تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

زمرہ

ماجد صدیقی

کیسی یہ تتلیاں ہیں، ہمارے نصیب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
کیا کیا نہ رُوکشاں ہیں، ہمارے نصیب میں
کیسی یہ تتلیاں ہیں، ہمارے نصیب میں
اُڑ کر بہ شکلِ گرد فلک پر جو چھا گئیں
بے فیض بدلیاں ہیں ہمارے نصیب میں
ہر چالباز اپنے بیاں داغتا ملے
کیا کیا یہ سُرخیاں ہیں ہمارے نصیب میں
ہوتے ہیں فِیڈ دُور کے آقاؤں سے یہ لوگ
روبوٹ حکمراں ہیں ہمارے نصیب میں
جھانسے دلائیں منزلِ مقصود کے ہمیں
قزّاق کشتیاں ہیں ہمارے نصیب میں
مقصد ہے ایک ایک کٹی ڈور سی پتنگ
بے انت دُوریاں ہیں ہمارے نصیب میں
ماجِد ہیں اوڑھنا سا ہمارا جو بن چکے
جذباتِ حاسداں ہیں ہمارے نصیب میں
ماجد صدیقی

وہ پیڑ باغ میں کبھی پھولے پھلے نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
فیضان جن کے مِلکِ خلائق ہوئے نہیں
وہ پیڑ باغ میں کبھی پھولے پھلے نہیں
گزرا ہے جو بھی، خوب نہ تھا اور جو آئیگا
لگتا ہے اُس سمے کے بھی تیور بھلے نہیں
کہنے کو رُت نے بوندیاں برسا تو دیں مگر
شدّت بہت تھی جن میں پہر وہ دُھلے نہیں
بوندوں شعاعوں، چہروں، نگاہوں سے کچھ ملے
سب راز کائنات کے ہم پر کُھلے نہیں
برسات کی نمود بھی ہے اور بہار بھی
موسم ہیں جو بھی اپنے یہاں وہ بُرے نہیں
غاصب کو جرم اُس کا سجھائے ہے آئنہ
ہم کیا اُسے سُجھائیں کہ ہم آئنے نہیں
پیچھا کیا ہے برف نے، لُو نے بطورِ خاص
کتنے بدن تھے اُن سے جو ماجد جلے نہیں
ماجد صدیقی

اُس بُتِ طنّاز سے مدّت سے یکجائی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
جی رہے ہیں اور اِس جینے پہ شرم آئی نہیں
اُس بُتِ طنّاز سے مدّت سے یکجائی نہیں
رہ گیا لاگے ہمیں بولی سے باہر ہی کہیں
وقت نے قیمت ہمارے فن کی ٹھہرائی نہیں
ہم کو بھی لاحق ہے بغضِ عہد، غالب کی طرح
چاہیے تھی جو ہماری وہ پذیرائی نہیں
عاشقی بھی کی تو ہم نے ہوشمندی ہی سے کی
ہم، ہوا کرتے تھے جو پہلے، وہ سودائی نہیں
دیکھیے یہ کارنامہ بھی شہِ جمہور کا
حق دیا فریاد کا پر اُس کی شنوائی نہیں
بے حسی پر ہم پہ اندر سے جو برسائے ضمیر
چوٹ پہلے تو کبھی ایسی کوئی کھائی نہیں
جو کہا تازہ کہا ماجد بہت تازہ کہا
شاعری میں بات ہم نے کوئی دُہرائی نہیں
ماجد صدیقی

قلعہ بند اَیوان ہیں، یارا دُہائی کا نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
تا بہ منصف، تا بہ شہ، رستہ رسائی کا نہیں
قلعہ بند اَیوان ہیں، یارا دُہائی کا نہیں
ہاں بہت مَیلے ہیں وہ، لیکن مفیدِ رہبراں
مجرموں کو کوئی اندیشہ دُھلائی کا نہیں
کیا سے کیا کھل کھل چلی ہے اُس کے چہرے کی کتاب
ہم کریں تو کیا، کہ اب موسم پڑھائی کا نہیں
رگ بہ رگ اِک دوسرے میں آخرش ضم یو ں ہوئے
یار سے کوئی علاقہ اب جُدائی کا نہیں
ہاتھ سُکھ کی بھیک کو اُٹھنے لگے ہیں یا خدا
ہم نے حصہ آپ سے مانگا خُدائی کا نہیں
ہے تو شاہوں کو ہمارے بہرِ عشرت یہ جنوں
قوم کے افراد کو لپکا گدائی کا نہیں
وہ کہیں ماجد’ سخن مایہ، ہے کیسے اینٹھ لی
ہم کہیں یہ دَھن، دلالت کی کمائی کا نہیں
ماجد صدیقی

بُوڑھے سے لڑکا بن جاؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
فیض اگر اِدراک سے پاؤں
بُوڑھے سے لڑکا بن جاؤں
بادل ہُوں تو پھر کاہے کو
اِک بستی پر ہی میں چھاؤں
علم نزاکتِ وقت کا ہو گر
صیغۂ غیب سے تِیر نہ کھاؤں
جن کی لگن میں جلاؤں کلیجہ
میں اُن کو اِک آنکھ نہ بھاؤں
بے حس ہیں جو منافق ہیں جو
کیوں مظلوم اُنہیں ٹھہراؤں
ماجِد تخت نشین نہ جانے
جو دُکھ میں فن میں گِنواؤں
ماجد صدیقی

پیر کبھی نہ اکھڑتا دیکھیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
عزم ہے یہ، دُکھ جتنا دیکھیں
پیر کبھی نہ اکھڑتا دیکھیں
رحم کریں اُس پر اُتنا ہی
جتنا جس کو سفلہ دیکھیں
گانٹھیں ساتھ تنے کے ایکا
جب بھی پیڑ اُکھڑتا دیکھیں
اگلا مطلع دھیان میں رکھیں
سورج جب جب ڈھلتا دیکھیں
کم دیکھا ہے جو کچھ دیکھا
اور نہ جانے کیا کیا دیکھیں
ماجدچال میں ٹیڑھ نہ آئے
جانبِ منزل سیدھا دیکھیں
ماجد صدیقی

اپنے خداوندوں سے کیا کیا ڈھونگ رچائیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
شادیوں سے پہلے کی ساری محبوبائیں
اپنے خداوندوں سے کیا کیا ڈھونگ رچائیں
حسن و جمال کے پیکر ناریاں ایسی بھی ہیں
قربت سے جن کی جلّاد بھی موم ہو جائیں
عالمِ رقص میں نظر نظر گولائیاں جھلکیں
لطف و سرور کے پرچم ساتھ اُن کے لہرائیں
دیر ہے تو بس اُس مسند کو پہنچنے کی ہے
تخت پہ صاحبِ تخت کی ہیں سب دُور بلائیں
واعظ کے منہ سے بھی عذاب کی باتیں پھوٹیں
اہلِ صحافت بھی پل پل دہشت پھیلائیں
اُن کے دیارِ شوق سے ہجرت ہے اور ہم ہیں
جن کی سمت سے آتی تھیں نمناک ہوائیں
اس نگری میں محال ہے کیا کیا جینا ماجد
راہ بہ راہ جہاں ہیں بدنظمی کی چِتائیں
ماجد صدیقی

یار ہمارے پاس ہمارے آ بیٹھیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
خود کو ناقدروں سے کہیں نہ لٹا بیٹھیں
یار ہمارے پاس ہمارے آ بیٹھیں
میڈیا والے کہہ کے یہی نت سوتے ہیں
تنگ عوام عدالتیں خود نہ لگا بیٹھیں
گھونسلے بے آباد کریں جب چڑیوں کے
حرصی کوّے اگلے بام پہ جا بیٹھیں
سینت سنبھال کے جگہ جگہ سامانِ فنا
انساں خود ہی حشر کہیں نہ اُٹھا بیٹھیں
بے گھر بے در سارے آگ سے غفلت کی
سوتے سوتے جھونپڑیاں نہ جلا بیٹھیں
خواہشیں جن کی دے کے جنم روکے رکھیں
بچے ماں اور باپ کو سچ نہ سجھا بیٹھیں
ماجد صاحب ہم بھی باغی دلہن جیسا
زیورِ کرب نہ اپنی جبیں پہ سجا بیٹھیں
ماجد صدیقی

لاحق ہیں ہر شخص کو قدم قدم بے زاریاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
جیب میں گھٹتی کوڑیاں، نام لکھیں زرداریاں
لاحق ہیں ہر شخص کو قدم قدم بے زاریاں
اصل نہ ہو تو سُود کیا، ہو اپنی بہبود کیا
کیسی دُوراندیشیاں، کاہے کی بیداریاں
گُل جی اور رئیس نے، بھٹو اور سعید نے
بُھگتیں بدلے خَیر کے کیا کیا کچھ خوں خواریاں
ہجرکے در بھی کھول دیں، وصل کے در بھی وا کریں
موٹر وے پر دوڑتی آتی جاتی لاریاں
پنچھی وہی غلام ہوں، وہی اسیرِ دام ہوں
جنکے تنوں پر نقش ہوں گردن گردن دھاریاں
لطف اُنہی کے نام ہوں، اِس دوروزہ زیست میں
جن کے عزم بلند ہوں، بالا ہوں جیداریاں
اب بھی جھلکیں ماجدا! نقش نظر میں گاؤں کے
پینگ جھلاتی عید کو پتلی لانبی ناریاں
ماجد صدیقی

اَوج سے جو گرے، درس دے اَوج کا خاک میں بُوند ویسے سماتی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
جو بھی منظر ہے ٹھہرے یہاں دِیدنی آنکھ اپنی جسے دیکھ پاتی نہیں
اَوج سے جو گرے، درس دے اَوج کا خاک میں بُوند ویسے سماتی نہیں
تخت جن سے چِھنے، وَقر جن کا لُٹے وقت پرغافلِ فرض، گر ہوں رہے
چاہے پیدا دوبارہ بھی ہوں تو اُنہیں خلقتِ شہر عزّت دلاتی نہیں
اک طرف اپنے ہاں ایک مخلوق ہے، خطِ غربت سے نیچے جو رہ کر جیئے
دوسری سمت مخلوق ایسی بھی ہے قرض سرکار کے جو چُکاتی نہیں
لاڈلی ہو کہ لائق ہو جیسی بھی ہو بعد شادی کے وہ کام والی بنے
جو بھی بیٹی کہیں ہے بیاہی گئی، لَوٹ کراپنے میکے وہ آتی نہیں
’’عمرِ آخر! کوئی سُر سُنائی نہ دے‘، تاب سُننے کی جانے کہاں کھو گئی
کوئی گُل باغ میں کِھلکھلائے نہ اب کوئی بلبل کہیں چہچہاتی نہیں
دشت و گلشن میں رقصاں ہوئیں وحشتیں سارے بھنورے دِبک کر کہیں رہ گئے
خوفِ دہشت سے یوں ہے ڈرائی گئی فاختہ اب کہیں اُڑنے جاتی نہیں
بات میری یہ سُن ماجِد خستہ جاں! حرفِ حق کا جو تریاق تُجھ پاس ہے
خلقتِ شہر جو بھی سہے سو سہے تیرا نسخہ یہ، وہ آزماتی نہیں
ماجد صدیقی

شہروں شہروں، گاؤں گاؤں کیا کیا منظر دیکھوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
جگہ جگہ غربت کے، مہنگائی کے، اژدر دیکھوں میں
شہروں شہروں، گاؤں گاؤں کیا کیا منظر دیکھوں میں
جن جن کے ابّ و جد نے بھی اُلٹے پیچ لڑائے تھے
جاہ و جلال کی کرسی پر ایسے ہی افسر دیکھوں میں
اپنے یہاں پھیلائیں نہ کیوں؟ ضَو عقل کی دوسری دنیا سی
اپنے مخالف، اپنے بَیری، یوں مہ و اختردیکھوں میں
مکھیوں مکڑیوں سی مخلوق جہاں ہو نامِ رعایا پر
جُھکنا اُن کی فطرتِ ثانی بنتے برابر دیکھوں میں
لوٹ کھسوٹ کی خاطر بازاروں میں مراتھن ریس لگے
جس میں شامل لوگ نہ کیا کیا کہتر و مہتر دیکھوں میں
جیسے لاوارث بچّوں کا ورثہ اُن کے بڑوں میں بٹے
راج راج کے گِدھ ٹولوں میں بٹتے یوں زر دیکھوں میں
پھیلائے جو اپنوں اور غیروں نے نئے اندیشوں کے
شام سویرے پیروں تلے ماجِد وہ اخگر دیکھوں میں
ماجد صدیقی

جھانکے ہے اِک خلق، ہماری آنکھوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
جان اتر آئی ہے ساری، آنکھوں میں
جھانکے ہے اِک خلق، ہماری آنکھوں میں
دیکھنے والیوں نے جب لطف سے دیکھا تو
ساون سی اُتری میخواری، آنکھوں میں
میڈیا والوں کی۔۔۔۔ بیگانہ چاہت سے
نقش ہوا پیہم، زرداری آنکھوں میں
سائل جب دربار سے لوٹ کے آئے تو
دیدنی تھی اُن کی لاچاری، آنکھوں میں
لیڈر شاہ یہاں کے ٹھہرے اور عوام
لکھوا لائے ہیں ناداری آنکھوں میں
راہنما نظر یوں اثاثوں پر رکھیں
ٹیکسی اونر، جیسے سواری آنکھوں میں
غور سے دیکھا جب ماجد تو دکھائی دی
فرد ڈھٹائی، کاروباری آنکھوں میں
ماجد صدیقی

یار بٹھایا آنگن میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
پھول کھلایا آنگن میں
یار بٹھایا آنگن میں
دھوپ میں کیا نم لائیگا
بیل کا سایہ آنگن میں
ہاں بے خوف بٹھا لیجے
یار پرایا آنگن میں
ہاں بعضوں کو دفن ملی
غیبی مایہ آنگن میں
ہاں ہاں چڑیا نے کیا کیا
شور اٹھایا آنگن میں
زہر پڑوس جلاپے کا
آن سمایا آنگن میں
عزمِ مکیناں نے ماجد
ہُن برسایا آنگن میں
ماجد صدیقی

ایواں بھی لرزا کر دیکھیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
پایۂ تخت ہِلا کر دیکھیں
ایواں بھی لرزا کر دیکھیں
پاس جو دیں نہ بھٹکنے، اپنے
اُن کے یہاں بھی جا کر دیکھیں
اپنی آس کے چِلّے پر ہم
آخری تِیر چڑھا کر دیکھیں
ہر سکرین منافق نکلے
چینل بھلے گھما کر دیکھیں
ک اِک رُت کا مزہ لینے کو
اپنی نظر اُجلا کر دیکھیں
تن من جس سے آسودہ ہوں
جاں بھی کبھی سہلا کر دیکھیں
سر ہے فرازنشاں سو اِس کو
ماجد اور اُٹھا کر دیکھیں
ماجد صدیقی

خوف دراڑیں ہوں کیوں شہرپناہوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
بَیر نہ ہوں باہم گر اپنے شاہوں میں
خوف دراڑیں ہوں کیوں شہرپناہوں میں
جانے کب آئے وہ راج بہاروں کا
چہرہ چہرہ پھول کھلے ہوں راہوں میں
غاصبوں جابروں کے جتنے فرزند ملے
ہاں اُن ہی کا شمارہے اب ذی جاہوں میں
پھول جو توڑنا چاہے لے گئے اور اُنہیں
خالی خُولی ٹہنیاں رہ گئیں بانہوں میں
اِس دنیا میں جانے ہمِیں کیوں، ایسے ہیں
گِنے گئے جو بے راہوں، گُمراہوں میں
مُلکوں مُلکوں اپنا تأثر بِگڑا ہے
خلقِ خدا ٹھہری، اپنے بدخواہوں میں
اپنے پاس ہے ماجِد! مایہ، بس اتنی
یہ جو گُہراشکوں کے ہیں آنکھوں، آہوں میں
ماجد صدیقی

شہرِ سخن میں لوگ ہمیں کم کم مانیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
اُن میں سے اِک ایک کو بے شک ہم مانیں
شہرِ سخن میں لوگ ہمیں کم کم مانیں
قامتِ یار کہیں ہرغم کے الاؤ کو
جیون کی ہر ٹیڑھ کو زلف کا خم مانیں
آئنہ سا جو چہرہ ہر دم پاس رہے
ہم تو بس اُس کو ہی جامِ جم مانیں
کیا کیا آس نجانے اُس سے لگا بیٹھیں
ہم جس کو ہم جنس کہیں، آدم مانیں
بچپن میں بھی دھوپ ہمیں ہی جلاتی تھی
پِیری میں بھی دھونس اُسی کی ہم مانیں
روتا دیکھ کے غیر ہمیں خوش کیونکر ہوں
اپنی آنکھیں ہم کیوں ماجد نم، مانیں
ماجد صدیقی

اُس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ایسا کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
اُس نے گھٹیا پن دِکھایا ہے تو اُس کا کیا کروں
اُس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ایسا کروں
وہ نہ خوشبوئے بدن تک کی کرن لوٹا سکیں
تتلیوں کے ہاتھ، میں نامے جنہیں بھیجا کروں
سُرخرو مجھ سا، نہ مجھ سا ہو کوئی با آبرو
سامنے قدموں کے کھائی بھی اگر دیکھا کروں
مجھ کو ہر قیمت پہ دُھن بس کچھ نہ کچھ پانے کی ہے
میں نے کیا کھویا ہے اِس میں، یہ نہ اندازہ کروں
دَھجیاں اخلاق کی یوں ہیں گرانی سے اُڑیں
میہماں کوئی ہو اگلی پل اُسے چلتا کروں
وقت نے توکب کے ہیں جُوتے مرے اُلٹا دئے
میں بھی تو ایسے اشارے کچھ نہ کچھ سمجھا کروں
میرے اندر کا ضمیرِ مستعد بولے یہی
بے ضمیروں سے بھی ماجد میں سلوک اچّھا کروں
ماجد صدیقی

اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
اپنی بانہوں میں کبھی جو وہ ستم ایجاد لُوں
اُس کے لُوں بوسے بھی اور کچھ اَور بھی ایزاد لُوں
کوئی عارض ہو درخشاں، کوئی قامت دل نشیں
اپنے آئندہ سفر کے واسطے میں زاد لُوں
کاش قُرعے ہوں سپھل میرے بہ حقِ خستگاں
اپنے داموں میں بھی نِت اِک شہرِ نَوآباد لُوں
کیسے پُوری کر دکھاؤں سب مرادیں میں تری
میں بھلا تیری خبر کیا اے دلِ ناشاد لُوں
کون زیرِ چرخ پہنچے گا رسائی کو مری
اپنے ذمّے میں کہ یہ اِک خلق کی فریاد لُوں
اپنے ہم عصروں میں منصف ہے تو اِک یاور ہی ہے
میروغالب ہوں تو اُن سے اپنے فن کی دادلُوں
ناپ کو ماجد فراہم ہوں اگر اُونچائیاں
میں سخن کے واسطے اپنے قدِ شمشاد لُوں
ماجد صدیقی

جو تیری قرابت میں ہے نشہ وہ اور کسی ساغر میں کہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
آنکھوں سے تری جو ہویدا ہے وہ کیف کسی منظر میں کہاں
جو تیری قرابت میں ہے نشہ وہ اور کسی ساغر میں کہاں
تُو بات کرے توپھول جھڑیں مستی چھلکے تری آنکھوں سے
جو طنطنہ تیرے سخن میں ہے وہ اور کسی کے ہنر میں کہاں
جو باس جلو میں ترے ہے سجن کیا کہنے اُس کی تمازت کے
جو تیری نگاہ میں ہے جاناں! گرمی وہ حصولِ زر میں کہاں
تن من کو جو پل میں جگا ڈالے مائل جو کرے جل مِٹنے پر
جو آنکھ تری میں شرارت ہے، وہ اور کسی بھی شرر میں کہاں
جو ذہن و بدن کو جِلا بخشے، حدّت جو لہو کو دلاتی ہے
جو یاد تری سے ہے وابستہ وہ تازگی رُوئے قمر میں کہاں
قدموں میں جو تاب و تواں اُتری کب جسم میں ایسی توانائی
چلنے میں شرف ہے جو سمت تری وہ اور کسی بھی سفر میں کہاں
جس عمر میں چاہتے ہو کہ بڑھو پھر رفعتِ قاف کی جانب تُم
ایسی بھی توانائی ماجِد! اِس عمر کے بال و پر میں کہاں
ماجد صدیقی

حکمراں میرے وطن کے! احمدی نژاد بن

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
آج کے اِس عہد شیریں کا نیا فرہاد بن
حکمراں میرے وطن کے! احمدی نژاد بن
فکر کر امروز کی اور فکرِ فردا چھوڑ دے
چھوڑ سارے وسوسے تو بندۂ آزاد بن
نقش کر کے آ گزرتی ساعتوں پر اپنا دل
ہاتھ سے نکلے زمانوں کی سہانی یاد بن
عظمت انسان کے یا ناتواں کے کرب کے
کر وظیفے رات دن اور حافظ اوراد بن
فتح کر لے خوبیوں سے جو نگر والوں کے دل
خوشبوؤں سے لیس ہو کر آئے جو، وہ باد بن
خدمت خلقت کا جس کو ہو فراہم مرتبہ
باعثِ آسودگی ٹھہرے جو، وہ ایجاد بن
گھرترا، تیرا سخن ’ماجد نشاں، ہے اور تو
جانِ ماجد فکر تازہ سے سخن آباد بن
ماجد صدیقی

پی نہیں پھر بھی مے گسار ہیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
مستِ چشم و نگاہِ یار ہیں ہم
پی نہیں پھر بھی مے گسار ہیں ہم
ہمِیں ابلیس بھی فرشتے بھی
نور بھی ایک ساتھ نار ہیں ہم
چھپ نہ پائیں کسی کے عیب ہم سے
ہاں بلا کے نگِہدار ہیں ہم
ہم کہ ہوتے ہیں شعر شعر شمار
مان لیں یہ تو بیشمار ہیں ہم
نقش ہوں گے دلوں پہ ہم بھی کبھی
میر و غالب سے یادگار ہیں ہم
میں ہوں، یاور مرا، مرا ذیشان
ہر صدی بِیچ حرفِ جار ہیں ہم
کیوں اُتارے تَھڑے روایت کے
یوں بھی ماجد گنہگار ہیں ہم
ماجد صدیقی

ہزار نیک سہی کم ہیں پر جہان میں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
بڑے بھی ہیں تو فقط وہم میں گمان میں ہم
ہزار نیک سہی کم ہیں پر جہان میں ہم
توہمات، تمنّائیں اور بے عملی
بسائے رکھتے ہیں کیا کیا یہ قلب و جان میں ہم
پھر اُس کے بعد تھکن اور خواب خرگوشی
دکھائیں تیزیاں کیا کیا نہ ہر اُٹھان میں ہم
نظر میں رکھیے گا صاحب ہمارے تیور بھی
بہت ہی رکھتے ہیں شیرینیاں زبان میں ہم
یہ ہم کہ سبز جزیرہ ہیں بیچ دریا کے
ہیں کتنے سیربس اِتنی سی آن بان میں ہم
کوئی نہیں جو ہم میں سے اتنا سوچ سکے
تنے ہوئے ہیں ہمہ وقت کیوں کمان میں ہم
سخن میں صنفِ غزل جس کا نام ہے ماجد
ہیں محو و مست اِسی اِک سریلی تان میں ہم
ماجد صدیقی

شب زاد بے شمار ہیں، جگنو بہت ہی کم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
فتنے بہت ہیں، خیر کے پہلو بہت ہی کم
شب زاد بے شمار ہیں، جگنو بہت ہی کم
یابس فضا کا صید ہیں کیا کیا غزال چشم
رونا کسے بہم کہ ہیں آنسو بہت ہی کم
اک سمت دہشتی ہیں تو اک سمت خوش خصال
گیدڑ کثیر اور ہیں آہو بہت ہی کم
باطن میں ہے کچھ اور پہ ظاہر ہے بے مثال
گھر گھر سجے گلوں میں ہے خوشبو بہت ہی کم
جانے رخوں کی رونقیں کیوں محو ہو چلیں
انگناؤں تک میں دِکھتے ہیں مہ رُو بہت ہی کم
بازار میں غرض کے سوا اور کس کا راج؟
ملتے ہیں اہلِ سُوق میں خوش خُو بہت ہی کم
ماجد ہے کنج گیر جو تو کس سبب سے ہے؟
جاتا ہے بزم بزم میں کیوں تو بہت ہی کم
ماجد صدیقی

ہم غلام، ابنِ غلام، ابنِ غلام

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
لے کے سینوں میں پھریں حبس دوام
ہم غلام، ابنِ غلام، ابنِ غلام
پُوچھتا ہے کون مایہ دار اُنہیں
دھوپ میں جاتے ہیں جل جل جن کے چام
فنڈز ڈیموں کے کرو تم غت رَبُود
سَیل کو ٹھہراؤ مقسومِ عوام؟
ہر عقیدہ پختہ تر زردار کا
خام ہے تو ہے یقیں مفلس کا خام
ہے کہاں یاروں کا وہ چنچل طلوع
چاروں جانب کیوں اُتر آئی ہے شام
ہاں ٹھہرتے ہیں وُہی ضَو کے سفیر
جن کے ماتھے ہیں منوّر، جن کے بام
تم سخن ماجد! کہاں ہو لے چلے
اینٹیاں ٹھہریں جہاں یوسف کے دام
ماجد صدیقی

چشمان و جسم میں لگے یکجا نشہ تمام

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
شیرین و تلخ ہونٹ لگیں اُس کے اپنا جام
چشمان و جسم میں لگے یکجا نشہ تمام
ضم کر لیا جمال میں اُس نے مرا جلال
میں تھا سراپا تیغ تو وہ سر بہ سر نیام
آب و ہوا سا رزق بھی یکساں ملے نہ کیوں
اوّل سے آج تک ہے مٔوقف مرا مدام
ہاں گُھرکیوں کی آنچ سے محنت کی دھوپ سے
محنت کشوں کے جسم پہ جُھلسا لگے ہے چام
’بِیجا، بغیرِ آبِ توجہ، بنے گا پیڑ
پالا ہے دل میں کب سے یہی اِک خیالِ خام
کِھیسے میں عمر بھر کی کمائی اِسی کے ہے
عمرِ اخیر، جس کو کہیں زندگی کی شام
روشن اُدھر غزل میں ہے باقی کی چھوٹی بحر
پنڈی میں نُوربافتہ اُس کا اُدھر ’’سِہام‘‘
ماجد سخن میں مشق و ریاضت کچھ اور کر
چمکا نہیں ہے، چاہیے، جس طرح تیرا نام
باقی۔۔باقی صدّیقی۔۔سِہام ۔۔باقی کا جنم استھان
ماجد صدیقی

خواب مرے اور خواب اور خواب، تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
آب مری اور مرے سُراب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
خواب مرے اور خواب اور خواب، تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
سروِ کِنارِ جُو کا اسیر، میں چشمِ آہو کا اسیر
میرا نشہ اور مری شراب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
میرے گمان اِنہی جیسے میرے یقین اِنہی جیسے
مجھ پر اُتری نئی کتاب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
میرے پروں کو دلائیں جِلا دیں یہ مجھے رفتارِ صبا
طُولِ سفر میں یہ مری رکاب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
اِن میں سحر کا عکس ملے رگ رگ تھر تھر رقص ملے
ہائے ملیں کب کب یہ شتاب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
یاد دلائیں نئے پن کی سوندھی مہک مٹی جیسی
گِھر گِھرکے آتے یہ سحاب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
طُرّۂ فن ہیں یہ ماجد کا متنَ سخن ہیں یہ ماجد کا
جنسِ معانی کے ہیں یہ باب تتلیاں، بچّے، کِھلتے پھول
ماجد صدیقی

خلق کو ہم نے یاد آنا ہے آج نہیں تو کل

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
جیون دِیپ نے بُجھ جانا ہے آج نہیں تو کل
خلق کو ہم نے یاد آنا ہے آج نہیں تو کل
جاناں تیرا قرب بجا، پر وقت ندی کے بیچ
ہجر نے بھی تو تڑپانا ہے آج نہیں تو کل
وہی جو قیدِ حیات میں بھگت چکی ہے اُسکی ماں
دوشیزہ نے دُہرانا ہے آج نہیں تو کل
ہم نے رخش وہ چھوڑنا کب ہے، جس پہ سوار ہیں ہم
بدخواہوں نے شرمانا ہے آج نہیں تو کل
پیڑ نہ جانے اُس کی سج دھج کا باعث ہیں جو
برگ و ثمر نے جھڑ جانا ہے آج نہیں تو کل
ذہنوں ذہنوں روز بروز پنپتی نفرت کے
زہری ناگ نے اِٹھلانا ہے آج نہیں تو کل
ماجد اُس پہ نظر رکھنی ہے ہر لحظہ ہر گام
بے عملی نے دہلانا ہے آج نہیں تو کل
ماجد صدیقی

جلدی ملن کی راہ کوئی اے سجن نکال

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
قوس قزح میں، رنگِ شفق میں دِکھا جمال
جلدی ملن کی راہ کوئی اے سجن نکال
حالات کا گراف صعودی ہوا ہے یوں
امسال اور تلخ ہے جتنا تھا پچھلا سال
نمٹا اُسے ہی جو روشِ کج کی دَین ہے
کہتا ہے کون، اور بکھیڑوں میں خود کو ڈال
ہجر و وصال کی ہے کہیں، سازشوں کی ہے
ہر فون پر ہے اور اداؤں کی قیل و قال
بیٹے کی چاہ میں ہیں اگر بیٹیاں بہت
مردِ حریص!اور کوئی راہ دیکھ بھال
نسبت اگر ہے لمحۂ موجود سے تری
ہتھیا کہیں سے عزم و عمل کی بھی کوئی فال
ہیں اور بھی تو ساحر و منٹو و فیض سے
ماجد پٹے ہوؤں کی نہیں ایک تو ہی ڈھال
ماجد صدیقی

اب تو ڈھنگ سے جینے کی کوئی طُرفہ راہ نکال

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
ستّر سے بھی اُوپر ہو گئے، ماجِد! عمر کے سال
اب تو ڈھنگ سے جینے کی کوئی طُرفہ راہ نکال
اپنا غم، اوروں کے غم، ۔۔۔اور، اور کئی جنجال
سانسوں تک میں اُترے دیکھیں اِن فِتنوں کے جال
سورج چندا تک توہمارے انگناں اُتریں روز
کسے بتائیں کس سے کہیں ہم، جا کر اپنا حال
اور نہیں خود ہمِیں اُٹھائیں قدم نئے سے نیا
پھر کاہے کو دُوجوں سے ہم رہنے لگیں نِڈھال
دھڑکن دھڑکن خوں میں ہمارے جو موجود رہے
ہاں یہ وقت ہے ہم سے جو، کھیلے ہر اُلٹی چال
میں ہوں کہ تُو، ہم حرصی خود سے کبھی کہیں نہ یہ بات
’’اپنی قامت مت نیہوڑا، مت نئے بکھیڑے پال”
اچھّا ہے اپنے اندر کا، موسم دِھیما رکھ
شدّتِ سرما سے سمٹے، گرمی سے اُدھڑے کھال
ماجد صدیقی

کب سُلجھے گی ساس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
رکھے دُلہن یہی آس
کب سُلجھے گی ساس
ایک امانت ہے
میری، اری! ترے پاس
زردہ پکے نہ ٹھیک
ٹھیک نہ ہو گر چاس
پرچارک سچ کے
جھوٹ سبھی کا لباس
فِیس کی دُھن میں طبیب
کر دے ستیا ناس
بیٹیوں کو سر تاج
کم کم آئیں راس
ماجد کام آغاز
کر، جب کر لے ٹاس
ماجد صدیقی

کرتا ہے کب وہ مہلتِ قربت بہم اک اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
ابرو پہ اس کے دیکھ لیا ہم نے خم اک اور
کرتا ہے کب وہ مہلتِ قربت بہم اک اور
ملتا نہیں کسی کو کبھی تحفۂ بقا
ہاں جب تلک وہ لینے نہ پائے جنم اک اور
پی سی نہیں تو ٹی وی کسی طور اینٹھ لیں
گھر گھر میں روز سجتا چلے جامِ جم اک اور
جمہوریت پھر آئی زدِ جبر پر لگے
لو ہو چلا ہے شہر تمنا بھسم اک اور
ہر مار اب ہمیں وہ افادی بلوں میں دے
ہونے کو پھر ہے دیکھنا ہم پر کرم اک اور
ہُن چاہیے برسنا بھلے نوکری سے ہو
مشکل نہیں ہے لائیں کہیں سے صنم اک اور
دے داد کج ادائی سے، لے داد دھونس سے
ہم پر ہے اس کا یہ بھی توماجد ستم اک اور
ماجد صدیقی

پروازِ فکر اِن سے الگ، بُودوباش اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
دُھن عاشقی کی اور ہے، فکرِمعاش اور
پروازِ فکر اِن سے الگ، بُودوباش اور
ٹیکسوں کا جبر، کج کُلَہی، ضابطوں میں ڈِھیل
سوسائٹی کرے ہے ہمیں بد قماش اور
سنبھلیں، سنبھل سکیں تو، سنبھالیں اِسے ضرور
رُوئے وطن پہ پڑنے نہ پائے، خراش اور
ہاں زلزلے بھی کوہ تلک دَھونک دیں، مگر
اُٹھتی ہے جو ضمیر سے، ہے ارتعاش اور
ذی قامتوں کو ٹھنگنے سرِ دار لے چلیں
کھینچیں پھر اُن کی‘ُ راہ بہ راہ، لاش لاش اور
ہر فرد لخت لخت، وطن بھی ہُوا دو لخت
جانے ہو دل کا آئنہ کیا پاش پاش اور
ماجد سخن طراز ہے طبعِ رواں بہت
رَخشِ حیات بھی تو رہے بس میں کاش اور
ماجد صدیقی

پیٹتا رہ اپنا سینہ، سُرخ اپنی کھال کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
غم میں سب بچھڑے ہوؤں، کے اور پِیلے گال کر
پیٹتا رہ اپنا سینہ، سُرخ اپنی کھال کر
کاج تیرے صبحِ کاذب سے ہیں ڈھلتی شام تک
فکرِ فردا، فکرِدِی، کو چھوڑ، فکرِ حال کر
جس سے تیرا شاہ اور تیرے پیادے بچ سکیں
اے محافظ!اختیار ایسی بھی کوئی چال کر
بعدِ مدّت وہ کہ ہے آنے کو ماہِ عید سا
مکھ پہ مسکاتی رُتوں سے اُس کا استقبال کر
اس کے ہجرِ عارضی کا کیا پتہ؟ ہو یہ علاج
اپنے کاندھوں پر مزّین، اُس کی کومل شال کر
جیت سکتا ہے تو ہاں! لے جِیت قُربت یار کی
فائدہ کیا ہے، رقیبوں کو ذرا سا ٹال کر
جو متاعِ زندگی ماجد!دوبارہ ہے ملی
خرچ اُس کو کر ذرا تُو سینت کر سنبھال کر
ماجد صدیقی

ہاں وجود اپنا جتا اور رقص کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
ہے اگر زندہ تو آ اور رقص کر
ہاں وجود اپنا جتا اور رقص کر
خود کو پودوں، اور گُلوں میں ڈھال لے
آنکھ میں رُت کی سما اور رقص کر
فرش سے تا عرش یُوں بھی لَو لگا
چاہتوں کے پر بنا اور رقص کر
مُحتسب کی آنکھ سے بچ کر کبھی
مان لے تن کا کہا اور رقص کر
ہے اگر اِک یہ بھی اندازِ حیات
ہاتھ میں ساغر اُٹھا اور رقص کر
دیکھ یُوں بھی اپنے ماجِد کو کبھی
ظرف اِس کا آزما اور رقص کر
ماجد صدیقی

اے شہِ عاجز! وقارِ خلق ارزاں اور کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
چادریں نُچتی ہیں جن کی اُن کو عریاں اور کر
اے شہِ عاجز! وقارِ خلق ارزاں اور کر
اپنی قامت ناپ اُن کے ساتھ بے وقعت ہیں جو
جو پریشاں حال ہیں اُن کو پریشاں اور کر
کر نمایاں اور بھی ہر دستِ حاجت مند کو
ضعف سے لرزاں ہیں جو وہ ہاتھ لرزاں اور کر
مایۂ خلقت پہ حاتم طائیاں اپنی دِکھا
داغ ناداری کے ماتھوں پر نمایاں اور کر
چھین لے فریاد کی نم بھی لبوں کی شاخ سے
نیم جاں ہیں جس قدر تُو اُن کو بے جاں اور کر
گھیر کر لا ریوڑوں کو جانب گُرگانِ دشت
مشکلیں اُنکی جو ذی وحشت ہیں آساں اور کر
جتنے ماجد ہیں یہاں گریہ کناں اُن پر برس
چیختے ہرنوں کو جنگل میں ہراساں اور کر
ماجد صدیقی

رُخ بہ رُخ نیّتیں بھی لکھا کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
عرش پر بیٹھ کر نہ دیکھا کر
رُخ بہ رُخ نیّتیں بھی لکھا کر
بعد میں چاہے پھول بن کے کھلے
آگ پر لیٹ اور تڑپا کر
انت تیرانہیں ہے حشر سے کم
آدمی ہے تو یہ بھی سوچا کر
تو ہے عاصی جنم سے پہلے کا
روزوئی سا خود کو دھونکا کر
لے تو بس ہوش ہی کے ناخن لے
خوش قیاسی پہ ہی نہ جایا کر
پیڑ سے یا تو ٹُوٹنے ہی نہ پا
ٹہنیوں میں نہ پھرسے اٹکا کر
بحر کو چھو کے ہی نہ فاتح بن
ہاں تہوں تک بھی اِس کی اُتراکر
یاد کر کر کے کرب ہائے جاں
ذائقہ مت دہن کا پھیکا کر
جی نہ خوش فہمیوں کی جنّت میں
آنکھ دوزخ سے بھی ملایا کر
دیکھ اوروں کے ہی تماشے دیکھ
ایسا کرنے کو گھر نہ پھونکا کر
جسم اپنا ہی دھوپ سے نہ بچا
اپنے ہمسائے کو بھی پوچھا کر
ہاتھ آئے اگر شکار کوئی
ہاں بس اپنی ہی پیٹ پوجا کر
کرکے اعلان، حق بیانی کا
جھوٹ کم کم زباں پہ لایا کر
اے نمازی ثواب یہ بھی کما
حد سے کم گاہکوں کو لُوٹا کر
حج کی فرصت ملے تو جا کے وہاں
جیسا جائے نہ ویسا لَوٹا کر
جاں سے، دل سے عزیز روزہ دار!
روزہ داری کا حق نبھایا کر
مایہ اندوزیاں عزیز نہ رکھ
پل بھی کچھ زندگی کے سینتا کر
اے خنک طبع رات کی رانی
دن کی حدّت میں بھی تو مہکا کر
بند بوتل نشے کی وہ لڑکی
من کی خلوت میں جا کے کھولا کر
سارے ہتھیار اپنے تیز نہ رکھ
سادہ چشمی سے بھی تو دیکھا کر
جھونک مت حاویوں میں تُو اِن کو
بیٹیاں دیکھ کر بیاہا کر
وسعتِ لطف سا ہے وہ انگناں
اُس سے بیلوں کی طرح لپٹا کر
کون منہ میں ترے نوالے دے
خود مسائل سے اپنے نمٹا کر
اُس کی لپٹوں کو اوڑھ لے تن پر
وہ کہ خوشبو ہے اُس کو پہنا کر
ہم کہاں تجھ پہ بوجھ بننے لگے
دِل نہ اے شخص!اپنا چھوٹا کر
کر سکے تو نوالے اپنے کاٹ
میہماں کو نہ گھر سے چلتا کر
اُس کو تن پر کِھلا گُلاب سمجھ
منہ نہ روہانسا بنایا کر
دوسروں کا کیا نہ تُو گِنوا
تُونے خود کیا کیا وہ سمجھا کر
ہاں نہ ہر کِذب گو کی ہاں میں ملا
تُو ہے برحق تو خوب بولا کر
چاہے تیرے ضمیر ہی میں وہ ہو
گانٹھ ماجد ہر ایک کھولا کر
ماجد صدیقی

یا شاعری میں اُتری دعاؤں کے زور پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
جینا ہے اب ارادوں، دواؤں کے زور پر
یا شاعری میں اُتری دعاؤں کے زور پر
مقبولِ خلق راہنما جو بھی ہیں سو ہیں
بدنامیوں سے پھوٹی بلاؤں کے زور پر
شاہی میں انقلاب جو آئے سو آئے ہے
یک دم تڑخ کے اُٹھتی صداؤں کے زور پر
ہم ہیں جہاں یہاں کوئی حِلم آشنا نہیں
اُجڑا نگر یہ جھوٹی اَناؤں کے زور پر
انساں کی کاوشیں بھی بجا ہیں سبھی مگر
اُڑتا ہے ہر جہاز ہواؤں کے زور پر
ماجِد ہم ایسے غاصبِ خوش خُو کو کیا کہیں
دِل لے اُڑے جو اپنی اداؤں کے زور پر
ماجد صدیقی

وہ بھی تو سر ہے ہمارے سحر و شام سوار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
غیر محسوس ہے جو چوٹ، سدا کا آزار
وہ بھی تو سر ہے ہمارے سحر و شام سوار
بیچ آبادیوں کے روز کچل دیں کیا کیا
وہ کہ ہاتھوں میں کسی کے بھی نہیں جن کی مہار
وہ کہ خونخوار نہ لائیں جسے خاطر میں کبھی
سب سے کمزور اگر ہے تو شرافت کا شعار
ہم نے وہ گرد کہ پھانکی ہے جو ابتک صاحب!
دل سے نکلے بھی تو کس طرح بھلا اُس کا غُبار
بند سکرین جو ٹی وی کی کریں تو اٹکیں
اپنی آنکھوں میں مناظر وہ، نہیں جن کا شمار
پرسکوں رُخ ہے کوئی، قلب نہ شفّاف کوئی
جانے سجتا ہے کہاں اپنی فضاؤں کا نکھار
کاش ہم اُن کے بھی ماجد کبھی قائل ہوتے
وہ کہ دولتّیاں جھاڑیں جو بہ صد عزّو وقار
ماجد صدیقی

اور طبعاً ہے مرا اللہ والوں میں شمار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
شاعری میری عبادت، شاعری میرا شعار
اور طبعاً ہے مرا اللہ والوں میں شمار
میرے جیون کے ورق سرچشمۂ آب بقا
چاندنی میرا سخن ہے، فکر ہے فصلِ بہار
اُس کے پانے کو ہماری سادگی یہ دیکھنا
کاغذی ناؤ میں بچّوں سے چلے دریا کے پار
کچھ شدائد میں ملوث، کچھ بکھیڑوں میں پڑی
حرص کے رسیا مزے میں، خلق ہے زار و نزار
راہبر کچھ کر نہیں پاتے مگر دعوے بہت
دیکھنا یہ تیل بھی اور دیکھیے گا اِس کی دھار
ٹوٹ کر بکھرے ملیں دانے کہیں تسبیح کے
اور بکھر جاتی ملے ماجد کہیں چڑیوں کی ڈار
ماجد صدیقی

مکھ ہے ترا کہ یہ پُورا چاند

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
دل جھیلوں میں اُترا چاند
مکھ ہے ترا کہ یہ پُورا چاند
مجھ کو دیکھ کے اِترایا
تجھ کو دیکھ کے سمٹا چاند
ضو اُن سب سے پھوٹ بہی
جن رستوں سے گزرا چاند
دیکھا بیٹھ کے پاس اُس کے
بِن تیرے تھا ادھورا چاند
جس نے اُسے ہے زیر کیا
تھکے نہ اُس کو تکتا چاند
دُور سے کیا رنگیں لاگے
دُھول اڑاتا پھیکا چاند
سجا ہے بیچ شکاگو کے
ماجد میرا سارا چاند
ماجد صدیقی

سچ ہے اپنے خداوندوں کا ہے یہ کاج

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
جمہوریت میں بھی ولی عہدوں کا رواج
سچ ہے اپنے خداوندوں کا ہے یہ کاج
کھوج لگانے پر جانے کیا کیا نکلے
خوب ہے چھپے رہیں گر ہَما شُما کے پاج
ہمیں ارادت آقائی و غلامی سے
ہم کرتے ہیں ادا جانے کس کس کا باج
ساری دوائیں بہر فسادِ جسم بنیں
دل کے میَلوں کا ہو بھی تو کیا ہو علاج
بعد بیاہ کے ٹھہریں تختۂ مشق سبھی
بیٹیاں پھنّے خانوں کی بھی کریں کب راج
آنے و الا ہو یا بِیت گیا کل ہو
پیشِ نظر رکھنا ہے ہمیں تو آج ہی آج
قیس کو ہے توقیر، سگِ لیلیٰ تک کی
عشق پرستوں کا ہے ماجد اور سماج
ماجد صدیقی

نئے نئے صدمات

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
دے ہر دن ہر رات
نئے نئے صدمات
پیڑ کی ہیں اوقات
جھڑ جھڑ جاتے پات
تن تن نقش ملیں
لَو دیتی ضربات
کرب سے انساں کا
ہے جنموں کا سات
استقبال کریں
قدم قدم آفات
ایک ہنسی ہے جو دے
نِت رونے کو مات
ملنے ہوئے کٹھن
ماجِد اَن اور بھات
ماجد صدیقی

غرورِ فرقِ شجر کھا چکے ہیں مات بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
بہ جبرِ باد اُچھالے گئے ہیں پات بہت
غرورِ فرقِ شجر کھا چکے ہیں مات بہت
یہ ہم کہ بندگی عنواں ہے جن کے ماتھوں کا
خدا گری پہ ہیں اپنے تحفظّات بہت
مقدّمہ جو لڑا بھی تو اہلِ دل نے لڑا
گئے ہیں جِیت بہم تھے جنہیں نُکات بہت
رسا ہوا ہے کہیں بھی نہ کوئی آوازہ
اُٹھے ہیں جو بھی کٹے ہیں وہ سارے ہات بہت
بڑا ہی ارزل و اسفل ہے یا ہے تُخمِ حرام
بَکے ہے صبح و مسا جو مغلظّات بہت
سیاہ دَھن سے سیاہ کاریوں تلک ماجد
یہاں ہمارے سَروں کی ردا ہے رات بہت
ماجد صدیقی

گناہگار ہیں ہم، ہم سے اجتناب، جناب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
بشر کی چاہ کا ہم سے ہے انتساب، جناب
گناہگار ہیں ہم، ہم سے اجتناب، جناب
کبھی تو عظمتِ انساں فلک نشاں ہو گی
کبھی تو پائیں گے تعبیر اپنے خواب، جناب
گرا پڑا ہمیں دیکھا تو تم کہ جارح تھے
تمہیں بھی ہونے لگا کیوں یہ اضطراب، جناب
گھٹا کے رقص کی ہو یا تمہارے قرب کی ہو
نئی رتوں کی طراوت بھی ہے شراب، جناب
ہر ایک ٹیڑھ تمہاری، ہماری سیدھ ہوئی
یہ تم کہ خیر سے ہو اپنا انتخاب، جناب
یہاں کی لذّتیں برحق مگر بہ عمرِ اخیر
بھگت رہے ہیں ہمِیں کیا سے کیا عذاب، جناب
ادا لتا کی زباں سے جو ہو سکے ماجد
غزل اک ایک تمہاری ہے لاجواب، جناب
ماجد صدیقی

سُست رَو تھا اور تھا جو مستقل رَو، چھا گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
ہوتے ہوتے مرتبہ فتح و ظفر کا پا گیا
سُست رَو تھا اور تھا جو مستقل رَو، چھا گیا
جب سے ہے دونیم ٹھہرا تن جنم استھان کا
تب سے اندیشہ ہمیں اگلی رُتوں کا کھا گیا
عدل قبضے میں لیا اور انتہا کی جَور کی
حق سراؤں تک کو آمر کیا سے کیا ٹھہرا گیا
ہاں شفا مشروط جب اِذنِ جراحت سے ہوئی
زندگی میں بارِ اوّل میں بھی کچھ گھبرا گیا
ہم نے بھی ساون سمے تک دھوپ کے دھچکے سہے
زور طوفاں کا گھٹا، بارش کا موسم آ گیا
تیرتی ہے دیکھ وہ بدلی جلو میں دھوپ کے
بام پر وہ دیکھ آنچل پھر کوئی لہرا گیا
ریگ کی وسعت سَرابی، زہر سی ماجد لگی
اور صحراؤں کا موسم تُندیاں دکھلا گیا
ماجد صدیقی

یا ذی عقل بھی اپنالے خاصہ خر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
رب نزدیک ہے یا گھونسا زورآور کا
یا ذی عقل بھی اپنالے خاصہ خر کا
باہرکی افواہیں گردش میں ہیں مدام
کوئی نہیں جو حال سنائے اندر کا
لغزش لیسی ہو فردوس بدر کردے
اُس کے بعد تناؤ ہے جیون بھر کا
ملکوں کو چرکے کم کم ہی لگتے ہیں
لگے تو لگے سقوطِ ڈھاکہ سا چرکا
وہ جو شکاری کی تسکین کا ساماں ہے
دھڑکا لگا رہے ہرآن اُسی شر کا
آندھی کس کس سے جانے کیا کیا چھینے
اندیشہ ہے ہمیں تو وہ، بال و پر کا
تُو کہ ہے طُرفہ گو آغاز سے ہی ماجد!
چرچاکیوں نہ ہُوا پھر تجھ سے سخنور کا
ماجد صدیقی

خود بھی رہ جنبش میں اور پیسہ بھی کچھ جنبش میں لا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
یہ ہے وہ نسخہ کہ جس میں ہے تری کامل شفا
خود بھی رہ جنبش میں اور پیسہ بھی کچھ جنبش میں لا
حرص میں جنس و پِسَر کے اور وسطِ عمر میں
دیدنی ہیں بچّیوں کے باپ جو کھو دیں حیا
اُن کے ناتے سایۂ قانون کو تم ناپ لو
گاڑیاں جو چھین لیتے ہیں کُھلے میں برملا
اتّحادی سے وزارت چھین کر دو اور کو
تخت والو!بعد میں تم دیکھنا ہوتا ہے کیا
وہ جسے ایکا کہیں، مشکل ہے دو شخصوں کے بیچ
بعد مدّت کے، یہ رازِ خاص ہے، ہم پر کُھلا
آگ تک میں بھی تو اکثر کِھل اُٹھا کرتے ہیں پھول
آبِ رحمت میں بھی ہوتا ہے نہاں سَیلِ بلا
ہنس دیا کرتا رہا ماجد۔۔۔بہ میدانِ عمل
کھا کے کنکر نفر توں کے، اہلِ نفرت سے سدا
ماجد صدیقی

وہ وفا کا عہد نبھا دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
وہ کہ آمروں سے کیا تھا جو
وہ وفا کا عہد نبھا دیا
مرے منصفوں نے بہ جبر و زر
سرِدار مجھ کو سجا دیا
ہوئے حکمراں بھی تو کیا ہوئے،
جنہیں تھا جنونِ برابری
وہ کہ خاص و عام میں فرق تھا
وُہی فرق گرنہ مٹا دیا
تھی غرض تو بس مری جاں سے تھی،
گئی جاں تو غیر ہوئے سبھی
مجھے نذرِ خاک و زمیں کیا
مجھے اپنے ہاتھوں جلا دیا
کہیں تاجور کہیں خاک پا
کہیں خاکِ پا سے بھی ماورا
میں کہ اس کے چاک کی خاک تھا
مجھے جیسا چاہا بنادیا
کبھی برتری جو دکھا سکے
تو فرشتگاں پہ بھی چھا گئے
کہیں آزمائی وہ سفلگی
کہ ہمِیں نے عرش ہلادیا
جو فلک پہ پائے گئے کبھی
، تو ہمیں تھے راندۂ چرخ بھی
یہ زمیں کہ مادرِ مہرباں ہے،
اسے بھی ہم نے ہے کیا دیا
یہ وہی ہے جو ترے لطف سے
کبھی شاعری کا الاؤ تھا
یہ تمہارا ماجدِ مبتلا
ہے دئے سا جس کو بجھا دیا
ماجد صدیقی

جیسا جُوتا شاہ نے راج کے انت میں کھایا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
ایسافیض کیے کا اپنے کس نے پایا
جیسا جُوتا شاہ نے راج کے انت میں کھایا
جِس زورآور کا بھی ہُوا ہے جُرم نمایاں
وقت نے اُس کو ہے درجہ ہیرو کا دلایا
اُس سے پوچھیے تازہ تازہ جس کو ملی ہے
کیا ہے سجناں! لَوٹ کے آئی ’صحت مایا،
خود تن جائے دھوپوں جلنے سے جو بچائے
ہاں ناپید لگے ہے اُس چھاتا کی چھایا
بعد اُس کے بھی وہ تو درخشاں ہے ہر جانب
جِس عادل نے آمر سے پنجہ تھا لڑایا
ایسا گنجلک بھی کیوں؟ نظمِ عدالت ماجِد!
ہر ملزم نے بعداِک عمر کے عدل ہے پایا
ماجد صدیقی

دل دہل کر ہے گلے میں آ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
وقت اَن ہونی عجب دکھلا گیا
دل دہل کر ہے گلے میں آ گیا
ہم نے ہے ملہار بوندوں سے سنی
لُو بھبھوکا بھی ہے دیپک گا گیا
تُندخُوئی کا چلن اُس شوخ کا
رفتہ رفتہ ہے ہمیں بھی بھا گیا
کھیل میں نااہل ہمجولی مرا
میری ساری گاٹیاں اُلٹا گیا
ہاں وہی نیندیں اُڑا دیتا ہے جو
گھر میں ہے مینڈک وہی ٹرّا گیا
پیار جتلاتے بہ حقِ بیکساں
اب تو جیسے ہے گلا بھرّا گیا
صبح ہوتے ہی ٹریفک کا دُھواں
کِھل اٹھے پھولوں پہ ماجد چھا گیا
ماجد صدیقی

شہر بھر کو خامشی کا پیرہن پہنا دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
جبر نے ہم سب کے چپ رہنے کو کیا اچھّا کیا
شہر بھر کو خامشی کا پیرہن پہنا دیا
کچھ نہیں نایاب لیکن ہے گراں یابی بہت
تاجروں نے بھی خلافِ خلق کیا ایکا کیا
اُس دھڑے نے جو اُسے اونچا اُٹھا کر لے گیا
بالا دستی میں اُسی سے ہے سلوک الٹا کیا
کیا کہیں اِس عہد کے منصف بھی آمر ہو گئے
ہاں جنہوں نے بھی کیا جو، آمروں جیسا کیا
وہ کہ جو بھی تھا گُنی، ترسا کیا پہچان کو
جو بھی پتّے باز تھا قد اُس نے ہی بالا کیا
بالادستوں کا جو بالا دست ہے اُس ڈھیٹ نے
جو بھی برتاؤ کیا ہم سے وہ دانستہ کیا
وہ کہ نکلے ڈھونڈنے ماں باپ سے راہِ فرار
کیا کہوں ماجد! یہ دل، کیسے اُنہیں دیکھا کیا
ماجد صدیقی

دل نے پتّوں سی ہوا دی کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
جاں بدن میں ہی جلا دی کیا کیا
دل نے پتّوں سی ہوا دی کیا کیا
راہ چلتوں کی توجّہ پانے
زر شگوفوں نے لٹا دی کیا کیا
دیکھ کر پوتیوں پوتوں کی روش
رنج گِنوائے ہے دادی کیا کیا
روز خبروں میں دکھائی جائے
گونجتی مرگِ ارادی کیا کیا
کیا ہُوا ہے ابھی کیا ہونا ہے
وقت کرتا ہے منادی کیا کیا
ابر چھایا تو نشہ سا لاگا
اور خبر رُت نے اُڑا دی کیا کیا
ماجد صدیقی

سیاست میں بھی موٹروے بنا دیتے تو اچّھا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
قضیّہ تنگ نظری کا چُکا دیتے تو اچّھا تھا
سیاست میں بھی موٹروے بنا دیتے تو اچّھا تھا
جلا وطنی بھلے خودساختہ ہو، ہے جلا وطنی
سبق خودسوں کو اِتنا بھی سِکھا دیتے تو اچّھا تھا
روش جو رہبری کی ہے تحمّل اُس میں اپنا کر
بہت سوں کو جہانِ نَوسُجھا دیتے تو اچّھا تھا
سیاست میں ہمیشہ، مسٹری ہے جن کا آ جانا
کرشمہ گر کوئی وہ بھی دکھا دیتے تو اچّھا تھا
عمارت جس پہ پہلے سے کہیں ہٹ کر بنی ہوتی
کوئی بنیاد ایسی بھی اُٹھا دیتے تو اچّھا تھا
وہی جو قوم کو بانٹے ہے جانے کتنے ٹکڑوں میں
وہ کربِ نفرتِ باہم مٹا دیتے تو اچّھا تھا
ترستا ہے جو ماجد عمر بھر سے موسمِ نَو کو
اُسے ہی کچھ خبراچّھی سُنا دیتے تو اچّھا تھا
ماجد صدیقی

جتنا ترا ہے؟ روشن کس کا نام ہُوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
ماجد تجھ پہ خصوصی یہ انعام ہُوا
جتنا ترا ہے؟ روشن کس کا نام ہُوا
پیشِ نظر رہتا ہے ہمیشہ اُس کا بدن
وہ کہ جو تُندیٔ صہبا سے ہے جام ہُوا
جیسا ہوا ہم سے اُس کے دُور ہونے پر
ایسا کس کے بچھڑنے پر کُہرام ہُوا
قاتلِ محسن تک بھی جہاں برحق ٹھہرے
کون اُس دیس سا مفروضوں کا غلام ہُوا
حاکم جیسے تخت پہ اِک دن کو اتریں
سکّہ تک ہے اُن کے سبب سے چام ہُوا
جیسے بُھنے دانوں کا اُگنا ناممکن
اچّھے دنوں کا خواب خیالِ خام ہُوا
ماجد صدیقی

یادآئے محکوم کا دیہہ بدر ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
حکم پہ پینچوں کے یک دم بے گھر ہونا
یادآئے محکوم کا دیہہ بدر ہونا
سنتے ہیں خُو بُومیں لگے فرعونی سا
صاحبِ رقبہ ہونا، صاحبِ زر ہونا
عمرِ اخیر میں یوں بھی دیکھنا پڑتا ہے
جسم و جسامت کا ویران شجرہونا
ہر مجہول ہمیں ہی دھر لے جاتا ہے
عیب جو ہے تو ہمارا اہلِ ہنر ہونا
کوئی نہ مجھ سا پِٹ جائے، وہ خاک کہے
جس کا نصیبہ ٹھہرے راہ گزر ہونا
سچ پوچھیں تو بادشہی سے کم تو نہیں
آج کے دورِگراں میں اپنا گھر ہونا
ویسے بھلے ماجدہو ہمِیں سا، پہ اندر سے
صاحبِتاج کو چاہیے پیغمبر ہونا
ماجد صدیقی

چَودھواں مُکھ مہتاب کا، جاناں! تیرا سامنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
کھلتا پھول گلاب کا، جاناں! تیرا سامنا
چَودھواں مُکھ مہتاب کا، جاناں! تیرا سامنا
جذبوں کو لرزائے ہے، ہوش، حواس بھلائے ہے
پھیلا نشہ شراب کا، جاناں! تیرا سامنا
آنکھوں کو سہلائے ہے، جذبوں کو گرمائے ہے
یک جا رنگ شباب کا، جاناں! تیرا سامنا
کوڑی دُور کی لائے ہے، ساتھ ہی ساتھ جگائے ہے
کھٹکا ترے حجاب کا، جاناں! تیرا سامنا
دُور کرے بیزاریاں، دکھلائے گُلکاریاں
موسم جُھکے سحاب کا، جاناں! تیرا سامنا
کھولے ہے اسرار جو، لائے نئے نکھار جو
نقشہ نئی کتاب کا، جاناں! تیرا سامنا
اندیشہ سا گھیر لے، کب تُو آنکھیں پھیر لے
منظر ہے اِک خواب کا، جاناں! تیرا سامنا
ماجد صدیقی

یاور کا لطفِ بے پایاں، حصہ اپنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
بچّیوں کا رختِ اقوالِ دعائیہ، اپنا
یاور کا لطفِ بے پایاں، حصہ اپنا
صلحِ مسلسل کا برتاؤ بہو رانی کا
پوتے پوتی کا دیدار ہے، مایہ اپنا
شکر خدا کا، خوش خُلقی سے نِبھتا جائے
جیون ساتھی سے جو ہُوا، یارانہ اپنا
منظر منظر ایک الاؤ گھر سے باہر
مدّت ہی سے اِک جیسا ہے مشاہدہ اپنا
ٹیڑھ کوئی بھی ہو وہ سمجھ میں آ جاتی ہے
لیکن یہ جو شرافت ٹھہرا شعبہ اپنا
مہکیں تانیں اور بہاریں اور پھہاریں
کرنے کو بس ایک یہی ہے نشّہ اپنا
ماجد!اک چھت، ایک سواری، چند نوالے
بھری خدائی میں کیا نکلا بخرہ اپنا
ماجد صدیقی

میں آئنہ ہوں ٹھیک سے چہرہ بتاؤں گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
ہو جس طرح کا۔۔ہاں اُسے ویسا بتاؤں گا
میں آئنہ ہوں ٹھیک سے چہرہ بتاؤں گا
دیکھو! عزیز عزّتِ انساں نہ ہو جسے
خلقت میں، میں اُسے ہی کمینہ بتاؤں گا
شوہرہے محترم، تو ہے بیوی بھی محترم
میں جاں نثار اُس کو بھی ماں سا بتاؤں گا
جرّاحِ بے مثال جو اِس دَورِ نو کے ہیں
ہر حال میں اُنہیں میں مسیحا بتاؤں گا
خلقت کی رہ سے جو بھی ہٹائیں رکاوٹیں
میں اُن سبھوں کو عہد کا آقا، بتاؤں گا
بہرِ عوام نظم ہو ڈھیلا جہاں، وہاں
ہر دل کو آئنوں سا شکستہ بتاؤں گا
قاری ہی خوب و زشت کہیں جوکہیں، کہیں
ماجد سخن کے باب میں میں کیا بتاؤں گا
ماجد صدیقی

فاصلہ رکھیے تو بہتر، ورنہ پیار ہو جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
آپ کا منوا ہمارے من کا یار ہو جائے گا
فاصلہ رکھیے تو بہتر، ورنہ پیار ہو جائے گا
اپنے منوانے کو وہ جو بدکلامی تک کرے
اور بھی ٹھہرے گا کمتر اور خوار ہو جائے گا
ایٹمی قوت ہوئے ہم تو، یہ کیوں سوچا کیے؟
یوں ہمارا مُلک بھی، بااختیار ہو جائے گا
پے بہ پے دریا میں اٹھتی ہر نئی منجدھار سے
اپنا بیڑاگر نکل پایا تو پار ہو جائے گا
کس کو اب انکار کی جرأت کہ وصفِ خاص سے
وہ کہ بدنامِ زماں تھاتاجدار ہو جائے گا
ہاں گماں تک بھی ہمیں ایسا نہ تھا پایانِ عمر
ہم نے ماجد! جو کہا، وہ زرنگار ہو جائے گا
ماجد صدیقی

اشک اُس چنچل کی آنکھوں میں ہے کوکب ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
آسماں پر چاہ کے آٗینۂ تب ہو گیا
اشک اُس چنچل کی آنکھوں میں ہے کوکب ہو گیا
ملک ہارا، جنگ ہاری، راہنما چَلتا کِیا
یہ ہُوا وہ بھی ہُوا، ہونا تھا جو سب ہو گیا
کیا کہیں تبلیغ خُوش خُلقی کی کیوں غارت ہوئی
کج ادائی کج روی جینے کا ہی ڈھب ہو گیا
شہرتوں کی چوٹیوں پر سب مخولی جا چڑھے
شاعری سا فن اداکاروں کا کرتب ہو گیا
اوّل اوّل اہلِ دُنیا کو وُہ لرزاتا رہا
آخر آخر آدمی خود لرزۂ لب ہو گیا
میرزا غالب کو اندازہ بھی تھا، دعویٰ بھی تھا
اور وُہی اَوجِ سخن میں سب سے اغلب ہو گیا
تھا تصوّر ہی کہ ماجد جامِ جم تھا بھی کہیں؟
ہر کسی کا اپنا پی سی، جامِ جم اب ہو گیا
ماجد صدیقی

جاگتے دم ہی سجنوا تیرا درشن ہو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
پھول کالر پر سجایا اور منوا کھو گیا
جاگتے دم ہی سجنوا تیرا درشن ہو گیا
تخت پر سوئے ملے ہیں بعد کے سب حکمراں
جب سے اِک ہمدردِ خلقت، دار پر ہے سو گیا
فصل بھی شاداب اُس کی اور مرادیں بھی سپھل
کھیتیوں میں بِیج، اپنے وقت پر جو بو گیا
اب کسی کونے میں خِفّت کا کوئی سایہ نہیں
گھر میں ہُن برسا تو جتنے داغ تھے سب دھو گیا
جب پہنچ میںآ چکا اُس کی غرض کا سومنات
اور جب مقصد کی مایہ پا چکا وہ، تو گیا
سادہ دل لوگوں نے بھگتا ہے اُسے برسوں تلک
حق میں آمر کے سبھی نے کیوں کہا یہ، لو گیا
اپنے ہاتھوں کھو دیا جس نے بھی اپنا اعتماد
لوٹ کر آیا نہ پھر وہ، شہرِ دل سے جو گیا
بعدِ مدّت جب کبھی گاؤں سے ہے پلٹا کیا
کتنی قبروں پر نجانے اور ماجد رو گیا
ماجد صدیقی

یا ذی عقل ہی اپنالے خاصہ خر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
رب نزدیک ہے یا مُکّا زورآور کا
یا ذی عقل ہی اپنالے خاصہ خر کا
باہرکی افواہیں گردش میں ہیں مدام
کوئی نہیں جو حال سنائے اندر کا
لغزش لیسی ہو فردوس بدر کردے
دیکھنا پڑے بکھیڑا پھر جیون بھر کا
ملکوں کو چرکے کم کم ہی لگتے ہیں
لگے تو لگے سقوطِ ڈھاکہ سا چرکا
وہ جو شکاری کی تسکین کا ساماں ہے
دھڑکا لگا رہے ہرآن اُسی شر کا
آندھی کس کس سے جانے کیا کیا چھینے
اندیشہ ہے ہمیں تو وہ، بال و پر کا
تُو کہ ہے طُرفہ گو آغاز سے ہی ماجد!
چرچاکیوں نہ ہُوا پھر تجھ سے سخنور کا
ماجد صدیقی

پیار کے سودے میں بھی نقصان ہونے لگ پڑا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
ہجرِ جاناں، جان کا تاوان ہونے لگ پڑا
پیار کے سودے میں بھی نقصان ہونے لگ پڑا
جب سے اُلٹا تاج اپنے سر پہ شاہِ وقت نے
ہے وہ کاسہ قوم کی پہچان ہونے لگ پڑا
جس سے بن پوچھے نہیں اٹھتا قدم سردار کا
پینچ بستی کا ہے کیوں دربان ہونے لگ پڑا
جب سے اُس پر ہار کر سب کچھ اُسے دیکھا ہے پھر
دل مرا کچھ اور بھی نادان ہونے لگ پڑا
آن اُترا بام سے چندا وہ دل کی جھیل میں
مرحلہ مشکل تھا جو آسان ہونے لگ پڑا
اِس میں جانے کیا بڑائی سوُنگھ لی عمران نے
پُوت وہ پنجاب کا ہے خان ہونے لگ پڑا
جتنا درس نیک بھی ماجد اسے تو نے دیا
آدمی تھا جو، وہ کب انساں ہونے لگ پڑا
ماجد صدیقی

بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
بہت مشکل ہے ملنا ہم سے اُس حُسنِ گریزاں کا
بہم ہو بھی تو ہوتا ہے ترشح ابرِ نیساں کا
کناروں پر کے ہم باسی، نہ جانیں حال اندرکا
خبرنامہ عجب سا ہو چلا وسطِ گُلستاں کا
اخیرِ عمر، پِیری جس کو کہتے ہیں، کچھ ایسا ہے
شبانِ سرد میں پچھلا پہر جیسے زمستاں کا
بہ دوش و سر گھٹائیں ناچتی ہیں جیسے ساون کی
بہ دَورِ نَو بھی درجہ کم نہیں زُلفِ پریشاں کا
بہت پہلے کے دن یاد آ چلے ہیں اپنے ماضی کے
ہُوا جب اُستوار اُس سے کبھی رشتہ رگِ جاں کا
وہیں سے تو ہمیں بھی ہاتھ آیا سخت جاں ہونا
ہمارا بچپنا ہوتا تھا جب موسم کُہِستاں کا
شروعِ عمرہی سے ہے یہی پیشِ نظر ماجد!
غزل کو چاہیے رُتبہ میّسر ہو دَبِستاں کا
ماجد صدیقی

مدّتِ قید میں چھوٹ کریں اور ناطقہ بند آزادوں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
کیا انداز تحکّم ٹھہراجمہوری شہزادوں کا
مدّتِ قید میں چھوٹ کریں اور ناطقہ بند آزادوں کا
دیکھ شعیب اور ثانیہ تک بھی آخر کو جا پہنچا ہے
قحطِ رجال کے دورِ سیہ میں سلسلہ ’’زندہ بادوں” کا
جیون کے شطرنج میں بازی شاہوں کے ہاتھ آتی ہے
ڈٹ جانا اور مارے جانا ٹھہرے کاج پیادوں کا
بیٹا گھر سے نکلا تو بس اتنا اُس سے میں نے کہا
سایہ بھی پڑنے نہیں دینا دل پر تھکے ارادوں کا
کیا کہنے ہیں دیرینہ احباب جہاں بھی مل بیٹھیں
چہروں کے گلدستے ٹھہریں ایک مرقّع یادوں کا
ماجد وقت کے شاہ کو جانے کیوں اتنا ادراک نہیں
اُٹھتی بانہیں بن جائیں مینار نہ پھر فریادوں کا
ماجد صدیقی

رُت میں اساڑھ کی درشن اُس کا جل ٹھہرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
منوا اپنا جس کے بِناں بے کل ٹھہرا
رُت میں اساڑھ کی درشن اُس کا جل ٹھہرا
اُس کے بچھڑنے اور پھر ملنے سے پہلے
پورا پورا سال تھا اک اک پل ٹھہرا
بعد آمر کے جانے کے بھی اک عرصہ
نظمِ تن و اعصاب تھا سارا شل ٹھہرا
شکر ہے پھر جمہور کا راج بحال ہوا
شکر ہے سپنا کوئی تو اپنا سپھل ٹھہرا
جسم سے کچھ کھونے پہ مہیب اداسی ہے
گلشنِ دل تک بھی ہے جیسے تھل ٹھہرا
ہم جو بچے ہیں تو ہمّت سے ڈھٹائی سی
پُھنک جانا ورنہ تھا ہمارا اٹل ٹھہرا
تُف بشمول ہمارے اُن سب پر جن سے
بُھٹو پھانسی گھاٹ نہ تاج محل ٹھہرا
ماجد صدیقی

محال تر ہے بہ ہر حال، اندمال مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
فساد و جبر کے چانٹوں سے منہ ہے لال مرا
محال تر ہے بہ ہر حال، اندمال مرا
طویل دوڑ کے ہائے یہ آخری پھیرے
صدی صدی کے برابر ہے سال سال مرا
بہم ہُوا نہ جہاں میں کسی بھی قاروں کو
مرا وہ رخت ہے سرمایۂ خیال مرا
یہ زہر بھی ہے تو تریاق مجھ کو لگتا ہے
دوام دے مجھے اندیشۂ زوال مرا
نہ دسترس میں ہو چالاک صَیدِ مضموں تو
نشانہ چُوک بھی جاتا ہے خال خال مرا
وہ نامراد مجھے بامراد کیا کرتا
یقین میں نہیں بدلا یہ احتمال مرا
مرے کلام میں پنہاں ہے جیسے برقِ خیال
جمال ہی میں ہے ماجِد چھپا جلال مرا
ماجد صدیقی

منظر منظر دیکھ کے کھولے، خون ہمارا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
غارت کیا ہونا ہے اور سکون ہمارا
منظر منظر دیکھ کے کھولے، خون ہمارا
پچھلے برس بھی بجلی ہم سے کشیدہ رُو تھی
اب کے بھی پُھنکتے گزرے گا جون ہمارا
سوتے جاگتے زر بھی چاٹے، مایۂ جاں بھی
جب سے جیب کی زینت ٹھہرا فون ہمارا
اب بھی نجانے کس کس روپ میں پھوٹ پڑے ہے
پچھلے وقتوں کا دشمن، طاعون ہمارا
من موہن چکوال سے دلّی پہنچا بھی تو
ٹھیک کرائے گا کیا قاف اور نون ہمارا
جاں سے گزرتے رہنے میں ہم طاق بہت ہیں
جنموں سے ٹھہرا ہے یہی مضمون ہمارا
ماجد صدیقی

بار بار جو تجھ پر ’’جِندڑی” وارے یارا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
رُوگردانی اُس سے کیوں اپنائے یارا
بار بار جو تجھ پر ’’جِندڑی” وارے یارا
وہ کہ جو تری قرابت چاہیں، اُنہیں رُلانے
ابر و ہوا کے پیچھے کیوں چھپ جائے یارا
وہ کہ ہیں پہلے ہی سے اسیر ترے جادُو کے
چالوں کا جادُو کیوں اُن پہ جگائے یارا
وصل سے کترائے ہے ہجر کی آنچ دلائے
کتنے ستم ہیں تُو جو نت دُہرائے یارا
جانیں جائیں پر تُو تخت بچا لے اپنا
خلقِ خدا کو کس کس طَور نچائے یارا
اُن ہاتھوں کو جو فریاد بکف اُٹھتے ہیں
آہنی ہتھکڑیاں کیا کیا پہنائے یارا
ماجِد تیرا سخن ہے تیرا سدا کا جوبن
تُو چندا سا کاہے کو گہنائے یارا
ماجد صدیقی

مُکھ چندا تب جا کے نکھارا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
اور جنم اک لیا دوبارہ
مُکھ چندا تب جا کے نکھارا
حسرت کچھ کر نے کی نہ جائے
بِیت چلا ہے جیون سارا
بنواتے سپنوں کے گھروندے
پھانک رہے ہیں مٹّی گارا
اہلِ دُوَل کی حکمت عملی
چوبارہ۔۔۔۔اُس پر چوبارا
زور ہم پر زردار کا جیسے
بیوی پر ہے میاں کا اجارا
باغی موجۂ آب ہو جیسے
یار نے کیا قد کاٹھ اُسارا
ہم نے اُس سے معانقہ کرنے
چندا بازوؤں میں ہے اُتارا
اُس کے خیال کی ضَو کیا کہنے
بام سے جی میں اُتر آیا مہ پارا
سوچا تھا دل ہاتھ پہ رکھ لیں
سامنے اُس کے ہُوا نہ یارا
تیرا کِیا یہ کہاں بھولے گا
تو نے ہمیں دل سے ہے بِسارا
جب بھی ذرا سے ہوں ہم غافل
اپنا ضمیر بھرے ہنکارا
شوہر پر جب سَوتنیں الجھیں
دیدنی ہوتا ہے نظارا
ٹیکسی والا بھی کہتا تھا
اپنی قیادت بھی ہے کٹھارا
سونے کی چڑیا کہلایا
صدیوں پہلے دیس ہمارا
کھیل شروع ذرا ہو لے تو
از خود ہو جائے گا نِتارا
کاش اُس شوخ کی جھیل آنکھوں میں
میں اُتروں سارے کا سارا
چاند نہ تتلیاں ہوں انگناں میں
کیسے سجنوا بِن ہو گزارا
ہاں اپنا اک اک مجموعہ
’پیار جریدے، کا ہے شمارہ
بے مقصد باتیں ہم سب کی
جیسے چَرنے کو ہو چارا
پھر آمر ہے جِھینت سے جھانکے
بجنے کو ہے پھر نقّارا
آنکھ میں دیکھ نشہ اُترا ہے
جان بھی جا سجناں یہ اشارا
کھوئے ہوئے ہیں اُسی کی لَے میں
جی کا بجے جب تک اکتارا
بڑھتا قدم ہے جِیت تمہاری
عزمِ سفر ہے لیکھ تمہارا
بھنور بھنور الجھاؤ بہت ہیں
دُور لگے دریا کا کنارا
ُپُھنکا ہوائے حرص سے ہو جو
پھٹ جاتا ہے معاً وہ غبارا
وہ کہ جو جبراً مغویہ ٹھہری
سُن کچھ اُس کی بھی، اوتارا!
دل میں اُسے جب ڈھونڈنا چاہا
دُور کے گوشے سے وہ پُکارا
تُو دَھنّی کا گیت الاپ اور
میں یہ کہوں۔۔۔پُٹھوار ہے پیارا
جس نے یتیمی خود نہیں دیکھی
کب وہ یتیموں کا ہو سہارا
ماجد! تیری روش پہ کہے دل
واہ واہ! مرے جیدارا
ماجد صدیقی

فتنہ ہمسری و نا ہمسری کا او یار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
اپنے یہاں یہ حشر ہے کب کا بپا !او یار
فتنہ ہمسری و نا ہمسری کا او یار
دیکھ ذرا بارش کے بعد کی قوسِ قزح
در اُس شوخ کا دیکھ فلک پہ کھلا او یار
وہ کہ گلاب و سمن ہے جس کا بدن اُس سے
مانگنے آئے مہک نت بادِ صبا او یار
میں کہ کہے کے نیاپے پر مچلوں وہ سب
لگے ہے مجھ سے پہلے کہا گیا او یار
حاکمِ وقت سے عدل کی بھیک کی خواہاں ہے
تخت پہ ٹنگی ہوئی اک نُچی قبا او یار
چڑیوں پر ژالوں سے گزرتے کیا گزری
خیر کی کوئی خبر ایسی بھی سنا او یار
پڑھ پڑھ کے اُس کو تُو اپنی تاب بڑھا
تازہ سخن ہے جو ماجد پر اُترا او یار
ماجد صدیقی

پُھوٹ جب پڑنے لگے، تو آ پڑے یاروں کے بِیچ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
ناچتی ہیں دُوریاں، انگناؤں میں، پیاروں کے بِیچ
پُھوٹ جب پڑنے لگے، تو آ پڑے یاروں کے بِیچ
بِن گُنوں کے محض رِفعت سے جو وجہِ ناز ہیں
دَب گئی ہے میری کُٹیا کیسے مِیناروں کے بِیچ
لے گئے ہیں دُور شہ کو لوک دانائی سے دُور
ہاں وہی رخنے کہ ہیں اَیواں کی دیواروں کے بِیچ
وہ کہ ہیں زیرِ تشدّد، اور لاوارث بھی ہیں
اُن کے قصّے نِت چِھڑیں شغلاً بھی اخباروں کے بِیچ
جو نہ سُلگے، جو نہ بھڑکے، پر تپاتے تھے بہت
زندگی گزری ہے اپنی اُنہی انگاروں کے بِیچ
کوئی یوسف ہو سخن کا، چاہے وُہ ماجد ہی ہو
کیا پتہ وجہِ رقابت ہو وہ مہ پاروں کے بِیچ
اب سے ماجد ٹھان لے، اُس کے سِوا کچھ بھی نہ کہہ
جونسا تیرا سخن شامل ہو شہکاروں کے بِیچ
ماجد صدیقی

بعد اُس کے کیا ہُوا؟ ہوتا ہے جو، ویسا ہُوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
حق سرا دربار پہنچے تو سلوک اُلٹا ہُوا
بعد اُس کے کیا ہُوا؟ ہوتا ہے جو، ویسا ہُوا
ہم نے پُچھواناکیا ابلیس سے، کیوں پِٹ گئے؟
وہ یہ بولا، ساتھ اُس کے جو ہُوا اچّھا ہُوا
کی اطاعت میں رضا اپنی تو اَوجِ عرش سے
آ پڑے ہم فرش پر حُلیہ لیے بگڑا ہُوا
بے تفنگ و تِیر بہرِ صَید نکلے شوق سے
لَوٹ کر آئے تو چہرہ تھا بہت اُترا ہُوا
شیر صاحب نے ہرن پر ہاتھ کچّا ڈال کر
شیرنی کو آ دِکھایا رنگِ رُو، اُترا ہُوا
دہشتی انسان کیا سے کیا کرشمے کر چلے
پُشتِ خرپر ریت تک میں بمب تھا لپٹا ہُوا
فصل پہلی کھیت کی تھی یا بھلے کوئی دُلہن
چودھری کے گھر سے جو لَوٹا لگا برتا ہُوا
بامُرادی میں تھی ماجِد سُرخرُوئی اور ہی
بعدِ باراں آسماں جیسے لگے کھلتا ہُوا
ماجد صدیقی

منعکس ذہن میں ہے ہائے یہ کس دَور کا خواب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
رحلِ دل پر اتر آئی ترے چہرے کی کتاب
منعکس ذہن میں ہے ہائے یہ کس دَور کا خواب
ہم سے مانگے ہے وہ خیرات بھی صرفِ جاں کی
اور پاسخ بھی وہ مکتوب کا مانگے ہے شتاب
بام پر تیرے کبوتر کی غٹر غُوں اُتری
دل کہے یہ ترے سندیس کی ہے موجِ شراب
مستقل جان نہ کوئی بھی سہولت وقتی
دیکھنا ٹوٹ نہ جائے کہیں خیمے کی طناب
برق بھی ساتھ ہی ژالوں کے لپکتی لاگے
ایک کم تھا؟ کہ اُتر آیا ہے اک اور عذاب
کیا خبر رحمتِ وافر کی خبر لایا ہو
تیرتاآئے ہے وہ دُور سے اک سُرخ سحاب
ہو بھلے آنکھ مٹّکا وہ کوئی بھی ماجد!
جو بھی ہوتا ہے وہ ہوتا ہے سدا زیرِ نقاب
ماجد صدیقی

کیوں ہو تجدید ان کی بالتکرار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
ہو عقیدت کہ ہو نکاح وہ یار
کیوں ہو تجدید ان کی بالتکرار
وہ عنایات کھو گئی ہیں کہاں
رقصِ بادِ صبا و صَوتِ ہزار
جاں بھی مانگو تو اہلِ دل دے دیں
عشق، کم ظرف کا ہے دو، دو، چار
رُوئے گاہک مگن رعایت پر
رُوئے تاجر کا ہے کچھ اور نکھار
حلف اک رہبر و سپاہی کا
وہ لٹیرا ہے، یہ ہے جاں نثار
پینے والا زمیں پہ آن اُترے
جب بھی اُترے ذرا سا مَے کا خمار
دیکھ ماجد کہاں پہ جا پھولے
اپنے من موہن و رفیع و کُمار
ماجد صدیقی

میں اور میری شاعری

آپ نے پُوچھا تو کیا مانوگے، میرا یہ کہا

’’چاہ میری شاعری ہے، میں پُجاری۔امن کا”

غنچے غنچے کی چٹک کو مِدحتِ مَولا کہوں

کہکشاؤں میں جھلکتا پاؤں، میں عکسِ خدا

میں یقیں کرتا نہیں کوئی بھی بِن پُن چھان کے

اور مفروضوں کو جانوں شِرک کا ہم مرتبہ

نعمت یزداں مرے نزدیک ہے نُطقِ ضمیر

جس سے رُو گردانیاں ہیں، آپ ہم سب کی خطا

میں خدا سے بھی سدا اقبال سی باتیں کروں

اور کبھی اقبال تک سے بھی میں لُوں پنجہ لڑا

چاند کی تسخیر بھی مجھ کو نہ بھا پائی کہ میں

ہمسری مابین قوموں کے ہوں پہلے چاہتا

ننھی چڑیوں پر غضب ژالوں کا تڑپائے مجھے

فاختاؤں پر کہاں بھولے عقابوں کا کیا

شورشیں برپا عرب سے تا بہ افغان و عراق

جس قدر بھی ہو چکیں، میں اُن پہ کُڑھتا ہی رہا

ویت نام و الجزائر ہو کہ ڈھاکہ فال ہو

جبر جیسا بھی ہو میرے نزدہے سب ایک سا

ہوں وہ کشمیر و فلسطیں، یا مری خاکِ وطن

جس کی بد بختی پہ بھی لکھا، وہ ورثہ ہے مرا

ہندوپاکستان میں جوپُھوٹ ہے آغاز سے

اب تلک اُس پُھوٹ کا حل کیوں نہیں ڈھونڈا گیا

اور افغانوں کی نگری میں نئی بے چینیاں

دورِ حاضر میں ہوئیں کس شہ کی جانب سے بپا

ایٹمی طاقت کہا جائے کسے، کس کو نہیں

ایسا ہونا تک مجھے ہرگز نہیں اچھا لگا

چُنگلوں میں آمروں کے آ کے جو انصاف گھر

فیصلے دیتے رہے، اُن پر بھی میں تڑپا کیا

قوم کو دکھلا کے کرکٹ، تخت بچ جاتے رہے

اِس نشے کو بھی تو تھا افیون میں نے ہی کہا

کیا کتابیں کیا سخنور، سب کی ناقدری ہوئی

اور میں جیتوں کے نوحے کیا سے کیا لکھتارہا

’’بولیاں” جو ایک صنفِ خاص ہے پنجاب میں

مجھ سے اردو شاعری میں یہ اضافہ بھی ہوا

مجھ کو بھائے ہے ہمارے ہاں ہے جو طنز و مزاح

پر اُسے مضحک بنا دینا نہیں اچھی ادا

میں نہ وصل و ہجر میں پڑ کے گنواؤں ثانیے

میں جو رس چوسوں نئے لمحات کا بڑھ کر سدا

میں خلافِ جبر ہوں چاہے وہ ہو سُسرال کا

جسکا اپنے ہاں ہر اک عورت کرے ہے سامنا

آجروں سے بَیر میرا کارکن میرے عزیز

بیوگاں کا، اور یتامیٰ کا ہوں سانجھی برملا

اور سب’ لُٹیوں، سے لے کر مائی مختاراں تلک

تذکرہ ایسی سبھوں کا میں نے شرماتے کیا

میں کوئی تفریق بھی دیکھوں جو انسانوں کے بِیچ

غیر انسانی و حیوانی اُسے سمجھوں سدا

یہ گواہی ہر کہیں میرے سخن میں پاؤگے

مجھ کو نفرت نفرتوں سے، میں ہوں چاہت پر فِدا

حرصیوں کو چاہے وہ تاجر ہوں، یا ہوں منتظم

ہر بگڑتے نظم کو ٹھہراؤں میں شاہی خطا

اور کئی مضمون بھی میرے پسِ معنی نہاں

اور کئی دنیاؤں تک بھی ہے پہنچتا فن مرا

باعثِ تشویش ہیں ماجد! بڑے بُوڑھوں کے دُکھ

نسلِ نَو کی صحتِ کردار، میرا مسئلہ

ماجد صدیقی

آنکھ بھر آسمان کے نام

جو انٹرنیٹ پر موجود ہے اور میرے بیٹے یاور ماجد کی تخلیق ہے اور اُس تخلیقی تسلسل کا منہ بولتا ثبوت ہے۔جو قدرتِ خداوندی سے مجھے اور میری اولاد کو ودیعت ہوئی ہے۔کہیں پوسٹ گریجوایٹ اور پی ایچ ڈی کی ڈگریوں کہیں شاعری، کہیں ا فسانہ طرازی، کہیں مصوری کی صورت میں اور کہیں ۔۔۔ماہنامہ ککو اسلام آباد اورفارمنگ ریوی لیوشن اسلام آباد۔۔۔جیسی بامقصد صحافت کے روپ میں۔

ماجد صدیقی

کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
یونہی نہ ہم بھی تمنّائے لعلِ نابِ کریں
کچھ اس طلب میں خسارے کا بھی حساب کریں
تنے بھی خیر سے زد میں اِسی ہوا کی ہیں
شکست شاخ سے اندازۂ عتاب کریں
لکھے ہیں شعر تو چھپوا کے بیچئے بھی انہیں
یہ کاروبار بھی اب خیر سے جناب کریں
بدل گیا ہے جو مفہوم ہی مروّت کا
تو کیوں نہ ایسی برائی سے اجتناب کریں
ٹھہر سکیں تو ٹھہر جائیں اب کہیں ماجدؔ
ہمِیں نہ پیروئِ جنبشِ حباب کریں
ماجد صدیقی

مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 101
یہ روز و شب مرے سر ہی عذاب سا کیا ہے
مرے خدا یہ مجھی پر عتاب سا کیا ہے
یہی متاع‘ یہی آرزو ہے دان ترا
یہ میری سطح پہ پھٹتا حباب سا کیا ہے
کہوں نہ کیوں ترے منہ پر جو مجھ پہ گزرے ہے
مجھے یہ باک سا تجھ سے حجاب سا کیا ہے
ہوئی نہ سیر کہیں بھی مری عمق نظری
مری نظر سے گزرتا یہ خواب سا کیا ہے
ملا ہے جو بھی رُتوں سے، پڑے گا لوٹانا
نمو طلب تھے تو اب سے پیچ و تاب سا کیا ہے
قرارِ جاں ہے تو ماجدؔ اُسے تلاش بھی کر
حصولِ یار سے یہ اجتناب سا کیا ہے
ماجد صدیقی

وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 100
یوں تو ہم اِس کے سبب دُنیا میں یکتا ٹھہرے
وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے
تو کہ تھا موسمِ گُل ہم سے کھنچا ہے کب کا
شاخ اُمید پہ اب کیا کوئی پتّا ٹھہرے
سایۂ ابر تھے یا موجِ ہوا تھے، کیا تھے
ہائے وہ لوگ کہ تھے ہم سے شناسا ٹھہرے
کچھ تو ہو گرد ہی بر دوشِ ہوا ہو چاہے
سر پہ مجھ دشت کے راہی کے بھی سایہ ٹھہرے
پھُول باوصفِ زباں حال نہ پوچھیں میرا
خامشی اِن کی بھی تیرا نہ اشارہ ٹھہرے
نہ ہر اک سمت بڑھا دستِ تمنا ماجدؔ
یہ بھی آخر کو گدائی کا نہ کاسا ٹھہرے
ماجد صدیقی

نظر میں جو بھی ہو منظر نشے میں چُور ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 99
ہر ایک لمحۂ بے کیف کو سُرور ملے
نظر میں جو بھی ہو منظر نشے میں چُور ملے
کہیں تو کس سے کہ تھوتھا چنا گھنا باجے
ہمیں تو اپنے بھی دل میں یہی فُتور ملے
طلب کو چاہئے آخر فراخئِ دل بھی
یہ منہ رہا تو نہ کھانے کو پھر مسُور ملے
شعُور ہو تو پسِ شاخ، برگ و گُل ہیں بہت
ہر ایک سنگ میں دیکھو تو عکسِ طور ملے
ماجد صدیقی

اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 98
ہو جائے گا کچھ اور ہرا زخم، نظر کا
اچھا ہے نہ پوچھو ابھی احوال سفر کا
مجھ کو بھی تمازت کی جو پہچان ہوئی ہے
احساں ہے تری راہ کے اک ایک شجر کا
لمحے مجھے صدیاں ہیں، برس ثانیے تجھ کو
کہتے ہیں یہی فرق ہے اندازِ نظر کا
سنتا ہوں تہہِ خاک سے غنچوں کی چٹک بھی
آتا ہے نظر عکس جو قطرے میں گہر کا
شامل ہوئی کس شب کی سیاہی مرے خوں میں
آتا ہی نہیں لب پہ کبھی نام سحر کا
ماجد کہیں اس شہر میں ٹھکرائے نہ جاؤ
تحفہ لئے پھرتے ہو کہاں دیدۂ تر کا
ماجد صدیقی

سحر نما ہے مجھے جو بھی کچھ کہا ہے مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
ہر ایک حرفِ غزل حرفِ مدّعا ہے مرا
سحر نما ہے مجھے جو بھی کچھ کہا ہے مرا
جو بعدِ قتل مرے، خوش ہے تُو، تو کیا کہنے
ترے لبوں کا تبسّم ہی خوں بہا ہے مرا
مرے سوال سے تیرا بھرم نہ کُھل جائے
ترے حضور بھی اب ہاتھ تو اُٹھا ہے مرا
بھلائی جب مرے ہاتھوں نہیں مرے حق میں
کہو گے جو بھی اُسی بات میں برا ہے مرا
کہیں تو خاک بسر ہوں،کہیں ہوں ماہ بدست
بڑا عجیب طلب کا یہ سلسلہ ہے مرا
ماجد صدیقی

کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 96
ہوا وہ جبر دبانے کو مدعّا اب کے
کشیدِ اشک ہے آنکھوں سے جابجا اب کے
وہ کیسا حبس تھا مہریں لبوں پہ تھیں جس سے
یہ کیسا شور ہے در در سے جو اُٹھا ہے اب کے
دَہن دَہن کی کماں اِس طرح تنی نہ کبھی،
بچا نہ تیر کوئی جو نہیں چلا اَب کے
شجر کے ہاتھ سے سایہ تلک کھسکنے لگا
وہ سنگ بارئِ طفلاں کی ہے فضا اب کے
خلاف ظلم سبھی کاوشیں بجا لیکن
سرِ غرور تو کچھ اور بھی اُٹھا اب کے
کوئی یہ وقت سے پوچھے کہ آخرش کیونکر
ہے آبِ نیل تلک بھی رُکا کھڑا اب کے
لبوں پہ خوف سے اِک تھرتھری سی ہے ماجدؔ
دبک گیا ہے کہیں کلمۂ دُعا اَب کے
ماجد صدیقی

کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
ہیں لب کشا بھی مگر جیسے کچھ کہا ہی نہیں
کسی پہ راز ہمارا ابھی کھُلا ہی نہیں
بھنور بھی جھاگ سی بس سطحِ آب پر لایا
جو تہہ میں ہے وُہ ابھی تک اُبھر سکا ہی نہیں
ہمیں جو ہوش میں لائے تو زلزلہ ہی کوئی
وہ بے حسی کا نشہ ہے کہ ٹوٹتا ہی نہیں
یہ کیسا عام ہے اعلانِ صحتِ یاراں
ہمیں جو روگ تھا وہ تو ابھی گیا ہی نہیں
شکستِ دل بھی شکستِ حباب تھی جیسے
فضائے دہر میں اُٹھی کوئی صدا ہی نہیں
کسی پہ حال ہمارا عیاں ہو کیا ماجدؔ
کھُلا کسی پہ کبھی حرفِ مدّعا ہی نہیں
ماجد صدیقی

دام کے زیرِ قدم ہونے کا اندازہ نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 94
وار تو حالات نے جو بھی کیا تازہ نہ تھا
دام کے زیرِ قدم ہونے کا اندازہ نہ تھا
کچھ نہ کچھِاس میں کرشمہ ناز کا بھی تھا ضرور
منہ کی کھانا خام فکری ہی کا خمیازہ نہ تھا
چہرہ چہرہ عکس سا سمجھا گیا جو پیار کا
وہ تمازت تھی اُبلتے خون کی غازہ نہ تھا
آ گئے ہوتے مثالِ خس نہ یوں گرداب میں
سیل جو اب کے اُٹھا اُس کا کچھ آوازہ نہ تھا
پل میں جو ماجدؔ بدل کر دھجّیوں میں رہ گئی
اُس کتابِ فکر کا ایسا تو شیرازہ نہ تھا
ماجد صدیقی

لپک کے موج کناروں کو جیسے چھُو آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
وُہ حسن پاس مرے یوں پئے نمو آئے
لپک کے موج کناروں کو جیسے چھُو آئے
درِ سکون پہ جوں قرض خواہ کی دستک
کبھی جو آئے تو یوں دل میں آرزو آئے
نہیں ضرور کہ الفاظ دل کا ساتھ بھی دیں
یہ ذائقہ تو سخن میں کبھو کبھو آئے
نہیں ہے اہل ترے، میری خانہ ویرانی
خدا کرے مرے گھرمیں کبھی نہ تو آئے
بھنور میں جیسے ہم آئے مثالِ خس ماجدؔ
کوئی نہ یوں کسی آفت کے روبرُو آئے
ماجد صدیقی

بنی ہے تتلی مری خواہشوں کے پھولوں کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 92
وہی کہ جس کی مجھے جستجو تھی برسوں کی
بنی ہے تتلی مری خواہشوں کے پھولوں کی
سفر میں گرچہ دُعائیں بھی کچھ تھیں شاملِ حال
نگاہِ بد بھی ہمِیں پر لگی تھی لوگوں کی
بھگوئے رکھتے ہیں یوں ریگِ آرزو ہم بھی
کہ جیسے شغل ہی تعمیر ہو گھروندوں کی
پڑاؤ ہو تو کہیں ہم بھی تازہ دم ہو لیں
ہُوا لباس ہی جیسے یہ گرد رستوں کی
ملے گا اب کسی طوفاں کے بعد ٹھہراؤ
بہت دنوں سے مکّدر فضا ہے شہروں کی
کچھ ایسے رُک سا گیا عہدِ بے بسی جیسے
جمی ہے لمحوں کے چہروں پہ گرد صدیوں کی
بیان کیا ہو کہ ماجدؔ جھلک تھی کیا اس کی
وہ تازگی تھی کہ کھیتی ہو جیسے سرسوں کی
ماجد صدیقی

جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 91
نِت یکجا ہوتا ہوں، روز بکھرتا ہوں
جانے کس کے جبر کا چرچا کرتا ہوں
استعمال سے اِن کے پھل بھی پاتا ہوں
میں جھولی میں پہلے کنکر بھرتا ہوں
سچ بھی جیسے اک ناجائز بچّہ ہے
میں جس کے اظہار سے ابتک ڈرتا ہوں
دہ چندا ہو ابر ہو یا ہو موجۂ مے
جو دم توڑے ساتھ اُسی کے مرتا ہوں
سوچُوں تو اک یہ صورت بھی ہے میری
میں سورج کے ساتھ بھی روز ابھرتا ہوں
باہم شکل بدلتے تخم و شجر سا میں
ہر پچیس برس کے بعد نکھرتا ہوں
دیکھ تو لُوں ماجدؔ ہے مقابل کون مرے
جور و جفا کی تہمت کس پر دھرتا ہوں
ماجد صدیقی

پہچان موسموں کے دئیے پیرہن سے ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
نسبت شجر شجر کو اگرچہ چمن سے ہے
پہچان موسموں کے دئیے پیرہن سے ہے
پہلو میں میرے جس کی طراوت ہے موج موج
یہ لب شگفتگی اُسی تازہ بدن سے ہے
ہر آن اشک اشک جھلکتی رہی تھی جو
دبکی ہوئی وہ آگ بھڑکنے کو تن سے ہے
کھٹکا ہی کیا بھنور کا، گُہرجُو ہوئے تو پھر
اب نت کا واسطہ اِسی رنج و محن سے ہے
تیرا رقیب ہو تو کوئی بس اِسی سے ہو
ماجدؔ تجھے جو ربط نگارِ سخن سے ہے
ماجد صدیقی

گرفت کون سے لمحے پہ اپنی جتلائیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
نفس نفس ہے رہینِ الم کدھر جائیں
گرفت کون سے لمحے پہ اپنی جتلائیں
ہمیں ملی ہیں یہ کیا کامرانیاں اب کے
کہ جن کا ذکر بھی چھیڑیں تو خود ہی شرمائیں
جب اپنے نام کی سب چاہتیں دلائیں اُنہیں
تو غیر مات پہ کیونکر نہ اپنی اِترائیں
جو فرق عکسِ شباہت میں ہے انہی سے ہے
بہ ضربِ طیش اِنہی آئنوں کو چٹخائیں
وہی بعجز و ندامت ہیں نسبتیں جس کی
چلو کہ طوق وہی پھر گلے میں لٹکائیں
جو وُوں نہیں تو یہ اعزاز یوں بھی ممکن ہے
حماقتوں کے عَلَم شہر شہر لہرائیں
کسی بھی حرف کی ماجدؔ نہیں جو شنوائی
تو پھر یہ ہاتھ دُعا کے ہی کیوں نہ کٹ جائیں
ماجد صدیقی

گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
نظر نظر ہے مرادوں کی جستجو میں ابھی
گھرے ہیں لوگ طلسماتِ آرزو میں ابھی
وہ بات جس کو جھلکنا تھا ہر جبیں سے یہاں
رکی ہے پھانس سی بن کر گلو گلو میں ابھی
ابھی لبوں پہ کہاں حرفِ مدّعا کے نشاں
دبی ہے اصل صدا دل کی ہاؤ ہُو میں ابھی
عجب نہیں کوئی بادل اسی پہ گھر آئے
نمی سی ہے جو یہ اک ریگِ آبجو میں ابھی
کبھی جو تجھ پہ زبان و نگاہ سے نہ کھلی
مچل رہی ہے شرارت وہی لہو میں ابھی
دل و نظر ہی پہ کچھ بس نہیں ہے لطفِ بہار
تہیں بہت ہیں پلٹنے کو رنگ و بو میں ابھی
کتابِ زیست مکمل ہو، جانے کب ماجدؔ
ہے انتشار سا اوراقِ آبرو میں ابھی
ماجد صدیقی

بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
نہ باز آئے یہ لُو اور نہ تن سے جاں نکلے
بجائے زمزمہ بیرونِ لب زباں نکلے
ہمیں بہار کے ہونٹوں کی نرمیوں کے امیں
ہمیں وہ برگ کہ پیغمبرِ خزاں نکلے
جہاں گلاب سخن کے سجائے تھے ہم نے
شرر بھی کچھ اُنہی حرفوں کے درمیان نکلے
زخستگی لبِ اظہار کا تو ذکر ہی کیا
کشش سے جیسے قلم کی بھی اب دھواں نکلے
ہمارا حال جبیں سے ہی جاننا اچھا
زباں سے کیا کوئی اب کلمۂ گراں نکلے
حضورِ یار ہیں وہ جاں سپار ہم ماجدؔ
ہو حکمِ قتل بھی اپنا تو منہ سے ہاں نکلے
ماجد صدیقی

کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 86
نسبت وہ سخن سے ہو اِک نطق رواں ٹھہروں
کچھ کہہ نہ سکے جو بھی میں اُس کی زباں ٹھہروں
ایسا بھی کوئی منظر دکھلائیں تو دُنیا کو
تو گل بکنارِ جو، میں آبِ رواں ٹھہروں
اتنی تو مجھے آخر، اظہار کی فرصت دے
تو راز ہو سربستہ، میں تیرا بیاں ٹھہروں
ہر دم‘ دمِ عیسٰی ہے اپنا بھی، جو پہچانوں
ہوں عہد نئے پیدا، پل بھر کو جہاں ٹھہروں
یہ شہر تو اب جیسے اک شہرِ خموشاں ہے
کس در سے گزر جاؤں، ٹھہروں تو کہاں ٹھہروں
صورت مرے جینے کی ماجدؔ ہو صبا جیسی
نس نس میں گُلوں کی مَیں، اُتری ہوئی جاں ٹھہروں
ماجد صدیقی

بھلا لگتا ہے کیوں ہر حادثے سے بے خبر ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
نہیں اچّھا فنا کا اِس قدر بھی دل میں ڈر ہونا
بھلا لگتا ہے کیوں ہر حادثے سے بے خبر ہونا
سرِ راہ کے شجر تھے سنگباری ہم پہ لازم تھی
نہفتہ کس طرح رہتا ہمارا باثمر ہونا
بنامِ تازگی تاراج کیا کیا کچھ نہ کر ڈالا،
کسے حاصل ہے مانندِ ہوا یوں باہنر ہونا
سراغِ راہِ منزل تو کبھی کا ہم لگا لیتے
لئے بیٹھا ہے اپنے ہمرہوں کا کم نظر ہونا
دُھلی نظروں سے اُس کی دید ہم پر فرض تھی گویا
پسند آیا اِسی خاطر ہمیں با چشمِ تر ہونا
پسِ خوشبو بھی مرگِ گل کا منظر دیکھتے ہیں ہم
بہت مہنگا پڑا ماجدؔ ہمیں اہلِ نظر ہونا
ماجد صدیقی

نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
نگاہ ہم پہ جو وہ گاہ گاہ کرتے رہے
نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے
تھے اُن کے ناز نظر میں، نیاز تھے اپنے
بیاں حکایتِ محتاج و شاہ کرتے رہے
بھٹکنے دی نہ نگہ تک کسی کی پاس اپنے
یہی وہ جبر تھا جو اہلِ جاہ کرتے رہے
ہر ایک شب نے دئیے زخم جو ہمیں، اُن پر
ستارۂ سحری کو گواہ کرتے رہے
ہمیں سے پوچھئے اِس ربط میں مزے کیا ہیں
کہ رفعتوں سے ہمیں رسم و راہ کرتے رہے
چمن میں برق نے پھر کی ہے کوئی صنّاعی
ہوا کے ہونٹ جبھی واہ واہ کرتے رہے
کرم غیاب میں کچھ اُس سے تھا جُدا ماجدؔ
ہمارے سامنے جو خیر خواہ کرتے رہے
ماجد صدیقی

چَپک کے رہ گئے ہونٹوں سے سب سوال اپنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
نظر میں رنج ہے سہلا رہا ہوں گال اپنے
چَپک کے رہ گئے ہونٹوں سے سب سوال اپنے
اجُڑ گئے کسی بیوہ کے گیسوؤں کی طرح
وہ جن پہ ناز تھا، ہاں ہاں وہ ماہ و سال اپنے
ہوا کی کاٹ بھی دیکھ اور اپنی جان بھی دیکھ
جنوں کے مُرغ! نہ تو بال و پر پر نکال اپنے
اِدھر تو کاہِ نشیمن نہ چونچ تک پہنچا
اُٹھا کے دوش پہ نکلے اُدھر وہ جال اپنے
اُڑان ہی سے تھے فیضان سارے وابستہ
پروں کے ساتھ سمٹتے گئے کمال اپنے
دبا نہ اور ابھی تُو گلوئے ہم جِنساں
یہ سارے بوجھ خلاؤں میں اب اُچھال اپنے
بہ شاخِ نطق ہیں پہرے اگر یہی ماجدؔ
کوئی خیال نہ لفظوں میں تو بھی ڈھال اپنے
ماجد صدیقی

وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
نہ پُوچھ مجُھ سے بھَلا میں کہاں سُنورتا ہُوں
وُہ آئنہ ہوں کہ جُڑ جُڑ کے نِت بکھرتا ہُوں
نظر ملے تو کبھی سُوئے اوج بھی دیکھوں
میں کور چشم نشیبوں میں ہی اُترتا ہُوں
بہ ایں بساط روانی کہاں مرے بس میں
کنارِ آب فقط جھاگ سا اُبھرتا ہُوں
ہوائے زرد وہیں مجھ کو آن لیتی ہے
رُتوں کے لُطف سے جَب بھی کبھی نکھرتا ہُوں
جو فرق فہم میں اپنے ہے اُس سے مُنکر ہُوں
نہ جانے تہمتیں کیوں دوسروں پہ دھرتا ہُوں
عجیب شخص ہُوں شہ رگ کٹے پہ بھی اکثر
بطرزِ خاص سرِ عام رقص کرتا ہُوں
لبوں پہ کرب اُمڈتا ہے اِس قدر ماجدؔ
چھپی رہے نہ وُہی بات جس سے ڈرتا ہوں
ماجد صدیقی

ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
نظر میں واہمے، دل میں خیال کیا کیا تھے
ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے
وُہ کرکے وار چلے تو غرور سے لیکن
قدم اُنہیں بھی اُٹھانے محال کیا کیا تھے
زمیں اجاڑ، فضا پُر شرر، فلک عریاں
پئے عذاب نظر کو وبال کیا کیا تھے
مہک ہماری لگی بھی تو ہاتھ صرصر کے
کسے جتائیں کہ اپنے کمال کیا کیا تھے
چٹک گلوں کی کہیں دُھول کا سکوت کہیں
رُتوں کے رنگ سجے ڈال ڈال کیا کیا تھے
بہ شکلِ خواب تھا امکانِ وصلِ یار سدا
عُروج کیا تھے ہمارے زوال کیا کیا تھے
رُتوں نے عہد سبھی محو کر دئیے، ورنہ
حروفِ ربط لکھے چھال چھال کیا کیا تھے
تھا ابتدا سے یہی حبس، ہے جو اَب ماجدؔ
نہ پوچھ مجھ سے مرے ماہ وسال کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 80
مجھ پر بنے گی گر نہ بنی اُس کی جان پر
بیٹھا ہوں میں بھی تاک لگائے مچان پر
حیراں ہوں کس ہوا کا دباؤ لبوں پہ ہے
کیسی گرہ یہ آ کے پڑی ہے زبان پر
کیا سوچ کر اُکھڑ سا گیا ہوں زمیں سے میں
اُڑتی پتنگ ہی تو گری ہے مکان پر
اُس سے کسے چمن میں توقع امان کی
رہتا ہے جس کا ہاتھ ہمیشہ کمان پر
شامل صدا میں وار کے پڑتے ہی جو ہُوا
چھینٹے اُسی لہو کے گئے آسمان پر
پنجوں میں اپنے چیختی چڑیا لئے عقاب
بیٹھا ہے کس سکون سے دیکھو چٹان پر
کیونکر لگا وہ مارِ سیہ معتبر مجھے
ماجدؔ خطا یہ مجھ سے ہوئی کس گمان پر
ماجد صدیقی

عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
مکتبِ تخلیقِ فن میں حال یہ اپنا ہوا
عہدِ طفلی سا بغل کے بیچ پھر بستہ ہوا
بہرِ ردِ عذر ہے بادِ خنک لایا ضرور
ابر کشتِ خشک تک پہنچا ہے پر برسا ہُوا
سرو سا اُس کا سراپا ہے الف اظہار کا
ہے جبینِ خامشی پر جو مری لکھا ہُوا
رنگ میں ڈوبا ہوا ہر دائرہ اُس جسم کا
پیرہن خوشبو کا ہے ہر شاخ نے پہنا ہوا
ہر نظر شاخِ سخن ہے پھول پتّوں سے لدی
ہے خمارِ آرزُو کچھ اِس طرح چھایا ہُوا
تجھ پہ بھی پڑنے کو ہے ماجدؔ نگاہِ انتخاب
ہے ترا ہر لفظ بھی اُس جسم سا ترشا ہُوا
ماجد صدیقی

بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
مثالِ برگِ خزاں اپنا ماجرا کہئیے
بنی ہے جان پہ جو کچھ بھی برملا کہئیے
بہ دامِ موج وُہ اُلجھا گیا ہے کیا کہئیے
نہنگ جانئیے اُس کو کہ ناخدا کہئیے
ہمارے دم سے سہی اَب تو سربلند ہے وُہ
اسے بھی عجز کا اپنے ہی اِک صلا کہئیے
جھڑی ہے دُھول شجر سے اگر بجائے ثمر
تو کیوں نہ وقت کی اِس کو بھی اِک عطا کہئیے
زباں کے زخم پُرانے یہی سُجھاتے ہیں
کہ اب کسی سے بھی دل کا نہ مدّعا کہئیے
بہ شاخِ نطق یہ بے بال و پر پرندے ہیں
نہ شعر کہئیے اِنہیں حرفِ نارسا کہئیے
نگاہ رکھئے زمینِ چمن پہ بھی ماجدؔ
خزاں کو محض نہ آوردۂ صبا کہئیے
ماجد صدیقی

بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
لہُو کے ساتھ رگوں میں بھی سر سرانے لگا
بڑے قریب سے وہ شخص یاد آنے لگا
عجیب سادہ و معصوم و دلنواز تھا وُہ
کہ ساتھ کھِلتے شگوفوں کے یاد آنے لگا
یہ اُس کی یاد ہے دل میں کہ واہمہ ہے کوئی
اُجاڑ گھر میں دیا سا ہے جھلملانے لگا
بغیرِ مُزد ملا اور پھر گیا بھی یونہی
گہر وہ ہاتھ مرے جانے کس بہانے لگا
اجاڑ پن سے ٹھٹک کر گیا تو پھر کیسے
غزال دشت میں دل کے مرے وہ آنے لگا
مجھے بھی کام ہے درپیش اب اُسی جیسا
وہی نہیں ہے مجھے جی سے کچھ بھُلانے کا
بچھڑ بھی جاؤں اُسے یاد بھی رہوں ماجدؔ
یہ سارے ناز مرے وہ کہاں اُٹھانے لگا
ماجد صدیقی

جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
لطفِ باہم سے ہوئے وصل میں سرشار بہت
جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت
شخص و ناشخص کی پُرسش کا نشانہ ٹھہرے
ہم کہ کرتے رہے ہر درد کا پرچار بہت
خاک سے مہرِ سرِ حشر کرے ہے پیدا
آج کے دَور کا انسان ہے بیدار بہت
آخر اُس کو بھی ہمیں سی ہے تُفِ گرد ملی،
تھے بہم شاخِ شگفتہ کو بھی شہکار بہت
کھول کر رکھ گئی ہر راز، شد و بودِ حباب
ہم کو تسلیمِ حقیقت سے تھا انکار بہت
ہے کہاں رفعتِ فن، شرطِ ستائش ماجدؔ
وہی فنکار ہے جس کے ہیں طرفدار بہت
ماجد صدیقی

اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملول میاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
گلشن گلشن گرد برستی کرنی پڑی قبول میاں
اب کے پت جھڑ ایسی آئی ہم بھی ہوئے ملول میاں
کیوں اُس بات کے کھوجی ٹھہرے تم میری رسوائی کو
میں جو بات چھپانا چاہوں بات کو دے کر طول میاں
کام کی بات تلاش کرو تو ریت میں سونے جیسی ہے
کہنے کو لوگوں نے کہا ہے کیا کیا کچھ نہ فضول میاں
ہم جوگی۔ ہم روگی خود ہی اپنے روگ مٹا لیں گے
جان کے درد ہمارے تم کیوں ہونے لگے ملول میاں
میں شہروں کا قیس ہوں میرے گلشن بھی ہیں صحرا سے
ذہنوں سی زرخیز زمیں میں دیکھوں اُگے ببول میاں
ماجدؔ کیسے ہاتھ لگا ہے میرؔ سا یہ اندازِ سخن
سوچی ہیں یا اِن باتوں کا دل پر ہوا نزول میاں
ماجد صدیقی

روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
گھِر گئی ہے رُوح اپنی جانے کس گرداب میں
روز اک تازہ تلاطم ہے مرے اعصاب میں
یاس کی خشکی، نمِ اُمید کی بہتات سے
ایک کائی سی جمی ہے دیدۂ بے خواب میں
میں کہ تنہائی میں تھا بے در حویلی کی طرح
بند کمرہ سا بنا بیٹھا ہوں اب احباب میں
دل کہ باغی لہر تھا اب پیرہن ذرّوں کا ہے
ڈھل گیا ہے یہ بھی آخر زیست کے آداب میں
اُکھڑے حرفوں کی کتابِ زیست کے اوراق پر
چیونٹیاں سی کسمساتی ہیں سکوں کے باب میں
کچھ ہَوا یا دھوپ ہی ماجدؔ مرے درپے نہ تھی
جانے کیا کچھ اور بربادی کے تھا اسباب میں
ماجد صدیقی

سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
گرد ہی گرد پیرہن ہے مرا
سارا پیکر اُجاڑ بن ہے مرا
پیرہن میں یہیں بہاروں کا
اور عریاں یہیں بدن ہے مرا
شاخِ پیوستۂ شجر ہوں ابھی
سارے موسم مرے، چمن ہے مرا
وار سہہ کر خموش ہوں ماجدؔ
ہاں یہی تو جیالا پن ہے مرا
ماجد صدیقی

پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
گئی جو چھوڑ کبھی شاخ پر سجا کے مجھے
پڑے ہیں منہ پہ تھپیڑے اُسی ہوا کے مجھے
ہُوا ہے جو بھی خلافِ گماں ہُوا اُن کے
بہت خفیف ہوئے ہیں وہ آزما کے مجھے
ہے میرے ظرف سے منصف مرا مگر خائف
مزاج پوچھ رہا ہے سزا سُنا کے مجھے
ابھی ہیں باعثِ ردِّ تپّش یہی بادل
بہم جو سائے بزرگوں کی ہیں دُعا کے مجھے
سُنا یہ ہے رہِ اظہارِ حق میں دار بھی ہے
چلے ہیں آپ یہ کس راہ پر لگا کے مجھے
زمیں کے وار تو اک ایک سہہ لئے میں نے
فلک سے ہی کہیں اب پھینکئے اُٹھا کے مجھے
سرِ جہاں ہوں وہ بیگانۂ سکوں ماجدؔ
پڑے ہیں جھانکنے گوشے سبھی خلا کے مجھے
ماجد صدیقی

جس کے کندھوں پر ابھی تک بوجھ ہے اجداد کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
کیا ادا کر پائے گا وہ شخص حق اولاد کا
جس کے کندھوں پر ابھی تک بوجھ ہے اجداد کا
جاں سے جانے میں تو کچھ ایسی کسر باقی نہ تھی
اتفاقاً وار ہی اوچھا پڑا صّیاد کا
لٹ چکی شاخوں کے زیور اُن کو لوٹائے گا کون
لاکھ اب مونس سہی موسم یہ ابر و باد کا
رتبۂ پیغمبری سے ہو تو ہو اِس کا علاج
ورنہ مشکل ہے سِدھانا پیٹ سے شدّاد کا
آج کی اِک پل بھی کر لو گے جو پابندِ قلم
مرتبہ پاؤ گے ماجدؔ مانی و بہزادؔ کا
ماجد صدیقی

دل و جاں پہ کوئی تو وار ہو ترے شہر کے در و بام سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
کوئی تیر چھوٹے کمان سے کوئی تیغ نکلے نیام سے
دل و جاں پہ کوئی تو وار ہو ترے شہر کے در و بام سے
بکمال شوخی و شر جسے مرے واسطے تھا بُنا گیا
میں نکل کے پھر مرے قاتلو! ہُوں کھڑا ہُوا اُسی دام سے
مرے آشناؤں کو دیکھئے ذرا چھیڑ کر مرے بعد بھی
پس و پیش میرے، دلوں میں ہیں بڑے وسوسے مرے نام سے
ہے رقم بہ فتح و ظفر ازل سے ورق ورق مرے دوش کا
نہ اُتار پاؤ گے یہ نشہ جسے نسبتیں ہیں دوام سے
ہے عزیز اپنی متاعِ جاں تو نہ ٹھہرئیے مرے سامنے
کہ ہوا کے رخش کو روکنے پہ تُلے ہیں آپ لگام سے
ماجد صدیقی

دیا ہے بادِصبا نے مزہ خمار آسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
کرن کرن ہے سحر کی نگاہِ یار آسا
دیا ہے بادِصبا نے مزہ خمار آسا
بہ نطق و فکر ہے وہ لطفِ تازگی پیدا
نفس نفس ہے مرا اِن دنوں بہار آسا
مرے وجود سے پھوٹی وہ خَیر کی خوشبو
کہ چبھ رہا ہوں دلِ شیطنت میں خار آسا
وہ ابر ہوں کہ کھڑا ہوں تُلا برسنے کو
ہر ایک درد ہے اب سامنے غبار آسا
میں اس میں اور وہ مجھ میں ہے جسکا سودا تھا
نہیں ہے روگ کوئی دل کو انتظار آسا
سخن سے طے یہی نسبت ہے اب تری ماجدؔ
کہ ہو گیا تجھے موزوں گلے میں ہار آسا
ماجد صدیقی

کہ تھی زمینِ تمنّا ہی اپنی بارانی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
کبھی تھا قحط تو درپے کبھی تھی طغیانی
کہ تھی زمینِ تمنّا ہی اپنی بارانی
میں آج رات بھی بے آشیاں گزاروں گا
ہے لاعلاج چمن میں مری تن آسانی
کھلے دروں وہ بصد لطف رات بھر سویا
جسے سپرد مرے گھر کی تھی نگہبانی
بہائے کاوشِ اسلاف کو بھی لے ڈوبی
بہ عہد نو مرے ناموس کی یہ ارزانی
جو مر چکے ہیں قصیدے لبوں پہ اُن کے ہیں
مرے سپرد ہے زندوں کی مرثیہ خوانی
غضب کہ رن میں جو آنکھیں نہ چار کرتے تھے
وہ بھیجتے ہیں مجھے تحفہ ہائے نسوانی
کسی سے کلمۂ تحسیں تو کیا ملے ماجدؔ
ہے تہمتوں کی مرے نام پر فراوانی
ماجد صدیقی

کوئی ہنر، کوئی داؤ کہ سادہ دِل ہوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
کوئی فریب سکھاؤ کہ سادہ دِل ہوں میں
کوئی ہنر، کوئی داؤ کہ سادہ دِل ہوں میں
یہ تہمتیں تو مرے روگ کا علاج نہیں
مجھے نہ مجھ سے ڈراؤ کہ سادہ دل ہوں میں
تمہیں بھی لوگ کھلونا سمجھ نہ لیں آخر
مرے قریب نہ آؤ کہ سادہ دل ہوں میں
تمہاری آنکھ بھی بنجر نہ ہو کے رہ جائے
نظر نہ مجھ سے ملاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
ملاہے اوج اگر باتمام عجز تمہیں
یہ گُر مجھے بھی سکھاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
نہ اشکِ خون‘ نہ ہوں لعلِ ناب ہی ماجدؔ
کہیں تو مجھ کو سجاؤ کہ سادہ دل ہوں میں
ماجد صدیقی

فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
کس لئے غیروں کی کشتِ صید میں جھانکا کروں
فرطِ محرومی سے اپنے آپ کو رسوا کروں
ایک ننّھا ہے مرے جی میں بھی شوخ و شنگ سا
پا سکوں فرصت تو اُس کا حال بھی پوچھا کروں
محوِ خوابِ استراحت شہر کا والی رہے
رات بھر اندیشۂ دُزداں سے میں کھانسا کروں
ذوق پابند وسائل ہے جو اتنا ہی تو پھر
کیوں نہ چھلکے بھی پھلوں کے ساتھ اب کھایا کروں
حیف ہے اُس شوخ کی موجودگی میں بھی اگر
خشکئِ آب و ہوائے دہر کا شکوہ کروں
گُل کھلا دیکھوں کوئی ماجد تو جُوں بادِ سحر
کیوں نہ سارے گلستان میں اُس کا میں چرچا کروں
ماجد صدیقی

آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
کھُلتے ہوئے لگتے ہیں دریچے جو نظر کے
آثار قرائن سے ہویدا ہیں سحر کے
صُورت کوئی صّیاد نے چھوڑی ہی نہ باقی
میں سوچ رہا تھا ابھی امکان مفر کے
ہاں بھیک بھی پاؤگے تو ٹھوکر بھی کہیں سے
مصرف ہیں ابھی اور کئی کاسۂ سر کے
پھل ضربِ سرِ پا سے گرے صُورتِ باراں
اُترا تو مرے حصے میں پتّے تھے شجر کے
پہنچیں گے تہِ دام جو نکلے ہیں گُرِسنہ
منزل کا پتہ دیتے ہیں انداز سفر کے
کنکر وہ گرائے ہیں ابابیلِ جنوں نے
عاجز ہوئے انبوہ سبھی اہلِ خبر کے
کچھ دیکھ تو لینا تھا یہ کس شہر میں ماجدؔ
خالق ہُوئے تم شعر و سخن ایسے ہُنر کے
ماجد صدیقی

سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
کاش در آتا ہمیں ایسا بھی اِک لمحہ کوئی
سامنے اپنے ٹھہرتا دلربا نقشہ کوئی
ایک مدّت سے یہی نسبت ہے فرشِ خاک سے
ڈولتا جس طرح سطحِ آب پر تختہ کوئی
چاہتوں سے یہ روایت بھی کبھی کی چھن چکی
بام پر بیٹھا نہیں کرتا ہے اب کّوا کوئی
زندگی کر دے گی پیدا پھر کوئی رستے کا سانپ
سامنے آیا بھی اِس لُڈّو کا گر زینہ کوئی
ہو کے رہ جاتا ہوں کیوں غرقِ تہِ پاتال میں
جب کبھی جھڑتا ہے نکھری شاخ سے پتّا کوئی
ہم ہیں اور ماجدؔ تمّنا کا طلسمی غار ہے
ظاہراً باہر نکلنے کا نہیں رستہ کوئی
ماجد صدیقی

طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
کلی کلی کو لپک جس کے بانکپن کی ہے
طلب ہمیں بھی اُسی شوخ گلبدن کی ہے
ہزار بھنوروں سا اُس کا کریں احاطہ ہم
بدن میں اُس کے بھی خُو بُو بھرے چمن کی ہے
مقامِ شکر ہے وجدان مطمئن ہے مرا
یہی بہا، یہی قیمت مرے سخن کی ہے
ہر اک نظر پہ عیاں ہو بقدرِ حَظ طلبی
تمہیں یہ قید سی کاہے کو پیرہن کی ہے
کھُلی ہے دعوتِ نظارۂِ جمال یہاں
زباں دراز قباؤں کی ہر شکن کی ہے
ترا سلوک تو ماجدؔ بجا ہے جو کُچھ ہے
اُسے بھی جانچ کہ نیّت جو انجمن کی ہے
ماجد صدیقی

تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
قفس دیکھئے بال و پر دیکھئے
تماشا ہے اک عمر بھر دیکھئے
ذرا میری صورت تو پہچانیۓ
ذرا میرے دیوار و در دیکھئے
اُدھر دیکھئے اُن کے جور و ستم
اِدھر آپ میرا جگر دیکھئے
جو مدّت سے ماجدؔ مرے دل میں ہے
وہی خامشی در بہ در دیکھئے
ماجد صدیقی

برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
فلک پہ چھائے ہوئے بکھرے بادلوں جیسا
برس برس ہے مرے تن پہ چیتھڑوں جیسا
نہ ہوں گے محو کبھی ذہن سے مرے اجداد
گئے ہیں چھوڑ یہ ورثہ جو رتجگوں جیسا
اُسی کلامِ منّور کی جستجُو ہے ہمیں
ضیا میں جس کی تحرّک ہو جگنوؤں جیسا
یہ تم ہنسے ہو کہ گردش میں ہے لہو اپنا
اٹھا کہاں سے چھناکا یہ پائلوں جیسا
یہ کیوں تمہارا تعاقب ہی ہر نگاہ کو ہے
برس لگا ہے یہ کیا تازہ موسموں جیسا
جگا رہاہے نگاہوں میں ذائقے کیا کیا
بدن تمہارا کہ ہے رس بھرے پھلوں جیسا
بجاکہ ایک تُنک خو ہو تُم ہزاروں میں
ملا ہے ظرف ہمیں بھی سمندروں جیسا
کچھ ایسی چاہ ہمیں ہی نہیں ہے بھنوروں سی
بدن ملا ہے تمہیں بھی تو گلشنوں جیسا
نہ سست رو کبھی دیکھا ترا قلم ماجدؔ
اِسے دیا ہے یہ رَم کس نے آہوؤں جیسا
ماجد صدیقی

گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
فضائے تار میں تنہا نفس سفر کرتے
گزر رہی ہے اِسی رات کی سحر کرتے
ہے اختلافِ نظر وجہِ خاموشی، ورنہ
ہم اُس کے پیار کا چرچا نگر نگر کرتے
یہ بات قرب کے منصب پہ منحصر تھی ترے
بچا کے رکھتے کہ دامن کو ہم بھی تر کرتے
درِ قفس پہ رُتیں دستکیں تو دیتی رہیں
ہُوا نہ ہم سے کہ ہم فکرِ بال و پر کرتے
جو تو نہیں تھا تو جل جل کے خود ہی بجھتے رہے
ہم اور نذر کسے شعلۂ نظر کرتے
تری نظر کا اشارہ نہ مل سکا، ورنہ
وہ اوج کون سا تھا ہم جسے نہ سر کرتے
ابھی تلک تو نہ مخدوم ہم ہوئے ماجدؔ
اگرچہ عُمر ہوئی خدمتِ ہنر کرتے
ماجد صدیقی

میں سخت اُداس ہو چلا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
فرہاد کی آس ہو چلا ہوں
میں سخت اُداس ہو چلا ہوں
ہجرت پہ گئے ہوں جس کے باسی
اُس صحن کی گھاس ہو چلا ہوں
جس کی نہ اُٹھے کبھی عمارت
اُس گھر کی اساس ہو چلا ہوں
شاخوں سے جھڑے ہوئے گُلوں کی
بکھری ہوئی باس ہو چلا ہوں
ٹانکے کوئی مجھ کو بادلوں میں
میں دشت کی پیاس ہو چلا ہوں
ماجدؔ مجھے جانے کیا ہوا ہے
برحق تھا قیاس ہو چلا ہوں
ماجد صدیقی

اور کبھی بندِ قبا دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
غنچہ پس شاخ کھِلا دیکھنا
اور کبھی بندِ قبا دیکھنا
دیکھنا اُس کو ذرا محوِ کلام
اوج پہ ہے رقصِ صبا دیکھنا
پھر یہ کہاں لطفِ ہجومِ نگاہ
ہو کے ذرا اور خفا دیکھنا
چھیننا مجھ سے نہ یہ آب بقا
دیکھنا ہاں نامِ خدا دیکھنا
دل کہ ترے لطف سے آباد تھا
شہرِ تمّنا یہ لُٹا دیکھنا
خار ہیں اب جس پہ اُسی راہ پر
فرش گلوں کا بھی بچھا دیکھنا
چاہئے ماجدؔ سرِ شاخِ نظر
روز نیا پھول کھِلا دیکھنا
ماجد صدیقی

کورے ورق پہ کچھ تو لکھا جانا چاہئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
شیشے پہ دل کے بال کوئی آنا چاہئے
کورے ورق پہ کچھ تو لکھا جانا چاہئے
پتّھر کی اوٹ ہو کہ شجر کی پناہ ہو
سایہ ملے تو اب کہیں سستانا چاہئے
پیوست جس سے ہے وہ شجر سبز ہے تو پھر
چلتی ہوا میں شاخ کو لہرانا چاہئے
فریاد سے نہ باز رہے گا یہ دل اِسے
دے کر کوئی فریب ہی بہلانا چاہئے
وہ مہرباں تھا ہم پہ مگر کتنی دیر کو
پہلی کے چاند سے اُسے سمجھانا چاہئے
ماجدؔ شبابِ فن ہے تو سطحِ خیال پر
از خود ہی حرف حرف اُبھر آنا چاہئے
ماجد صدیقی

داغِ برہنگی یہ اُسی نے دیا نہ ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
شاخ و شجر سے ابرِ کرم ہی خفا نہ ہو
داغِ برہنگی یہ اُسی نے دیا نہ ہو
ہاں ہاں فتُور یہ بھی مرے عجز کا نہ ہو
سائل ہوں جس کا خود کو سمجھتا خدا نہ ہو
موجِ صبا ہی ہو نہ کہیں در پے فساد
پتّوں کے درمیاں وہی شورش بپا نہ ہو
یہ تھر تھری سی کیوں ہے ابھی روئے آب پر
ڈوبا ہے جو اُسی کی پریشاں صدا نہ ہو
جس میں ہوئی تھیں میری تمنّائیں جاگزیں
بُغضِ ہوا سے پھر وہی خیمہ اُڑا نہ ہو
یارانِ ہم بساط سے بے زار تھا بہت
ماجدؔ بساطِ شوق اُلٹ ہی گیا نہ ہو
ماجد صدیقی

سجدۂ بے بسی ادا کیجے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
شاخ سے ایک اِک جھڑا کیجے
سجدۂ بے بسی ادا کیجے
دستِ گلچین و برق و ابر و ہوا
کس سے بچئے کسے خدا کیجے
زخم بن جائے جو سماعت کا
بات ایسی نہ تم کیا کیجے
اُس کو حرفوں میں ڈھالنے کے لئے
انگلیوں میں قلم لیا کیجے
خواہشِ اَوج کی سزا ہے یہی
ہوکے شعلہ بہ سر بُجھا کیجے
کُیوں دُکھے دل دُکھائیے ماجدؔ
چُپ نہ رہئے تو اور کیا کیجے
کیجے کو’’کی جے‘‘ پڑھا جائے
ماجد صدیقی

چُپ چاپ تھے جانے کیوں شجر بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
سہمے تھے چمن کے نغمہ گر بھی
چُپ چاپ تھے جانے کیوں شجر بھی
محرومِ ہوائے گل رہے ہم
ہر چند کھُلے تھے اپنے در بھی
انجام سے جیسے باخبر تھے
ٹھِٹکے رہے گُل بہ شاخِ تر بھی
ہے جاں پہ نظر سو وہ بھی لے لے
اے درد کی رو! کہیں ٹھہر بھی
کچھ کچھ ہمیں مانتے ہیں اب کے
اِس مُلکِ سخن کے تاجور بھی
اک صبر ذرا، وہ دیکھ ماجدؔ
کھُلتا ہے دریچۂ سحر بھی
ماجد صدیقی

ڈھل کے حرفوں میں، تری شاخِ نظر ایسا ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
جی میں آتا ہے کوئی مصرعۂ تر ایسا ہو
ڈھل کے حرفوں میں، تری شاخِ نظر ایسا ہو
مشغلہ ہو پسِ دیوار تری تاک ایسا
لُطف ہو جس میں تری دِید کا، ڈر ایسا ہو
میں حدوں سے نہ ترے حسن کی باہر نکلوں
زندگی بھر مجھے درپیش سفر ایسا ہو
قوس در قوس ترا جسم ہو پابندِ قلم
تو اُتر آئے لکیروں میں ہُنر ایسا ہو
چین سے ایک بھی پل رہنے نہ دے تیرا خیال
شوق دل میں ترا، مٹھی میں شرر ایسا ہو
جس کے پہلو سے اُبھرتے ترا چہرہ دیکھوں
کوئی دیوار ہو ایسی کوئی در ایسا ہو
جس کا سایہ ہو اِن آنکھوں کا مداوا ماجدؔ
اِس رہِ زیست میں کوئی تو شجر ایسا ہو
ماجد صدیقی

یہ ارتباط بھی آب و حباب جیسا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
سلوک مجھ سے ترا اجتناب جیسا ہے
یہ ارتباط بھی آب و حباب جیسا ہے
مرے لبوں پہ رواں ذکرِ التفات ترا
بدستِ صبح گُلِ آفتاب جیسا ہے
متاعِ زیست ہے پیوستگئِ باہم کا
یہ ایک لمحہ کہ کھلتے گلاب جیسا ہے
کھُلا یہ ہم پہ ترے جسم کے چمن سے ہے
کہ برگ برگ یہاں کا کتاب جیسا ہے
نکل ہوا میں کہ عالم کچھ اِن دنوں اس کا
مثالِ گفتۂ غالب شراب جیسا ہے
ہے جستجوئے خیابانِ تشنہ لب میں رواں
مرا یہ شوق کہ اُمڈے سحاب جیسا ہے
ہم اِس حیات کو محشر نہ کیوں کہیں ماجدؔ
سکونِ دل بھی جہاں اضطراب جیسا ہے
ماجد صدیقی

پھر وُہی اندھا کُنواں ہے اور ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
سر پہ لختِ آسماں ہے اور ہم
پھر وُہی اندھا کُنواں ہے اور ہم
ہَیں لبوں پر خامشی کی کائیاں
زنگ آلودہ زباں ہے اور ہم
دُھند میں لپٹی ہوئی بینائیاں
دَر بدَر اُٹھتا دُھواں ہے اور ہم
منہدم بُنیاد ہر ایقان کی
نرغۂ وہم و گماں ہے اور ہم
ہر سخن ماجدؔ یہاں بے آبُرو
بے اثر طرز فغاں ہے اور ہم
ماجد صدیقی

زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
رنج ہے تجھ سے تو وہ راہِ سخن بھی پائے گا
زہر اندر کا بھلا کب تک نہ اُگلا جائے گا
میں کہ بھنوروں سی طلب لے کر رواں ہوں گُل بہ گل
کوئی قاتل اِس طلب پر بھی تو غالب آئے گا
تُو کہ پھولوں سی تمنّاؤں میں محوِ رقص ہے
تجھ سی تتلی کا سراپا بھی تو مسلا جائے گا
ہے شگفتِ گُل سے تحریکِ شگفتِ آرزو
دم بخود رہ کر نہ یہ موسم بِتایا جائے گا
اپنے قدِ فکر کو ماجدؔ نہ کر اِتنا سڈول
بعد تیرے کل ترا نقّاد بھی اِک آئے گا
ماجد صدیقی

میں کہاں ہوں مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
دشتِ خواہش میں کہیں سے تو صدا دے کوئی
میں کہاں ہوں مجھے اِتنا ہی بتا دے کوئی
دل میں جو کچھ ہے زباں تک نہ وہ آنے پائے
کاش ہونٹوں پہ مرے مُہر لگا دے کوئی
فصل ساری ہے تمنّاؤں کی یک جا میری
میرا کھلیان نہ بے درد جلا دے کوئی
وہ تو ہو گا، جو مرے ذمّے ہے، مجھ کو چاہے
وقت سے پہلے ہی دریا میں بہا دے کوئی
میں بتاؤں گا گئی رُت نے کیا ہے کیا کیا
میرے چہرے سے جمی گرد ہٹا دے کوئی
موسمِ گل نہ سہی، بادِ نم آلود سہی
شاخِ عریاں کو دلاسہ تو دلا دے کوئی
ہے پس و پیش جو اپنا یہ مقّدر ماجدؔ
آخری تیر بھی ترکش سے چلا دے کوئی
ماجد صدیقی

دن پھوٹنے کے ہیں یہی شاخِ گلاب کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
دیکھیں تو دِل میں ٹہنی تمّنا کی داب کے
دن پھوٹنے کے ہیں یہی شاخِ گلاب کے
کل جسکے چہچہے تھے منڈیروں پہ جا بہ جا
پنجے میں آج تھی وہی چڑیا عقاب کے
رہتا ہمیں ہے جن پہ گماں کائنات کا
منظر ہیں کچھ درونِ فضائے حباب کے
محوِ رقم قلم تھا مؤرخ کا جن پہ کل
اوراق تھے وہ میری ہزیمت کے باب کے
اُچھلے تھے ساحلوں سے کبھی ہم بھی موج موج
آئے تھے ہم پہ بھی کبھی کچھ دن شباب کے
ماجدؔ اُدھر تھا قوم کا نیلام اور اِدھر
اُڑتے بہ قصرِ خاص تھے ساغر شراب کے
ماجد صدیقی

اِک یہی نسخہ چمن میں جانتا کوئی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
در بہاروں کے دلوں پر کھولتا کوئی نہیں
اِک یہی نسخہ چمن میں جانتا کوئی نہیں
کون سا سرچشمۂ آلام ہے اِس قوم کا
دم بخود سارے ہیں لیکن سوچتا کوئی نہیں
چیونٹیاں پیروں تلےِپستی نظر آئیں کسے
جرم ہیں ایسے کئی پر مانتا کوئی نہیں
دیکھتے ہیں دوسروں کو اپنے آئینے میں سب
اور اپنی شکل تک پہچانتا کوئی نہیں
رہ گئی بٹ کر جزیروں میں ہر اِک انساں کی سوچ
کون کیسے جی رہا ہے پوچھتا کوئی نہیں
جو بھی کچھ کہہ جائیں ماجدؔ روپ میں فن کے یہاں
ایسی ویسی بات کو گردانتا کوئی نہیں
ماجد صدیقی

کھولی کتاب اور سرِ مَتن جا رُکا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
دیکھا نہ گرد پوش تھا کیا، ابتدا تھی کیا
کھولی کتاب اور سرِ مَتن جا رُکا
طے ہے کہ کھُل گیا بھی تو بھنچنا ہے پھر اُسے،
قاروں کے دَر کو ضربِ سُبک سے نہ کھٹکھٹا
ویسے ہی آپ شوخئِ عنوان پر گئے
چہرے پہ دل کا درد بھی بین السطور تھا
درسِ قبول تیرگئ عہدِ نو بھی دیکھ
بجتے ہی سائرن کے دِیا دل کا بُجھ گیا
تھی ابتدا کچھ اور مگر انتہا ہے اور
ماجدؔ تضاد ہے یہ تمہاری غزل میں کیا
ماجد صدیقی

کیا ہوئے لوگ وہ خوابیدہ اداؤں والے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
دم بہ دم کھلتی رُتوں اپنی ہواؤں والے
کیا ہوئے لوگ وہ خوابیدہ اداؤں والے
پل میں بے شکل ہُوئے تیز ہوا کے ہاتھوں
نقش تھے ریت پہ جو عہد وفاؤں والے
جیسے بھونچال سے تاراج ہوں زر کی کانیں
بھنچ گئے کرب سے یوں ہاتھ حناؤں والے
شورِ انفاس سے سہمے ہیں پرندوں کی طرح
زیرِ حلقوم سبھی حرف دعاؤں والے
آ گئے سبزۂ بے جاں میں طراوت سے معاً
دیکھتے دیکھتے انداز خداؤں والے
اوڑھنی سب کی ہو جیسے کوئی مانگے کی ردا
باغ میں جتنے شجر ملتے ہیں چھاؤں والے
عکسِ احساس، زباں تک نہیں آتا ماجدؔ
لفظ ناپید ہیں گھمبیر صداؤں والے
ماجد صدیقی

ہر ایک رت کو رہا دعوئے ہنر کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
دئے جو روند نکھارے بھی ہیں شجر کیا کیا
ہر ایک رت کو رہا دعوئے ہنر کیا کیا
تھے کتنے خواب جو تعبیر کو ترستے رہے
قریبِ موسم گل کٹ گئے شجر کیا کیا
نہ اب وہ آنکھ میں جنبش نہ ابروؤں میں وہ خم
ترے بغیر ہیں سنسان بام و در کیا کیا
ہوا زمیں سے تمازت فلک سے درپے تھی
چلے ہیں اب کے برس شاخ پر تبر کیا کیا
ملی پناہ بھی آخر تو دستِ گلچیں میں
گلوں کو نرغۂِ صر صر سے تھا مفر کیا کیا
یہ آنسوؤں کے گہر بالیاں یہ آہوں کی
ملی ہمیں بھی ہے ورثے میں سیم و زر کیا کیا
ماجد صدیقی

وہ شوخ میری تمّنا کا پیرہن نہ ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
خیال ہی میں رہا، زینتِ بدن نہ ہوا
وہ شوخ میری تمّنا کا پیرہن نہ ہوا
میانِ معرکہ نکلے ہیں مستِ ساز جو ہم
طوائفوں کا ہُوا مشغلہ، یہ رَن نہ ہُوا
نہ تھا قبول جو اُس کی نگاہ سے گرنا
بہم ہمیں کوئی پیرایۂ سخن نہ ہُوا
لُٹے شجر تو دِفینوں پہ کی گزر اِس نے
یہ دل زمینِ چمن تھا اجاڑ بن نہ ہُوا
تھا جیسی شاخ پہ اصرار بیٹھنے کو اُسے
نظر میں اپنی ہی پیدا وہ بانکپن نہ ہُوا
ہمیں وُہ لفظ ہے ماجدؔ مثالِ برگِ علیل
لبوں سے پھُوٹ کے جو زیبِ انجمن نہ ہوا
ماجد صدیقی

کس درجہ ہم تھے غرق بدن کے سرور میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
خوشبو میں غوطہ زن تھے نہائے تھے نور میں
کس درجہ ہم تھے غرق بدن کے سرور میں
روشن پسِ زباں ہے الاؤ کوئی ضرور
حدت سی آ گئی ہے جو آنکھوں کے نُور میں
دونوں جہاں تھے جیسے اُسی کے تہِ قدم
اُس نے تو ہاتھ تک نہ ملایا غرُور میں
پوچھا ہے کس نے حال مری بُود و باش کا
چھینٹا دیا یہ کس نے دہکتے تنُور میں
اے پیڑ تیری خیر کہ ہیں بادِ زرد کی
پیوست انگلیاں تری شاخوں کے بُور میں
ماجدؔ چمن میں صُورتِ حالات ہے کچھ اور
پھیلی ہے سنسنی سی جو اُڑتے طیُور میں
ماجد صدیقی

کم ہوں نہ شورشیں ہی لہو کی تو کیا کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
خواہش تو ہے کہ دل کو سکوں آشنا کریں
کم ہوں نہ شورشیں ہی لہو کی تو کیا کریں
کچھ لطفِ بے نیازئ صحرا بھی چاہئے
ہر دم نہ زیر بارِ چمن ہی رہا کریں
شامل ہے مثلِ درد جو ماجدؔ بہ ہر نفس
اُس کرب ناروا کا مداوا بھی کیا کریں
ماجد صدیقی

خود سے بہتر شہر کے لوگوں کو دیکھا کیجئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
حسرتیں اپنی جگانے گھر سے نکلا کیجئے
خود سے بہتر شہر کے لوگوں کو دیکھا کیجئے
بخت اُلٹے ہیں تو ہر نعمت سے کیجے احتراز
دھوپ سے محروم گھر ہی میں گزارا کیجئے
ہاتھ پاؤں مارئیے مقدور سے بڑھ کر یہاں
نرخ صَرفِ خوں سے ہی کچھ اپنا بالا کیجئے
گانٹھ کر انسان سے رشتہ حصولِ رزق کا
ہر کسی کا منہ پئے الطاف دیکھا کیجئے
اپنے حق میں لفظ بھی اِن کے غنیمت جانئے
دوستوں کی بات سے معنی نہ پیدا کیجئے
یوں نہ ہو ماجدؔ یہ ذکرِ درد اِک تہمت بنے
اِس قدر بھی نارسائی کا نہ شکوہ کیجئے
ماجد صدیقی

یہ ہم سے پوچھئے کیا ہیں محبتیں کرنی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
حصارِ ہجر سے پیہم بغاوتیں کرنی
یہ ہم سے پوچھئے کیا ہیں محبتیں کرنی
سبھی حجاب ترے سامنے سمٹنے لگے
تجھی نے ہم کو سکھائیں یہ وحشتیں کرنی
ترے ہی حسنِ سلامت سے آ گئی ہیں ہمیں
بہ حرف و صوت یہ پل پل شرارتیں کرنی
جگرِ میں سینت کے سَب تلخیاں، بنامِ وفا
نثار تُجھ پہ لُہو کی تمازتیں کرنی
یہی وہ لطف ہے کہتے ہیں قربِ یار جسے
دل و نگاہ سے طے سب مسافتیں کرنی
یہی کمال، ہُنر ہے یہی مرا ماجدؔ
سپرد حرف، کِسی کی امانتیں کرنی
ماجد صدیقی

مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
حجلے سے واہموں کے نکلتا ہوں خواب میں
مَیں بھی گھِرا ہوں جیسے فضائے حباب میں
کیوں سر پہ آ پڑا ہے یہ خیمہ سکون کا
آیاہے جھول کس کی نظر کی طناب میں
شایدکہیں تو لطف کا دریا رواں ملے
کہسار سر کئے ہیں اِسی اضطراب میں
وہ ابرِ لخت لخت حجابوں کا اور وہ تو
کیا لذّتیں تھیں مجھ سے ترے اجتناب میں
پیاسی زمیں پہ وہ بھی مجھی سا تھا مہرباں
خُو بُو تھی کچھ مجھی سی مزاجِ سحاب میں
ہر حرف چاہتا تھا اُسی پر رکے رہیں
کیا کیا تھے باب اُس کے بدن کی کتاب میں
انساں تھا وہ بھی میری طرح ہی انا شکار
تھوکا ہے، اس نے بھی مرے منہ پر جواب میں
ماجدؔ قلم کو تُو بھی نمِ دل سے آب دے
نکلی ہیں دیکھ کونپلیں شاخِ گلاب میں
ماجد صدیقی

کشیدہ رُو ہے ہمِیں سے بہار کیا کہئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
چمن چمن ہے یہاں زر نگار کیا کہئے
کشیدہ رُو ہے ہمِیں سے بہار کیا کہئے
لگی ہے ضربِ عدو تو پسِ نگاہ مگر
ہیں چشم و گوش و زباں سب فگار کیا کہئے
وہ جن کے عیش کو مرہون ہو گئے ہم تُم
کہاں گئے ہیں وہ سب تاجدار کیا کہئے
شجر درونِ چمن باور ہوا جو بھی
کیا گیا ہے وہی سنگسار کیا کہئے
ہوا کا تخت ملا عاق ہو کے شاخوں سے
یہ جبر کس نے کیا اختیار کیا کہئے
لبوں کے بیچ نئی کونپلیں ہیں نت ماجدؔ
سخن کہیں کہ اِسے شاخسار، کیا کہئے
ماجد صدیقی

گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
چھن گیا کیوں قلم سے حرفِ رواں
گنگ ہے کیوں مری غزل کی زباں
کس خدا کی پناہ میں ہوں کہ میں
بُھولتا جا رہا ہوں جورِ بتاں
کوئی جنبش تو سطح پر بھی ہو
کس طرح کا ہوں میں بھی آبِ رواں
پیلے پتّوں کو سبز کون کرے
کس سے رُک پائے گا یہ سیلِ خزاں
اب یہی روگ لے کے بیٹھے ہیں
ہم کہ تھا شغل جن کا جی کا زیاں
ہم کہ سیماب وار جیتے تھے
اب ہمیں پر ہے پتّھروں کا گماں
اب وہ چبھنا بھی اپنا خاک ہوا
ہم کہ تھے ہر نظر میں نوکِ سناں
ہے تکلم مرے پہ خندہ بہ لب
گونجتی خامشی کراں بہ کراں
یہ تو خدشہ ہمیں نہ تھا ماجدؔ
نرغۂ غم میں گھر گئے ہو کہاں
ماجد صدیقی

حاصل ہمیں بھی فخر تری دوستی کا تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
چہرے یہ اشتہار سا اِک بے بسی کا تھا
حاصل ہمیں بھی فخر تری دوستی کا تھا
جیسے چمن سے موسمِ گُل روٹھنے لگے
منظر وہ کیا عجیب تری بے رُخی کا تھا
ہر بات پر ہماری تأمّل رہا اُسے
کھٹکا عجیب اُس کو کسی اَن کہی کا تھا
شکوہ ہی کیا ہو تجھ سے عدم ارتباط کا
ہم سے ترا سلوک ہی پہلو تہی کا تھا
نسبت کسی بھی ایک چمن سے نہ تھی ہمیں
ماجدؔ کچھ ایسا ذوق ہمیں تازگی کا تھا
ماجد صدیقی

ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
چھلکوں جو ساحلوں سے یہ حاجت نہیں مجھے
ایسا بھی راس زورِ طبیعت نہیں مجھے
یا شاخِ سبز یا میں رہوں بن کے رزقِ خاک
منظور اور کوئی بھی صُورت نہیں مجھے
رشتہ ہے استوار شجر سے ابھی مرا
کچھ تُندئ ہوا سے شکایت نہیں مجھے
ہوں مشتِ خاک، ابرِ گریزاں نہیں ہوں میں
خلوت گزیں ہوں نشّۂ نخوت نہیں مجھے
ہمرہ بجائے سایہ ابھی ابر سر پہ ہے
صحرا کی وسعتوں سے بھی وحشت نہیں ہے مجھے
کچھ اِس پہ اور بھی تو یقیناً ہے مستزاد
اِک عجز ہی تو باعثِ عزّت نہیں مجھے
ماجدؔ ہوں موج، مجھ میں تموّج ضرور ہے
حاشا کسی سے کوئی عداوت نہیں مجھے
ماجد صدیقی

میری تشنہ خواہشیں بچّہ مرا دُہرا آ گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
جب کبھی اندوہِ رفتہ بھُولنے پر آ گیا
میری تشنہ خواہشیں بچّہ مرا دُہرا آ گیا
لے لیا مٹھی میں تتلی جان کر کیسا شرر
کھیل میں خواہش کے مَیں کیسا یہ دھوکا کھا گیا
تھا تواضح میں تو مہماں کی بڑا ہی سرخرو
میں تقاضائے اعانت پر مگر شرما گیا
زلزلے ماضی کے پنہاں تھے وہ جس کی دِید میں
سرسے لے کر پاؤں تک یکسر مجھے دہلا گیا
گفتگو تو تھی خنک گوئی پہ ساری منحصر
کون سا جھونکا دبی چنگاریاں سلگا گیا
کلبلائیں بھی تو کیا اظہارِ پامالی پہ ہم
اب تو یہ انداز ہے ماجدؔ ہمیں بھی بھا گیا
ماجد صدیقی

اثر اُسی کا ہمارا بھی ناطقے پر ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
جو وسوسہ تمہیں اپنے کہے سُنے پر ہے
اثر اُسی کا ہمارا بھی ناطقے پر ہے
گئی تھیں کِس کے تعاقب میں بے حصولِ مراد
یہ کیسی گرد نگاہوں کے آئنے پر ہے
وہ کھینچتی ہے جسے پینگ سے بزورِ شباب
نگاہِ چپکی اُسی نصف دائرہ پر ہے
وہ شوخ جب سے نگینہ مری نظر کا ہے
اُسی کی چھاپ چمن کے سمے سمے پر ہے
لُٹے ہیں گُل تو نظر مکتفی ہے پتّوں پر
زہے نصیب گزر ہی رہے سہے پر ہے
نہیں بعید غزل کو شبابِ نَو بخشے
یہی گمان تو ماجدؔ سے منچلے پر ہے
ماجد صدیقی

لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
جتنا کچھ بھی ہے ہمارے لب اظہار کے پاس
لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس
ہم کہ آدابِ جنوں سے بھی تھے واقف لیکن
کیوں کھڑے رہ گئے اُس شوخ کی دیوار کے پاس
وہ بھی محتاجِ سکوں ہے اُسے کیا عرض کروں
کیا ہے جُز حرفِ تسلی مرے غمخوار کے پاس
مان لیتے ہیں کہ دیوارِ قفس سخت سہی
سر تو تھا پھوڑنے کو مرغِ گرفتار کے پاس
تھے کبھی برگ و ثمر پوشش گلشن ماجدؔ
پیرہن گرد کا اب رہ گیا اشجار کے پاس
ماجد صدیقی

بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
جنوں شناس کیا جس کی ہر گلی نے مجھے
بھُلا دیا ہے اُسی شہر میں کسی نے مجھے
شجر سے جھڑ کے دُہائی چمن چمن دوں گا
وہ دن دکھائے اگر میری خستگی نے مجھے
مرا نصیب! مجھے تربیت طلب کی نہ تھی
کیا ہے خوار تمّنا کی سادگی نے مجھے
خزاں کے بعد سلوکِ وداع، صرصر کا
سِک سِسک کے سنایا کلی کلی نے مجھے
در آئی ہے جو مجھے اُس نمی پہ حق ہے مرا
کہ دشت دشت پھرایا ہے تشنگی نے مجھے
پئے نمو ہے یہ کیا عارضہ لجاجت کا
یہ کیسے روگ دئیے ذوقِ تازگی نے مجھے
رہِ سفر میں برہنہ نظر تھا میں ماجدؔ
لیا ہے ڈھانپ بگولوں کی ہمرہی نے مجھے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑