تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

باحیا

گھونسلے میں لوٹے تو گھونسلا جلا پایا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 178
برق و باد کو ہم نے یوں جلا بُھنا پایا
گھونسلے میں لوٹے تو گھونسلا جلا پایا
پیار کے لبادے میں گائے دوہ ڈالی ہے
ہم نے کیا سبھوں نے یوں اپنا مدّعا پایا
مُزدکش کسانوں نے بند باندھنے کیا تھے
کھیت کھیت ژالوں نے راستہ کُھلا پایا
اور سب کو رہنے دو پُھول بھی کِھلے جب تو
جس کو چھیڑ کردیکھا اُس کے باحیا پایا
جو ہُنر بھی آتا تھا وہ دکھا کے بندر نے
حظ اُٹھانے والوں کو بُت بنا کھڑا پایا
جس کو مِل گئی کُرسی، جس کو مِل گئے ٹھیکے
اور اِک محل اُس کا شہر میں اُٹھا پایا
جو ذراسا بھی اُترا تیرے خِظّۂ فن میں
اُس نے آخرش ماجد لطفِ بے بہا پایا
ماجد صدیقی

اُٹھا کے ہاتھ اُنہیں کاسۂ دُعا مانوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
مرا نصیب یہ ہے خود کو بے نوا مانوں
اُٹھا کے ہاتھ اُنہیں کاسۂ دُعا مانوں
خمیر جس کا فقط گرد ہی سے اُٹھا ہو
میں ایسے ابر کو کس کھیت کی ردا مانوں
مری مراد پہ قابض ہیں بندگانِ خدا
کسے صغیر کہوں کس کو کِبریا مانوں
اِک عزم کا ہے سمندر تو اک کرم کا سحاب
جگر کو قلب سے کس طرح میں جدا مانوں
جسے کھنگال کے دیکھا وہ تھا اسیرِ ہوس
کسے حریص کہوں، کس کو باصفا مانوں
دباؤ کے ہیں کرشمے جسے جدھر لے جائیں
کسے میں فحش کہوں کس کو باحیا مانوں
یہ میرے فرق پہ چھاتا سی ہے جو صحرا میں
اِس اُڑتی ریت کو جُز ریت اور کیا مانوں
بروئے ارض ہم اہلِ خدا ہی کیوں کم ہیں
میں اہلِ شر کا یہ کیوں قولِ فتنہ زا مانوں
بڑا تضاد ہے ماجد کہے میں ہردو کے
بڑوں کا یا میں نئی نسل کا کہا مانوں
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑