تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

اب

اشک اُس چنچل کی آنکھوں میں ہے کوکب ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
آسماں پر چاہ کے آٗینۂ تب ہو گیا
اشک اُس چنچل کی آنکھوں میں ہے کوکب ہو گیا
ملک ہارا، جنگ ہاری، راہنما چَلتا کِیا
یہ ہُوا وہ بھی ہُوا، ہونا تھا جو سب ہو گیا
کیا کہیں تبلیغ خُوش خُلقی کی کیوں غارت ہوئی
کج ادائی کج روی جینے کا ہی ڈھب ہو گیا
شہرتوں کی چوٹیوں پر سب مخولی جا چڑھے
شاعری سا فن اداکاروں کا کرتب ہو گیا
اوّل اوّل اہلِ دُنیا کو وُہ لرزاتا رہا
آخر آخر آدمی خود لرزۂ لب ہو گیا
میرزا غالب کو اندازہ بھی تھا، دعویٰ بھی تھا
اور وُہی اَوجِ سخن میں سب سے اغلب ہو گیا
تھا تصوّر ہی کہ ماجد جامِ جم تھا بھی کہیں؟
ہر کسی کا اپنا پی سی، جامِ جم اب ہو گیا
ماجد صدیقی

وہ جو پُر لطف تھے روزوشب موڑ دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
مجھ سے جو چھن گئے،میرے رب موڑ دے
وہ جو پُر لطف تھے روزوشب موڑ دے
فاختاؤں کے حق میں خلافِ ستم
رگ بہ رگ تھا جو رنج و تعب موڑ دے
ساتھ اپنے ہی جس میں سخن اور تھے
خلوتوں کی وہ بزمِ طرب موڑ دے
جس سے مُکھ تھا انگاروں سا دہکا ہوا
مُو بہ مُو تھی جو وہ تاب و تب موڑ دے
الجھنوں کا تھا جن پر نہ سایہ تلک
ہاں وہ لمحاتِ خندہ بہ لب موڑ دے
نام اوروں کے جتنے شرف ہیں مرے
مجھ کو موڑے نہ تھے جو، وہ اب موڑ دے
رنج جو بھی ملے ،عفو کی شکل میں
دینے والوں کو ماجِد وہ سب موڑ دے
ماجد صدیقی

حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
ہم نے اُتارا جس دم مرکب دریا میں
حال مخالف تھے سب کے سب دریا میں
جب سے کنارے اُس کے تُجھ سے ملن ٹھہرا
اُترے آس کے کیا کیا کوکب دریا میں
ہر تنکے ہر پیڑ کو جو جتلاتا تھا
زور نہیں وہ پہلا سا اب دریا میں
ہاتھ میں چپّو تان لئے تو ڈرنا کیا
عمر کٹے یا کٹ جائے شب دریا میں
رنج نظر کا آخر آنکھ میں تیرے گا
لاش دبی رہتی ہے بھلا کب دریا میں
چاہت نے اسباب نہ دیکھے تھے ماجدؔ
کھُرتی خاک لئے اُتری جب دریا میں
ماجد صدیقی

رنج کا اور بھی سبب نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
اک تغافل ہی اُس کا کب نکلا
رنج کا اور بھی سبب نکلا
غیر بھی ہم سے جب ہُوا رسوا
دل میں کانٹا تھا جو وہ تب نکلا
آپ کچھ کہہ کے مطمئن تو ہوئے
شکر ہے آپ کا تعب نکلا
بات جب چھڑ گئی شقاوت کی
دل میں جو تھا غبار سب نکلا
پنجۂ موجِ درد سے مَیں بھی
بچ گیا گرچہ جاں بہ لب نکلا
کیا مسافت کرے گا طے ماجدؔ
دن چڑھے تُو جو گھر سے اَب نکلا
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑