سے اُس حُسنِ گریزاں کا
بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا
کناروں پر کے ہم باسی، نہ جانیں حال اندرکا
خبرنامہ عجب سا ہو چلا وسطِ گُلستاں کا
اخیرِ عمر، پِیری جس کو کہتے ہیں، کچھ ایسا ہے
شبانِ سرد میں پچھلا پہر جیسے زمستاں کا
بہ دوش و سر گھٹائیں ناچتی ہیں جیسے ساون کی
بہ دَورِ نَو بھی درجہ کم نہیں زُلفِ پریشاں کا
بہت پہلے کے دن یاد آ چلے ہیں اپنے ماضی کے
ہُوا جب اُستوار اُس سے کبھی رشتہ رگِ جاں کا
وہیں سے تو ہمیں بھی ہاتھ آیا سخت جاں ہونا
ہمارا بچپنا ہوتا تھا جب موسم کُہِستاں کا
شروعِ عمرہی سے ہے یہی پیشِ نظر ماجد!
غزل کو چاہیے رُتبہ میّسر ہو دَبِستاں کا
ماجد صدیقی

ہے میّسر مجھے انساں ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
قّصۂ دہر کا عنواں ہونا
ہے میّسر مجھے انساں ہونا
کتنا مشکل ہے ترے غم کا حصول
کتنا مشکل ہے پریشاں ہونا
تو مری روح میں، وجدان میں ہے
تجھ کو حاصل ہے مری جاں ہونا
مہر کو سر پہ سجانا پل بھر
پھر شبِ سردِ زمستاں ہونا
پھُولنا شاخ پہ غنچہ غنچہ
اور اِک ساتھ پریشاں ہونا
کب تلک خوفِ ہوا سے آخر
ہو میسّر، تہِ داماں ہونا
تھے کبھی ہم بھی گلستاں ماجدؔ
اَب وطیرہ ہے بیاباں ہونا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑