تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

جھپٹنے

کہ موت جان سے چُوزے پہ ہے جھپٹنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 116
یہ گردِ ضعف ہے کیا؟رُوح جس سے اَٹنے لگی
کہ موت جان سے چُوزے پہ ہے جھپٹنے لگی
بہ نامِ تفرقہ کیا کیا سرنگ نفرت کی
نہیں ہے گھر میں نہتّوں کے جا کے پھٹنے لگی
تو کیا ہمِیں میں کوئی فرق ہے کہ جس کے سبب
ہماری ناؤ ہی ہرسیل میں الٹنے لگی
یہ ٹَڈی دَل سا نجانے کہاں سے آ دھمکا
علالتوں میں ہے کیوں فصلِ جان بٹنے لگی
اگرچہ کرب نے جاں تک نچوڑ لی لیکن
گُماں کی دُھند بہت کچھ ہے اِس سے چھٹنے لگی
کنارِ دیدہ و لب سے، مرُورِ عمر کے ساتھ
جو چاشنی بھی تھی مانندِ موج ہٹنے لگی
پتنگ عزم کی ماجِد ہے ڈانواں ڈول سی کیوں
لگے ہے ڈور کہیں درمیاں سے کٹنے لگی
ماجد صدیقی

اوج کو اپنے چھُو کر مہ آرزو، ماہِ کامل کی مانند گھٹنے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
دیکھنا اَب کے پھر دیکھتے دیکھتے سائباں چاندنی کا سمٹنے لگا
اوج کو اپنے چھُو کر مہ آرزو، ماہِ کامل کی مانند گھٹنے لگا
تُو بھی اُمید کو دے نیا پیرہن جان لے تو بھی کچھ موسموں کا سخن
دیکھ لے اے دلِ زار! تیرے لئے وقت تازہ ورق ہے اُلٹنے لگا
دوستی دشمنی کے لبادوں میں پھر، کر دکھانے پہ ہے اور ہی کچھ مُصر
وقت آکاس بیلوں کے بہروپ میں سبز اشجار سے پھر لپٹنے لگا
پھر فضاؤں میں اُبھرے گی اِک چیخ سی کان جس پر دھرے گا نہ ہرگز کوئی
حرص کازاغ بالک پہ اُمید کے ہے نئی آن سے پھر جھپٹنے لگا
چھین لے گا بالآخر بہ فکرِمتیں، دیکھنا اُن کے پیروں تلے کی زمیں
ناتوانوں سے گرچہ ستمگار کی چپقلش کا ہے پانسہ پلٹنے لگا
دیکھ ماجدؔ سکوں کی نئی صورتیں پل کی پل میں نظر میں جھلکنے لگیں
زخم آہوں میں کافور ہونے لگے دردِ دل آنسوؤں میں ہے بٹنے لگا
ماجد صدیقی

کہ باج بن کے خوشی زندگی سے کٹنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
ریاستوں میں کہاں ارضِ جاں یہ بٹنے لگی
کہ باج بن کے خوشی زندگی سے کٹنے لگی
اُدھر فساد سبک اور گھنے اندھیروں میں
اِدھر گماں کہ سیاہی فلک سے چھٹنے لگی
شباب پر ہے سفر واپسی کا ہر جانب
مہک بھی باغ میں اب سُوئے گل پلٹنے لگی
یہ کیسا جبر ہے، طوفانِ تیرگی کیا ہے
کہ روشنی تھی جہاں بھی وہیں سمٹنے لگی
نگل رہی ہے مجھے خاکِ زیرِ پا جیسے
مری درازیٔ قامت ہے خود ہی گھٹنے لگی
کہاں گئی وہ متانت وہ شستگی ماجدؔ!
ہر ایک سمت یہ وحشت سی کیوں جھپٹنے لگی
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑