تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

آباد

تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 104
خامیاں اِس میں نہ اب اور بھی اِیزاد کرو
تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو
وہ کہ جو برحق و شفّاف ہے جگ میں سارے
دیس میں ووٹ کی پرچی وُہی ایجاد کرو
الفتِ ملک کے پَودے کو کہو حصّۂ جاں
پرورش اُس کی بھی تم صورتِ اولاد کرو
خیر سے یہ جو ہے چُنگل میں تمہارے آئی
یہ جو محبوس ہے جَنتا اِسے آزاد کرو
قبر پر جس کی مجاور بنے بیٹھے ہو یہ تم
تھا چلن اُس کا جو شاہو، وہ چلن یاد کرو
دیس ہے لُوٹ نشانہ، تو خزانہ ہے بدیس
اِس نشانے کو نہ اب اور بھی برباد کرو
یہ نکالی ہے جو قامت، قدِ شمشاد ایسی
اور بھی بالا نہ تم یہ قدِ شمشاد کرو
کرب کی کھائی سے اب نکلوگے کیسے لوگو
چیخ کر دیکھو، چنگھاڑو، بھلے فریاد کرو
تھا جو اُستاد وہ تھا محتسبِ اوّل ماجد
تم ادا کیوں نہ حقِ بندگیٔ اُستاد کرو
ماجد صدیقی

حکمراں میرے وطن کے! احمدی نژاد بن

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
آج کے اِس عہد شیریں کا نیا فرہاد بن
حکمراں میرے وطن کے! احمدی نژاد بن
فکر کر امروز کی اور فکرِ فردا چھوڑ دے
چھوڑ سارے وسوسے تو بندۂ آزاد بن
نقش کر کے آ گزرتی ساعتوں پر اپنا دل
ہاتھ سے نکلے زمانوں کی سہانی یاد بن
عظمت انسان کے یا ناتواں کے کرب کے
کر وظیفے رات دن اور حافظ اوراد بن
فتح کر لے خوبیوں سے جو نگر والوں کے دل
خوشبوؤں سے لیس ہو کر آئے جو، وہ باد بن
خدمت خلقت کا جس کو ہو فراہم مرتبہ
باعثِ آسودگی ٹھہرے جو، وہ ایجاد بن
گھرترا، تیرا سخن ’ماجد نشاں، ہے اور تو
جانِ ماجد فکر تازہ سے سخن آباد بن
ماجد صدیقی

واماندگی ہے ورثۂ اجداد کیا کہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
اِک اِک قدم پہ ہے نئی ایجاد کیا کہیں
واماندگی ہے ورثۂ اجداد کیا کہیں
صحرا میں جیسے کوئی بگولہ ہو بے مُہار
ہم آپ ہیں کُچھ ایسے ہی آزاد کیا کہیں
ہم مطمئن ہیں جس طرح اینٹوں کو جوڑ کر
یوں بھی کبھی ہوئے نگر آباد کیا کہیں
ہم نے تو کوہِ جُہل و کسالت کیا ہے زیر
کہتے ہیں لوگ کیوں ہمیں فرہاد کیا کہیں
باٹوں سے تولتے ہیں جو پھولوں کی پتّیاں
حق میں ہمارے فن کے وہ نقّاد کیا کہیں
ہم جنس اوجِ تخت سے لگتے ہیں کیوں حقیر
ماجِد یہ ہم کہ جو نہیں شہ زاد کیا کہیں
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑