تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

اظہار

دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جس کسی نے بھی دیا دیدۂ بیدار مجھے
دے گیا کتنے زمانوں کے وہ آزار مجھے
ہاں یہی حکم عدالت سے مجھے ملنا تھا
ابتدا ہی سے رہا جرم کا اقرار مجھے
رُت بدلتی تو مرا دل بھی گواہی دیتا
کچھ قرائن سے بھی آتے نظر آثار مجھے
اپنی آہٹ کے سوا کوئی پس و پیش نہیں
کھینچ لایا ہے یہ کس اَوج پہ پندار مجھے
سجدہ ریزی بھی کروں، سربفلک بھی ٹھہروں
ایک دم کیسے سکھاؤگے یہ اطوار مجھے
ہائے وہ لوگ کہ صدیوں کے جو پیراک ہوئے
ایک لمحے سے گزرنا ہوا دُشوار مجھے
آنکھ نمناک ہے پر لب ہیں شگفتہ ماجدؔ
اور کیا چاہئے پیرایۂ اظہار مجھے
ماجد صدیقی

دِل کہ بیگانۂ راحت ہے کسے یار کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
جس کو چھیڑے سرِ محفل وہی بیزار کرے
دِل کہ بیگانۂ راحت ہے کسے یار کرے
سرِ مقتل ہے یہی حرفِ ملامت کافی
کام باقی ہی رہا کیا ہے جو تلوار کرے
دل ہے میرا کہ پرندہ کوئی جوئندۂ آب
خواب میں کون یہ ہر شب مجھے بیدار کرے
ہم رُکے ہیں کہ یہی ڈور میّسر تھی ہمیں
اور ہوا ہے کہ اُڑانے ہی پہ اصرار کرے
آدمی بھی کہ ہے زندانِ تمّنا کا اسِیر
کام جو کرنا نہ چاہے وہی ناچار کرے
لوگ ہیں سطح پہ کائی کے بھی قائل ماجدؔ
تو ہی پاگل ہے جو ہر دَرد کا اظہار کرے
ماجد صدیقی

موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
تندئ باد وہی، گرد کی یلغار وہی
موسمِ گل میں بھی پت جھڑ کے ہیں آثار وہی
عدل کے نام پہ ہم سے تھی جو نُچوائی گئی
فرقِ نا اہل پہ اب کے بھی ہے دستار وہی
حلقۂ رقصِ صبا میں تو ہے شامل لیکن
پہلوئے گل میں ہیں پیوست ابھی خار وہی
مطمئن کیا ہو کوئی غسلِ مناظر سے کہ ہے
کربِ آشوب وہی دیدۂ بیدار وہی
ہے لپک اب بھی وہی دستِ طلب میں کہ جو تھی
با ثمر شاخ کے ہونٹوں پہ ہے انکار وہی
اب بھی اِک حد سے پرے شوق کے پر جلتے ہیں
عجزِ سائل ہے وہی شوکتِ دربار وہی
رُت کُھلی پر نہ معافی کو ملا اذنِ کشود
پیرہن ہے تنِ ہر حرف پہ ناچار وہی
کلبلائے تو اسے اتنا تو کرنے دیجے
دل جسے بعدِ جراحت بھی ہے آزار وہی
اب بھی چہروں سے غمِ دل نہیں کُھلتا ماجدؔ
اب بھی پندار کو ہے کلفتِ اظہار وہی
ماجد صدیقی

ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
پاس نہ تھا جب توڑ ہی کچھ صرصر کے وار کا
ہوتا بھی کیا حوصلہ جھڑنے سے انکار کا
پھٹا پڑے ہے آنکھ سے موسم بھری بہار کا
اور تمہیں کیا چاہئے پیرایہ اظہار کا
چھَن کر جن سے آ سکا کبھی نہ ریزہ دھوپ کا
چھلنی چھلنی ہو گیا سایہ اُن اشجار کا
باقی سب اطراف میں شیروں کی اِک دھاڑ تھی
کھُلا دہانہ سامنے تھا اَن جانے غار کا
قصّہ مری شکست کا کل جس میں مطبوع تھا
گھر گھر سجا فریم میں ٹُکڑا وہ اخبار کا
دُور نہ ہو گا درد تو شبنم سے اِس آنکھ کی
اور تدارک ڈھونڈئیے ماجدؔ اِس آزار کا
ماجد صدیقی

حرصِ سکوں کے سحر میں آ کر اور بھی ہم لاچار ہوئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
‮‮‮‮‮بہرِ شفا تھے جو بھی قیافے باعثِ صد آزار ہوئے
حرصِ سکوں کے سحر میں آ کر اور بھی ہم لاچار ہوئے
ہم نے جنہیں سُکھ چَین کی خاطر زینہ زینہ اَوج دیا
جان کے خاک ہمیں پیروں کی لوگ وُہی اوتار ہوئے
شاخوں پتّوں اور کلیوں میں کب تھا اِتنا سہم کبھی
مژدہ ہو اے حبس کہ تجھ سے پتّھر سب اشجار ہُوئے
غیر تو خیر ہمیں کیا دیتے، اپنوں نے بھی درد دئیے
اپنے آپ سے بیزاری کے قائل ہم ناچار ہُوئے
ہم نے پئے اظہارِ جنوں اپنائے تھے جو لفظ کبھی
طالب تھے توقیر کے لیکن اُلٹے ناہنجار ہوئے
بادِ صبا یا پھول کی خوشبو، ماجدؔ ذکر ہو کس کس کا
صحنِ چمن کے سارے باسی محرومِ اظہار ہُوئے
ماجد صدیقی

اور پیرایہ نہ تھا اظہار کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
ترجماں لرزہ تھا بس بیمار کا
اور پیرایہ نہ تھا اظہار کا
یہ چلن اب نِت کا ہے، اخبار کا
اِک نہ اِک لائے بگولہ نار کا
استطاعت ہو تو پڑھ لو ہر کہیں
رُخ بہ رُخ اِک نرخ ہے بازار کا
تاب کیا کیا دے گیا ابلیس کو
اِک ذرا سا حوصلہ انکار کا
ہم کہ ہیں ہر پل سکوں نا آشنا
ہے یہ فتنہ دیدۂ بیدار کا
ہو سخن ماجِد کا یا خلقِ خُدا
حال مندا ہے ہر اِک شہکار کا
ماجد صدیقی

نہیں لیکن لبِ اظہار رکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
سلگنا جان میں آزار رکھنا
نہیں لیکن لبِ اظہار رکھنا
عقیدت کے چڑھاوے چاہئیں تو
بڑے مخصوص سے اطوار رکھنا
کرم بھی ہو جو محتاجوں پہ کرنا
اُنہیں پہلے ذرا بے زار رکھنا
تأثر مہربانی کا نظر میں
خشونت کے بھی ساتھ آثار رکھنا
ہر اِک منظر نیا دوزخ بنے گا
یہاں مت دیدۂ بیدار رکھنا
اماں کو، پنجۂ انسان سے بھی
پڑے ہیں آہنی اوزار رکھنا
بڑا مشکل ہے اَب ماجدؔ چمن میں
سلامت اپنے برگ و بار رکھنا
ماجد صدیقی

تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
سب سرحدوں سے شوق کی ہم پار ہو گئے
تُجھ سے ملے تو ابرِ گہر بار ہو گئے
ہر جنبشِ بدن کے تقاضے تھے مختلف
جذبے تمام مائلِ اظہار ہو گئے
زندہ رہے جو تُجھ سے بچھڑ کر بھی مُدّتوں
ہم لوگ کس قدر تھے جگردار ہو گئے
اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا
ہم سحرِ آذری کے پرستار ہو گئے
دو وقت، دو بدن تھے، کہ جانیں تھیں دو بہم
رستے تمام مطلعِٔ انوار ہو گئے
ماجد ہے کس کا فیضِ قرابت کہ اِن دنوں
پودے سبھی سخن کے ثمردار ہو گئے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑