ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
فتنے بہت ہیں، خیر کے پہلو بہت ہی کم
شب زاد بے شمار ہیں، جگنو بہت ہی کم
یابس فضا کا صید ہیں کیا کیا غزال چشم
رونا کسے بہم کہ ہیں آنسو بہت ہی کم
اک سمت دہشتی ہیں تو اک سمت خوش خصال
گیدڑ کثیر اور ہیں آہو بہت ہی کم
باطن میں ہے کچھ اور پہ ظاہر ہے بے مثال
گھر گھر سجے گلوں میں ہے خوشبو بہت ہی کم
جانے رخوں کی رونقیں کیوں محو ہو چلیں
انگناؤں تک میں دِکھتے ہیں مہ رُو بہت ہی کم
بازار میں غرض کے سوا اور کس کا راج؟
ملتے ہیں اہلِ سُوق میں خوش خُو بہت ہی کم
ماجد ہے کنج گیر جو تو کس سبب سے ہے؟
جاتا ہے بزم بزم میں کیوں تو بہت ہی کم
ماجد صدیقی