تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

تعب

یہی موضوع نطق و لب کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 149
ہم سے الجھاؤ جَورِ شب کا ہے
یہی موضوع نطق و لب کا ہے
کیوں وہ غُرّا کے کھوئے وقر اپنا
رنج بس اُس کے اِس تعب کا ہے
نت اسے ڈھونڈتے ہیں از سر نو
وہ جو بچھڑا نجانے کب کا ہے
کوئی قانون کی نہ بات کرے
حکمِ حاکم نصیب سب کا ہے
ہم نہیں جنگلی پہ جنگلیوں سا
ہم پہ الزام کیوں غضب کا ہے
پہلی سیڑھی سے نت سفر ہو شروع
اپنا جینا کچھ ایسے ڈھب کا ہے
دشمنیء ہے نصیب اوروں کا
یہ جو ماجد ہے دوست سب کا ہے
ماجد صدیقی

وہ جو پُر لطف تھے روزوشب موڑ دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
مجھ سے جو چھن گئے،میرے رب موڑ دے
وہ جو پُر لطف تھے روزوشب موڑ دے
فاختاؤں کے حق میں خلافِ ستم
رگ بہ رگ تھا جو رنج و تعب موڑ دے
ساتھ اپنے ہی جس میں سخن اور تھے
خلوتوں کی وہ بزمِ طرب موڑ دے
جس سے مُکھ تھا انگاروں سا دہکا ہوا
مُو بہ مُو تھی جو وہ تاب و تب موڑ دے
الجھنوں کا تھا جن پر نہ سایہ تلک
ہاں وہ لمحاتِ خندہ بہ لب موڑ دے
نام اوروں کے جتنے شرف ہیں مرے
مجھ کو موڑے نہ تھے جو، وہ اب موڑ دے
رنج جو بھی ملے ،عفو کی شکل میں
دینے والوں کو ماجِد وہ سب موڑ دے
ماجد صدیقی

رنج کا اور بھی سبب نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
اک تغافل ہی اُس کا کب نکلا
رنج کا اور بھی سبب نکلا
غیر بھی ہم سے جب ہُوا رسوا
دل میں کانٹا تھا جو وہ تب نکلا
آپ کچھ کہہ کے مطمئن تو ہوئے
شکر ہے آپ کا تعب نکلا
بات جب چھڑ گئی شقاوت کی
دل میں جو تھا غبار سب نکلا
پنجۂ موجِ درد سے مَیں بھی
بچ گیا گرچہ جاں بہ لب نکلا
کیا مسافت کرے گا طے ماجدؔ
دن چڑھے تُو جو گھر سے اَب نکلا
ماجد صدیقی

ہمارے شہر کا موسم عجب ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
فصیلوں پر سحر، صحنوں میں شب ہے
ہمارے شہر کا موسم عجب ہے
وہ دیکھو ماہِ رخشاں بادلوں سے
لپٹ کر کس قدر محوِ طرب ہے
پئے عرفانِ منزل، گمرہوں کو
کہیں ہم جو بھی کچھ، لہو و لعب ہے
کچھار اپنی بنا لو حفظِ جہاں کو
نگر میں اب یہی جینے کا ڈھب ہے
ہمارے ہی لئے کیوں ایک ماجد
مزاجِ دہر میں رنج و تعب ہے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑