تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

انگور

وہ جو چشم و دل کا سرور تھا، کوئی لے گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 183
جو نظر کی شاخ کا بُور تھا، کوئی لے گیا
وہ جو چشم و دل کا سرور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ دید جس کی نشہ شہی سا لگا کیا
وہ کہ وجہِ ناز و غرور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ دل میں جس کا قیام، دل کاوقار تھا
وہ کہ چیت رُت کا ظہور تھا، کوئی لے گیا
وہ جو مستیاں تھیں فضاؤں میں وہ ہوا ہوئیں
وہ کہ شاخچوں پہ انگور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ جس کے لفظ تھے ضو فشاں شب تار میں
وہ کہ میرے عشق کا طور تھا، کوئی لے گیا
ماجد صدیقی

آنکھ کا سُرمہ بنی تھی ریت کیمبل پور کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
اُن دنوں اُس خاک پر بارش تھی جیسے نُور کی
آنکھ کا سُرمہ بنی تھی ریت کیمبل پور کی
چکھ سکے اُس سے نہ کچھ ہم پر نشہ دیتی رہی
ہاں نظر کی شاخ پر اِک بیل تھی انگور کی
حُسن کے مدِّ مقابل عشق!! اور بے چارگی؟
دل میں ہے تصویر جیسے محفل بے نُور کی
ابر مانگا تھا کہ آندھی لے اڑی برگ و ثمر!
خوب اے موجِ ہوا! کلفت ہماری دور کی
شاخ ہی سُوکھی تو پھر جھڑنے سے کیا انکار تھا
کیا کہیں آخر یہ صورت کس طرح منظور کی
اَب جراحت ہی سے ممکن ہے مداوا درد کا
اور ہی صورت ہے محرومی کے اِس ناسور کی
کھولنے پائے نہ اُس پر ہم لبِ اظہار تک
یُوں حقیقت کھُل گئی ماجدؔ دلِ رنجُور کی
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑