تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

بو

سانہواں دے وچ گُجھدی دِسّے، یاداں دی خوشبو

ماجد صدیقی (پنجابی کلام) ۔ غزل نمبر 84
کِھلر گئی اے دل دے ویہڑے، کیہڑے مکھ دی لو
سانہواں دے وچ گُجھدی دِسّے، یاداں دی خوشبو
پھِرے بہار تے کمرے دے وچ، چڑیاں چہکن آ
رُت بدلن دی آپوں ائی، آ جاندی ائے کنسو
ہن خورے کتھے جا دسنی، اساں اپنی دھاک
چن تیکر تے پُجی، ساڈے سڑدے لہو دی بو
ورہیاں دے نیلے امبراں تے، چانن تَیں ائی سنگ
خوشیاں دیا انملیا سمیاں، پل تے کول کھلو
جُھکے ہوئے نیں ماجدُ، تیریاں اکھیاں دے وچ جھڑ
اسیں تینوں جاندے آں، توں بھانویں رو نہ رو
ماجد صدیقی (پنجابی کلام)

جاگتے دم ہی سجنوا تیرا درشن ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
پھول کالر پر سجایا اور منوا کھو گیا
جاگتے دم ہی سجنوا تیرا درشن ہو گیا
تخت پر سوئے ملے ہیں بعد کے سب حکمراں
جب سے اِک ہمدردِ خلقت، دار پر ہے سو گیا
فصل بھی شاداب اُس کی اور مرادیں بھی سپھل
کھیتیوں میں بِیج، اپنے وقت پر جو بو گیا
اب کسی کونے میں خِفّت کا کوئی سایہ نہیں
گھر میں ہُن برسا تو جتنے داغ تھے سب دھو گیا
جب پہنچ میںآ چکا اُس کی غرض کا سومنات
اور جب مقصد کی مایہ پا چکا وہ، تو گیا
سادہ دل لوگوں نے بھگتا ہے اُسے برسوں تلک
حق میں آمر کے سبھی نے کیوں کہا یہ، لو گیا
اپنے ہاتھوں کھو دیا جس نے بھی اپنا اعتماد
لوٹ کر آیا نہ پھر وہ، شہرِ دل سے جو گیا
بعدِ مدّت جب کبھی گاؤں سے ہے پلٹا کیا
کتنی قبروں پر نجانے اور ماجد رو گیا
ماجد صدیقی

گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
نظر نظر ہے مرادوں کی جستجو میں ابھی
گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی
وہ بات جس کو جھلکنا تھا ہر جبیں سے یہاں
رکی ہے پھانس سی بن کر گلو گلو میں ابھی
ابھی لبوں پہ کہاں حرفِ مدّعا کے نشاں
دبی ہے اصل صدا دل کی ہاؤ ہُو میں ابھی
عجب نہیں کوئی بادل اسی پہ گھر آئے
نمی سی ہے جو یہ اک ریگِ آبجو میں ابھی
کبھی جو تجھ پہ زبان و نگاہ سے نہ کھلی
مچل رہی ہے شرارت وہی لہو میں ابھی
دل و نظر ہی پہ کچھ بس نہیں ہے لطفِ بہار
تہیں بہت ہیں پلٹنے کو رنگ و بو میں ابھی
کتابِ زیست مکمل ہو، جانے کب ماجدؔ
ہے انتشار سا اوراقِ آبرو میں ابھی
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑