تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

احتمال

میرے چَرکوں کا اندمال کہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
میرا ماضی بنے گاحال کہاں
میرے چَرکوں کا اندمال کہاں
بادلوں نے فلک کو اوڑھ لیا
ہاں سجائی ہے اُس نے شال کہاں
سیر کردے جو عین پِیری میں
اُس نوازش کا احتمال کہاں
محفلیں جن کے نام سجتی تھیں
میروغالب سے ماہ و سال کہاں
تاپ سے دھوپ کے جلی لاگے
سبز پیڑوں کی ڈال ڈال کہاں
لوگ چندا تلک سے ہو آئے
کام کوئی بھی ہو، محال کہاں
اب جو ماجد ہیں ہم بھی چل نکلے
اب ہے پسپائی کا سوال کہاں
ماجد صدیقی

محال تر ہے بہ ہر حال، اندمال مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
فساد و جبر کے چانٹوں سے منہ ہے لال مرا
محال تر ہے بہ ہر حال، اندمال مرا
طویل دوڑ کے ہائے یہ آخری پھیرے
صدی صدی کے برابر ہے سال سال مرا
بہم ہُوا نہ جہاں میں کسی بھی قاروں کو
مرا وہ رخت ہے سرمایۂ خیال مرا
یہ زہر بھی ہے تو تریاق مجھ کو لگتا ہے
دوام دے مجھے اندیشۂ زوال مرا
نہ دسترس میں ہو چالاک صَیدِ مضموں تو
نشانہ چُوک بھی جاتا ہے خال خال مرا
وہ نامراد مجھے بامراد کیا کرتا
یقین میں نہیں بدلا یہ احتمال مرا
مرے کلام میں پنہاں ہے جیسے برقِ خیال
جمال ہی میں ہے ماجِد چھپا جلال مرا
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑