تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

ابتر

ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 202
جگہ جگہ آنکھوں میں چُبھتے منظر ہیں
ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں
گُن جتلاتے ہیں کیوں ہم، آقاؤں سے
ہم جو حلقہ بگوشی ہی کے خُوگر ہیں
خودی کمائی ہے کیا؟چھینا جھپٹی سے
اوج نشینوں نے، جو سارے خود سر ہیں
عدل گہوں پر بھی ہے گماں زندانوں کا
عادل تک بھی جہاں کے اسیرانِ زر ہیں
نرخوں اور رویّوں تک میں دہشت کے
چُھپے ہُوئے کیا کیا پُھنکارتے اژدر ہیں
کب سے چِھنی ہے اِن سے جانے خوش خُلقی
شہر شہر کیونکر اُجڑے، بستے گھر ہیں
کانوں میں تو گُونج صدائے فلاح کی ہے
حال ہمارے ہی ماجد کیوں ابتر ہیں
ماجد صدیقی

وہ معرکہ ٔ عشق تھا جو سر نہ ہُواتھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 177
جب تک وہ بدن شَوق کو ازبر نہ ہُواتھا
وہ معرکہ ٔ عشق تھا جو سر نہ ہُواتھا
جمہور کے ہاتھوں سے چِھنا تخت نہ جب تک
دل آمر و فرعون کا پتّھر نہ ہُواتھا
جب جان پہ بن آئی تو ظالم بھی پُکارا
ایسا تو بپا کوئی بھی محشر نہ ہُواتھا
بیداد وہ کرتا رہا ہر داد کے بدلے
جب تک کہ حساب اُس کا برابر نہ ہُواتھا
ٹیکسی اُسے مِل جائے گی، بی اے جو کرے گا
اعزاز یہ پہلے تو میّسر نہ ہُواتھا
یہ دیس لُٹا ہے تو مسیحاؤں کے ہاتھوں
جتنا ہے یہ اب اتنا تو ابتر نہ ہُواتھا
تُو نے تو تب تک کبھی آگے کی نہ ٹھانی
جبتک ترا ماجد کوئی ہمسر نہ ہُواتھا
ماجد صدیقی

ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
تلاطم بحر کا آ کر نہ دیکھا
ہمیں اُس نے بہ چشمِ تر نہ دیکھا
کسی کے ہجر کا اب ہے جو، ایسا
کوئی بھی مرحلہ دُوبھر نہ دیکھا
ملا جیسے وہ اب کے، جان و دل پر
کھُلا جنّت کا ایسا در نہ دیکھا
نگل لیتا ہے جاں جس آن چاہے
زمانے سا کوئی اژدر نہ دیکھا
کبھی تھے چہچہے جس گھونسلے میں
ہُوا پھر یُوں، وہاں اِک پر نہ دیکھا
گھِرا ہے اَب کے یہ ژالوں میں جیسے
چمن کا حال یوں ابتر نہ دیکھا
خود اُس پر ختم ہے ماجدؔ ہنر یہ
گیا جس سے فنِ آذر نہ دیکھا
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑