تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

بیمار

جو بھی الجن ہیو اسے یار بنا رکھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 150
ہم نے خدشوں کو بھی دلدار بنا رکھا ہے
جو بھی الجن ہیو اسے یار بنا رکھا ہے
ہم نے ڈالی ہے یہ پانی میں مدھانی کیسی
مفت کی بحث کو تکرار بنا رکھا ہے
آنسوآن کو وہ تپایا کہ شرر ٹھہرے ہیں
اوس کی آب کو بھی نار بنا رکھا ہے
رہبروں نے بس اک اپنی شفا کی خاطر
قوم کی قوم کو بیمار بنا رکھا ہے
لُوٹھا اہلِ وطن کو ہے شعار اپنا ہوا
کُنجِ اندوختہ اُس پار بنا رکھا ہے
ہم کہ ہیں اہلِ قناعت ہمیں دیکھو آ کے
روئیے روشن سحر آثار بنا رکھا ہے
کیسے موضوع یہ اپنائے ہیں ہم نے ماجد
فن کو بھی روز کا اخبار بنا رکھا ہے
ماجد صدیقی

جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
قلب و نظر کو جانے کیا آزار لگا ہے
جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے
انساں بھی آواز نہ یُوں لوٹائے، جیسے
پتّھر پتّھر جنگل کا غم خوار لگا ہے
اُس کو جانے رات گئے کیا فکر لگی تھی
بستی بھر میں چور ہی اِک بیدار لگا ہے
صَرف ہوا ہے جو بھی بحقِ پست مقاماں
حرف وُہی اپنا دُرِّ شہوار لگا ہے
اِک اِک ذہن تھا ایک ہی روگ کی زد میں جیسے
شہر کا شہر ہی اِک جیسا بیمار لگا ہے
ماجدؔ شہر میں ہر سُو جیسے سب اچّھا تھا
جس کو دیکھا سرکاری اخبار لگا ہے
ماجد صدیقی

فکر پہنچے گا وہاں دو چار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 152
ہم سخن کہتے ہیں جس معیار کا
فکر پہنچے گا وہاں دو چار کا
دھجّیاں اُس کی بکھر کر رہ گئیں
جس ورق پر عکس تھا اقرار کا
کھاٹ چھُڑوانے لگی بیساکھیاں
حال اچّھا ہو چلا بیمار کا
ڈھانپنے کو برق پھر عُریانیاں
ناپ لینے آ گئی اشجار کا
آ پڑا پھل اور زباں کے درمیاں
فاصلہ، ماجدؔ! سمندر پار کا
ماجد صدیقی

ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 127
مل گیا کوئی تو یہ چہرہ سحر آثار تھا
ظلمتِ خلوت وگرنہ مستقل آزار تھا
مجھ میں جانے کیا ہُنر تھا وہ کہ جس کے بُغض سے
میرے گھرکی سمت کھلتا ہر دریچہ نار تھا
کیوں مُصر رہنے لگا اِس پاک دامانی پہ مَیں
وہ خطائیں کیا ہوئیں جِن کا مجھے اقرار تھا
وہ بھی کیا شب تھی کہ جس کے حشرزا انجام پر
کانپتے ہاتھوں میں میرے صبح کا اخبار تھا
کس کی قامت کس سے کتنی پست ہے، اس فرق پر
جس کسی کو شہر میں دیکھا وہی بیمار تھا
رابطہ جب تک رہا ماجدؔ زمیں سے پیڑ کا
برگ برگ اُس کا سراپا مطلعٔ انوار تھا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑