تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

برابری

وہ وفا کا عہد نبھا دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
وہ کہ آمروں سے کیا تھا جو
وہ وفا کا عہد نبھا دیا
مرے منصفوں نے بہ جبر و زر
سرِدار مجھ کو سجا دیا
ہوئے حکمراں بھی تو کیا ہوئے،
جنہیں تھا جنونِ برابری
وہ کہ خاص و عام میں فرق تھا
وُہی فرق گرنہ مٹا دیا
تھی غرض تو بس مری جاں سے تھی،
گئی جاں تو غیر ہوئے سبھی
مجھے نذرِ خاک و زمیں کیا
مجھے اپنے ہاتھوں جلا دیا
کہیں تاجور کہیں خاک پا
کہیں خاکِ پا سے بھی ماورا
میں کہ اس کے چاک کی خاک تھا
مجھے جیسا چاہا بنادیا
کبھی برتری جو دکھا سکے
تو فرشتگاں پہ بھی چھا گئے
کہیں آزمائی وہ سفلگی
کہ ہمِیں نے عرش ہلادیا
جو فلک پہ پائے گئے کبھی
، تو ہمیں تھے راندۂ چرخ بھی
یہ زمیں کہ مادرِ مہرباں ہے،
اسے بھی ہم نے ہے کیا دیا
یہ وہی ہے جو ترے لطف سے
کبھی شاعری کا الاؤ تھا
یہ تمہارا ماجدِ مبتلا
ہے دئے سا جس کو بجھا دیا
ماجد صدیقی

کہ طوق ڈالا ہے میری گردن میں بندگی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
ملا ہے فیضان یہ خداؤں کی برتری کا
کہ طوق ڈالا ہے میری گردن میں بندگی کا
بدستِ انساں عَلَم جہاں امن کا گڑا ہے
لٹک رہا ہے وہیں پرندہ بھی آشتی کا
کُھلی فضاؤں کی راہ جو بھی کوئی سجھائے
اُسی پہ آنے لگا ہے الزام گمُرہی کا
پڑے نہ زد جس پہ بات ساری مفاد کی ہے
جواز سیدھا سا ایک ہی تو ہے دشمنی کا
دلوں کے اندر ہی پائے جاتے ہیں نقش ایسے
نشان ماتھوں پہ کب ملا ہے درندگی کا
نہ تا ابد غرقِ نیل ہو کر بھی باز آئے
ہُوا ہے لپکا جسے خدا سے برابری کا
نظر کا آشوب جب تلک ہے نہ جا سکے گا
ہمیں لگا ہے جو روگ ماجدؔ سخنوری کا
ماجد صدیقی

بخت پہنچے نہ یاوری کرنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 145
وسوسوں میں مرے کمی کرنے
بخت پہنچے نہ یاوری کرنے
شاخِ گل پر گلوں سے کانٹے بھی
جا اُگے ہیں برابری کرنے
جس نے پتّھر ہمیں بنا ڈالا
پھر نہ آیا وہ ساحری کرنے
آ کے صحرا میں دُھوپ کے اُتری
اوس پھولوں سے دوستی کرنے
عدل کب خود پہ حرف آنے دے
کون آئے ہمیں بری کرنے
بس کہیں بھی نہ جب چلے ماجدؔ
بیٹھ رہتے ہیں شاعری کرنے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑