تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

دیار

وہ نہ مَے سی نگار میں پایا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 185
جو مزہ لمسِ یار میں پایا
وہ نہ مَے سی نگار میں پایا
مدّعا پیڑ کے پنپنے کا
پیڑ کے برگ و بار میں پایا
عکسِ وصل و قرابتِ جاناں
موسموں کے نکھارمیں پایا
لطف، صبح و شبانِ ہجراں کا
چشمِ اخترشمار میں پایا
طَور اِک ایک سے الجھنے کا
دیدۂ ہوشیار میں پایا
خوف کیا کیا اِن اپنی آنکھوں نے
اپنے سہمے دیار میں پایا
وصف کِھلنے کا اور مہکنے کا
ماجدِ گل شعار میں پایا
ماجد صدیقی

کسی اِک بدن پہ، اِک سا، اگر اختیار ہوتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
سفرِ حیات اپنا بڑا لطف دار ہوتا
کسی اِک بدن پہ، اِک سا، اگر اختیار ہوتا
نہ حکومتی سلیقے ہمیں آ سکے دگرنہ
یہ جو اب ہے ایسا ویسا، نہ کوئی دیار ہوتا
نہ کجی کوئی بھی ہوتی کسی فرد کے چلن میں
جسے راستی کہیں سب، وہ اگر شعار ہوتا
کبھی گھٹ کے ہم بھی بڑھتے تو بجا ہے یہ ہمیں بھی
کسی چودھویں کے چندا سا بہم نکھار ہوتا
نہ ہُوا کہ ہم بھی کرتے بڑی زرنگاریاں، گر
زرِ گُل سا پاس اپنے زرِ مستعار ہوتا
کبھی رہنما ہمارا نہ بنا یہ قولِ غالب
’اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا،
کوئی ہے کمی جو ماجد ہے ہمیں میں ورنہ اپنا
وہ جو ہیں جہاں میں اچّھے، اُنہی میں شمار ہوتا
ماجد صدیقی

مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 158
بہم رہے نہ سدا قُربِ یار کا موسم
مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم
نشہ حیات کا سارا اُسی میں پنہاں تھا
کسی بدن پہ جو تھا اختیار کا موسم
نجانے کیوں ہے یتیموں کے دیدہ و دل سا
جہاں پہ ہم ہیں اُسی اِک دیار کا موسم
ہے قحطِ آب کہیں، اور قحطِ ضَو ہے کہیں
نگر پہ چھایا ہے کیا شہریار کا موسم
جو چاہیے تھا بہ کاوش بھی وہ نہ ہاتھ آیا
محیطِ عمر ہُوا انتظار کا موسم
اُنہیں بھی فیض ہمیں سا ملا ہے دریا سے
اِدھر ہی جیسا ہے دریا کے پار کا موسم
گزرنا جان سے جن جن کو آ گیا ماجد
نصیب اُنہی کے ہُوا اَوجِ دار کا موسم
نذرفیض
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑