تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

زمرہ

سخناب

جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 9
اُن لوگوں سے اب کے سانجھ ہماری ہے
جن کی پرسش میں بھی دل آزاری ہے
جو بولے در کھولے خود پر پھندوں کا
کچھ کہنے میں ایک یہی لاچاری ہے
اپنا اک اک سانس بھنور ہے دریا کا
اپنا اک اک پل صدیوں پر بھاری ہے
اوّل اوّل شور دھماکے پر تھا بہت
دشت میں اُس کے بعد خموشی طاری ہے
طوفاں سے ٹکرانا بِن اندازے کے
یہ تو اپنے آپ سے بھی غدّاری ہے
ہر مشکل کے آگے ہو فرہاد تمہی
ماجِدؔ صدّیقی کیا بات تمہاری ہے
ماجد صدیقی

اُس ناری کے رنگ چُرائے ہم نے بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 8
اِن ہونٹوں پر پھول کھِلائے ہم نے بھی
اُس ناری کے رنگ چُرائے ہم نے بھی
ہم بھی لائے اِن تک زہر تمّنا کا
امرت کو یہ لب ترسائے ہم نے بھی
لوٹ کے رنجش اور بھی اپنے آپ سے تھی
اہل حشم کو زخم دکھائے ہم نے بھی
سنگ بھگوئے پہلے اوس سے آنکھوں کی
اور پھر اُن میں بیج اُگائے ہم نے بھی
دے کے ہمیں پھر خود ہی زمیں نے چاٹ لئے
پھیلائے تھے کیا کچھ سائے ہم نے بھی
اچّھے دنوں کی یاد کے اُجلے پھولوں سے
دیکھ تو، کیا گلدان سجائے ہم نے بھی
چہرے پر آیات سجا کر اشکوں کی
ماجدؔ کیا کیا درس دلائے ہم نے بھی
ماجد صدیقی

آنکھ میں اک نمی سی اُبھرنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
اب کے اُمید یُوں بھی نکھرنے لگی
آنکھ میں اک نمی سی اُبھرنے لگی
یہ اثر بھی ہے شاید مری آہ کا
آسماں سے بھی ہے آگ اُترنے لگی
خود تو اُجڑا مگر جس پہ تھا گھونسلا
شاخ تک وہ شجر پر بکھرنے لگی
نسلِ آدم ہوئی سنگ دل اور بھی
جب سے پاؤں سرِ ماہ دھرنے لگی
پیڑ کو جو سزا بھی ہوئی، ہو گئی
رُت کہاں اُس میں تخفیف کرنے لگی
کچھ دنوں سے ہے وہ سہم سا رُوح میں
سانپ سے جیسے چڑیا ہو ڈرنے لگی
یہ بھی دن ہیں کہ اَب اُس کے دیدار کی
بھوک بھی جیسے ماجدؔ ہے مرنے لگی
ماجد صدیقی

مجرم ہمیں ہی ایک نہ ٹھہرانا چاہئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 6
اپنے کیے پہ بھی اُنہیں پچھتانا چاہیے
مجرم ہمیں ہی ایک نہ ٹھہرانا چاہئے
ممنوع جو بھی ہے اسُے جرأت سے دیکھنا
آدم کی رِیت ہے اِسے دہرانا چاہیے
شاخوں کے درمیاں ہے جہاں حُسن کی نمو
اُس سمت بھی نظر کو کبھی جانا چاہیے
بندش سے جس کی خوں میں گرہ سی پڑی لگے
وہ لفظ بھی زباں پہ کبھی لانا چاہیے
ماجدؔ کرم وُہ جس سے بٹے کرچیوں میں دل
ہم پر کرم وُہ اُن کو، نہ فرمانا چاہیے
ماجد صدیقی

مظہر ہے چمن کی تشنگی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 5
اُترا ہے جو منہ کلی کلی کا
مظہر ہے چمن کی تشنگی کا
پھٹنے کو ہے کیا کوئی پٹاخہ
کیوں شور تھما لگے گلی کا
اوہام فنا نظر میں رقصاں
تحفہ ہے یہ عمر ادھ ڈھلی کا
دیکھا کوئی گُل تو یاد آیا
ہنسنا کسی ناز کی پلی کا
اس شوخ کا جسم ہے کہ ماجدؔ
موزوں کوئی شعر ہے ولیؔ کا
ماجد صدیقی

رنج کا اور بھی سبب نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 4
اک تغافل ہی اُس کا کب نکلا
رنج کا اور بھی سبب نکلا
غیر بھی ہم سے جب ہُوا رسوا
دل میں کانٹا تھا جو وہ تب نکلا
آپ کچھ کہہ کے مطمئن تو ہوئے
شکر ہے آپ کا تعب نکلا
بات جب چھڑ گئی شقاوت کی
دل میں جو تھا غبار سب نکلا
پنجۂ موجِ درد سے مَیں بھی
بچ گیا گرچہ جاں بہ لب نکلا
کیا مسافت کرے گا طے ماجدؔ
دن چڑھے تُو جو گھر سے اَب نکلا
ماجد صدیقی

پھر یاد گئے زمانے آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
آنکھوں میں شرر سجانے آئے
پھر یاد گئے زمانے آئے
نخوت ہی بھلے جتانے آئے
آئے وہ کسی بہانے آئے
وہ لکّۂ ابر اِس بدن کی
کب پیاس بھلا بجھُانے آئے
احباب جتا کے عجز اپنا
دل اور مرا دکھانے آئے
تھا چارۂ درد جن کے بس میں
ڈھارس بھی نہ وہ بندھانے آئے
چھُوتے ہی سرِ شجر ثمر کو
ہر شخص ہمیں اُڑانے آئے
بالک سے، تمہارے دل کو ماجدؔ!
ہے کون جو تھپتھپانے آئے
ماجد صدیقی

لاحق ہونے کو ہے کیا آزار مجھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 2
آگ نظر آتا ہے ہر گلزار مجھے
لاحق ہونے کو ہے کیا آزار مجھے
شاید یوں تن کی عریانی ڈھانپ سکوں
بُننے ہیں اس پر ریشم کے تار مجھے
گرد کی چادر، زخم بریدہ شاخوں کے
موسم نے کیا برگ دئیے کیا بار مجھے
سیکھا مَیں نے جب سے فن تیراکی کا
روز پکارے ساحل سے منجدھار مجھے
ماجدؔ میرا روگ ہے رفعت ماتھے کی
راس نہیں آتا کوئی دربار مجھے
ماجد صدیقی

دیکھ سارے شہر کا نقشہ بدل جانے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
آنگنوں سے چاند پھر آگے نکل جانے لگا
دیکھ سارے شہر کا نقشہ بدل جانے لگا
ہم بھلا تصویر کیا کھینچیں گرفتِ وقت کی
سانپ چڑیا کو سلامت ہی نِگل جانے لگا
دل تمّنا کے بر آنے پر ہے یُوں مسرور سا
جس طرح سِکّہ کوئی کھوٹا ہو چل جانے لگا
زور وُہ اب کے دکھایا ہے ہمیں امواج نے
تختۂ جاں تک بدن سے ہے اچھل جانے لگا
چرخ سے وُہ حدّتیں برسیں کہ اَب ایسا لگے
چاندنی سے بھی بدن جیسے ہو جل جانے لگا
چیونٹیوں سا تو بھلا درپے ہے کیوں اِس کوہ کے
کب مزاجِ دہر ہے ماجدؔ بدل جانے لگا
ماجد صدیقی

اُس پر کیا لکھا جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 0
کورا کاغذ سوچ رہا ہے
اُس پر کیا لکھا جانا ہے
نرخ نہیں گو ایک سے لیکن
ہر انسان یہاں بِکتا ہے
کون ہے گالی سُن کر جس کے
ہونٹوں سے امرت ٹپکا ہے
دشتِ طلب میں بِن کُتّوں کے
کس کے ہاتھ شکار لگا ہے
اپنی چال سلامت رکھنے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
کُود کے جلتی آگ میں دیکھو
پروانہ گلزار بنا ہے
ٹھیک ہے گر بیٹا یہ سوچے
اُس نے باپ سے کیا پایا ہے
پکڑا جانے والا ہی کیوں
تنہا دم مجرم ٹھہرا ہے
جس نے بھی جاں بچتی دیکھی
تنکوں تک پر وہ اٹکا ہے
مجرم نے پچھلی پیشی پر
جو بھی کہا اُس سے مُکرا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچّے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
پیڑ زبانوں کو لٹکائے
دشت سے جانے کیا کہتا ہے
دیواروں سے ڈرتا ہو گا
کہنے والا کیوں ٹھٹکا ہے
موجِ الم نے کھول کے بازو
مجھ کو جیسے بھنچ لیا ہے
اُتنا ہی قد کاٹھ ہے اُس کا
جتنا جس کو ظرف ملا ہے
کس کو اَب لوٹانے جائیں
گردن میں جو طوق پڑا ہے
ٹہنی عاق کرے خود اُس کو
پھول وگرنہ کب جھڑتا ہے
جینے والا جانے کیونکر
موت کے در پر آن کھڑا ہے
صحرا کی بے درد ہوا نے
بادل کو کب رُکنے دیا ہے
دیکھوں اور بس دیکھو اُس کو
جانے اُس تصویر میں کیا ہے
کہنے کی باتیں ہیں ساری
زخمِ رگِ جاں کب بھرتا ہے
رُت کی خرمستی یہ جانے
پودا کیسے پیڑ بنا ہے
برق اور رعد کے لطف و کرم سے
گلشن کو کب فیض ملا ہے
لوٹایا اِک ڈنک میں سارا
سانپ نے جتنا دُودھ پیا ہے
ربط نہیں اُس سے اتنا بھی
شہر میں جتنا کچھ چرچا ہے
بند کلی چُپ رہنا اُس کا
لب کھولے تو پھولوں سا ہے
برگ و ثمر آنے سے پہلے
شاخ نے کیا کیا جبر سہا ہے
گُل برساتا ہے اوروں پر
وُہ جو زخم مجھے دیتا ہے
کوہِ قاف سے اِس جانب وہ
ڈھونڈوں بھی تو کب ملتا ہے
اُس کی دو رنگی مت پُوچھو
کالر پر جو پھول سجا ہے
رسّی کی شِشکار ہے پیچھے
کھیت کنارے جال بِچھا ہے
ڈس لیتا ہے سانپ جسے بھی
رَسّی تک سے وہ ڈرتا ہے
قبرپہ جل مرنے والے کی
ایک دیا اب تک جلتا ہے
بانس انار سے آنکھ ملائے
اپنی قامت ناپ رہا ہے
موسیٰ ہر فرعون کی خاطر
مشکل سے نت نت آتا ہے
سارے ہونٹ سلے ہیں پھر بھی
گلیوں میں اک حشر بپا ہے
دھڑکن دھرکن ساز جدا ہیں
کس نے کس کا دُکھ بانٹا ہے
کرنا آئے مکر جسے بھی
زر کے ساتھ وُہی تُلتا ہے
خون میں زہر نہیں اُترا تو
آنکھوں سے پھر کیا رِستا ہے
ہم اُس سے منہ موڑ نہ پائے
پیار سے جس نے بھی دیکھا ہے
کون ہے وہ جو محرومی کی
تہمت اپنے سر لیتا ہے
کھُلتی ہے ہر آنکھ اُسی پر
غنچہ جب سے پھول بنا ہے
انساں اپنا زور جتانے
چاند تلک پر جا نکلا ہے
دل نے پھر گُل کھِل اُٹھنے پر
نام کسی کا دہرایا ہے
وقت صفائی مانگ کے ہم سے
کاہے کو مُنہ کھُلواتا ہے
ہم شبنم کے قطروں پرہی
سورج داتا کیوں جھپٹا ہے
فصلِ سکوں پر بُغض یہ کس کا
مکڑی بن کر آ ٹوٹا ہے
دل تتلی کا پیچھا کرتے
کن کانٹوں میں جا اُلجھا ہے
زخم اگر بھر جائے بھی تو
نقش کہاں اُس کا مٹتا ہے
انجانوں سا مجھ سے وُہ پوچھے
اُس سے مرا دل مانگتا کیاہے
پھول جھڑیں یا پتے سُوکھیں
موسم نے یہ کب دیکھا ہے
اَب تو دل کی بات اٹھاتے
لفظ بھی چھلنی سے چھنتاہے
تجھ بن جو منظر بھی دیکھیں
آنکھ میں کانٹوں سا چُبھتا ہے
کانوں کے دَر کھُل جائیں تو
پتھر تک گویا لگتا ہے
آنکھوں کی اِس جھیل میں جانے
کون کنول سا لہراتا ہے
دور فلک پر کاہکشاں کا
رنگ ترے سپنوں جیسا ہے
گلشن والے کب جانیں یہ
پنجرے میں دن کب ڈھلتا ہے
صبح اُسی کے صحن میں اُتری
جس کا دامن چاک ملا ہے
جانے کس خرمن پر پہنچے
تابہ اُفق جو کھیت ہرا ہے
مَیں وہ غار تمّنا کا ہوں
سورج جس سے رُوٹھ گیا ہے
جانے کیا کیا زہر نہ پی کر
انساں نے جینا سیکھا ہے
بحر پہ پُورے چاند کے ہوتے
پانی کیوں ٹھہرا ٹھہرا ہے
وہ کب سایہ سینت کے رکھے
رستے میں جو پیڑ اُگا ہے
اُس کا حسن برابر ہو تو
حرف زباں پر کب آتا ہے
دیکھنے پر اُس آئنہ رُو کے
پھولوں کا بھی رنگ اُڑا ہے
پھل اُترا جس ٹہنی پر بھی
پتھر اُس پر آن پڑا ہے
کب اوراق پُرانے پلٹے
وُہ کہ مجھے جو بھول چکا ہے
اپنی اپنی قبر ہے سب کی
کون کسی کے ساتھ چلا ہے
اَب تو اُس تک جانے والا
گستاخی کا ہی رستہ ہے
اُونٹ چلے ڈھلوان پہ جیسے
ایسا ہی کچھ حال اپنا ہے
لُٹ کے کہے یہ شہد کی مکھی
محنت میں بھی کیا رکھا ہے
کس نے آتا دیکھ کے مجھ کو
بارش میں در بھینچ لیا ہے
اُس سے حرفِ محبت کہنے
ہم نے کیا کیا کچھ لکھا ہے
دامن سے اُس شوخ نے مجھ کو
گرد سمجھ کر جھاڑ دیا ہے
فرق ہے کیوں انسانوں میں جب
سانس کا رشتہ اِک جیسا ہے
فرصت ہی کب پاس کسی کے
کون رُلانے بھی آتا ہے
یادوں کے اک ایک ورق پر
وُہ کلیوں سا کھِل اُٹھتا ہے
شیر بھی صید ہُوا تو آخر
دیواروں پر آ لٹکا ہے
نُچنے سے اِک برگ کے دیکھو
پیڑ ابھی تک کانپ رہا ہے
ایک ذرا سی چنگاری نے
سارا جنگل پھونک دیا ہے
لفظ سے پاگل سا برتاؤ
ساگر ناؤ سے کرتا ہے
بہلا ہے دل درد سے جیسے
بچہ کانچ سے کھیل رہا ہے
کڑوے پھل دینے والے کا
رشتہ باغ سے کب ملتا ہے
خدشوں میں پلنے والوں نے
سوچا ہے جو، وُہی دیکھا ہے
اپنے اپنے انت کو پانے
جس کو دیکھو دوڑ رہا ہے
زور آور سبزے نے دیکھو
بادل سے حق مانگ لیا ہے
کس رُت کے چھننے سے جانے
صحنِ گلستاں دشت ہوا ہے
ہونٹ گواہی دیں نہ کچھ اُس کی
دل میں جتنا زہر بھرا ہے
لفظ کے تیشے سے ابھرے جو
زخم وہی گہرا ہوتا ہے
آنکھ ٹھہرتی ہے جس پر بھی
منظر وُہ چھالوں جیسا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کّوا چڑیا پر جھپٹا ہے
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اُتنا اُس کے ساتھ خُدا ہے
اونچی کر دے لو زخموں کی
پرسش وُہ بے رحم چِتا ہے
ساکت کر دے جو قدموں کو
جیون وُہ آسیب ہُوا ہے
دشت تھا اُس کا ہجر پہ ہم نے
یہ صحرا بھی پاٹ لیا ہے
مجھ سے اُس کا ذکر نہ چھیڑو
وہ جیسا بھی ہے اچّھا ہے
ساتھ ہمارے ہے وہ جب سے
اور بھی اُس کا رنگ کھُلا ہے
شاہی بھی قربان ہو اُس پر
ماجدؔ کو جو فقر ملا ہے
ماجد صدیقی

Create a free website or blog at WordPress.com.

Up ↑