تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

زمرہ

شاعری

ہم تم جس کو جھُوٹ کہیں وُہ اُس کو سچ ٹھہرائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
آنکھ دِکھا کر بس اتنا سا اپنا زور جتائے گا
ہم تم جس کو جھُوٹ کہیں وُہ اُس کو سچ ٹھہرائے گا
کون کہے بیوپاری، سودا اغوا ہونے والی کا
کن کن سنگدلوں کے آگے کس کس طور چُکائے گا
کاش اُنہیں جتلا پائے تُو، اصل بھی اپنے ناتے کی
جھنڈا جن کی کاروں پر، اے دیس! ترا لہرائے گا
اپنے جیسے ہی لگتے ہیں چَوک پہ بیٹھے راج مجھے
مول گجر دم سیٹھ کوئی جن کا آ کر ٹھہرائے گا
اِترائے گا جب بھی کبھی بیٹھے گا اپنے جیسوں میں
کون ستم گر ہے جو اپنی کرنی پر پچھتائے گا
شور زمینِ فکر ہے جس کی اور سینے میں زور بہت
کرنے کو اچّھا بھی کرے تو، کیا اچّھا کر پائے گا
چھید ہوئے جاتے ہیں جِس کشتی میں، اُس کے کھینے کو
دُور فرازِ عرش سے جانے، کون فرشتہ آئے گا
زورِ ہوا سے ٹہنیاں ٹوٹیں، پات جھڑے جن پیڑوں کے
کون سخی ایسا، جو اِن کے یہ زیور لوٹائے گا
خوشیوں پر رنجیدہ، اِک دُوجے کے رنج پہ جو خو ش ہیں
تو کیا اُن سِفلوں کو ماجدؔ دل کا حال سُنائے گا
ماجد صدیقی

چُوزے ہوں جیسے ماں کے پروں میں سمٹ گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
یوں لوگ اب کے جادۂ گرگاں سے ہٹ گئے
چُوزے ہوں جیسے ماں کے پروں میں سمٹ گئے
پنچھی شکار ہو کے نشیمن میں آ گرا
اور خواب، عافیت کے بدن سے چمٹ گئے
کھانے لگا فضا میں لہو ان کا بازیاں
بِلّی کے سامنے تھے کبوتر جو ڈٹ گئے
مجروح کب ہوئے ہیں نہتّوں سے اہلِ تیغ
کب یوں ہوا کہ دانت زبانوں سے کٹ گئے
جھاڑا نہیں کسی نے اِنہیں حادثہ یہ ہے
دل آئنے تھے گردِ زمانہ سے اٹ گئے
ماجد ہر آن جیسے اذّیت پہ ہوں تُلے
کانٹے لباس سے ہیں کچھ ایسے چمٹ گئے
ماجد صدیقی

مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
یہ اضافہ بھی ہُوا ماں باپ کے آزار میں
مشتہر کرتے ہیں جنسِ دختراں اخبار میں
آبلہ پائی نے کر دی ہے مسافت یوں تمام
پیر چپکے رہ گئے ہیں جادۂ پر خار میں
تن بدن سے کھال تک جیسے ادھڑ جانے لگے
جیب ہی ہلکی نہیں ہوتی ہے اب بازار میں
سخت مشکل ہے کوئی تریاق اُس کا مِل سکے
زہر جو شامل ملے، ذی جاہ کے انکار میں
خلق ناداری کے ہاتھوں جان دینے پر مصر
اور زر کی بانٹ کے جھگڑے ادھر دربار میں
کیا کہیں ہر آن ماجد مضطرب، پڑنے کو ہیں
سنگ ریزے کیا سے کیا ہر دیدۂ بیدار میں
ماجد صدیقی

جھونکے آگ بجھانے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
ہم پہ کرم فرمانے آئے
جھونکے آگ بجھانے آئے
ہمیں پرانا ٹھہرانے کو
کیا کیا نئے زمانے آئے
خلق، وہ کارآمد بچّہ ہے
شاہ جسے بہلانے آئے
قیس کو جو ازبر تھا،ہم بھی
درس وہی دہرانے آئے
جنہیں بھُلاتے، خود کو بھُولے
لب پہ اُنہی کے، فسانے آئے
اپنی جگہ تھے جو بھی سہانے
دن پھر وہ نہ سہانے آئے
جن کو دیکھ کے تاپ چڑھے وہ
ماجد ہمیں منانے آئے
ماجد صدیقی

اور نا خلف کے منہ سے مِلیں، گالیاں الگ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
ہوتا ہے ایسے ربط سے جی کا زیاں الگ
اور نا خلف کے منہ سے مِلیں، گالیاں الگ
ہونے کو ہو تو جائے ادا ایک فرضِ خاص
ماں باپ بھی ہوں خاک بہ سر، بیٹیاں الگ
جاتی ہے اپنی کم نظری سے اِدھر جو آن
اُڑتی ہیں جسم و جاں کی اُدھر دھجیاں الگ
ڈالی جو خاک سر پہ ہمارے، زمین نے
برسا کیا ہے ہم پہ اُدھر آسماں الگ
توقیر بھی بدلتی ہے، تحقیر میں کبھی
حالات جس طرح کا بھی دے دیں نشاں الگ
لیکھوں میں شخص شخص کے لکّھی ملے یہاں
ناطے سے بِنت بِنت کے اِک داستاں الگ
ہم گُل بہ کف تھے، سنگ بہ کف مل گئے ہمیں
اُترا ہے اب کے آنکھ میں ماجد سماں الگ
ماجد صدیقی

ننّھی ننّھی خواہشیں خلقت کی، جو اغوا کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
وہ کمانڈو بھی تو ہوں ایسوں کو جو سِیدھا کریں
ننّھی ننّھی خواہشیں خلقت کی، جو اغوا کریں
ہر نگارِ شام اُن کے واسطے ہو مہ بکف
ہم ہلالِ عید بعد از سال ہی دیکھا کریں
اُن کے جتنے تیر ہیں موزوں ہوں وہ اہداف پر
اور ہمیں تلقین یہ ،ایسا کریں ویسا کریں ،
خود ہی جب اقبال سا لکھنا پڑے اس کا جواب
اے خدا تجھ سے بھی ہم شکوہ کریں تو کیا کریں
وہ ادا کرتے ہیں جانے موسموں کو کیا خراج
بدلیاں جن کے سروں پر بڑھ کے خود سایا کریں
۲۲ فروری ۹۴ کو اسلام آباد میں افغانی اغوا کنندوں کے چنگل سے پاکستانی کمانڈوز نے سکول کے ننھے منے سٹوڈنٹس کو آزاد کرایا ۔ یہ غزل اُسی واقعہ سے متاثر ہو کر لکھی گئی
ماجد صدیقی

پَو پھٹے چاند سے اُس کا جوبن لُٹا اور میں کھو گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
وقت کی شاخ پر پات پیلا پڑا اور میں کھو گیا
پَو پھٹے چاند سے اُس کا جوبن لُٹا اور میں کھو گیا
پھر نجانے معطل رہے کب تلک میرے اعصاب تک
ہاتھ جابر کا شہ رگ کی جانب بڑھا اور میں کھو گیا
آسماں پر کماں بن کے قوسِ قزح دُور ہنستی رہی
وار جو بھی ہُوا پاس ہی سے ہُوا اور میں کھو گیا
عمر کیا کیا نہیں لڑکیوں کی ڈھلی پاس ماں باپ کے
خوں کے آنسو بنے اُن کا رنگ حنا اور میں کھو گیا
میں کہ ماجد ہوں اہلِ ہنر، اہلِ مکر و ریا کیوں نہیں
بس یہ نکتہ مجھے بے زباں کر گیا اور میں کھو گیا
ماجد صدیقی

مرے پاس بھی کوئی گلبدن تھا بہار سا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
وہ کہ لمس میں تھا حریر، رنگ میں نار سا
مرے پاس بھی کوئی گلبدن تھا بہار سا
کبھی بارشوں میں بھی پھر دکھائی نہ دے سکا
اُسے دیکھنے سے فضا میں تھا جو نکھار سا
مری چاہ کو اُسے چاندنی کی قبائیں دیں
مرا بخت کس نے بنا دیا شبِ تار سا
کوئی آنکھ جیسے کھُلی ہو اِن پہ بھی مدھ بھری
ہے دل و نظر پہ عجب طرح کا خمار سا
لگے پیش خیمۂ قربِ یار گھڑی گھڑی
مری دھڑکنوں میں جو آ چلا ہے، قرار سا
ماجد صدیقی

نئی نسلوں کو لاحق ہو چلیں بیماریاں کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
وراثت میں اِنہیں ملنے لگیں عیّاریاں کیا کیا
نئی نسلوں کو لاحق ہو چلیں بیماریاں کیا کیا
کوئی فتنہ کوئی لاشہ اِنہیں مل جائے شورش کو
برائے تخت، نا اہلوں کی ہیں تیّاریاں کیا کیا
ارادت کے تسلسل کی، غلامانہ اطاعت کی
ہماری گردنوں کے گرد بھی ہیں دھاریاں کیا کیا
نمو بھی دیں، تحفّظ بھی کریں ہر پیڑ کا لیکن
جھڑیں تو نام پتوں کے، رقم ہوں خواریاں کیا کیا
جنہیں درکار ہیں قالین چلنے کو نجانے وہ
کرائیں گے لہو سے خاک پر، گُلکاریاں کیا کیا
حقائق سے ڈرانے کو، طلسمِ شر دکھانے کو
سرِ اخبار ماجدؔ نقش ہیں، چنگاریاں کیا کیا
ماجد صدیقی

جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
وسعتِ تِیرہ شبی ، تنہا روی ہے اور ہم
جگنوؤں سی اپنی اپنی روشنی ہے اور ہم
کیمیا گر تو ہمیں کندن بنا ڈالے مگر
آنچ بھر کی ایسا ہونے میں کمی ہے اور ہم
بھیڑیوں کی دھاڑ کو سمجھیں صدائے رہنما
خوش گماں بھیڑوں سی طبعی سادگی ہے اور ہم
کیا سلوک ہم سے کرے یہ منحصر ہے زاغ پر
گھونسلے کے بوٹ سی نا آگہی ہے اور ہم
ہاں یہی وہ فصل ہے پکنے میں جو آتی نہیں
زخمِ جاں کی روز افزوں تازگی ہے اور ہم
ناگہانی آندھیوں میں جو خس و خاشاک کو
جھیلنی پڑتی ہے وہ بے چارگی ہے اور ہم
ناخدا کو ناؤ سے دیکھا ہو جیسے کُودتے
دم بہ دم ماجد کچھ ایسی بے بسی ہے اور ہم
ماجد صدیقی

پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی، لوگ سوئے ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
نشۂ بے حسی تھی کہ نا آگہی لوگ سوئے ملے
پو پھٹے تھی ہوا کو شکایت یہی، لوگ سوئے ملے
روشنی کے سفیروں نے کیا کیا نہ گُر آزمائے مگر
سینہ سینہ بسائے ہوئے گمرہی لوگ سوئے ملے
زمزمے چہچہے کوئی تریاق ان کے نہ کام آ سکا
سم کچھ ایسی تھی سانسوں میں اِن کے گھلی لوگ سوئے ملے
صبح، پرچم لپیٹے ہوا ہو گئی اپنے سندیس کا
پھول نے جو کہی رہ گئی ان کہی لوگ سوئے ملے
بادباں کھول کر کشتیوں کے، ہوا کو انہیں سونپ کر
اور تو اور آغوشِ دریا میں بھی لوگ سوئے ملے
جانے حلقۂ بگوشی میں تھا کیا شرف، جو انہیں بھا گیا
جاگتا تھا فقط جذبۂ بندگی لوگ سوئے ملے
کتنے تھوڑے صلے سے بہلنے لگیں ان کی نادانیاں
رسم ماجدؔ یہ کیا اکتفا کی چلی لوگ سوئے ملے
ماجد صدیقی

رہ بہ رہ جھومتا ہر شجر دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
نشۂ سَرخوشی اَوج پر دیکھنا
رہ بہ رہ جھومتا ہر شجر دیکھنا
مٹھیوں میں شگوفوں کی زر سر بہ سر
سیپیوں میں گلوں کی گہر دیکھنا
لطف جو چشمِ تشنہ کو درکار ہے
شاخ در شاخ محوِ سفر دیکھنا
دل بہ دل آرزوؤں کے جگنو اڑے
صحن در صحن رقصِ شرر دیکھنا
جی نہ ساون کے جَل سے کہیں جَل اٹھے
تم بھی ماجدؔ ہو اہلِ خبر دیکھنا
ماجد صدیقی

نظر میں تھا، پہ ترا ہی وہ اک جمال نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
نہیں کہ تجھ سے وفا کا ہمیں خیال نہ تھا
نظر میں تھا، پہ ترا ہی وہ اک جمال نہ تھا
لبوں میں جان تھی پھر بھی ہماری آنکھوں میں
ستمگروں سے بقا کا کوئی سوال نہ تھا
ٹھہر سکا نہ بہت تیغِ موج کے آگے
ہزار سخت سہی، جسم تھا یہ ڈھال نہ تھا
کوئی نہیں تھا شکایت نہ تھی جسے ہم سے
ہمیں تھے ایک، کسی سے جنہیں ملال نہ تھا
غضب تو یہ ہے کہ تازہ شکار کرنے تک
نظر میں گرگ کی، چنداں کوئی جلال نہ تھا
بہ کُنجِ عجز فقط گن ہی گن تھے پاس اپنے
یہاں کے اوج نشینوں سا کوئی مال نہ تھا
ہمیں ہی راس نہ ماجدؔ تھی مصلحت ورنہ
یہی وہ جنس تھی، جس کا نگر میں کال نہ تھا
ماجد صدیقی

کُتا بھونکے تو آگے سے بھونکے کون

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
منصبِ انسانی سے نیچے اترے کون
کُتا بھونکے تو آگے سے بھونکے کون
وہ کہ جو نیّتِ بد کے بطن سے پھوٹی ہو
تاب کسے ہے اُس دلدل میں الجھے کون
جز پت جھڑ کے اِس فن کا ادراک کسے
رنگ کسی کا جیسا بھی ہو بدلے کون
جسم پہ جس کے لباس ہو جھاڑ میں کانٹوں کے
حفظِ گلاب و سمن کی دُھن میں کودے کون
کون ہو جو خّرم ہو لہو میں نہا کر بھی
پیغمبر کے سوا طائف میں ٹھہرے کون
کام نہیں بس میں یہ دئیے کے ناخن کے
چہرۂ شب سے ماجدؔ ظلمت کھُرچے کون
ماجد صدیقی

سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
ماتھے کی سلوٹوں سے ہے اتنا گلا مجھے
سلجھا نہیں جو بخت کا دھاگا ملا مجھے
چھابہ بغل میں اور ہے خوانچہ، کنارِ دوش
عمرِ اخیر! اور یہ کیا دے دیا مجھے
اے خاک! آرزو میں نگلنے کی تن مرا
کیسا یہ بارِ خارکشی دے دیا مجھے
ایسا ہی تیرا سبزۂ نورس پہ ہے کرم
کیا بوجھ پتھروں سا دیا اے خدا ! مجھے
کج ہو چلی زبان بھی مجھ کُوز پشت کی
کیا کیا ابھی نہیں ہے لگانی صدا مجھے
اک اک مکاں اٹھا ہے مرے سر کے راستے
کیسا یہ کارِ سخت دیا مزد کا، مجھے
بچپن میں تھا جو ہمدمِ خلوت، ملا کِیا
مکڑا قدم قدم پہ وُہی گھورتا مجھے
میں تھک گیا ہوں شامِ مسافت ہوا سے پوچھ
منزل کا آ کے دے گی بھلا کب پتا مجھے
محتاج ابر و باد ہوں پودا ہوں دشت کا
لگتی نہیں کسی بھی رہٹ کی دعا مجھے
لاتی ہے فکرِ روزیِ یک روز، ہر سحر
آہن یہ کس طرح کا پڑا کوٹنا مجھے
بارِ گراں حیات کا قسطوں میں بٹ کے بھی
ہر روز ہر قدم پہ جھُکاتا رہا مجھے
اتنا سا تھا قصور کہ بے خانماں تھا میں
کسبِ معاش میں بھی ملی ہے خلا مجھے
حکمِ شکم ہے شہر میں پھیری لگے ضرور
سُوجھے نہ چاہے آنکھ سے کچھ راستا مجھے
میں بار کش ہوں مجھ پہ عیاں ہے مرا مقام
اِحساسِ افتخار دلاتا ہے کیا مجھے
میری بھی ایک فصل ہے اُٹھ کر جو شب بہ شب
دیتی ہے صبح گاہ نیا حوصلہ مجھے
کہتا ہے ہجرتوں پہ گئے شخص کو مکاں
آ اے حریصِ رزق ! کبھی مل ذرا مجھے
ماجد صدیقی

یزیدِ وقت نے جور و ستم کی اِنتہا کر دی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
مری ہر آس کے خیمے کی زینب بے رِدا کر دی
یزیدِ وقت نے جور و ستم کی اِنتہا کر دی
اگر سر زد ہوا حق مانگنے کا جرم تو اس پر سزا کیسی
مرے دستِ طلب نے کونسی ایسی خطا کر دی
کچھ افیونی حقائق ہی کھُلے ورنہ اِن ہونٹوں پر
سخن کیا تھا کہ خلقِ شہر تک جس نے خفا کر دی
زمیں یا آسماں کا جو خدا تھا سامنے اُس کے
جھکایا سر اٹھائے ہاتھ اور رو کر دعا کر دی
وطن کی بد دعا پر ریزہ ریزہ ہو گیا کوئی
کسی نے دیس پر جاں تک ہتھیلی پر سجا کر دی
حیا آنکھوں میں اور سچّائیاں جذبات میں ماجد
مجھے ماں باپ نے جو دی یہی پونجی کما کر دی
ماجد صدیقی

اہلِ نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
مجھ سے کشیدہ رو ہیں کیونکر میرے ہنر کے لوگ
اہلِ نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ
جیسے کم سن چوزے ہوں مرغی کے پروں میں بند
جبر کی چیلوں سے دبکے ہیں یوں ہر گھر کے لوگ
ہر فریاد پہ لب بستہ ہیں مانندِ اصنام
عدل پہ بھی مامور ہوئے کیا کیا پتّھر کے لوگ
صبح و مسا ان کے چہروں پر اک جیسا اندوہ
منظر منظر ہیں جیسے اک ہی منظر کے لوگ
کچھ بھی نہیں مرغوب اِنہیں، کولہو کے سفر کے سوا
میرے نگر کے لوگ ہیں ماجد اور ڈگر کے لوگ
ماجد صدیقی

کام مرے، کانٹوں میں اُلجھے بالوں جیسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
لمحے بوجھل قدموں، ٹھٹھرے سالوں جیسے
کام مرے، کانٹوں میں اُلجھے بالوں جیسے
مچھلیوں جیسی سادہ منش امیدیں اپنی
عیّاروں کے ہتھکنڈے ہیں جالوں جیسے
دھُند سے کیونکر نکلے پار مسافت اُن کی
رہبر جنہیں میّسر ہوں نقالوں جیسے
اپنے یہاں کے حبس کی بپتا بس اتنی ہے
آنکھوں آنکھوں اشک ہیں ماجد چھالوں جیسے
ماجد صدیقی

ماں! ترا لاڈلا ہے مشکل میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
گھِر گیا ہے سیاستِ دل میں
ماں! ترا لاڈلا ہے مشکل میں
عمر گزری تلاش کرتے ہوئے
روشنی آنسوؤں کی جھلمل میں
اپنا عکسِ نصیب دیکھ لیا
چمپئی گال پر سجے تِل میں
ڈنک مارا تحفّظِ جاں کو
سانپ بزدل تھا گُھس گیا بِل میں
ہم نے ظالم سے یوں کہی دل کی
چھید جیسے کرے کوئی سِل میں
جانے ماجد کن آنسوؤں سے لگا
اک کٹاؤ سا جسم کی گِل میں
ماجد صدیقی

پئے رقص، لطفِ ہوا چاہتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
گِرا ہوں شجر سے اُڑا چاہتا ہوں
پئے رقص، لطفِ ہوا چاہتا ہوں
وہی جو منگیتر سا ہے مجھ سے، مخفی
وہ منظر، نظر پر کھُلا چاہتا ہوں
سبھی ناؤ والے ہیں، اِک میں نہیں ہوں
کہ تنکے کا جو، آسرا چاہتا ہوں
گریزاں ہوں ابنائے قابیل سے میں
کہ شانوں پہ یہ سر، سجا چاہتا ہوں
وہی شہ رگوں میں جو پنہاں ہے، اُس کا
سرِ طُور کیوں سامنا چاہتا ہوں
گوارا ہو بے ناپ خلعت مجھے کیوں
جو زیبا مجھے ہو قبا چاہتا ہوں
نہیں چاہتا تاج میں پاپیادہ
میں توقیر، حسبِ انا چاہتا ہوں
لگے جیسے پہرے ہوں ہر اور میری
کہوں کس سے ماجدؔ، میں کیا چاہتا ہوں
ق
ماجد صدیقی

ملیں ہَوا کو اُدھر حکمرانیاں کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
گیاہ و برگ کو دیں بے زبانیاں کیا کیا
ملیں ہَوا کو اُدھر حکمرانیاں کیا کیا
بکھر گئی ہیں کسی مور کے پروں کی طرح
درونِ مصحفِ گل تھیں نشانیاں کیا کیا
گھرا ہے جا کے جہاں بھی ہجومِ طفلاں میں
ہوئیں بہ حقِ جنوں چھیڑ خانیاں کیا کیا
خلافِ فتنہ و شر جب بھی مستعد ٹھہریں
الٹ گئی ہیں یہاں راجدھانیاں کیا کیا
گماں تھا جن پہ کہ وہ رشکِ خضر ہیں ماجد
ہمیں اُنہی سے ہوئیں بدگمانیاں کیا کیا
ماجد صدیقی

شاعری ماجد! عبارت ہو اگر صدمات سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
کم نہیں وجدان پر اُتری ہوئی آیات سے
شاعری ماجد! عبارت ہو اگر صدمات سے
ہر تمنّا ہے اِسی کی دھند میں لپٹی ہوئی
مدّتوں سے ہے یہی رشتہ اندھیری رات سے
کر لئے بے ذائقہ وہ دن بھی جو آئے نہیں
درس کیا لیتے بھلا ہم اور جھڑتے پات سے
بن گئیں پیڑوں کی شاخیں بھی قفس کی تیلیاں
سامنا ہے باغ میں ایسے ہی کچھ حالات سے
ابنِ آدم اب کے پھر فرعون ٹھہرا ہے جسے
مل گیا زعمِ خدائی آہنی آلات سے
ماجد صدیقی

تجھ سے چھینے گئے جو گہر، چھین لے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
کر کے غاصب کو زیر و زبر چھین لے
تجھ سے چھینے گئے جو گہر، چھین لے
ناز ہو ننّھی چڑیوں کے خوں پر جنہیں
اُن عقابوں سے تُو بال و پر چھین لے
جس کی بنیاد تیرے عرق سے اٹھی
اُس سپھل پیڑ سے برگ و بر چھین لے
نرم خُوئی تلک نرم خُو ہو، مگر
دستِ جارح سے تیغ و تبر چھین لے
حق ملے گا تجھے دشتِ وحشت میں کیا
چھین لے، چھین سکتا ہے گر، چھین لے
جس کا حقدار ہے تو وہ تکریمِ فن
تو بھی اے ماجدِ با ہنر! چھین لے
ماجد صدیقی

رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
کافی ہے یہی، دل کو سزا اور نہ دینا
رسوائیِ خواہش کو، ہوا اور نہ دینا
پہلے ہی قفس میں ترے احسان بہت ہیں
گھاؤ کوئی، اے موجِ صبا! اور نہ دینا
کیا درد بٹاؤ گے کہ جس سِحر میں ہم ہیں
پتھر ہی نہ ہو جائیں صدا اور نہ دینا
صنّاع کہیں خود نہ کھنچا آئے زمیں پر
اِس چاند سے چہرے کو جِلا اور نہ دینا
حاصل ہے جو تجھ سے ہمیں پھولوں کی مہک سی
اُس قرب کی مہلت کو گھٹا اور نہ دینا
ہے اِس کی شرافت ہی خسارے کو کہاں کم
ماجد کو بزرگی کی رِدا اور نہ دینا
ماجد صدیقی

دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
کس نے یاد کیا ہے اتنی دیر گئے
دل کیوں بیکل سا ہے اتنی دیر گئے
کس نے کس کی پھر دیوار پھلانگی ہے
کس کا چین لٹا ہے اِتنی دیر گئے
کس کی آنکھ سے آس کا تارا ٹوٹا ہے
کس پر کون کھُلا ہے اِتنی دیر گئے
دل کے پیڑ پہ پنکھ سمیٹے سپنوں میں
ہلچل سی یہ کیا ہے اِتنی دیر گئے
کن آنکھوں کی نم میں گھلنے آیا ہے
بادل کیوں برسا ہے اِتنی دیر گئے
سو گئے سارے بچّے بھی اور جگنو بھی
پھر کیوں شور بپا ہے اِتنی دیر گئے
دیکھ کے ماجدؔ چندا نے بیدار کسے
آنگن میں جھانکا ہے اِتنی دیر گئے
ماجد صدیقی

تیور بدل چلے ہیں بہت ، آسمان کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
کیا کیا خم اور ہوں ابھی بازو کمان کے
تیور بدل چلے ہیں بہت ، آسمان کے
جیسے کوئی اُڑائے کبوتر ، بہ روزِ جشن
پُرزے ہوا کے ہاتھ تھے یوں بادبان کے
بہروپ ہی بھرے گا ، کرم بھی وہ گر کرے
نکلا جو گھر سے ، راہزنی ہی کی ٹھان کے
ماجد ہمیں بھی ، دیکھیے جھانسہ دیا ہے کیا
آنچل سا آسمان پہ ،بدلی نے تان کے
ماجد صدیقی

فیصلہ دیتے ہوئے عادل بھی رُسوا ہو گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
کیا کہیں ذی مرتبت کتنے تھے اور کیا ہو گئے
فیصلہ دیتے ہوئے عادل بھی رُسوا ہو گئے
کونپلیں کیا کیا نہیں جھلسی ہیں بادِ مکر سے
گلستاں امید کے، کیا کیا نہ صحرا ہو گئے
جن دنوں کی چاہ میں بے تاب تھی خلقت بہت
شو مئی قسمت سے وہ دن اور عنقا ہو گئے
خُبث کیا کیا کھُل گیا اُن کا بھی جو تھے ذی شرف
نیّتوں کے جانے کیا کیا راز افشا ہو گئے
دم بخود ٹھہرے ہیں اُن کی پاک دامانی پہ ہم
قتل کرنے پر بھی جو ماجد مسیحا ہو گئے
ماجد صدیقی

جا بجا تیرے لئے یہ سر، نگوں کرنا پڑا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
کیا کہیں کیا کچھ ہمیں دنیائے دُوں کرنا پڑا
جا بجا تیرے لئے یہ سر، نگوں کرنا پڑا
ہم کہ تھے اہلِ صفا یہ راز کس پر کھولتے
قافلے کا ساتھ آخر، ترک کیوں، کرنا پڑا
سر ہم ایسوں سے کہاں ہونا تھا قلعہ جبر کا
ایک یہ دل تھا جسے ہر بار خوں کرنا پڑا
خم نہ ہو پایا تو سر ہم نے قلم کروا لیا
وُوں نہ کچھ ہم سے ہُوا ماجد تو یُوں کرنا پڑا
ماجد صدیقی

زاغ جُتے دیکھے، پس خوردہ کھانے میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
فرق نہ سمجھیں کچھ دھُتکارے جانے میں
زاغ جُتے دیکھے، پس خوردہ کھانے میں
پیڑ بحالِ ضعف بھی ہے مسرور لگا
خشک زبانوں کے پرچم لہرانے میں
پر ٹُوٹے اور ساتھ ہوا نے چھوڑ دیا
سطر بڑھا دو یہ بھی اب افسانے میں
لو اس کو بھی تکڑی تول جو رکھتا تھا
وقت نے دیر نہ کی عادل ٹھہرانے میں
اپنی جگہ امید سے پیروکار سبھی
رہبر محو ہے ماجد، مال بنانے میں
ماجد صدیقی

کس نے کس کو کتنا نیچا دِکھلانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
عہد یہی اب اِنسانوں نے ٹھہرانا ہے
کس نے کس کو کتنا نیچا دِکھلانا ہے
چڑیوں نے ہے اپنی جان چھپائے پھرنا
شہبازوں نے اپنی دھونس پہ اِترانا ہے
دھوپ کے ہاتھوں اِن سے اوس کی نم چھننے پر
گرد نے پھولوں کو سہلانے آ جانا ہے
سورج کے ہوتے، جب تک محتاجِ ضیا ہے
چاند نے گھٹنا بڑھنا ہے اور گہنانا ہے
جانبِ تشنہ لباں پھر بڑھنے لگا مشکیزہ
جبر نے جِس پر تیر نیا پھر برسانا ہے
عاجز ہم اور قادر اور کوئی ہے ماجد
جیون بھر بس درس یہی اِک دہرانا ہے
ماجد صدیقی

چِڑا رہے ہیں مرا منہ، مرے سخن کے گلاب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
شرف مآب ہوئے سے جب سے مکر و فن کے گلاب
چِڑا رہے ہیں مرا منہ، مرے سخن کے گلاب
بناتِ شہر کی پژمردگی وہ کیا جانے
بہم ہر آن جسے ہوں، بدن بدن کے گلاب
ملے نہ جس کا کہیں بھی ضمیر سے رشتہ
گراں بہا ہیں اُسی فکرِ پر فتن کے گلاب
سخن میں جس کے بھی اُمڈی ریا کی صنّاعی
ہر ایک سمت سے برسے اُسی پہ دَھن کے گلاب
یہاں جو قصر نشیں ہے، یہ جان لے کہ اُسے
نظر نہ آئیں گے ماجد، تجھ ایسے بن کے گلاب
ماجد صدیقی

سورج نے کھُلی آنکھ سے ہے کم ہمیں دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
شاخیں یہی کہتی ہیں، نہ بے دم ہمیں دیکھا
سورج نے کھُلی آنکھ سے ہے کم ہمیں دیکھا
ژالوں سے بچے ہیں تو ہوا نوچنے آئی
اِس خاک نے ہر حال میں برہم ہمیں دیکھا
ہر دیکھنے والے نے دھند لکوں میں حسد کے
مہتابِ سرِ صبح سا، مدّھم ہمیں دیکھا
ماجد ہوئے ہم اوس ، گیاہِ لبِ جو کی
ہر شخص نے ندیا ہی میں مدغم ہمیں دیکھا
ماجد صدیقی

آگے انت اُس کا دیکھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
شاخ پہ پھول کھِلا دیکھا ہے
آگے انت اُس کا دیکھا ہے
زور رہا جب تک سینے میں
تھا نہ روا جو، روا دیکھا ہے
فریادی ہی رہا وہ ہمیشہ
جو بھی ہاتھ اُٹھا دیکھا ہے
ہم نے کہ شاکی، خلق سے تھے جو
اب کے سلوکِ خدا دیکھا ہے
سنگدلوں نے کمزوروں سے
جو بھی کہا ، وُہ کِیا ، دیکھا ہے
جس سے کہو، کہتا ہے وُہی یہ
کر کے بَھلا بھی ، بُرا دیکھا ہے
اور نجانے کیا کیا دیکھے
ماجد نے ، کیا کیا دیکھا ہے
ماجد صدیقی

جبر نے بخشی ہمیں کیا گونجتی تنہائیاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
سُر اداسی کے بکھیریں سانس کی شہنائیاں
جبر نے بخشی ہمیں کیا گونجتی تنہائیاں
منتظر رہ رہ کے آنکھیں اِس قدر دھندلا گئیں
فرقِ روز و شب تلک جانیں نہ اب بینائیاں
رنگ پھیکے پڑ گئے کیا کیا رُتوں کے پھیر سے
گردشوں سے صورتیں کیا کیا نہیں گہنائیاں
جاگنے پر، تخت سے جیسے چمٹ کر رہ گئے
ہاتھ جن کے، سو کے اُٹھنے پر لگیں دارائیاں
لے کے پیمانے گلوں کی مسکراہٹ کے رُتیں
ناپنے کو آ گئیں پھر درد کی گہرائیاں
اُس سے ہم بچھڑے ہیں ماجد ابکے اِس انداز سے
پت جھڑوں میں جیسے پتوں کو ملیں رُسوائیاں
ماجد صدیقی

جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
سجل حویلیوں کی ، بام و در کی بات اور ہے
جہاں کے ہم مکیں ہیں، اُس نگر کی بات اور ہے
محال ہو گیا ہے، دھُند سے جسے نکالنا
چمن میں آرزو کے اُس شجر کی، بات اور ہے
صدف سے چشمِ تر کے، دفعتاً ٹپک پڑا ہے جو
گراں بہا نہیں ، پہ اُس گہر کی بات اور ہے
ہُوئی ہے روشنی سی، جگنوؤں کے اجتماع سے
لگی نہیں جو ہاتھ، اُس سحر کی بات اور ہے
کوئی کوئی ہے شہر بھر میں، تجھ سا ماجدِ حزیں
ہُوا جو تجھ پہ ختم ، اُس ہنر کی بات اور ہے
ماجد صدیقی

حبس پہنچا ہے کس اَوج پر دیکھنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
سانس روکے کھڑے ہیں شجر دیکھنا
حبس پہنچا ہے کس اَوج پر دیکھنا
خرمنوں میں ہوئیں جن کی بیجائیاں
پھولنے کو ہیں اب وہ شرر دیکھنا
لیس کر کے ہمیں رختِ بارود سے
بھیجتا ہے کدھر؟ رہبر دیکھنا
کھور ہی دے بدن کو نہ آنکھوں کی نم
دیکھنا ماجدِ بے خبر دیکھنا
ماجد صدیقی

وہ ستمگر پھر ڈگر پہلی سی اپنانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
زچ ہوئے پر جو ذرا سا تھا بدل جانے لگا
وہ ستمگر پھر ڈگر پہلی سی اپنانے لگا
بچ کے پچھلے دشت میں نکلے تھے جس کے سِحر سے
پھر نگاہوں میں وہی اژدر ہے لہرانے لگا
کر کے بوندوں کو بہ فرطِ سرد مہری منجمد
دیکھ لو نیلا گگن پھر زہر برسانے لگا
جُود جتلانے کو اپنی شاہ ہنگامِ سخا
عیب کیا کیا کچھ نہ ناداروں کے دِکھلانے لگا
سُرخرُو اس نے بھی زورآور کو ہی ٹھہرا دیا
حفظِ منصب کو ستم عادل بھی یہ ڈھانے لگا
دل میں تھا ماجدؔ جو سارے دیوتاؤں کے خلاف
اب زباں پر بھی وہ حرفِ احتجاج آنے لگا
ماجد صدیقی

ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
رگ بہ رگ پیہم لئے برگ و ثمر کا انتظار
ختم ہونے ہی نہیں پاتا شجر کا انتظار
کوئی منزل ہو ٹھہرتی ہے وہ کیوں مل کر سراب
ہر مسافر کو ہے کیوں تازہ سفر کا انتظار
رزق تک بھی روٹھنے کو جیسے ہم ایسوں سے ہے
جو بھی ہے کھلیان اُس کو ہے شرر کا انتظار
کاوشِ اظہارِ حق سے کب بہم ہو گا اِنہیں
اہلِفن کو جانے کیوں ہے سیم و زر کا انتظار
تشنہ لب خوشوں کی آنکھیں بوندیوں پر ہیں لگی
بحر کو بہرِ تموّج ہے قمر کا انتظار
اک سے اک بے جان سُورج اپنے پہلو میں لیے
ہر سحر سونپے ہمیں، اگلی سحر کا انتظار
کرب کے آنسو طرب کے آنسوؤں میں کب ڈھلیں
آنکھ کو ماجدؔ ہے کیوں پھر بھی گہر کا انتظار
ماجد صدیقی

رگوں سے شہر کی، فاسد لہو نکلنے دو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
ریا کی زد پہ ہے کب سے اسے سنبھلنے دو
رگوں سے شہر کی، فاسد لہو نکلنے دو
جو اُن کے جسم پہ سج بھی سکے مہک بھی سکے
رُتوں کو ایسا لبادہ کوئی بدلنے دو
کسی بھی بام پہ اب لَو کسی دئیے کی نہیں
چراغِ چشم بچا ہے اسے تو جلنے دو
بچے گا خیر سے شہ رگ کٹے پہ بسمل کیا
ذرا سی ڈھیل اِسے دو، اِسے اُچھلنے دو
چلن حیات کا ماجدؔ بدل بھی لو اپنا
جو سر سے ٹلنے لگی ہے بلا وہ ٹلنے دو
ماجد صدیقی

کِیا ہے چاک ہواؤں نے بادباں کیا کیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
رہِ سفر میں ہوئیں ہم پہ سختیاں کیا کیا
کِیا ہے چاک ہواؤں نے بادباں کیا کیا
نہ احتساب ہی بس میں، نہ احتجاج اُن کے
عوام اپنے یہاں کے ہیں بے زباں کیا کیا
فساد و فتنہ و شر کے ہم اہلِ مشرق کو
دِکھا رہا ہے نئے رنگ آسماں کیا کیا
وہ جسکے ہاتھ میں کرتب ہیں اُس کی چالوں سے
لٹیں گے اور بھی ہم ایسے خوش گماں کیا کیا
ہم ایسے اڑتے پرندوں کو کیا خبر ماجدؔ
دکھائے اور ہنر حرص کی کماں کیا کیا
ماجد صدیقی

ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
ذرّوں سے پہچان ہے ضو کی، ماہِ مبیں کوئی اور
ہم تم پائے تخت کے ہیں اور تخت نشیں کوئی اور
بال یہ پُوچھے منکرِ یزداں ہیں جو ہیں اور کثیر
اُنکے نصیبوں میں بھی ہے کیا فردوسِ بریں کوئی اور
آتی جاتی سانسوں کا بھی رکھ نہ سکیں جو حساب
دشمن ہیں تو ایک ہمِیں اپنے ہیں ،نہیں کوئی اور
چاند کو بس گھٹتا ہی دیکھیں اور رہیں رنجور
اِس دنیا میں شاید ہی ہو ہم سا حزیں کوئی اور
دل جس کو دینا تھا دیا اور اب ہے کہاں یہ تاب
دل کی لگن میں دیکھ لیا ہے جیسے حسیں کوئی اور
ہم ذی جوہر ہیں، یہ گماں ماجدؔ تھا گمانِ محض
اوج کی انگوٹھی میں سجا ہے دیکھ! نگیں کوئی اور
ماجد صدیقی

پسِ خیال عجب سنسنی سی شہر میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
دھڑکتی گونجتی اِک خامشی سی شہر میں ہے
پسِ خیال عجب سنسنی سی شہر میں ہے
لب و زباں پہ نہیں ہے، نظر نظر میں تو ہے
کوئی تو بات ہے جو اَن کہی سی شہر میں ہے
چھپا سکے نہ جسے کوئی بھی اَپَھل جوڑا
کچھ اِس طرح کی حزیں بیدلی سی شہر میں ہے
جھٹک رہے ہوں جسے آہوانِ رم خوردہ
وفورِ خوف میں وہ کھلبلی سی شہر میں ہے
ہُوا جو اُس کی خبر بھی ہے اور خبر بھی نہیں
چہار سُو یہی ناآگہی سی شہر میں ہے
دہک رہے ہیں گلابوں سے بام و در ماجد
جو آنچ میں ہو وہی تازگی سی شہر میں ہے
ماجد صدیقی

وہ بڑوں کو جو بڑا کچھ اور کر گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
دوسروں کے واسطے جیا تھا مر گیا
وہ بڑوں کو جو بڑا کچھ اور کر گیا
جگنوؤں تلک کی روشنی لگے فریب
رہبروں سے ہُوں کچھ اِس طرح کا ڈر گیا
ناز تھا کہ ہم سفیرِ انقلاب ہیں
پر یہ زعم بھی نشہ سا تھا اُتر گیا
خانۂ خدا سے بُت جہاں جہاں گئے
بار بار میں نجانے کیوں اُدھر گیا
پاؤں کے تلے کی خاک نے نگل لیا
میں تو تھا کنارِ آب باخبر گیا
لعل تھا اٹا تھا گرد سے، پہ جب دھُلا
ماجدِ حزیں کچھ اور بھی نکھر گیا
ماجد صدیقی

چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہت

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
دمِ زوال ، رعونت زباں پہ لائے بہت
چراغ بجھنے پہ آئے تو پھڑپھڑائے بہت
یہی تو ڈُوبتے سُورج کا اِک کرشمہ ہے
بڑھائے قامتِ کوتاہ تک کے، سائے بہت
قلم کے چاک سے پھوٹے وہ، مثل بیلوں کے
جو لفظ ہم نے زباں کے تلے دبائے بہت
ستم ستم ہے کوئی جان دار ہو اُس کو
نگل کے آب بھی اِک بار تھرتھرائے بہت
ہمارے گھر ہی اُترتی نہ کیوں سحر ماجد
تمام رات ہمِیں تھے جو کلبلائے بہت
ماجد صدیقی

آسماں کیوں ٹوٹ کر نیچے نہیں آنے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
دستِ شفقت کیوں بہ حقِ جور بن جانے لگا
آسماں کیوں ٹوٹ کر نیچے نہیں آنے لگا
کھیت جلنے پر بڑھا کر عمر، اپنے سود کی
کس طرح بنیا، کسانوں کو ہے بہلانے لگا
جانے کیا طغیانیاں کرنے لگیں گھیرے درست
گھونسلوں تک میں بھی جن کا خوف دہلانے لگا
خون کس نے خاک پر چھڑکا تھا جس کی یاد میں
اِک پھریرا سا فضاؤں میں ہے لہرانے لگا
مہد میں مٹی کے جھونکا برگِ گل کو ڈال کر
کس صفائی سے اُسے رہ رہ کے سہلانے لگا
ماجد صدیقی

ابکے یُوں بھی کھیتیاں سیراب ہونے لگ پڑیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
خونِ مظلوماں سے ہیں شاداب ہونے لگ پڑیں
ابکے یُوں بھی کھیتیاں سیراب ہونے لگ پڑیں
غاصبانِ تخت کی خود ساختہ آفات سے
جانے کیا کیا ہستیاں، غرقاب ہونے لگ پڑیں
حق طلب ہیں جس قدر خاموش رکھنے کو اُنہیں
اجتماع گاہیں تلک برقاب ہونے لگ پڑیں
حرص زادوں کے تدّبر کی تہِ شیریں لئے
گالیاں بھی شاملِ آداب ہونے لگ پڑیں
جب سے ماجدؔ مکر کا غلبہ مناصب پر ہُوا
دیکھ کیا کیا حرمتیں بے آب ہونے لگ پڑیں
ماجد صدیقی

پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
خلق نے تو اس کو ایسے میں بھی ذی شاں کہہ دیا
پر شہِ بے پیرہن کو میں نے عریاں کہہ دیا
رزق نے جس کے مجھے پالا ہے جس کا رزق ہوں
کہہ دیا اس خاک کو میں نے رگِ جاں کہہ دیا
اِس تمنّا پر کہ ہاتھ آ جائے نخلستاں کوئی
خود غرض نے دیکھ صحرا کو گلستاں کہہ دیا
ہمزبانِ شاہ وہ بھی تھے جنہوں نے آز میں
رات تک کو، یار کی زلفِ پریشاں کہہ دیا
میں وہ خوش خُو جس نے دو ٹانگوں پہ چلتا دیکھ کر
شہر کے بن مانسوں تک کو بھی انساں کہہ دیا
کیا کہوں کیوں میں نے سادہ لوح چڑیوں کی طرح
وقفۂ شب کو بھی تھا صبحِ درخشاں کہہ دیا
اس کے ناطے، درگزر جو محض عُجلت میں ہوئی
گرگ کو بھی بھیڑ نے ماجدؔ پشیماں کہہ دیا
ماجد صدیقی

لوگ تماشا بننے سے کترانے لگے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
حق طلبی سے اب کے دھیان ہٹانے لگے ہیں
لوگ تماشا بننے سے کترانے لگے ہیں
نرم ہوا کانٹوں سے الجھنا سیکھ رہی ہے
اور بگولے پھولوں کو سہلانے لگے ہیں
مہلتِ شر کو دیکھ کے جو ابلیس نے پائی
خیر کے جتنے قصّے ہیں افسانے لگے ہیں
صاحبِ قامت، اور بلندیِ فرق کی خاطر
سب کوتاہ قدوں کو پاس بلانے لگے ہیں
زردیِ رنگ پہ شور مچانے والے پتّے
ابر کے ہاتھوں ماجد خوب ٹھکانے لگے ہیں
ماجد صدیقی

کس زباں سے کسی سے کہیں وہ ہیں مسافر وہ کن دلدلوں کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
حرص و نخوت کے اندھے نگر میں باپ ہیں جو جواں بیٹیوں کے
کس زباں سے کسی سے کہیں وہ ہیں مسافر وہ کن دلدلوں کے
شاخچوں کا جو اندوختہ تھا رس وہ چوسا ہے حبسِ زمیں نے
دھوپ ابکے چھتوں پر وہ اُتری پھول کملا گئے آنگنوں کے
خون میں خوف کی آہٹیں ہیں جسم در جسم کھولاہٹیں ہیں
ایک ہلچل سی اعصاب میں ہے ذہن مرکز ہیں یوں زلزلوں کے
شہرِ خفتہ کی گدلی فضا میں جانے کیا کیا دکھائی دیے ہیں
چشمِ بیدار میں چبھنے والے تُند کنکر نئے رتجگوں کے
زندگی دشتِ تاریک میں ہے جیسے بھٹکا ہوا شاہزادہ
جس کے ہر کُنج میں ایستادہ دیو ہیں نو بہ نو الجھنوں کے
وہ خودی ہو کہ خود انحصاری محض خوش فہمیاں ہیں کہ ہم نے
ہاتھ مصروف دیکھے ہیں جو بھی اُن میں پائے تھے بیساکھیوں کے
اِن مکینانِ فردوس پر بھی جیسے دوزخ کے در کھُل چلے ہوں
دِن بُرے آنے والے ہیں ماجد باغ میں سارے کچّے پھلوں کے
ماجد صدیقی

بَونے بانس لگا کر صاحبِ قامت ٹھہرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
چہرۂ سرو قداں پر داغِ ندامت ٹھہرے
بَونے بانس لگا کر صاحبِ قامت ٹھہرے
اُس کے لیے جو خود شامت ہے بستی بھر کی
جانے کونسی ساعت، ساعتِ شامت ٹھہرے
جس کے طلوع پہ خود سورج بھی شرمندہ ہے
اور وہ کون سا دن ہو گا جو قیامت ٹھہرے
اہلِ نشیمن کو آندھی سے طلب ہے بس اتنی
پیڑ اکھڑ جائے پر شاخ سلامت ٹھہرے
کون یزید کی بیعت سے منہ پھیر دکھائے
کون حسین ہو، دائم جس کی امامت ٹھہرے
خائف ہیں فرعون عصائے قلم سے تیرے
اور بھلا ماجد کیا تیری کرامت ٹھہرے
ماجد صدیقی

کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
چمن پہ ہے تو بس اِتنا سا اختیار ہمیں
کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں
مچلتی لُو کا فلک سے برستے ژالوں کا
نہ جانے کون سا موسم ہو ساز گار ہمیں
ہر اِک قدم پہ وہی تجربہ سکندر سا
کسی بھی خضر پہ کیا آئے اعتبار ہمیں
ذرا سا سر جو اٹھا بھی تو سیل آلے گا
یہی خبر ہے سُنائے جو، اِنکسار ہمیں
مہک تلک نہ ہماری کسی پہ کھُلنے دے
کِیا سیاستِ درباں نے یوں شکار ہمیں
جو نقش چھوڑ چلے ہم اُنہی کے ناطے سے
عزیز، جان سے جانیں گے تاجدار ہمیں
بپا جو ہو بھی تو ہو بعدِ زندگی ماجد
یہ حشر کیا ہے جلائے جو، بار بار ہمیں
ماجد صدیقی

لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
جب سے اندر سے بِکے اخبار میرے شہر کے
لا دوا ہونے لگے آزار میرے شہر کے
اَنٹیوں کے مول بِکتے ہیں کئی یوسف یہاں
مصر کے بازار ہیں بازار، میرے شہر کے
لُوٹ کر شب زادگاں نے جگنوؤں کی پُونحیاں
چہرہ چہرہ مَل لئے انوار، میرے شہر کے
جانچیے تو لوگ باہم نفرتوں میں غرق ہیں
دیکھیے تو فرد ہیں تہوار، میرے شہر کے
کُو بہ کُو پسماندگی کا ہے تعفّن چار سو
اور بہت ذی شان ہیں دربار، میرے شہر کے
چوس لینے پر نمِ زر، جس کسی کے پاس ہے
کر چکے ایکا سبھی زر دار، میرے شہر کے
مکر کیا کیا لوریاں ماجد اُنہیں دینے لگا
لوگ جتنے بھی مِلے بیدار، میرے شہر کے
ماجد صدیقی

یہاں اہلِ نظر تو ہیں بہت، بیدار کم کم ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
جو آنکھیں دیکھتی ہوں دھُند کے اُس پار، کم کم ہیں
یہاں اہلِ نظر تو ہیں بہت، بیدار کم کم ہیں
بھسم کرنے کو آہن، کام میں لایا گیا کیا کیا
فلاحت اور زراعت کے مگر اوزار کم کم ہیں
سمجھ بیٹھے ہیں جب سے اصلِ حرصِ خوش خصالاں ہم
کسی بھی صورتِ حالات سے بے زار کم کم ہیں
شکم جب سے بھرا رہنے لگا ہے چھِینا جھپٹی سے
وہ کہتے ہیں یہی ، نگری میں اب نادار کم کم ہیں
فروغِ تیرگی بھی دم بہ دم ماجِد فراواں ہے
نگر میں جگنوؤں کے پاس بھی انوار کم کم ہیں
ماجد صدیقی

اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
جو حق میں تمہارے بند رہیں وہ لب گنجینۂ زر کر دو
اور شور اٹھے جن گلیوں سے وہ گلیاں خون سے تر کر دو
جو سادہ منش ہیں ان سب کو تم دین کے نام پہ دھوکا دو
جو کھولے ڈھول کا پول اُسے اسلام آباد بدر کر دو
جو رات وطن پر چھائی ہے تم سب کے بھاگ جگانے کو
کچھ جگنو چھوڑ کے وعدوں کے اُس میں اعلانِ سحر کر دو
جو کھیت ترستے ہیں نم کو اُن کھیتوں کے اِک کونے کو
خِفّت کے عرق سے تر کر کے وقفِ تشہیرِ ہُنر کر دو
جو ہاتھ اُٹھیں وہ کٹ جائیں جو آنکھ اٹھے وہ پھوٹ بہے
ہر چلتی سانس کچلنے کو پیمانۂ فتح و ظفر کر دو
ہاں پیڑ پہ بیٹھی چڑیوں پر، کاہے کو کرو تم وار بھلا
ہاں ان کا شور دبانے کو شاہو! تو بیِخ شجر کر دو
ماجد صدیقی

اِنساں تھے ، سرِ کوہ کے اشجار نہیں تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
ٹھہرے جو بھسم ، مِلکِ ستم گار نہیں تھے
اِنساں تھے ، سرِ کوہ کے اشجار نہیں تھے
اب کے بھی پرندے وُہی ، ژالوں میں سڑے ہیں
جو ابر کی خصلت سے خبردار نہیں تھے
الزام محافظ پہ بھی تھا کچھ تو ، نقب کا
افراد اگر شہر کے بیدار نہیں تھے
رکھتے تھے مہک پاس جو ماجد کے ہنر کی
جھونکے تھے ، کچھ اُس کے وہ طرفدار نہیں تھے
ماجد صدیقی

شجر پہ پات تھے جتنے ، وہ زرد ہونے لگے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
تھے جتنے ذائقے وہ اپنا لطف کھونے لگے
شجر پہ پات تھے جتنے ، وہ زرد ہونے لگے
وہی جو کھینچ کے لائے تھے کشتیوں سے ہمیں
بھنور کے بیچ وہ ناؤ ہیں اب ڈبونے لگے
کٹے ہیں جن کے بھی رشتے، کہ تھے جو جزوِ بدن
سکوں کی نیند بھلا، وہ کہاں ہیں سونے لگے
ہیں جتنے دل بھی غرض کی تپش سے بنجر ہیں
یہ ہم کہاں ہیں محبت کے بیج بونے لگے
یہ واقعہ ہے کہ وہ حبسِ دم سے ہو آزاد
بحالِ کرب کوئی، جب بھی کھُل کے رونے لگے
ملے جو شاہ بھی ، تقلیلِ رزقِ خلق سے وُہ
رگوں میں جبر کے نشتر نئے چبھونے لگے
ترے یہ حرف کہ جگنو ہیں ، ا شک ہیں ماجد
ہیں سانس سانس میں، کیا کیا گہر پرونے لگے
ماجد صدیقی

زوالِ عمر کے دن، ٹُوٹتے خمار کے دن

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
پڑے ہیں دیکھنے کیا کربِ آشکار کے دن
زوالِ عمر کے دن، ٹُوٹتے خمار کے دن
بنامِ کم نظراں، لطفِ لمحۂ گزراں
ہمارے نام نئی رُت کے انتظار کے دن
بدن سے گردِ شرافت نہ جھاڑ دیں ہم بھی
لپک کے چھین نہ لیں ہم بھی کچھ نکھار کے دن
طویل ہوں بھی تو آخر کو مختصر ٹھہریں
چمن پہ رنگ پہ، خوشبو پہ اختیار کے دن
نئے دنوں میں وہ پہلا سا رس نہیں شاید
کہ یاد آنے لگے ہیں گئی بہار کے دن
فلک کی اوس سے ہوں گے نم آشنا کیسے
زمین پر جو دھوئیں کے ہیں اور غبار کے دن
یہ وقت بٹنے لگا ناپ تول میں کیونکر
یہ کس طرح کے ہیں ماجدؔ گِنَت شُمار کے دن
ماجد صدیقی

دھجی دھجی برگ و شجر ہیں، حال بُرا ہے نہالوں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
اب کی بہار بھی چلتے دیکھا زور چمن پہ وہ ژالوں کا
دھجی دھجی برگ و شجر ہیں، حال بُرا ہے نہالوں کا
جبر کے ہاتھوں جسم تلک وہ سادہ منش کٹوا بیٹھے
تیغ زنی سے بھی کچھ بڑھ کر زعم جنہیں تھا ڈھالوں کا
دشت و دمن میں ایسا تو دہلاتی چپ کا راج نہ تھا
لفظ و معانی تک پہ گماں ہے ٹھٹھکے ہوئے غزالوں کا
اِتنے چلے پر بھی نہیں پہنچے جس کی خنک فضاؤں میں
اُس بگیا تک اور سفر ہے جانے کتنے سالوں کا
ماجد اب دُرّوں کی جگہ وہ ہاتھ میں پرچم رکھتے ہیں
دھندا راس جنہیں آیا جسموں سے اتری کھالوں کا
ماجد صدیقی

احساس کے تلوے میں چھپا خار کہاں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
آنکھوں کو نہیں سُوجھتا، آزار کہاں ہے
احساس کے تلوے میں چھپا خار کہاں ہے
جو جھاگ سا اُٹھا تھا کبھی اپنے سروں سے
اب دیکھیے وہ طرۂ پندار کہاں ہے
ہلچل سی مچا دیتا تھا جو کاسۂ خوں میں
جو دشمنِ جاں تھا وہ مرا یار کہاں ہے
شعلہ تو کہاں کا کہ دھُواں تک نہیں دیکھا
موجود پسِ لب ہے جو وہ نار کہاں ہے
تہہ دار ہے، اُلجھاؤ نہیں اُس کے سخن میں
ماجد کا لکھا ایسا پُر اسرار کہاں ہے
ماجد صدیقی

لیکن شکستِ عزم کا طعنہ نہ دے مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
یہ دورِ کرب جو بھی کہے سو کہے مجھے
لیکن شکستِ عزم کا طعنہ نہ دے مجھے
جس موج کو گلے سے لگاتا ہوں بار بار
ایسا نہ ہو یہ موجِ الم لے بہے مجھے
میں خود ہی کھِل اُٹھوں گا شگفتِ بہار پر
موسم یہ ایک بار سنبھالا تو دے مجھے
سایہ ہوں اور رہینِ ضیا ہے مرا وجود
سورج کہیں نہ ساتھ ہی لے کر ڈھلے مجھے
ماجدؔ ہو کوئی ایسی تمّنا کہ رات دن
بادِ صبا کے ساتھ اُڑاتی پھرے مجھے
ماجد صدیقی

ہوتا نہیں چاند کا گزر تک

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
یہ حال ہے اب اُفق سے گھر تک
ہوتا نہیں چاند کا گزر تک
یہ آگ کہاں دبی پڑی تھی
پہنچی ہے جو اَب دل و جگر تک
دیکھا تو یہ دل جہاں نما تھا
محدود تھے فاصلے نظر تک
ہوں راہیِ منزلِ بقا اور
آغاز نہیں ہُوا سفر تک
تھے رات کے زخم یا ستارے
بُجھ بُجھ کے جلے ہیں جو سحر تک
ہے ایک ہی رنگ، دردِ جاں کا
ماجدؔ نمِ چشم سے شرر تک
ماجد صدیقی

کہ دل بھی چنگیزیِ غمِ جاں کو جیسے تسلیم کر رہا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 77
یہ کیسا خنجر سا میرے پہلو میں لحظہ لحظہ اُتر رہا ہے
کہ دل بھی چنگیزیِ غمِ جاں کو جیسے تسلیم کر رہا ہے
یہ کونسی عمرِ نوح بخشی گئی ہے مجھ کو کہ عہدِ نو میں
گمان اِک ایک پل پہ جیسے صدی صدی کا گزر رہا ہے
لدا پھندا ہے ہر ایک ساعت اِسی سے آنگن دل و نظر کا
یہی تمّنا کا اک شجر ہے چمن میں جو بارور رہا ہے
دل و نظر کی خموشیوں میں چھنکتے قدموں یہ کون آیا
کہ مثلِ مہتاب نطق میرا، لبوں سے میرے اُبھر رہا ہے
یہ زندگی ہے کہ انتشارِ خرام، ابرِ رواں کا ماجدؔ
یہ کیسا منظر نگاہ میں ہے کہ لحظہ لحظہ بکھر رہا ہے
ماجد صدیقی

اَب اپنے آپ کو یوں عُمر بھر سزا دوں گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 76
یہ ٹھان لی ہے کہ دل سے تجھے بھُلا دوں گا
اَب اپنے آپ کو یوں عُمر بھر سزا دوں گا
ہُوا یہ سایۂ ابلق بھی اَب جو نذرِ خزاں
تو راہ چلتے مسافر کو اور کیا دوں گا
سموم عام کروں گا اِسی کے ذرّوں سے
فضائے دہر کو اَب پیرہن نیا دوں گا
وہ کیا ادا ہے مجھے جس کی بھینٹ چڑھنا ہے
یہ فیصلہ بھی کسی روز اَب سُنا دوں گا
سزا سُناؤ تو اِس جُرم زیست کی مُجھ کو
صلیبِ درد کی بُنیاد تک ہلا دوں گا
ہر ایک شخص کا حق کچھ نہ کچھ ہے مجھ پہ ضرور
میں اپنے قتل کا کس کس کو خوں بہا دوں گا
جو سانس ہے تو یہی آس ہے کہ اب ماجدؔ
شبِ سیاہ کو بھی رُوپ چاند سا دوں گا
ماجد صدیقی

یُوں تو ہو گا یہ جی کچھ اور نڈھال

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
ہو نہ محتاجِ پرسشِ احوال
یُوں تو ہو گا یہ جی کچھ اور نڈھال
وہ ترا بام ہو کہ ہو سرِ دار
پستیوں سے مجھے کہیں تو اُچھال
گُل بہ آغوش ہیں مرے ہی لیے
یہ شب و روز یہ حسیں مہ و سال
دن ترے پیار کا اُجالا ہے
شب ترے عارضوں کا مدّھم خال
مَیں مقّید ہوں اپنی سوچوں کا
بُن لیا مَیں نے شش جہت اِک جال
بے رُخی کی تو آپ ہی نے کی
آپ سے کچھ نہ تھا ہمیں تو ملال
ہے اسی میں تری شفا ماجدؔ
لکھ غزل اور اِسے گلے میں ڈال
ماجد صدیقی

کیوں کسی کو کھینچ لانے کی تمّنا میں کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
ہوں اگر تنہا تو تنہا ہی نہ رہنا سیکھ لوں
کیوں کسی کو کھینچ لانے کی تمّنا میں کروں
اپنی ان محرومیوں میں کچھ مرا بھی ہاتھ ہے
مَیں نہ چاہوں تو بھلا اِس طرح رسوا کیو ں پھروں
تلخ و شیریں جو بھی ہے چکھنا تو ہے مجھ کو ضرور
جو بھی کچھ آئے سو آئے کیوں نہ ہاتھوں ہاتھ لوں
ہوں مقیّد وقت کا جس سمت چاہے لے چلے
دوپہر بھی ہوں تو میں کیوں شام بننے سے ڈروں
شش جہت بکھری ہے ماجدؔ میری چاہت کی مہک
مَیں اگر جانوں تو اپنے عہد کا گلزار ہوں
ماجد صدیقی

صورت کوئی بنے تو سفر ابتدا کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 73
ہر شخص رہنما ہے کِسے رہنما کریں
صورت کوئی بنے تو سفر ابتدا کریں
ہاں کچھ تو والدین کو بھیجا کریں ضرور
پیسے نہیں تو خط ہی کبھی لکھ دیا کریں
مانگے اگر حساب کوئی صاحبِ دکان
پھیکی سی اک ہنسی نہ فقط ہنس دیا کریں
ماجدؔ بطرزِ نو سخن آرا تو ہوں ضرور
لوگوں کے تبصروں سے نہ لیکن ڈرا کریں
ماجد صدیقی

ہاں دیکھ ہماری سادگی کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 72
ہم خاک ہوئے تری خوشی کو
ہاں دیکھ ہماری سادگی کو
اے واہمۂ فراقِ جاناں
پیروں میں کچل نہ دوں تجھی کو
تم مجھ سے جُدا ہوئے تو ہوتے
پھر دیکھتے میری بے کلی کو
ظلمت ہی جہاں نظر نظر ہو
چاہے کوئی کیسے روشنی کو
یہ لُطفِ سخن کہاں تھا ماجدؔ
بیتے ہیں برس سخنوری کو
ماجد صدیقی

جس کا کھِلنا یا مرجھانا بس سے مرے باہر بھی نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
ہر لمحہ اِک بند کلی اور بول مرے تھے بادِ صبا
جس کا کھِلنا یا مرجھانا بس سے مرے باہر بھی نہ تھا
پھول کھِلے تو مَیں خود چھپ کر بیٹھ رہا ویرانوں میں
بِیت گیا جب موسمِ گل تو اُجڑے بن میں کُود پڑا
مَیں مجرم ہوں مَیں نے زہر سمویا اپنی سانسوں میں
اے جیون اے عادلِ دوراں،للہ مجھ پر رحم نہ کھا
اے جینے کے رستے مجھ پر اور بھی کچھ ہو بند ابھی
مَیں کہ نہیں ہوں اندھا بھی تُو میری آنکھیں کھول ذرا
ٹُنڈ شجر اور شاخیں، اُجڑی آنکھیں جیسے بیوہ کی
کس موسم کا ماتھا ماجدؔ مَیں نے بڑھ کر چوم لیا
ماجد صدیقی

پھر بھی اُمّید کی آغوش ہے خالی یارو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 70
ہم نے تو درد سے بھی آنکھ لڑا لی یارو
پھر بھی اُمّید کی آغوش ہے خالی یارو
شکر ہے تم نے یہ راہیں نہیں دیکھیں اَب تک
ہم تو در در پہ گئے بن کے سوالی یارو
آنکھ ہی دید سے محروم ہے ورنہ ہر سو
ہے وہی عارض و رخسار کی لالی یارو
جانے کس دور کا رہ رہ کے سُناتی ہے پیام
زرد پتّوں سے یہ بجتی ہوئی تالی یارو
عظمتِ رفتۂ فن لوٹ کے آتی دیکھو
طرز اب کے ہے وہ ماجدؔ نے نکالی یارو
ماجد صدیقی

ذات اپنی ہی دے اُٹھی خوشبُو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 69
ہے جنوں عطر، آگہی خوشبُو
ذات اپنی ہی دے اُٹھی خوشبُو
دل معطّر ہے یادِ حسن کے ساتھ
لب پہ ہے ذکرِ یار کی خوشبُو
اَب بھی ہیں سلسلے وُہی تیرے
گل پیمبر، پیمبری خوشبُو
آنے لگتی ہے تیرے نام کے ساتھ
ہر گماں سے یقین کی خوشبو
جسم مہکا ہے پھر کوئی ماجدؔ
ہے پریشاں گلی گلی خوشبُو
ماجد صدیقی

نجانے کون سے جنگل میں آ بسا ہوں مَیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
نظر اُٹھے بھی تو خُود ہی کو دیکھتا ہوں مَیں
نجانے کون سے جنگل میں آ بسا ہوں مَیں
یہ کس ہجوم میں تنہا کھڑا ہوا ہوں مَیں
یہ اپنے آپ سے ڈرنے سا کیوں لگا ہوں مَیں
وگرنہ شدّتِ طوفاں کا مجھ کو ڈر کیا تھا
لرز رہا ہوں کہ اندر سے کھوکھلا ہوں مَیں
یہ کیوں ہر ایک حقیقت لگے ہے افسانہ
یہ کس نگاہ سے دُنیا کو دیکھتا ہوں مَیں
برس نہ مجھ پہ ابھی تندیِ ہوائے چمن
نجانے کتنے پرندوں کا گھونسلا ہوں مَیں
تمہاری راہ میں وہم و گماں کا جال تو تھا
مجھے یہ دُکھ ہے کہ اِس میں اُلجھ گیا ہوں مَیں
یہ کس طرح کی ہے دِل سوزی و خنک نظری
یہ آ کے کون سے اعراف پر کھڑا ہوں مَیں
اِس اپنے عہد میں، اِس روشنی کے میلے میں
قدم قدم پہ ٹھٹکنے سا کیوں لگا ہوں مَیں
مری زمیں کو مجھی پر نہ تنگ ہونا تھا
بجا کہ چاند کو قدموں میں روندتا ہوں مَیں
سکوتِ دہر کو توڑا تو مَیں نے ہے ماجدؔ
یہ ہنس دیا ہوں نجانے کہ رو دیا ہوں مَیں
ماجد صدیقی

یہ کیفیت بھی مگر کیسے اَب سُجھاؤں اُسے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 67
وُہ یاد آئے تو کس طرح مَیں بھلاؤں اُسے
یہ کیفیت بھی مگر کیسے اَب سُجھاؤں اُسے
دل و نظر سے جو اُس پر کھُلا نہ راز اپنا
تو حرف و صوت سے احساس کیا دلاؤں اُسے
کھُلی ہے سامنے اُس کے مری نظر کی کتاب
حکایتِ غم دل پڑھ کے کیا سُناؤں اُسے
وہ ساز بھی ہے تو ہے میرے لمس کا محتاج
یہ جان لے تو نئی زندگی دلاؤں اُسے
غزل یہ اُس کی سماعت کو کہہ تو دی ماجدؔ
کوئی سبیل بھی نکلے تو اَب سناؤں اُسے
ماجد صدیقی

یہ لمحۂ جاوید گزرنے کا نہیں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
نشہ تری چاہت کا اُترنے کا نہیں ہے
یہ لمحۂ جاوید گزرنے کا نہیں ہے
کیا پُوچھتے ہو حدّتِ نظارہ سے دل میں
وہ زخم ہوا ہے کہ جو بھرنے کا نہیں ہے
لب بھینچ کے رکھوں تو چٹکتی ہے خموشی
اور ذکر بھی ایسا ہے جو کرنے کا نہیں ہے
کیوں سمت بڑھاتے ہو مری، برف سے لمحے
موسم مرے جذبوں کا ٹھٹھرنے کا نہیں ہے
اک عمر میں آیا ہے مرے ہاتھ سمٹنا
شیرازۂ افکار بکھرنے کا نہیں ہے
وہ راج ہے اِس دل کے اُفق پر تری ضو کا
سورج کوئی اَب اور اُبھرنے کا نہیں ہے
ماجدؔ کو اگر بعدِ مؤدت تری درپیش
ہو موت سی آفت بھی تو مرنے کا نہیں ہے
ماجد صدیقی

کہ ایک آن بھی خود سے جُدا نہ پاؤں تجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 65
نظر کی شاخ پہ اِس طرح اَب سجاؤں تجھے
کہ ایک آن بھی خود سے جُدا نہ پاؤں تجھے
یہ چہچہے، یہ سحر، پَو پھٹے کا منظرِ شب
ترا ہی عکس ہیں کِس طرح مَیں بھلاؤں تجھے
مہک مہک ترا اِک رنگ گل بہ گل تری لَے
تجھے لکھوں بھی تو کیا، کیسے گنگناؤں تجھے
نظر لگے نہ تمّنائے وصل کو میری
صبا کا بھیس بدل لے گلے لگاؤں تجھے
سحر کا عکس ہے ماجدؔ تری غزل کا نکھار
یہ ایک مژدۂ جاں بخش بھی سُناؤں تجھے
ماجد صدیقی

دل کا یہ زہر کسی طور تو اگلا جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 64
نہ سہی چاند پہ منہ اپنے پہ تُھوکا جائے
دل کا یہ زہر کسی طور تو اگلا جائے
تُو نہیں ہے تو تری سمت سے آنے والی
کیوں نہ اِن شوخ ہواؤں ہی سے لپٹا جائے
بے نیازی یہ کہیں عجز نہ ٹھہرے اپنا
اُس جُھکی شاخ سے پھل کوئی تو چکھا جائے
بے گُل و برگ سی وہ شاخِ تمّنا ہی سہی
دل کے اِس صحن میں ہاں کچھ تو سجایا جائے
چونک اُٹّھے وہ شہنشاہِ تغزّل ماجدؔ
یہ سخن تیرا جو غالبؔ کو سُنایا جائے
ماجد صدیقی

آنے لگا ہے حرف، چمن کے جمال پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 63
مجھ برگِ خشک سے کہ ابھی ہوں جو ڈال پر
آنے لگا ہے حرف، چمن کے جمال پر
ممنوع جب سے آبِ فراتِ نمو ہوا
کیا کچھ گئی ہے بِیت، گلستاں کی آل پر
مانندِ زخم، محو شجر سے بھی ہو گئے
چاقو کے ساتھ نام کھُدے تھے جو چھال پر
گُرگانِ باتمیز بھی ملتے ہیں کُچھ یہاں
کیجے نہ اعتبار دکھاوے کی کھال پر
ماجدؔ رہیں نصیب یہ دانائیاں اُنہیں
قدغن لگا رہے ہیں جو برقِ خیال پر
ماجد صدیقی

اے کاش یہ جان لوں کہ کیا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 62
مَیں برگ ہوں خاک ہوں ہوا ہوں
اے کاش یہ جان لوں کہ کیا ہوں
تجھ کو جو بہ غور دیکھتا ہوں
مَیں خود ہی پہ رشک کر رہا ہوں
منسوب ہے مجھ سے یہ ستم بھی
انجان دلوں سے کھیلتا ہوں
آؤ کہ یہ رُت نہ پھر ملے گی
مَیں آپ کی راہ دیکھتا ہوں
حالات سے مانگ کر خدائی
حالات سے کھیلنے لگا ہوں
شرماؤ گے دیکھ کر مجھے تُم
مَیں بھی تو تمہارا آئنہ ہوں
آگے کا سلوک جانے کیا ہو
غنچہ سا چمن میں کھِل چلا ہوں
قسمت میں شرر لکھے ہیں ماجدؔ
انگارہ صفت دہک رہا ہوں
ماجد صدیقی

ہمیں بھی چھیڑ کے دیکھیں تو یہ ہوائیں کبھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 61
مہک اُٹھیں یہ فضائیں جو لب ہلائیں کبھی
ہمیں بھی چھیڑ کے دیکھیں تو یہ ہوائیں کبھی
یہ اِن لبوں ہی تلک ہے ابھی ضیا جن کی
بنیں گی نُور کے سوتے یہی صدائیں کبھی
وُہ خوب ہے پہ اُسے اِک ہمیں نے ڈھونڈا ہے
جو ہو سکے تو ہم اپنی بھی لیں بلائیں کبھی
کبھی تو موت کا یہ ذائقہ بھی چکھ دیکھیں
وہ جس میں جان ہے اُس سے بچھڑ بھی جائیں کبھی
وہ حُسن جس پہ حسیناؤں کو بھی رشک آئے
اُسے بھی صفحۂ قرطاس پر تو لائیں کبھی
وہی کہ جس سے تکلّم کو ناز ہے ہم پر
وہ رنگ بھی تو زمانے کو ہم دکھائیں کبھی
ہمِیں پہ ختم ہے افسردگی بھی، پر ماجدؔ
کھلائیں پھول چمن میں جو مسکرائیں کبھی
ماجد صدیقی

نذرِ صرصر بھی ہمیں برگ ہُوا کرتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 60
موسموں کو نئے عنوان دیا کرتے ہیں
نذرِ صرصر بھی ہمیں برگ ہُوا کرتے ہیں
اپنے احساس نے اِک رُوپ بدل رکھا ہے
بُت کی صورت جِسے ہم پُوج لیا کرتے ہیں
اُن سے شکوہ؟ مری توبہ! وہ دلوں کے مالک
جو بھی دیتے ہیں بصد ناز دیا کرتے ہیں
ہم کہ شیرینیِ لب جن سے ہے ماجدؔ منسُوب
کون جانے کہِ ہمیں زہر پِیا کرتے ہیں
ماجد صدیقی

موت کیسی؟ یہ مرا ڈر نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
میں ابھی موت سے بچ کر نکلا
موت کیسی؟ یہ مرا ڈر نکلا
اشک تھے سو تو چھُپائے مَیں نے
پھول کالر پہ سجا کر نکلا
مَیں تو ہوں مُہر بلب بھی لیکن
کام کچھ یہ بھی ہے دُوبھر نکلا
یہ الگ بات کہ پیچھا نہ کیا
گھر سے تو اُس کے برابر نکلا
خاک سے جس کا اُٹھایا تھا خمیر
ہم رکابِ مہ و اختر نکلا
مَیں کہ عُریاں نہ ہُوا تھا پہلے
بن کے اُس شوخ کا ہمسر نکلا
غم کی دہلیز نہ چھوڑی میں نے
میں نہ گھر سے کبھی باہر نکلا
جو اُڑاتا مجھے ہم دوشِ صبا
مجھ میں ایسا نہ کوئی پر نکلا
اُس نے بے سود ہی پتھر پھینکے
حوصلہ میرا سمندر نکلا
درد اظہار کو پہنچا ماجدؔ
دل سے جیسے کوئی نشتر نکلا
ماجد صدیقی

چاند سا بدن اُس کا اور بھی نکھر جاتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 58
مَیں جو اُس کے قدموں میں ریت سا بکھر جاتا
چاند سا بدن اُس کا اور بھی نکھر جاتا
کیوں نظر میں چُبھتا تھا عکس اِک گریزاں سا
تھا اگر وہ کانٹا ہی پار تو اُتر جاتا
وہ یونہی گھرا رہتا ہجر کے حصاروں میں
اور میں کہ طوفاں تھا اُلجھنوں سے ڈر جاتا
عمر بھر کو دے جاتا نشۂ شباب اپنا
اور بھی جو کچھ لمحے پاس وہ ٹھہر جاتا
دوش پر ہواؤں کے برگِ زرد سا ماجدؔ
ڈھونڈنے اُسے اِک دن میں بھی در بہ در جاتا
ماجد صدیقی

ہَولے سے مرے دل میں کہیں سے اُتر آؤ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 57
لے کر مہِ شب تاب سے کرنوں کا بہاؤ
ہَولے سے مرے دل میں کہیں سے اُتر آؤ
چُپ چاپ ہو جیسے کوئی بن باس پہ نکلے
اے دل کی تمّناؤ! کوئی حشر اُٹھاؤ
کچھ ماند تو پڑ جائیں گے باتوں کی نمی سے
آؤ کہ دہکتے ہیں خموشی کے الاؤ
پھرتا ہے کچھ اس طور سے مغرور و گریزاں
ہے وقت بھی جیسے ترے ابرو کا تناؤ
اُترے ہیں جو اِس میں تو کھُلے گا کبھی ماجدؔ
لے جائے کہاں جھومتے دریا کا بہاؤ
ماجد صدیقی

دل کو بے چین کر گئے نغمے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 56
لب پہ آئے، بکھر گئے نغمے
دل کو بے چین کر گئے نغمے
جنبشِ لب سے وا ہوئے غنچے
صورتِ گل نکھر گئے نغمے
دُور تک تیرا ساتھ قائم تھا
دُور تک ہم سفر گئے نغمے
دھڑکنوں کی زباں سے نکلے تھے
پتّھروں تک بکھر گئے نغمے
اُڑ گئے جیسے اوس کے ہمراہ
تھے جو ماجدؔ سحر سحر نغمے
ماجد صدیقی

کھُل جائے گا حرفِ مدّعا بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 55
لے ہاتھ سے ہاتھ اَب مِلا بھی
کھُل جائے گا حرفِ مدّعا بھی
کیا ہم سے مِلا سکے گا آنکھیں
ہو تجھ سے کبھی جو سامنا بھی
سہمی تھی مہک گلوں کے اندر
ششدر سی مِلی ہمیں ہوا بھی
جس شخص سے جی بہل چلا تھا
وہ شخص تو شہر سے چلا بھی
کیوں نام ترا نہ لیں کسی سے
اَب قید یہ ہم سے تُو اُٹھا بھی
ماجدؔ کو علاوہ اِس سخن کے
ہے کسبِ معاش کی سزا بھی
ماجد صدیقی

تمہیں ایسی فرصت کہاں دوستو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
لکھو تم ہمیں چِٹھیاں دوستو
تمہیں ایسی فرصت کہاں دوستو
یہ دشتِ سخن اور یہ خاموشیاں
سلگتی ہے جیسے زباں دوستو
چمن میں مرے حال پر ہر کلی
بجاتی ہے اب تالیاں دوستو
کوئی بات جیسے نہ لوٹائے گا
خدا بھی برنگِ بُتاں دوستو
جِسے ڈھونڈتے ہو وہ ماجدؔ بھلا
غمِ جاں سے فارغ کہاں دوستو
ماجد صدیقی

لو مَیں بھی جذبات کی رَو میں کہتا ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
لو مَیں بھی ہر بات تمہی سی کہتا ہوں
لو مَیں بھی جذبات کی رَو میں کہتا ہوں
مجھ میں بھی ہے ایک سقم آئنوں سا
جو کچھ ہو محسوس وہی کچھ کہتا ہوں
سچ پوچھو تو پستی کا سر کرنا کیا
دریا بھی ہوں تو اُلٹے رُخ بہتا ہوں
ہوں محروم اِک ایک چلن سے دُنیا کے
ماجدؔ جانے میں کس جگ میں رہتا ہوں
ماجد صدیقی

تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
گل ہیں خوشبُو ہیں کہکشاں ہیں ہم
تو ہے عنوانِ دل، بیاں ہیں ہم
کل بھی تھا ساتھ ولولوں کا ہجوم
آج بھی میرِ کارواں ہیں ہم
اِک تمنّا کا ساتھ بھی تو نہیں
کس بھروسے پہ یوں رواں ہیں ہم
دل میں سہمی ہے آرزوئے حیات
کن بگولوں کے درمیاں ہیں ہم
جانتی ہیں ہمیں ہری شاخیں
زرد پتّوں کے ترجمان ہیں ہم
دل کا احوال کیا کہیں ماجدؔ
گو بظاہر تو گلستاں ہیں ہم
ماجد صدیقی

جانے میں کیوں گلستاں سے بیزار تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 51
گُل بہ گُل حُسن، میرا طلب گار تھا
جانے میں کیوں گلستاں سے بیزار تھا
سامنے اُس کے خاموش تھے اِس طرح
ہر خطا کا ہمیں جیسے اقرار تھا
زندگی جب نثارِ غمِ دہر تھی
اُس کا ملنا بھی ایسے میں بیکار تھا
مُنہ سے کہنا اگرچہ نہ آیا اُسے
بور تھا مجھ سے وہ سخت بیزار تھا
زندگی ہم سے ماجدؔ گریزاں تو تھی
جُرم اپنا بھی کچھ اِس میں سرکار تھا
ماجد صدیقی

جلوہ ترا برنگِ دِگر دیکھتا رہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 50
گہ تجھ کو، گاہ نورِ سحر دیکھتا رہوں
جلوہ ترا برنگِ دِگر دیکھتا رہوں
دِل کے دئیے سے اُٹھتی رہیں یاد کی لَویں
تیرا جمال شعلہ بہ سر دیکھتا رہوں
پل پل برنگِ برق ترا سامنا رہے
رہ رہ کے اپنی تابِ نظر دیکھتا رہوں
پہروں رہے خیال ترا ہمکنار دل
دن رات تیری راہگزر دیکھتا رہوں
ماجدؔ سناؤں شہر بہ تشریح اب کِسے
اِس سے تو آپ اپنا ہنر دیکھتا رہوں
ماجد صدیقی

کب یہ اُمید بھی بر آئے گی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
کب صبا تیرا پتہ لائے گی
کب یہ اُمید بھی بر آئے گی
صبح کی خیر مناؤ لوگو
شب کوئی دم ہے گزر جائے گی
ایسے منظر ہیں پسِ پردۂ حُسن
آنکھ دیکھے گی تو شرمائے گی
دل کو پت جھڑ کی حکایت نہ سناؤ
یہ کلی تاب نہیں لائے گی
مَیں بھی ہوں منزلِ شب کا راہی
رات بھی سُوئے سحر جائے گی
پیار خوشبُو ہے چھُپائے نہ بنے
بات نکلی تو بکھر جائے گی
دل سے باغی ہے تمّنا ماجدؔ
ہو کے اب شہر بدر جائے گی
ماجد صدیقی

دبنے والی نہیں مری آواز

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 48
کیا ہے مدّھم اگر پڑی آواز
دبنے والی نہیں مری آواز
تیری نظریں کہ آبشار گرے
میرا دامن کہ گونجتی آواز
یوں ہُوا ہے کہ ذکر سے تیرے
تیرے پیکر میں ڈھل گئی آواز
ہائے کس جذبۂ جواں سے ہے
نکھری نکھری دُھلی دھُلی آواز
کوئی غنچہ چٹک رہا ہو گا
تھی توانا بھری بھری آواز
نامُرادی کا کیا گلہ ماجدؔ
ہم نے اُٹھنے ہی جب نہ دی آواز
ماجد صدیقی

اپنے اندر کے اُس شخص کو دیکھتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 47
کاش! مَیں جس کے اُوپر ہوں اِک خوں سا
اپنے اندر کے اُس شخص کو دیکھتا
پاگلوں کی طرح وہ تجھے چاہنا
تھا مری سوچ کا وہ بھی اِک زاویہ
مُرغ تھا زد پہ تِیرِ قضا کی مگر
آشیاں تھا کھُلے بازوؤں دیکھتا
ساغرِ مئے پیے، ساتھ خوشبو لیے
در بدر ٹھوکریں کھا رہی تھی ہوا
وہ تو وہ اُس کے ہونے کا احساس بھی
تھا مہک ہی مہک، رنگ ہی رنگ تھا
چاند نکلا ہے ڈوبے گا کچھ دیر میں
چاہیئے بھی ہمیں اِس سمے اور کیا
کیسے بخشے گا آئینِ گلشن ہمیں
ہم نے مَسلا اِسے، دل کہ اِک پھُول تھا
عمر بھر ہم بھی خوشیوں کے منکر رہے
شکر ہے یہ بھی اِک مرحلہ طے ہوا
کیوں ہمیں چھُو کے ماجدؔ گزرنے لگی
آگ میں کیوں جھُلسنے لگی ہے صبا
ماجد صدیقی

پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 46
کوئی بستی نہ دیوار و در سامنے
پھیلتے جا رہے ہیں کھنڈر سامنے
اپنی جانب لپکتے قدم دیکھ کر
مُسکراتے ہیں گل شاخ پر سامنے
یاد میں تھیں صبا کی سی اٹکھیلیاں
جانے کیا کچھ رہا رات بھر سامنے
زندگی ہے کہ آلام کی گرد سے
ہانپتی ہے کوئی راہگزر سامنے
رات تھی جیسے جنگل کا تنہا سفر
چونک اُٹھے جو دیکھی سحر سامنے
آئنے ہیں مقابل جِدھر دیکھیے
اپنی صورت ہے با چشمِ ترا سامنے
ہم ہیں ماجدؔ سُلگتے دئیے رات کے
بُجھ گئے بھی تو ہو گی سحر سامنے
ماجد صدیقی

ہاتھ مرے ہاتھوں میں دے دے جینے کا سامان کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
کھول کوئی در لطف کا اپنے، اِن آنکھوں میں رنگ بھروں
ہاتھ مرے ہاتھوں میں دے دے جینے کا سامان کروں
لازم ہے اِک دورِ طرب کے بعد مجھے تو بھُول بھی جا
مَیں اک بار تجھے پھر چاہوں عہد نیا آغاز کروں
چاروں اور رہی اِک ظلمت جو سوچا سو دیکھا ہے
چاند کبھی تو اُبھرے گا یہ آس لگا کر بھی دیکھوں
اے کہ تلاشِ بہار میں تُو بھی غرق ہے، برگِ آوارہ
کاش مجھے بھی پر لگ جائیں مَیں بھی تیرے ساتھ اُڑوں
شہر میں ہر اک شخص تھا جیسے ایک یہی تلقین لیے
مَیں شبنم کو پتّھر جانوں مَیں پھُولوں کو خار کہوں
گلشن میں یہ کنجِ سخن بھی اُجڑا بن کہلاتا ہے
مَیں جِس پھلواری سے ماجدؔ پہروں بیٹھا پھُول چُنوں
ماجد صدیقی

ہر ایک شخص سے جیسے چھپا پھروں ہوں مَیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 44
کچھ اِن دنوں عجب انداز سے جیوں ہوں مَیں
ہر ایک شخص سے جیسے چھپا پھروں ہوں مَیں
ہوئی ہے ایک ادا ہی ٹھٹک کے رہ جانا
سکون سے جو قدم دو قدم چلوں ہوں مَیں
گہے اڑوں ہوں مَیں برگِ خزاں زدہ کی مثال
گہے بصُورتِ غنچہ مہک اُٹھوں ہوں مَیں
نظر نہیں ہے جب اپنے ہی عجز پر ماجدؔ
کسی کے پیار پہ الزام کیوں دھروں ہوں مَیں
ماجد صدیقی

پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 43
کانٹوں کے درمیاں گلِ تر کا نشاں بھی دیکھ
پاگل نہ بن، رُتوں کو کبھی مہرباں بھی دیکھ
ہاتھوں میں میرے، صفحۂ سادہ پہ کر نظر
اظہارِ غم کو ترسی ہوئی انگلیاں بھی دیکھ
تو اور سراپا بس میں ہمارے ہو! ہائے ہائے!!
ہم پر یہ ایک تہمتِ اہلِ جہاں بھی دیکھ
تھا زیست میں بہار کا طوفاں بھی پل دو پل
اِس بحر میں تموّجِ گردِ خزاں بھی دیکھ
سہمی ہوئی حیات کو یُوں مختصر نہ جان
لمحے میں جھانک اور اسے بیکراں بھی دیکھ
ردّی کے بھاؤ بیچا گیا ہوں کسی کے ہاتھ
لے کُو بکُو بکھرتی مری داستاں بھی دیکھ
ماجدؔ ہے جس کا شور سماعت میں اَب تلک
اُس سیلِ تند و تیز کے چھوڑے نشاں بھی دیکھ
ماجد صدیقی

کوئی نمو کا بھی رُخ دیجیے زمانے کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
کشید خاک سے آتش تو کی جلانے کو
کوئی نمو کا بھی رُخ دیجیے زمانے کو
لگے بھی ہاتھ تو کس کے ستم کشانِ جہاں
سجا رہا ہے جو کولہو میں دانے دانے کو
لہو میں لتھڑے ہوئے پاؤں لے کے دھرتی سے
چلا ہے چاند پہ انساں قدم جمانے کو
کسی بھی عہد میں وحشت کا تھا نہ یہ انداز
ہر ایک ہاتھ میں کب جال تھے بچھانے کو
ہر ایک شخص سے ہر ایک شخص بیگانہ
یہ کیا ہوا ہے یکایک مرے زمانے کو
وُہ سُن کے زخم بھی ماجدؔ ترے کُریدیں گے
جنہیں چلا ہے حکایاتِ غم سُنانے کو
ماجد صدیقی

ہے میّسر مجھے انساں ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 41
قّصۂ دہر کا عنواں ہونا
ہے میّسر مجھے انساں ہونا
کتنا مشکل ہے ترے غم کا حصول
کتنا مشکل ہے پریشاں ہونا
تو مری روح میں، وجدان میں ہے
تجھ کو حاصل ہے مری جاں ہونا
مہر کو سر پہ سجانا پل بھر
پھر شبِ سردِ زمستاں ہونا
پھُولنا شاخ پہ غنچہ غنچہ
اور اِک ساتھ پریشاں ہونا
کب تلک خوفِ ہوا سے آخر
ہو میسّر، تہِ داماں ہونا
تھے کبھی ہم بھی گلستاں ماجدؔ
اَب وطیرہ ہے بیاباں ہونا
ماجد صدیقی

پہنچا ہے اُس کا ذکر ہر اک بُک سٹال پر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 40
فن سے مرے کہ ہے جو فرازِ کمال پر
پہنچا ہے اُس کا ذکر ہر اک بُک سٹال پر
ہونٹوں پہ رقص میں وُہی رنگینی نگاہ
محفل جمی ہوئی کسی ٹیبل کی تال پر
شیشے کے اِک فریم میں کچھ نقش قید تھے
میری نظر لگی تھی کسی کے جمال پر
ساڑھی کی سبز ڈال میں لپٹی ہوئی بہار
کیا کچھ شباب تھا نہ سکوٹر کی چال پر
ہنستی تھی وہ تو شوخیِ خوں تھی کُچھ اس طرح
جگنو سا جیسے بلب دمکتا ہو گال پر
رکھا بٹن پہ ہاتھ تو گھنٹی بجی اُدھر
در کھُل کے بھنچ گیا ہے مگر کس سوال پر
میک اَپ اُتر گیا تو کھنڈر سی وہ رہ گئی
جیسے سحر کا چاند ہو ماجدؔ زوال پر
ماجد صدیقی

کوئی صنم بھی تو ہو مَیں جِسے خُدا مانوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 39
غزل لکھوں تو کِسے اپنا مُدّعا مانوں
کوئی صنم بھی تو ہو مَیں جِسے خُدا مانوں
مری ضیا سے مُنّور، مجھی سے بیگانہ
مَیں ایسے عہد کو کس طرح با صفا مانوں
حضور! آپ نے جو کچھ کہا، درست کہاں
مرا مقام ہی کیا ہے جو مَیں بُرا مانوں
جو میرے سر پہ ٹھہرتا تلک نہیں ماجدؔ
مَیں ایسے ابرِ گریزاں کو کیوں رِدا مانوں
ماجد صدیقی

تجھ پہ ہے اَب یہ فیصلہ، چاہیئے انتہا مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 38
صُورتِ خار دے چبھن، صُورت گُل کھِلا مجھے
تجھ پہ ہے اَب یہ فیصلہ، چاہیئے انتہا مجھے
بھید مری سرشت کا اِس سے کھُلے گا اور بھی
مَیں کہ گلوں کی خاک ہوں لے تو اُڑے ہوا مجھے
کھائے نہ تن پہ تِیر بھی، لائے نہ جوئے شِیر بھی
کیسے فرازِ ناز سے شوخ وہ، مِل گیا مجھے
وہ کہ مثالِ مہر ہے، وہ کہ ہے رشکِ ماہ بھی
اے مرے نطق و لب کی ضو! سامنے اُس کے لا مجھے
دست درازیِ خزاں! ہے تجھے مجھ پہ اختیار
کر تو دیا برہنہ تن، اور نہ اَب ستا مجھے
اے مری ماں! مری زمیں! تجھ سے کہوں تو کیا کہوں؟
چھین کے گود سے تری، لے گئی کیوں خلا مجھے
جب سے جلے ہیں باغ میں برق سے بال و پر مرے
کہنے لگی ہے خلق بھی ماجدِؔ بے نوا مجھے
ماجد صدیقی

پھر وہی ہم ہیں وہی دشتِ ستم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 37
رہ بہ رہ پھر وہی اندیشۂ غم
پھر وہی ہم ہیں وہی دشتِ ستم
زندگانی سے الجھنا ہے مجھے
رہنے دیجے گا مجھی تک مرا غم
ہم گرفتارِ بلا ٹھہریں گے
وقت پھیلائے گا پھر دامِ ستم
وقت اِک شعلۂ لرزاں ماجدؔ
زندگی ایک خیال مبہم
ماجد صدیقی

دیکھ تسکین کی صورت ہے کہاں آنکھوں میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 36
رات کٹتی ہے سلگتے، مری جاں آنکھوں میں
دیکھ تسکین کی صورت ہے کہاں آنکھوں میں
دلِ ناداں کی پیمبر ہیں اِنہیں دیکھ ذرا
ہے کوئی غم تری جانب نگراں آنکھوں میں
پہلوئے دل میں مہکتا ہے وہی اِک گل تر
تیرتا ہے وہی اِک ماہ رواں آنکھوں میں
نہ کسی غم کا چراغاں نہ کسی یاد کے دیپ
کب سے ماجدؔ ہے اندھیروں کا سماں آنکھوں میں
ماجد صدیقی

ہاں مرحلہ یہ بھی دیدنی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 35
رستے میں جو شام پڑ گئی ہے
ہاں مرحلہ یہ بھی دیدنی ہے
دشوار نہ تھی کچھ ایسی رہ بھی
کیوں سانس اُکھڑ اُکھڑ گئی ہے
دیکھا تھا جو دُکھ عروج پر بھی
اَب شام اُسی کی ڈھل چلی ہے
کِس چاند کی ضَو زمیں پہ لایا
یہ جسم ترا، کہ چاندنی ہے
ماجدؔ ترے ہونٹ چُوم لوں مَیں
کیا بات پتے کی تُو نے کی ہے
ماجد صدیقی

ہماری سمت ہوا رُخ بھری خدائی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 34
ذرا سا ہم پہ تھا الزام حق سرائی کا
ہماری سمت ہوا رُخ بھری خدائی کا
ظہورِ آب ہے محتاجِ جُنبشِ طوفاں
کہ اتنا سہل اُترنا کہاں ہے کائی کا
یہ اختلاط کا چرچا ہے تجھ سے کیا اپنا
بنا دیا ہے یہ کس نے پہاڑ رائی کا
وفا کی جنس ہے ہر جنسِ خوردنی جیسے
کہ زر بھی ہاتھ میں کاسہ ہوا گدائی کا
چُکا دیا ہے خیالوں کی زر فشانی سے
جو قرض ہم پہ تھا خلقت کی دلربائی کا
خبر ضرور تھی طوفان کی تجھے ماجدؔ
تری پکار میں انداز تھا دُہائی کا
ماجد صدیقی

اور خیمے دمِ رُخصت یہ، اُڑاتے جانا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 33
دل میں آنا تو بہاروں سا سماتے جانا
اور خیمے دمِ رُخصت یہ، اُڑاتے جانا
ہر خطِ جسم کو اِس طرح اُجاگر کرنا
ہر رہِ زیست مقابل کی مٹاتے جانا
اک تو پہلے ہی سراپا ہے قیامت جیسا
اِس پہ ترشے ہوئے ملبوس سجانے جانا
کھینچ کر تارِ نظر خود متوجہ کرنا
کوئی دیکھے تو تغافل بھی جتاتے جانا
دعوتِ لمس بھی تتلی سی ہر اِک پل دینا
اور بڑھیں ہاتھ تو چکر سا دِلاتے جانا
کِس کا قصّہ لیے بیٹھے ہو یہ ماجدؔ صاحب
کس کی خاطر ہے یہ ہر بات بڑھاتے جانا
ماجد صدیقی

پوچھنا حالِ سفر بھی ہوش میں آنے تو دو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
دھوپ میں جھلسا ہوں مَیں کچھ دیر سستانے تو دو
پوچھنا حالِ سفر بھی ہوش میں آنے تو دو
دیکھنا اُبھروں گا پہلو میں یدِ بیضا لیے
ظلمتِ شب میں ذرا مجھ کو اُتر جانے تو دو
نطق ہونٹوں سے مرے پھوٹے گا بن کر چاندنی
میری آنکھوں سے یہ چُپ کا زہر بہہ جانے تو دو
جز ادائے سجدۂ بے چارگی کر لے گا کیا
موجۂ سیلاب کو دہلیز تک آنے تو دو
پھر مری صحنِ گلستاں میں بحالی دیکھنا
اِک ذرا یہ موسمِ بے نم گزر جانے تو دو
ٹھیک ہے ماجدؔ فسانے تھیں تمہاری چاہتیں
یہ فسانے پر ہمیں اِک بار دُہرانے تو دو
ماجد صدیقی

کوئی تو راہ کا پتّھر بھی اب دکھاؤ مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
دلا دیا ہے جو سیلاب سا بہاؤ مجھے
کوئی تو راہ کا پتّھر بھی اب دکھاؤ مجھے
بہت سے نقش ہیں تشنہ ابھی مصّورِ حسن
یہ جگ ہنسے گا ابھی سامنے نہ لاؤ مجھے
نکل گیا ہوں سلامت ہی حادثوں سے تو مَیں
چِتا میں رکھ کے نہ یادوں کی اَب جلاؤ مجھے
اُدھر ہیں لوگ نگاہوں میں جن کی راکھ ہوں میں
اِدھر ہو تم کہ بتاتے ہو اِک الاؤ مجھے
تناوری پہ مری بس کہاں وجود مرا
اُتر بھی جاؤ جو پاتال تک نہ پاؤ مجھے
پیمبرِ گل تر ہوں غزل ہوں ماجدؔ کی
نظر پڑوں تو کبھی آ کے گنگناؤ مجھے
ماجد صدیقی

شہد میں گھول کے سم دیتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 30
دل کو تسکیں جو صنم دیتے ہیں
شہد میں گھول کے سم دیتے ہیں
دل کو پتھّر نہ سمجھنا مری جاں
لے تجھے ساغرِ جم دیتے ہیں
ظرف کی داد یہی ہو جیسے
دینے والے ہمیں غم دیتے ہیں
دست کش ہو کے بھی دیکھیں تو سہی
یوں بھی کیا اہلِ کرم دیتے ہیں
چھینتے ہیں وہ نوالے ہم سے
اور بقا کو ہمیں بم دیتے ہیں
خود خزاں رنگ ہیں لیکن ماجدؔ
ہم بہاروں کو جنم دیتے ہیں
ماجد صدیقی

چھوڑتا ہی نہیں اندیشۂ جاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
دل پہ چھایا ہے وہ احساسِ گراں
چھوڑتا ہی نہیں اندیشۂ جاں
جب بھی گزرے ہیں تری یاد میں دن
کھِل اُٹھے پھُول سرِ جوئے رواں
سُونا سُونا ہے نظر کا دامن
چھُپ گیا ہے وہ مرا چاند کہاں
شعلۂ گل سے دئیے تک ماجدؔ
اُٹھ رہا ہے مری آہوں کا دھُواں
ماجد صدیقی

جی میں ہے پایۂ عرش کو تھام لوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 28
دیکھیے یہ بھی اِک اِختراعِ جنوں
جی میں ہے پایۂ عرش کو تھام لوں
ہے یہی طرّۂ امتیازِ جنوں
مَیں جو روؤں تو پھر مُسکرا بھی سکوں
پیار آتش سہی پر یہ کیا شرط ہے
چاندنی رات میں بھی سُلگتا رہوں
یہ روش بھی کچھ ایسی بُری تو نہیں
چوٹ کھاؤں مگر مُسکراتا رہوں
احترامِ شبِ وصل ہو گر مجھے
مَیں شبِ ہجر کا نام تک بھی نہ لُوں
مجھ کو بھی حق پہنچتا ہے ماجدؔ کہ مَیں
ساتھ پھولوں کے مہکوں گلستاں بنوں
ماجد صدیقی

ابکے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
خون میں برپا رہتی تھی جو ہلچل سی
ابکے لگے ہے ٹھہری وہ ٹھنڈے جل سی
ایسی کیوں ہے آنکھ نہیں بتلا سکتی
نندیا ہے کہ گرانی سے ہے بوجھل سی
لا فانی ہے یہ تو کتابیں کہتی ہیں
روح نجانے رہتی ہے کیوں بے کل سی
رات کا اکھوا ہے کہ نشانِ بدامنی
دور افق پر ایک لکیر ہے کاجل سی
منظر منظر تلخ رُوئی ہے وہ ماجد
اتری لگے جو آنکھوں آنکھوں حنظل سی
ماجد صدیقی

پھر گیا رُخ کدھر ہواؤں کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
حُسن اور مقتضی جفاؤں کا
پھر گیا رُخ کدھر ہواؤں کا
وحشتِ غم ہے دل میں یوں جیسے
کوئی میلہ لگا ہو گاؤں کا
سایۂ ابر بھی چمن سے گیا
خوب دیکھا اثر دعاؤں کا
جو گریباں کبھی تھا زیبِ گلو
اَب وہ زیور بنا ہے پاؤں کا
اُن سے نسبت ہمیں ہے یُوں ماجدؔ
ربط جیسے ہو دھوپ چھاؤں کا
ماجد صدیقی

گزر رہی ہے جو ساعت اُسے امام کریں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 25
حصولِ منزلِ ایقاں کا اہتمام کریں
گزر رہی ہے جو ساعت اُسے امام کریں
ہمیں وہ لوگ، کہ ہم جنس جن سے کترائیں
ہمیں وہ لوگ، کہ یزداں سے بھی کلام کریں
مِلی فلک سے تو جو آبرو، ملی اِس کو
ہمیں بھی چاہیئے انساں کا احترام کریں
ہوا نہ کوہِ الم جن سے آج تک تسخیر
ہزار موسم مہتاب کو غلام کریں
ہر ایک شخص جو بپھرا ہوا مِلے ہے یہاں
حدودِ ارض میں اُس کو تو پہلے رام کریں
گرفت میں ہیں جو ماجدؔ اُنہی پہ بس کیجے
نہ آپ اُڑتے پرندوں کو زیرِ دام کریں
ماجد صدیقی

سوچ پر بھی ہے گماں جب حلقۂ زنجیر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
حشر کیا ہو گا بھلا جینے کی اِس تدبیر کا
سوچ پر بھی ہے گماں جب حلقۂ زنجیر کا
کس کا یہ سندیس آنکھوں میں مری لہرا گیا
صفحۂ بادِ صبا پر عکس ہے تحریر کا
سنگِ راہ کا توڑنا بھی تھا سَر اپنا پھوڑنا
ہاں اثر دیکھا تو یوں اِس تیشۂ تدبیر کا
ہم نے بھی اُس شخص کو پایا تو تھا اپنے قریب
پر اثر دیکھا نہیں کچھ خواب کی تعبیر کا
ہم تلک پہنچی ہے جو ماجدؔ یہی میراث تھی
فکر غالبؔ کی اور اندازِ تکلّم میرؔ کا
ماجد صدیقی

میرے کہے پہ آپ بھروسہ نہ کیجئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
چہرے کو دیکھئے، مری آنکھوں میں جھانکئے
میرے کہے پہ آپ بھروسہ نہ کیجئے
کھِلتے ہوئے گلوں کی مہک تھی، مری نظر
پھر کیا ہوا مجھے، یہ مُجھی سے نہ پوچھئے
اچّھا نہ ہو گا مَیں بھی اگر لب کشا ہُوا
میری زباں سے زنگ نہ چُپ کا اُتارئیے
ماجدؔ درِ بہار پہ پہنچے تو ہو مگر
اپنی جبیں سے آپ پسینہ بھی پونچھئے
ماجد صدیقی

چاند اُبھرے گا مگر آخرِ شب

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
جگمگائیں گے نگر آخر شب
چاند اُبھرے گا مگر آخرِ شب
سانس کی نَے سے پکارے گا تجھے
غم باندازِ دِگر آخرِ شب
طے کرے گی رُخِ جاناں کی ضیا
دل سے آنکھوں کا سفر آخر شب
خامشی گرد کی صورت پس و پیش
چاندنی خاک بہ سر آخرِ شب
پرتوِ کاہکشاں ٹھہرے گی
پیار کی راہگزر آخرِ شب
دل کو ویراں ہی نہ کر دے ماجدؔ
آرزوؤں کا مفر آخرِ شب
ماجد صدیقی

کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 21
جو مرحلۂ زیست ہے پہلے سے کڑا ہے
کیا جُرم نجانے دِلِ وحشی نے کیا ہے
جو آنکھ جھکی ہے ترے سجدے میں گرے ہے
جو ہاتھ تری سمت اُٹھا، دستِ دُعا ہے
اُس درد کا ہمسر ہے ترا پیار نہ تُو ہے
تجھ سے کہیں پہلے جو مرا دوست ہوا ہے
آتا ہے نظر اور ہی اَب رنگِ گلستاں
خوشبُو ہے گریزاں تو خفا موجِ صبا ہے
دل ہے سو ہے وابستۂ سنگِ درِ دوراں
اور اِس کا دھڑکنا ترے قدموں کی صدا ہے
ماجدؔ ہے کرم برق کا پھر باغ پہ جیسے
پھر پیڑ کے گوشوں سے دھواں اُٹھنے لگا ہے
ماجد صدیقی

یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 20
جو مجتمع ہو رہا ہوں پل پل مجھے بتا میں بکھر نہ جاؤں
یہ تحفۂ زیست تجھ کو لوٹا کے تجھ پہ احسان دھر نہ جاؤں
یہ ایک لمحہ کہ جان لُوں تو اِسی میں ایٹم سی قوّتیں ہیں
مجھے ہے جینا اگر تو پہنائیوں میں اِس کی اُتر نہ جاؤں
سیاہ راتیں چٹان بھی ہیں تو میرے قدموں کی خاک ہوں گی
یہ کس طرح ہو کہ جستجو میں تری، سحر تا سحر نہ جاؤں
غمِ زمانہ تری حقیقت سے چشم پوشی بڑی خطا ہے
مگر مجھے وہم ہے کہ ہستی سے ہی تری میں مکر نہ جاؤں
چمن کے گُلہائے ناز پرور! نہ مجھ مسافر کا حال پوچھو
یہ بارشِ گرد ہو نہ درپے تو میں بھی تم سا نکھر نہ جاؤں
دلوں میں یاروں کے وسوسے ہیں تو میں بھی کیوں دل کو دشت کر لوں
گمان تک بھی کروں جو ایسا تو جاں سے ماجدؔ گزر نہ جاؤں
ماجد صدیقی

کیاکیا سلوک ہم سے چمن کی ہوا کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
جھُلسے بدن کو گاہ نمو آشنا کرے
کیاکیا سلوک ہم سے چمن کی ہوا کرے
جاؤں درِ بہار پہ کاسہ بدست میں
ایسا تو وقت مجھ پہ نہ آئے خدا کرے
ہم کیوں کریں دراز کہیں دستِ آرزو
اپنی بلا سے کوئی مسیحا ہُوا کرے
ہاں ہاں مری نگاہ بھی سورج سے کم نہیں
آنکھوں میں کس کی دم کہ مرا سامنا کرے
ہاں ہاں مجھے ضیائے تخیّل عطا ہوئی
ایسا کوئی ملے بھی تو اِس دل میں جا کرے
ماجدؔ یہ طرزِ حُسنِ بیاں اور یہ رفعتیں
دل اس سے بڑھ کے اور تمّنا بھی کیا کرے
ماجد صدیقی

ہم بھی کریں مداوا، یخ بستہ خامشی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 18
جھانکے جو بام پر سے سُورج تری ہنسی کا
ہم بھی کریں مداوا، یخ بستہ خامشی کا
کھِلتے ہوئے لبوں پر مُہریں لگا کے بیٹھیں
تھا کیا یہی تقاضا ہم سے کلی کلی کا
اَب آنکھ بھی جو اُٹھے، جی کانپتا ہے اپنا
کیا حشر کر لیا ہے ہمّت رہی سہی کا
پھر سنگ بھی جو ہوتی اپنی زباں تو کیا تھا
دعوےٰ اگر نہ ہوتا ہم کو سخنوری کا
بستر لپیٹ کر ہم اُٹھ جائیں رہ سے اُس کی
مقصد نہیں تھا شاید ایسا تو مدّعی کا
ماجدؔ لبوں کے غنچے چٹکے دھُواں اُگلتے
تھا یہ بھی ایک پہلو افسردہ خاطری کا
ماجد صدیقی

کیا کہوں ذکر ترا کیسے رواں ہوتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
جب بھی ہوتا ہے بہ احساسِ گراں ہوتا ہے
کیا کہوں ذکر ترا کیسے رواں ہوتا ہے
بِن ترے بھی مجھے محسوس ہوا ہے اکثر
جیسے پہلو میں کوئی ماہِ رواں ہوتا ہے
دیکھتا ہوں گلِ تر روز، بعنوانِ دگر
روز دل سے گزرِ شعلہ رُخاں ہوتا ہے
زندگی میں غمِ جاناں کا یہی حال رہا
جِس طرح پھول سرِ جُوئے رواں ہوتا ہے
درد کی آخری حد چھو کے مَیں کیوں گھبراؤں
رات ڈھلتی ہے تو کچھ اور سماں ہوتا ہے
ایک ہم ہی نہیں ماجدؔ رُخِ بے رنگ لئے
جو بھی ہو شعلہ بیاں، سوختہ جاں ہوتا ہے
ماجد صدیقی

مَیں پھر بھی تُجھ سے تیرا پتہ پوچھتا رہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 16
تو پھُول تھا، مہک تھا صدا کی ادا بھی تھا
مَیں پھر بھی تُجھ سے تیرا پتہ پوچھتا رہا
جل بُجھ کے رہ گیا ہوں بس اپنی ہی آگ میں
کِس زاویے پہ آ کے مقابل ترے ہوا
شب بھر ترے جمال سے چُنتا رہا وہ پھُول
پھُوٹی سحر تو میں بھی سحر کی مثال تھا
مَیں ہی تو تھا کہ جس نے دکھایا جہان کو
تیشے سے اِک پہاڑ کا سینہ چِھدا ہوا
بدلا ہے گلستاں نے نیا پیرہن اگر
گُدڑی پہ ہم نے بھی نیا ٹانکا لگا لیا
مَیں تھا اور اُس کا وقتِ سفر تھا اور ایک دھند
ہاں اُس کے بعد پھر کبھی دیکھا نہ زلزلہ
بعدِ خزاں ہے جب سے تہی دست ہو گئی
سہلا رہی ہے شاخِ برہنہ کو پھر ہوا
مَیں تو ہوا تھا تِیر کے لگتے ہی غرقِ آب
تالاب بھر میں خون مرا پھیلتا گیا
ہر اِک نظر پہ کھول دیا تُو نے اپنا آپ
دل کا جو بھید تھا اُسے ماتھے پہ لکھ لیا
واضح ہیں ہر کسی پہ ترے جسم کے خطوط
تُو تو چھپی سی چیز تھی تُو نے یہ کیا کیا
اِک بات یہ بھی مان کہ ماجدؔ غم و الم
پیروں کی خاک میں نہ اِنہیں سر پہ تو اُٹھا
ماجد صدیقی

پھر کیوں نہ ہر قدم پہ نئی راہگزر ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 15
تو مُدّعا ہو اور ترا غم ہمسفر ملے
پھر کیوں نہ ہر قدم پہ نئی راہگزر ملے
اَب ہم سے مستیاں وہ، طلب کر نہ اے صبا!
مدّت ہوئی کسی کی نظر سے نظر ملے
حُسنِ حبیب اَب لب و رُخسار تک نہیں
اَب تو جنوں بضد ہے کہ حُسنِ نظر ملے
اِک عمر سے گھرے ہیں اِسی بے بسی میں ہم
تجھ تک اُڑان کو نہ مگر بال و پر ملے
مُطرب! بہ رقص گا، مرے ماجدؔ کی یہ غزل
تجھ سے مرا وہ سروِ چراغاں اگر ملے
ماجد صدیقی

ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 14
تھا میّسر ہی نہ پیرایۂ اظہار ہمیں
ورنہ اِس شہر میں کیا کیا تھے نہ آزار ہمیں
کن بگولوں کے حصاروں میں کھڑے دیکھتے ہیں
اَب کے پت جھڑ میں سلگتے ہوئے گلزار ہمیں
وقت بدلا ہے تو گوشوں میں چُھپے بیٹھے ہیں
وہ جو کرتے رہے رُسوا سرِ بازار ہمیں
کل تھا کس رنگ میں اور آج سرِ بزمِ وفا
کیا نظر آیا ہے وہ حُسنِ طرح دار ہمیں
کب سے دیتا ہے صدا کوئی پری وش ماجدؔ
عنبر و عود لٹاتے ہوئے اُس پار ہمیں
ماجد صدیقی

مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
تھا نہ جانے کون سے بے رحم ڈر کا سامنا
مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا
کرچیاں اُتری ہیں آنکھوں میں اندھیری رات کی
اور اُدھر مژدہ کہ لو کیجو سحر کا سامنا
ننھی ننھی خواہشوں کا مدفنِ بے نُور سا
زندگی ہے اب تو جیسے اپنے گھر کا سامنا
تجربہ زنداں میں رہنے کا بھی مجھ کو دے گیا
بعد جانے کے ترے دیوار و در کا سامنا
پیرہن کیا جسم کا حصہ سمجھئے اَب اسے
تا بہ منزل ہے اِسی گردِ سفر کا سامنا
دیکھنے زیبا ہیں کب ایسے کھنڈر بعدِ خزاں
کون اب کرنے چلے شاخ و شجر کا سامنا
کچھ کہو یہ کس جنم کی ہے سزا ماجدؔ تمہیں
روز و شب کیوں ہے یہ تخلیق ہُنر کا سامنا
ماجد صدیقی

آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
تُجھ سے کہنے کی بس اَب یہی بات ہے
آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے
اپنی خواہش، کہ گُل پیرہن ہو چلیں
اور فضائے چمن، وقفِ حالات ہے
چار سُو ایک ہی منظرِ بے سکوں
چار سُو خشک پتّوں کی برسات ہے
اَب تو ماجدؔ خزاں کے نہ منکر رہو
شاخ پر اَب تو کوئی کوئی پات ہے
ماجد صدیقی

ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 11
تم بھُول گئے کہ یاد آئے
ہم اتنا بھی سوچنے نہ پائے
مرتے ہیں ہمیں ترے نہ ہوتے
روتے ہیں ہمیں ترے بِن آئے
گزرے ہیں تری گلی سے لیکن
دل تھامے ہوئے نظر چُرائے
ہم بھی ترے مُدّعی ہوئے تھے
ہم بھی غمِ ہجر ساتھ لائے
ظُلمت سے نظر چُرانے والو
شب، خونِ جگر نہ چاٹ جائے
سہلا نہ سکے اگر تو ماجدؔ
موسم، کوئی تِیر ہی چلائے
ماجد صدیقی

حرف لکھے کُچھ، بادِ صبا نے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 10
پھول کہو یا دل کے فسانے
حرف لکھے کُچھ، بادِ صبا نے
برف سے اُجلے چہروں والے
آ جاتے ہیں جی کو جلانے
داغ رُخِ مہ کا دُکھ میرا
میری حقیقت کون نہ جانے
فکر و نظر پر دھُول جمائی
آہوں کی بے درد ہوا نے
دو آنکھوں کے جام لُنڈھا کر
دو ہونٹوں کے پھُول کھِلانے
دونوں ہاتھ نقاب کی صُورت
رکھنے، اور رُخ پر سے ہٹانے
ماجدؔ انجانے میں ہم بھی
بیٹھ رہے کیوں جی کو جلانے
ماجد صدیقی

رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
پہنچے بہ کوئے دل کہ نظر سے گزر گئے
رنگینیاں بکھیر گئے تم جدھر گئے
حاصل تجھے ہے تیرے قدر و رُخ سے یہ مقام
اور ہم بزورِ نطق دلوں میں اُتر گئے
آیا جہاں کہیں بھی میّسر ترا خیال
نِکلے دیارِ شب سے بہ کوئے سحر گئے
جن کے چمن کو تُو نے بہارِ خیال دی
ماجدؔ ترے وہ دوست کہاں تھے کدھر گئے
ماجد صدیقی

لے کے بیٹھے ہیں تیرا غم تنہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
بزم آرا ہیں لوگ ہم تنہا
لے کے بیٹھے ہیں تیرا غم تنہا
کارواں کو ترس گئے ہوں گے
چلنے والے قدم قدم تنہا
کیوں مرے ہو کے دور رہتے ہو
چاند ہے آسماں پہ کم تنہا
ساتھ دیتا ہے کب کوئی ماجدؔ
دل ہی سہتا ہے ہر ستم تنہا
ماجد صدیقی

آنکھ کا سُرمہ بنی تھی ریت کیمبل پور کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
اُن دنوں اُس خاک پر بارش تھی جیسے نُور کی
آنکھ کا سُرمہ بنی تھی ریت کیمبل پور کی
چکھ سکے اُس سے نہ کچھ ہم پر نشہ دیتی رہی
ہاں نظر کی شاخ پر اِک بیل تھی انگور کی
حُسن کے مدِّ مقابل عشق!! اور بے چارگی؟
دل میں ہے تصویر جیسے محفل بے نُور کی
ابر مانگا تھا کہ آندھی لے اڑی برگ و ثمر!
خوب اے موجِ ہوا! کلفت ہماری دور کی
شاخ ہی سُوکھی تو پھر جھڑنے سے کیا انکار تھا
کیا کہیں آخر یہ صورت کس طرح منظور کی
اَب جراحت ہی سے ممکن ہے مداوا درد کا
اور ہی صورت ہے محرومی کے اِس ناسور کی
کھولنے پائے نہ اُس پر ہم لبِ اظہار تک
یُوں حقیقت کھُل گئی ماجدؔ دلِ رنجُور کی
ماجد صدیقی

اپنے آپ کو غیر نگہ سے جانے کب جا دیکھوں مَیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
اپنے اندر اُلجھ گیا ہوں باہر کیسے نکلوں مَیں
اپنے آپ کو غیر نگہ سے جانے کب جا دیکھوں مَیں
کِس پر تنگ ہوئی یوں دُنیا کس نے حشر یہ دیکھا ہے
جب بھی سانس نیا لیتا ہوں زہر نیا اِک چکّھوں مَیں
یہ بھی عجب کیفیتِ غم ہے اپنے آپ میں گم ہو کر
سرتا پا دل بن جاتا ہوں پہروں بیٹھا دھڑکوں میں
چہرے پر اک دھول جمی ہے برس برس کا رنگ لیے
دل بے چارہ آس بندھائے ساتھ گلوں کے مہکوں مَیں
کون غنی ہے جس کے در کے دونوں پَٹ ہوں کھُلے ہوئے
کس دہلیز کو منزل مانوں کس آنگن میں ٹھہروں مَیں
کوئی تو شاید اپنی خبر کو بھی اے ماجدؔ آ پہنچے
ایک نظر باہر بھی دیکھوں در تو اپنا کھولوں مَیں
ماجد صدیقی

یہ مری تمّنا تھی مَیں کہ آج پتّھر ہوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
انگ انگ میں تیرے جذب ہو کے رہ جاؤں
یہ مری تمّنا تھی مَیں کہ آج پتّھر ہوں
رہ بہ رہ خزاؤں سے سامنا نظر کا ہے
دل کہ ایک صحرا ہے دیکھ دیکھ ڈرتا ہوں
کیا کہوں عجب سا ہے حادثہ مرا لوگو
سر بہ سر بہاراں ہوں پر خزاں سے ابتر ہوں
مقتلِ تمّنا ہے پیش و پس مرے ماجدؔ
مَیں کہ جیسے مجرم ہوں چین کس طرح پاؤں
ماجد صدیقی

اُس سا لیکن کوئی آشنا بھی نہ تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
اجنبی تھا وہ مجھ سے ملا بھی نہ تھا
اُس سا لیکن کوئی آشنا بھی نہ تھا
اِس اندھیرے میں کیسے وہ پہنچا یہاں
دل میں میرے تو جلتا دیا بھی نہ تھا
کھُل گئی جانے کیسے زباں خلق کی
اُس سے رشتہ کوئی برملا بھی نہ تھا
جانے وہ ہم سے کیوں جھینپتا رہ گیا
بھید اُس پر ہمارا کھُلا بھی نہ تھا
حق بجانب تھا مجھ سے وہ اغماض میں
اُس سے میرا کچھ ایسا گلہ بھی نہ تھا
ہاں بجا ہے وہ اچّھا نہ ہو گا مگر
تیرا ماجدؔ کچھ ایسا بُرا بھی نہ تھا
ماجد صدیقی

ذکر اُس کا چھیڑ بیٹھے بھی تو کس اسلوب ہم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
آج تک جس شخص کی نظروں میں تھے معتوب ہم
ذکر اُس کا چھیڑ بیٹھے بھی تو کس اسلوب ہم
روز جینے کا نیا اِک تجربہ درپیش ہے
روز اِک سولی پہ ہوتے ہیں یہاں مصلوب ہم
کھُل کے آنا ہی پڑا آخر سرِ میداں ہمیں
یُوں تو رہنے کو رہے ہیں مُدّتوں محجوب ہم
وہ کھُلی آنکھوں سے ہم کو دیکھتا ہی رہ گیا
ضد پہ اُترے بھی تو اِک دن اُس سے نپٹے خوب ہم
شوخیِ طرزِ بیاں الزام کیا کیا لائے گی
جانے کس کس شوخ سے ٹھہریں گے کل منسوب ہم
یہ بھی گر شرطِ سخن ٹھہری تو ماجدؔ ایک دن
شاعری کرنے کو ڈھونڈیں گے کوئی محبوب ہم
ماجد صدیقی

اُترا جو میری تشنہ لبی پر سحاب سا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
آتا ہے یاد اَب بھی سراپا وہ خواب سا
اُترا جو میری تشنہ لبی پر سحاب سا
اقرارِ مُدّعا پہ ٹھٹکتے ہوئے سے ہونٹ
آنکھوں پہ کھنچ رہا تھا حیا کا نقاب سا
اُس کو بھی اَن کہی کے سمجھنے میں دیر تھی
کہنے میں کچھ مجھے بھی ابھی تھا حجاب سا
تھی اُس سے جیسے بات کوئی فیصلہ طلب
تھا چشم و گوش و لب کو عجب اضطراب سا
تھا حرف حرف کیا وہ نگاہوں پہ آشکار
منظر وہ کیا تھا مدِّ مقابل کتاب سا
ماجدؔ نگاہ میں ہے وہ منظر ابھی تلک
جب سطحِ آرزو پہ پھٹا تھا حباب سا
ماجد صدیقی

ہر گل کو ہم نے یوں بھی تمہارا پتہ دیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
آئینۂ خیال بہ دستِ صبا دیا
ہر گل کو ہم نے یوں بھی تمہارا پتہ دیا
فرصت تمہاری دید نے دی جب بھی درد سے
اِک چاند جگمگا اُٹھا اِک چاند بُجھ گیا
کر دیں یہ کس نے ذہن پہ عُریاں حقیقتیں
کہرام سا یہ کس نے نظر میں اُٹھا دیا
ماجدؔ ہو اِس سے شکوہ بہ لب تم جوہر نفس
سوچو تو زندگی کو ابھی تم نے کیا دیا
ماجد صدیقی

دل درد سے ہمکنار بھی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
آنکھوں میں ترا دیار بھی ہے
دل درد سے ہمکنار بھی ہے
پت جھڑ کا سکوت ہے لبوں پر
ہمراہ مرے بہار بھی ہے
تو میری نظر میں اجنبی بھی
مِلنا ترا یادگار بھی ہے
مَیں تیرے لئے ہوں مانتا ہوں
مجھ کو غمِ روزگار بھی ہے
جیتا ہوں کہ جی رہا ہوں ماجدؔ
جینا ہے کہ ناگوار بھی ہے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑