تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

اخباروں

پُھوٹ جب پڑنے لگے، تو آ پڑے یاروں کے بِیچ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ناچتی ہیں دُوریاں، انگناؤں میں، پیاروں کے بِیچ
پُھوٹ جب پڑنے لگے، تو آ پڑے یاروں کے بِیچ
بِن گُنوں کے محض رِفعت سے جو وجہِ ناز ہیں
دَب گئی ہے میری کُٹیا کیسے مِیناروں کے بِیچ
لے گئے ہیں دُور شہ کو لوک دانائی سے دُور
ہاں وہی رخنے کہ ہیں اَیواں کی دیواروں کے بِیچ
وہ کہ ہیں زیرِ تشدّد، اور لاوارث بھی ہیں
اُن کے قصّے نِت چِھڑیں شغلاً بھی اخباروں کے بِیچ
جو نہ سُلگے، جو نہ بھڑکے، پر تپاتے تھے بہت
زندگی گزری ہے اپنی اُنہی انگاروں کے بِیچ
کوئی یوسف ہو سخن کا، چاہے وُہ ماجد ہی ہو
کیا پتہ وجہِ رقابت ہو وہ مہ پاروں کے بِیچ
اب سے ماجد ٹھان لے، اُس کے سِوا کچھ بھی نہ کہہ
جونسا تیرا سخن شامل ہو شہکاروں کے بِیچ
ماجد صدیقی

چہروں پر بھی نرخ نظر آتے ہیں جہاں بازاروں کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
اِس بستی میں پڑنا ہے کیا پلے ہم ناداروں کے
چہروں پر بھی نرخ نظر آتے ہیں جہاں بازاروں کے
ہم سطروں کے بیچ چھپا مفہوم ہمیں پہچانے کون
وجہِ کشش ہیں لوگ وہی عنوان ہیں جو اخباروں کے
ہم کہ نگاہ نگاہ بھی جن کی صدی صدی کی تربت ہے
ہم سے پوچھو تیور ہیں کیا اِس جگ کے آزاروں کے
اپنی ذات میں گُم سُم جیسے تیز سفر طیارے کا
جیون جس سے چھن گئے موسم سب میلوں تہواروں کے
ایک ہُوا ہے خوف یہاں ہر شخص کے اندر باہر کا
نظر نظر کے آنگن میں برپا ہیں رقص شراروں کے
جن کی اِک خواہش کا مول نہ پائیں گروی رہ کر بھی
ناز اُٹھائیں گے کیا ماجدؔ ہم ایسے دلداروں کے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑