تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

دہرانا

خلق کو ہم نے یاد آنا ہے آج نہیں تو کل

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
جیون دِیپ نے بُجھ جانا ہے آج نہیں تو کل
خلق کو ہم نے یاد آنا ہے آج نہیں تو کل
جاناں تیرا قرب بجا، پر وقت ندی کے بیچ
ہجر نے بھی تو تڑپانا ہے آج نہیں تو کل
وہی جو قیدِ حیات میں بھگت چکی ہے اُسکی ماں
دوشیزہ نے دُہرانا ہے آج نہیں تو کل
ہم نے رخش وہ چھوڑنا کب ہے، جس پہ سوار ہیں ہم
بدخواہوں نے شرمانا ہے آج نہیں تو کل
پیڑ نہ جانے اُس کی سج دھج کا باعث ہیں جو
برگ و ثمر نے جھڑ جانا ہے آج نہیں تو کل
ذہنوں ذہنوں روز بروز پنپتی نفرت کے
زہری ناگ نے اِٹھلانا ہے آج نہیں تو کل
ماجد اُس پہ نظر رکھنی ہے ہر لحظہ ہر گام
بے عملی نے دہلانا ہے آج نہیں تو کل
ماجد صدیقی

لِیے کے لَوٹانے پر شور مچانا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
پھل اور پُھول کے جھڑنے سے کترانا کیا
لِیے کے لَوٹانے پر شور مچانا کیا
آدم زاد ہوں میں، مردُودِ خدا بھی ہوں
کھو کر خود فردوسِ سکوں، پچتانا کیا
ڈالنی کیا مشکل میں سماعت شاہوں کی
بول نہ جو سمجھا جائے، دُہرانا کیا
بہرِ ترّحم جسم سے کچھ منہا بھی کرو
ہاتھ سلامت ہیں تو اُنہیں پَھیلانا کیا
سینکڑوں تَوجِیہیں ہیں جن کی خطاؤں پر
اپنے کئے پر شاہوں کا شرمانا کیا
بات سُجھاتی ہے تاریخ یہی اپنی
میدانوں میں اُتر کے پیٹھ دکھانا کیا
دیکھنے والوں کو ماجد! مت ہنسنے دو
پِٹ جائیں جو گال، اُنہیں سہلانا کیا
ماجد صدیقی

کس نے کس کو کتنا نیچا دِکھلانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
عہد یہی اب اِنسانوں نے ٹھہرانا ہے
کس نے کس کو کتنا نیچا دِکھلانا ہے
چڑیوں نے ہے اپنی جان چھپائے پھرنا
شہبازوں نے اپنی دھونس پہ اِترانا ہے
دھوپ کے ہاتھوں اِن سے اوس کی نم چھننے پر
گرد نے پھولوں کو سہلانے آ جانا ہے
سورج کے ہوتے، جب تک محتاجِ ضیا ہے
چاند نے گھٹنا بڑھنا ہے اور گہنانا ہے
جانبِ تشنہ لباں پھر بڑھنے لگا مشکیزہ
جبر نے جِس پر تیر نیا پھر برسانا ہے
عاجز ہم اور قادر اور کوئی ہے ماجد
جیون بھر بس درس یہی اِک دہرانا ہے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑