مِیڈیا داتا دیکھ اِدھر! کیوں خلق کا خون جلاتا ہے
شر کی اِک اِک چنگاری پر، کیوں تُو تیل لُنڈھا تا ہے
نَو سَو چُوہے جو بلّی بھی کھا کر، حج سے ہوئے
پاک پوِتّر اُس کو کہے تُو، اُس سے ترا کیا ناتا ہے؟
اینکر بال کی کھال اُتاریں، اور سب جانبدار لگیں
پٹّیاں لایعنی چلوانا، طَور ترا، من بھاتا ہے
پیش کرے تُو بنا کے عجوبہ، عقد شعیب و ثانیہ کا
اور آصف کی منگنی تک کو، سَو سَورنگ دِلاتا ہے
سیب و پیاز اِک بھاؤ بِکائیں، توریاں کیلے اِک بھاؤ
لُوٹ کھسوٹ اور ہر تاجر کی سنگدلی کو، چھپاتا ہے
فیسیں جرّاحوں کی طبیبوں کی ہوں یا ہوں سکولوں کی
روز افزوں کتنی ہوں، اُنگلی تُو کب اُن پہ اُٹھاتا ہے
صوبوں میں پولیس کے ہوتے، قتل ہوں پِیرو جواں کیا کیا
تُو خُدّامِ معلّیٰ ہی کے، سَو سَو گُن گِنواتا ہے
کوتاہی دس فیصد بھی ہو تو، صد فیصد دکھلائے
گُن چاہے صد فیصد ہوں، توُ دس فی صد ٹھہراتا ہے
جمہوریت کُش جمہوری، تیرے ’ساکیدار، لگیں
رنگ عوام کے فق کردیں جو، اَوج اُنہیں تُو دِلاتا ہے
جمہوریت پنج سالہ ہی آدھ آدھ دولخت ہو کیوں
حزبِ مخالف کو لیکن یہ درس تُو کب دِلواتا ہے
ساٹھ برس میں آمر آمرجو کچھ تھا سب ٹھیک رہا
جمہوری دو سالوں کو تُو کیوں خاطر میں نہیں لاتا ہے
عدلیہ والوں ہی نے تحفّظ اِک اِک آمر کو بخشا
بات یہ لیکن ہونٹوں پر لانے سے تُو کتراتا ہے
لائے سیل بیانوں کا ہر آنکھ تلک ہر گوش تلک
اور حکومتِ وقت کا بیڑا، ہر شب غرق کراتا ہے
جھوٹ کہو تو عیش ہی عیش ہے، سچ بولو تو جیل چلو
ہاں یہ سب کچھ دیکھ کے ماجِد! کالجہ منہ آتا ہے
سکندر خارکش! تُو ہانٹ کرتا ہے مجھے اَب بھی
کہ تُو نے ہی مجھے پہلے پہل ذوقِ نظر بخشا
وُہ منظر آنکھ میں اُترا ہو جیسے کنکری جیسا
منادی کی صدا پر ایک ہلچل تھی ہر اک جانب
بہت سے لوگ تھے پنڈال میں اور محتسب بھی تھا
اُسی پنڈال میں تُو تھا، وہیں مَیں بھی تھا بچّہ سا
اور اس پنڈال کی تقریب میں ایمان تُلنے تھے
کنارِ میز تھا رکھا گیا قرآن کا نسخہ
حلف یہ تھا کہ آزادی کا مژدہ سُن کے ہم سب نے
گھروں سے دشمنوں کے وہ کہ تھا مالِ غنیمت جو
بہ صدقِ دل چھوا تک بھی نہ تھا اور اب سرِمیداں
قسم کھا کر یہ کہنا تھاکہ دامن صاف ہے اپنا
ہوا تقریب کا آغاز تو اک چودھری آ کر
لگا کہنے
’’کہو مَیں نے بھی کیا وہ مال ہتھیایا
کہو کس نے مجھے آنکھوں سے دیکھا یہ خطا کرتے، ،
اور اس پر
وُہ جو کمتر تھے سبھی مل کر لگے کہنے
’’نہیں صاحب نہیں، کب آپ ایسا کام کرتے ہیں
وُہ جھوٹے ہیں وہ کاذِب ہیں جو یہ اِلزام دھرتے ہیں، ،
یہی کچھ جس قدر تھے چودھری سب نے کہا آ کر
مگر جب تو اٹھا باری پہ اپنی اور تُو نے بھی
وہی الفاظ دہرائے کہے ہر چودھری نے جو
تو تیری پُشت پر آ کر وہ ضربِ محتسب برسی
ترا سر جا کے پٹخا میز پر اور میخ لوہے کی
ترے ماتھے سے فوّارہ ساخُوں کا اِک بہا لائی
بڑی مشکل سے تو نے ہاتھ میں قرآن کو تھاما
اُسے سر پر اُٹھایااو بہ صدقِ دل کہا تُو نے
’’قسم اِس کے تقدس کی، قسم اولاد و ایماں کی
چھوا تک بھی نہیں میں نے کہیں مالِ غنیمت کو، ،
ترے ہونٹوں پہ تھے یہ لفظ اور میری نگاہوں میں
نجانے بچپنے میں ہی جِلا کیا عود کر آئی
مرا خوں کھول اُٹّھا اور اُٹَھا اک حشر سا جاں میں
مری وہ آنکھ جس نے تجھ کو دیکھا تھا اُس عالم میں
بہ زورِ ضرب جیسے ایک ہی لمحے میں بھر آئی
کہ تو کمتر تھا اور تجھ کو صفائی کمتروں کی بھی
بچا سکتی بھلا اُس روزکی تذلیل سے کیسے
کہ اس تقریب میں موجود تھا جو نسخۂ اولیٰ
کسی نے تو اسے ہاتھوں سے سر پر بھی اُٹھانا تھا
اور اُن سب میں یہ تُو تھا جس کی باری سب سے پہلے تھی
وہ دن اور آج کا دن میں نہیں تجھ کو بھلا پایا
سکندر خارکش! تو ہانٹ کرتا ہے مجھے اَب بھی
کہ اب بھی ہر کہیں آنکھوں میں ہیں میری وہی منظر
جہاں پنڈال میں ایمان تُلنے کی ہیں تقریبیں
کوئی میدان ہو جس میں وفا کا ہو حلف کوئی
کوئی بھی فیصلے یا عدل کی تقریب ہو اُس میں
مری تخئیل کو میزاں کے دو پلڑے دکھائی دیں
وہ پلڑے جن میں اک وہ ہے کہ
جس میں تُو ہے اور میں بھی
(وہ تو جس کا کوئی بھی قول ہو حرفِ غلط ٹھہرے
یہ میں جس کی کوئی بھی بات ہو وُہ جھاگ جیسی ہے)
اور اس میزاں کا اک پلڑا ہے وہ
جو خاص ہے اب بھی
فقط اُن کے لئے جو مقتدر اور زور آور ہیں
وہی پلڑا کہ جس میں چودھری جو بھی صفائی دے
صفائی پر نہ اُس کی، فردِ واحد بھی دُہائی دے
یہی سب سے جداگانہ کمال اُس چودھری کا ہے
کہ وہ پنڈال میں آتے نظر میں طنطنہ لاتے
بڑے ہی طمطراق اور زعم سے آ کر لگے کہنے
’’کہو میں نے بھی ہے کیا شہر میں کچھ مال ہتھیایا
کہو کس نے مجھے آنکھوں سے دیکھا یہ خطا کرتے، ،
اور اس پر
وہ جو کمتر ہیں (وہ جن میں تُوبھی ہے میں بھی)
بصد عجز و جبیں سائی سبھی مل کرلگیں کہنے
’’نہیں صاحب، نہیں کب آپ ایسا کام کرتے ہیں
وُہ جھوٹے ہیں وہ کاذب ہیں جو یہ الزام دھرتے ہیں، ،
سکندر خارکش! تو ہانٹ کرتا ہے مجھے اَب بھی
ہمیں کچھ نہیں ہے وصولنا، گئی رُت کی آخری رات سے
جو گیا سو وہ تو نکل گیا، ترے ہاتھ سے مرے ہات سے
کہ بھلے وہ، مایہءِ جان تھا، کہ بھلے ضمیر کی تان تھا
وہ گمان تھا کہ یقین تھا، وہ یقین تھا کہ گمان تھا
وہ جو ٹوٹتا ہے جُڑے کہاں؟وہ جو چل دیا وہ مُڑے کہاں؟
وہ کہ بازوؤں ہی سے جھڑ گئے، کوئی اُن پروں سے اُڑے کہاں؟
بھلے میں ہوں یا ہو وہ تو سجن، جسے سامنا تھا زوال سے
ہمیں جتنا کچھ بھی تھا بھوگنا، وہ ٹلا نہ رنجِ مآل سے
سو یہ میں ہوں یا ہو وہ تُو سجن!یہی جان لیں، تو کمال ہے
یہ نفس رواں ہے جو جسم میں، یہی اپنا مال و منال ہے
یہ نگاہ میں ہے جو نور سا، یہی ظلمتوں کا زوال ہے
یہ جو آ چلا ہے گرفت میں، یہ کہ سامنے کا جو سال ہے
اِسے کیوں نہ جسم پہ اوڑھ لیں، اسے کیوں نہ حصہءِ جاں کریں
یہ ہمیں جو تحفہءِ نَو ملا، اِسے کیوں نہ لطف نشاں کریں
کوئی ایسا حکمراں آئے کہ جو انسان ہو
وہ کہ پہلوں سا، نہ طور اطوار میں خاقان ہو
وہ کہ جس کی ذات سے فیضان پھوٹے سُو بہ سُو
وہ کہ امیدوں تمنّاؤں کا جو کھلیان ہو
وہ کہ جس کے تخت کی دھج ہو دلوں میں جاگزیں
وہ کہ جو ماں باپ جیسا ہر کہیں ذیشان ہو
وہ کہ جو انصاف و عزّت دے سبھی کو ایک سی
وہ کہ جس کے تن بدن میں دوسروں کی جا ن ہو
وہ خزینوں سے جو منہا ہر غرض اپنی کرے
وہ کہ دلداری ہی جس کی منفرد پہچان ہو
اب نہیں تسلیم لوگوں کو کوئی ایسا کہ جو
بِن گُنوں کے اور بغیرِ علم و فن پردھان ہو
وہ کہ ہو ماجِد فرشتہ جو سب اپنوں کے لیے
وہ کہ جو شیطان ہیں، اُن کے لیے شیطان ہو
دو دِنوں میں ایک گھنٹہ بھی بہم پانی نہیں
مُنہ دُھلے تو پاؤں دُھل پاتے نہیں وقتِ وُضُو
دیکھیے اپنے یہاں، اِتنی بھی آسانی نہیں
اِک دھرابی، ایک کریالہ ہے اِک ڈُھڈیال ہے
سب سے پہلا جو دبستاں ہے مرا، چکوال ہے
شہ مراد و شہ شرف کا، اللہ رکھی کا کلام
راجدھانی میں سخن کی منفرد ٹیکسال ہے
میں وہیں پیدا ہوا، اُبھرا بڑھا صد ناز سے
وہ علاقہ جو تحفّظ میں وطن کی ڈھال ہے
آنکھ کھولی نورپور کے ایک کچّے صحن میں
علم کے در تک جو لے آیا مجھے، بُوچھال ہے
جس سے وابستہ ہوا ہے میرے جیون کا سنگھار
مرکزِ لطف و سکوں اِک دیہہ وہ، پنوال ہے
ساجد و چشتی و ناطق میرے مشفق رہنما
میرا ہمدم عابدِ خوش فکر کا سُرتال ہے
تابش و شورش ملک، مشتاق قاضی اور جمیل
ہاں مری مانند سب کی اپنی اپنی چال ہے
میرے ہمجولی، مرے ساتھی ہیں احسان و کمال
اور محمّد خاں ۔۔۔ نگاہوں میں مری لجپال ہے
حیدرومنظور کا فتح و ظفر کا علم و فن
اپنے ہاں کے حسنِ شعروفن کا استقبال ہے
خانی و توقیرومنہاس و شمیم اور۔۔اور بھی
صحن میں چکوال کے، رونق فزا سی آل ہے
خواجہ بابر سے، صحافت میں امیر ایّاز تک
ہر کسی کے خوں سے مستقبل کا چہرہ لال ہے
اختران و قابل و ناسک، مسرّت، بیگ بھی
اِن سبھوں کا نقدِ فن بھی چشمۂ سیّال ہے
میرے بچّے بھی سخن میں اور فن میں طاق ہیں
جن کا لکھا میرا سرمایہ ہے، میرا مال ہے
وہ کہ اپنے گُن لیے بھارت میں ٹھہرا شہ نشیں
ہاں وہ من موہن بھی تو اِس خاک ہی کی آل ہے
(فہرست اہلِ قلم: شہ مراد، شہ شرف، اللہ رکھی ، ساجدعلوی، ریاض چشتی، افتخارناطق، عابدجعفری، تابش کمال، شورش ملک، مشتاق قاضی، جمیل یوسف، احسان الٰہی احسان، باغ حسین کمال، کرنل محمّد خاں، یحییٰ عیش، منظورحیدر، فتح محمّد ملک، محبوب ظفر عرفان خانی، توقیرعرفان، عابد منہاس، شمیم جاوید، خواجہ بابرسلیم، ایاز امیر، اخترملک، اقبال اختر، قابل جعفری، اعجازناسک، غلام عباس مسرّت، انور بیگ اعوان، اور من موہن سنگھ ۔)
جن کا فقط زراندوزی پر ہے کامل ایمان
ایسا کہے جو لٹکا دے بے شک اُس کو قانون
لیکن عدل بھی دیکھے ہے یہ سب کچھ بالایقان
اور گھروں میں بختِ خسیس کا پہرہ ہے
جنتا الجھی بازاروں کے نرخوں میں
حاکم سب آزاروں سے بے بہرہ ہے
پر مکڑی سا پُونگ وہ پیچھے چھوڑ گیا
پالے گھوڑا پال وڈیروں کے ہاتھوں
آئنہ مستقبل کا ہمارے توڑ گیا