تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

زمرہ

ماجد صدیقی

بکھریں سب تسبیح کے دانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 227
وقت نہ پھلنے دے یارانے
بکھریں سب تسبیح کے دانے
تعبیریں سب پا لیتے ہیں
خدشے، خواہشیں، خواب سہانے
کم اندیش جسے سچ سمجھیں
دل کیوں ایسی بات نہ مانے
سچّا ایک ہی رَٹ پر قائم
بدنیّت کے لاکھ بہانے
اشکوں میں جو راز چھپے ہیں
کب لفظوں میں لگے سمانے
ماجد اک اک کرکے بچھڑے
جتنے بھی تھے یار پُرانے
ماجد صدیقی

اوج سے جو گرے، درس دے اوج کا، خاک میں بُوند ویسے سماتی نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 226
جو بھی منظر ہے ٹھہرے یہاں دِیدنی، آنکھ اپنی جسے دیکھ پاتی نہیں
اوج سے جو گرے، درس دے اوج کا، خاک میں بُوند ویسے سماتی نہیں
تخت جن سے چِھنے، وَقر جن کا لُٹے، وقت پرغافلِ فرض گر ہوں رہے
چاہے پیدا دوبارہ بھی ہوں تو اُنہیں، خلقتِ شہر عزّت دلاتی نہیں
اک طرف اپنے ہاں ایک مخلوق ہے، خطِ غربت سے نیچے جو رہ کر جیئے
دوسری سمت مخلوق ایسی بھی ہے، قرضِ سرکار کے جو چُکاتی نہیں
لاڈلی ہو کہ لائق ہو جیسی بھی ہو، بعد شادی کے وہ کام والی بنے
جو بھی بیٹی کہیں ہے بیاہی گئی، لَوٹ کراپنے میکے وہ آتی نہیں
عمرِ آخر! کوئی سُر سُنائی نہ دے، ، تاب سُننے کی جانے کہاں کھو گئی
کوئی گُل باغ میں کِھلکھلائے نہ اب، کوئی بلبل کہیں چہچہاتی نہیں
دشت و گلشن میں رقصاں ہوئیں وحشتیں، سارے بھنورے دِبک کر کہیں رہ گئے
خوفِ دہشت سے یوں ہے ڈرائی گئی، فاختہ اب کہیں اُڑنے جاتی نہیں
بات میری یہ سُن ماجِد خستہ جاں! حرفِ حق کا جو تریاق تُجھ پاس ہے
خلقتِ شہر جو بھی سہے سو سہے، تیرا نسخہ یہ، وہ آزماتی نہیں
ماجد صدیقی

مِیڈیا داتا کے نام

مِیڈیا داتا دیکھ اِدھر! کیوں خلق کا خون جلاتا ہے

شر کی اِک اِک چنگاری پر، کیوں تُو تیل لُنڈھا تا ہے

نَو سَو چُوہے جو بلّی بھی کھا کر، حج سے ہوئے

پاک پوِتّر اُس کو کہے تُو، اُس سے ترا کیا ناتا ہے؟

اینکر بال کی کھال اُتاریں، اور سب جانبدار لگیں

پٹّیاں لایعنی چلوانا، طَور ترا، من بھاتا ہے

پیش کرے تُو بنا کے عجوبہ، عقد شعیب و ثانیہ کا

اور آصف کی منگنی تک کو، سَو سَورنگ دِلاتا ہے

سیب و پیاز اِک بھاؤ بِکائیں، توریاں کیلے اِک بھاؤ

لُوٹ کھسوٹ اور ہر تاجر کی سنگدلی کو، چھپاتا ہے

فیسیں جرّاحوں کی طبیبوں کی ہوں یا ہوں سکولوں کی

روز افزوں کتنی ہوں، اُنگلی تُو کب اُن پہ اُٹھاتا ہے

صوبوں میں پولیس کے ہوتے، قتل ہوں پِیرو جواں کیا کیا

تُو خُدّامِ معلّیٰ ہی کے، سَو سَو گُن گِنواتا ہے

کوتاہی دس فیصد بھی ہو تو، صد فیصد دکھلائے

گُن چاہے صد فیصد ہوں، توُ دس فی صد ٹھہراتا ہے

جمہوریت کُش جمہوری، تیرے ’ساکیدار، لگیں

رنگ عوام کے فق کردیں جو، اَوج اُنہیں تُو دِلاتا ہے

جمہوریت پنج سالہ ہی آدھ آدھ دولخت ہو کیوں

حزبِ مخالف کو لیکن یہ درس تُو کب دِلواتا ہے

ساٹھ برس میں آمر آمرجو کچھ تھا سب ٹھیک رہا

جمہوری دو سالوں کو تُو کیوں خاطر میں نہیں لاتا ہے

عدلیہ والوں ہی نے تحفّظ اِک اِک آمر کو بخشا

بات یہ لیکن ہونٹوں پر لانے سے تُو کتراتا ہے

لائے سیل بیانوں کا ہر آنکھ تلک ہر گوش تلک

اور حکومتِ وقت کا بیڑا، ہر شب غرق کراتا ہے

جھوٹ کہو تو عیش ہی عیش ہے، سچ بولو تو جیل چلو

ہاں یہ سب کچھ دیکھ کے ماجِد! کالجہ منہ آتا ہے

ماجد صدیقی

سکندر خارکش!

سکندر خارکش! تُو ہانٹ کرتا ہے مجھے اَب بھی

کہ تُو نے ہی مجھے پہلے پہل ذوقِ نظر بخشا

وُہ منظر آنکھ میں اُترا ہو جیسے کنکری جیسا

منادی کی صدا پر ایک ہلچل تھی ہر اک جانب

بہت سے لوگ تھے پنڈال میں اور محتسب بھی تھا

اُسی پنڈال میں تُو تھا، وہیں مَیں بھی تھا بچّہ سا

اور اس پنڈال کی تقریب میں ایمان تُلنے تھے

کنارِ میز تھا رکھا گیا قرآن کا نسخہ

حلف یہ تھا کہ آزادی کا مژدہ سُن کے ہم سب نے

گھروں سے دشمنوں کے وہ کہ تھا مالِ غنیمت جو

بہ صدقِ دل چھوا تک بھی نہ تھا اور اب سرِمیداں

قسم کھا کر یہ کہنا تھاکہ دامن صاف ہے اپنا

ہوا تقریب کا آغاز تو اک چودھری آ کر

لگا کہنے

’’کہو مَیں نے بھی کیا وہ مال ہتھیایا

کہو کس نے مجھے آنکھوں سے دیکھا یہ خطا کرتے، ،

اور اس پر

وُہ جو کمتر تھے سبھی مل کر لگے کہنے

’’نہیں صاحب نہیں، کب آپ ایسا کام کرتے ہیں

وُہ جھوٹے ہیں وہ کاذِب ہیں جو یہ اِلزام دھرتے ہیں، ،

یہی کچھ جس قدر تھے چودھری سب نے کہا آ کر

مگر جب تو اٹھا باری پہ اپنی اور تُو نے بھی

وہی الفاظ دہرائے کہے ہر چودھری نے جو

تو تیری پُشت پر آ کر وہ ضربِ محتسب برسی

ترا سر جا کے پٹخا میز پر اور میخ لوہے کی

ترے ماتھے سے فوّارہ ساخُوں کا اِک بہا لائی

بڑی مشکل سے تو نے ہاتھ میں قرآن کو تھاما

اُسے سر پر اُٹھایااو بہ صدقِ دل کہا تُو نے

’’قسم اِس کے تقدس کی، قسم اولاد و ایماں کی

چھوا تک بھی نہیں میں نے کہیں مالِ غنیمت کو، ،

ترے ہونٹوں پہ تھے یہ لفظ اور میری نگاہوں میں

نجانے بچپنے میں ہی جِلا کیا عود کر آئی

مرا خوں کھول اُٹّھا اور اُٹَھا اک حشر سا جاں میں

مری وہ آنکھ جس نے تجھ کو دیکھا تھا اُس عالم میں

بہ زورِ ضرب جیسے ایک ہی لمحے میں بھر آئی

کہ تو کمتر تھا اور تجھ کو صفائی کمتروں کی بھی

بچا سکتی بھلا اُس روزکی تذلیل سے کیسے

کہ اس تقریب میں موجود تھا جو نسخۂ اولیٰ

کسی نے تو اسے ہاتھوں سے سر پر بھی اُٹھانا تھا

اور اُن سب میں یہ تُو تھا جس کی باری سب سے پہلے تھی

وہ دن اور آج کا دن میں نہیں تجھ کو بھلا پایا

سکندر خارکش! تو ہانٹ کرتا ہے مجھے اَب بھی

کہ اب بھی ہر کہیں آنکھوں میں ہیں میری وہی منظر

جہاں پنڈال میں ایمان تُلنے کی ہیں تقریبیں

کوئی میدان ہو جس میں وفا کا ہو حلف کوئی

کوئی بھی فیصلے یا عدل کی تقریب ہو اُس میں

مری تخئیل کو میزاں کے دو پلڑے دکھائی دیں

وہ پلڑے جن میں اک وہ ہے کہ

جس میں تُو ہے اور میں بھی

(وہ تو جس کا کوئی بھی قول ہو حرفِ غلط ٹھہرے

یہ میں جس کی کوئی بھی بات ہو وُہ جھاگ جیسی ہے)

اور اس میزاں کا اک پلڑا ہے وہ

جو خاص ہے اب بھی

فقط اُن کے لئے جو مقتدر اور زور آور ہیں

وہی پلڑا کہ جس میں چودھری جو بھی صفائی دے

صفائی پر نہ اُس کی، فردِ واحد بھی دُہائی دے

یہی سب سے جداگانہ کمال اُس چودھری کا ہے

کہ وہ پنڈال میں آتے نظر میں طنطنہ لاتے

بڑے ہی طمطراق اور زعم سے آ کر لگے کہنے

’’کہو میں نے بھی ہے کیا شہر میں کچھ مال ہتھیایا

کہو کس نے مجھے آنکھوں سے دیکھا یہ خطا کرتے، ،

اور اس پر

وہ جو کمتر ہیں (وہ جن میں تُوبھی ہے میں بھی)

بصد عجز و جبیں سائی سبھی مل کرلگیں کہنے

’’نہیں صاحب، نہیں کب آپ ایسا کام کرتے ہیں

وُہ جھوٹے ہیں وہ کاذب ہیں جو یہ الزام دھرتے ہیں، ،

سکندر خارکش! تو ہانٹ کرتا ہے مجھے اَب بھی

ماجد صدیقی

بات نہیں دوچار برس کی نصف صدی کا قصّہ ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 223
ماجد کا بھی حفیظ سا جو تخلیق فن میں حصہ ہے
بات نہیں دوچار برس کی نصف صدی کا قصّہ ہے
جانے کیوں آغاز سے ہی لگ جائے اِسے اپنوں کی نظر
ماں اور باپ کا باہم رشتہ پیار ایثار کا رشتہ ہے
جیتے جی بھی کچھ کچھ بیبیاں رکھیں اپنے تاج محل
احمدی اور من موہن کے گھر کا بھی اُدھر اک نقشہ ہے
میڈیا کی ساری بدخبری سچّی ہو یہ ناممکن
حزبِ مخالف کے کردار کا بھی کچھ اِس میں شوشہ ہے
جس کے عوض مختاروں سے پینچوں نے عیب ہیں چھُپوائے
پٹواری کے علم میں اب بھی جانے کیا کیا رقبہ ہے
پہلے بھی اپنایا کیے ہیں جو جو تخت ہِلانے کو
پاس ابھی جمہوری سرداروں کے کیا کیا نسخہ ہے
غراہٹ میں چیتوں کی جیسے ہو سامنا جنگل کا
ذہنوں ذہنوں کرب و بلا کا کچھ ایسا ہی نقشہ ہے
ماجد صدیقی

یہ کیا ؟ سوار’ دوش پر ہوا کے کر دیا گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 222
شجر پہ تو نہ نم تلک بھی نقدِ زر دیا گیا
یہ کیا ؟ سوار’ دوش پر ہوا کے کر دیا گیا
یہ اور بات رہنما بجز شغال کچھ نہیں
ہمیں دیا گیا ہے جو بھی شیرِ نر دیا گیا
ہمِیں ہیں عزم کے سوا’جنہیں نہ کچھ عطا ہوا
جنہیں نہ اور کچھ بھی توشہءِ سفر دیا گیا
جنہیں بہم ہے برتری’وہ ہم سے بس یہی کہیں
جھکے تو ہو فرازتر ‘ہمیں وہ سر دیا گیا
کبھی نہ ہم نے آنکھ کھول کر نگاہ کی کہیں
یہ ہم جنہیں کبوتروں سا نامہ بر دیا گیا
کھلی ہے جب بھی آنکھ’دہشتیں پڑی ہیں دیکھنی
ہمیں نہ کوئی اور مژدہءِ سحر دیا گیا
تجھے ہے ماجِدِ حزیں عطا وہ’ لطفِ خاص ہے
ولائتوں سے کم نہیں جو فکرِ تر دیا گیا
ماجد صدیقی

یہ کہ سامنے کا جو سال ہے

ہمیں کچھ نہیں ہے وصولنا، گئی رُت کی آخری رات سے

جو گیا سو وہ تو نکل گیا، ترے ہاتھ سے مرے ہات سے

کہ بھلے وہ، مایہءِ جان تھا، کہ بھلے ضمیر کی تان تھا

وہ گمان تھا کہ یقین تھا، وہ یقین تھا کہ گمان تھا

وہ جو ٹوٹتا ہے جُڑے کہاں؟وہ جو چل دیا وہ مُڑے کہاں؟

وہ کہ بازوؤں ہی سے جھڑ گئے، کوئی اُن پروں سے اُڑے کہاں؟

بھلے میں ہوں یا ہو وہ تو سجن، جسے سامنا تھا زوال سے

ہمیں جتنا کچھ بھی تھا بھوگنا، وہ ٹلا نہ رنجِ مآل سے

سو یہ میں ہوں یا ہو وہ تُو سجن!یہی جان لیں، تو کمال ہے

یہ نفس رواں ہے جو جسم میں، یہی اپنا مال و منال ہے

یہ نگاہ میں ہے جو نور سا، یہی ظلمتوں کا زوال ہے

یہ جو آ چلا ہے گرفت میں، یہ کہ سامنے کا جو سال ہے

اِسے کیوں نہ جسم پہ اوڑھ لیں، اسے کیوں نہ حصہءِ جاں کریں

یہ ہمیں جو تحفہءِ نَو ملا، اِسے کیوں نہ لطف نشاں کریں

ماجد صدیقی

شہ نگر میں یہ کھلبلی کیوں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 220
دل کی بستی اجاڑ سی کیوں ہے
شہ نگر میں یہ کھلبلی کیوں ہے
کونسی آگ کو ملی یہ ہوا
شہر بھر میں یہ سنسنی کیوں ہے
بھاگ اُلجھائے جو رعایا کے
اُلجھنوں سے وہی بری کیوں ہے
جسم تڑخے ذرا سی آنچ سے کیوں
یہ زمیں اِتنی بُھربھری کیوں ہے
وہ جو دندانِ آز رکھتے ہیں
ڈور ایسوں کی ہی کُھلی کیوں ہے
چال سہنے کی حکمِ ناخلفاں
اِک ہمِیں سے چلی گئی کیوں ہے
بے نیازی ہرایک منصف کی
اِک ہمِیں نے ہی بھگتنی کیوں ہے
تھی جو ماجد! عطائے استغنا
سلطنت ہم سے وہ چِھنی کیوں ہے
ماجد صدیقی

انسان و شیطان

کوئی ایسا حکمراں آئے کہ جو انسان ہو

وہ کہ پہلوں سا، نہ طور اطوار میں خاقان ہو

وہ کہ جس کی ذات سے فیضان پھوٹے سُو بہ سُو

وہ کہ امیدوں تمنّاؤں کا جو کھلیان ہو

وہ کہ جس کے تخت کی دھج ہو دلوں میں جاگزیں

وہ کہ جو ماں باپ جیسا ہر کہیں ذیشان ہو

وہ کہ جو انصاف و عزّت دے سبھی کو ایک سی

وہ کہ جس کے تن بدن میں دوسروں کی جا ن ہو

وہ خزینوں سے جو منہا ہر غرض اپنی کرے

وہ کہ دلداری ہی جس کی منفرد پہچان ہو

اب نہیں تسلیم لوگوں کو کوئی ایسا کہ جو

بِن گُنوں کے اور بغیرِ علم و فن پردھان ہو

وہ کہ ہو ماجِد فرشتہ جو سب اپنوں کے لیے

وہ کہ جو شیطان ہیں، اُن کے لیے شیطان ہو

ماجد صدیقی

کینٹ کی لینوں میں کیا حکمِ یزیدی چل پڑا

دو دِنوں میں ایک گھنٹہ بھی بہم پانی نہیں

مُنہ دُھلے تو پاؤں دُھل پاتے نہیں وقتِ وُضُو

دیکھیے اپنے یہاں، اِتنی بھی آسانی نہیں

ماجد صدیقی

مشکلوں سے تہِ نگیں کی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 217
ہم نے، جو مِلک اُس حسیں کی ہے
مشکلوں سے تہِ نگیں کی ہے
خُوں جلائیں کہ جاں سے جائیں ہم
بات سب”کسبِ آفریں’ کی ہے
نسل اپنی بھی کھوج لی ہم نے
جس کو جنت کہیں’ وہیں کی ہے
ہاں ہم آداب اِس کے جانتے ہیں
’’تیری صورت جو دلنشیں کی ہے‘‘
محو سُن کے سماعتوں سے جو ہو
ہم نے وہ شاعری نہیں کی ہے
دیکھنی ہو جو اُس کی صنّاعی
آب میں برقِ آتشیں کی ہے
آسماں تک گئی جو آہوں میں
فصل ماجِدوہ اس زمیں کی ہے
ماجد صدیقی

اُس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ویسا کروں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 216
اُس نے گھٹیا پن دکھایا ہے تو اُس کا کیا کروں
اُس میں مجھ میں فرق کیا، میں بھی اگر ویسا کروں
وہ نہ خوشبوئے بدن تک کی کرن لوٹا سکیں
تتلیوں کے ہاتھ نامے میں، جنہیں بھیجا کروں
سُرخرو مجھ سا، نہ مجھ سا ہو کوئی با آبرو
سامنے قدموں کے کھائی بھی اگر دیکھا کروں
مجھ کو ہر قیمت پہ دُھن بس کچھ نہ کچھ پانے کی ہے
میں نے کیا کھویا ہے اِس میں، یہ نہ اندازہ کروں
دَھجیاں اخلاق کی یوں ہیں گرانی سے اُڑیں
میہماں کوئی ہو اگلی پل اُسے چلتا کروں
وقت نے مدّت ہُوئی، جُوتے ہیں مرے اُلٹا دئے
کاش میں بھی یہ اشارے کچھ نہ کچھ سمجھا کروں
میرے اندر کا ضمیرِ مستعد بولے یہی
بدسلوکوں سے بھی ماجد میں سلوک اچّھا کروں
ماجد صدیقی

منافع سارے اوروں کے، خسارے سب ہمارے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 215
سیہ بختی، گراوٹ پر اجارے سب ہمارے ہیں
منافع سارے اوروں کے، خسارے سب ہمارے ہیں
نگر میں نام پر الزام ہے جن کے، شقاوت کا
بظاہر خیر کے ہیں جو ادارے سب ہمارے ہیں
بھلے وہ شِیر میں پانی کے ہوں یا جھوٹ کے سچ میں
ملاوٹ پر جو مبنی ہوں وہ دھارے سب ہمارے ہیں
شرارت ہو کہیں برپا ہمارے سر ہی آتی ہے
سُجھائیں بد ظنی ہی جو اشارے سب ہمارے ہیں
کہیں سے ہاتھ جگنو بھی جو آ جائیں تو ہم سمجھیں
فلک پر جس قدر ہیں ماہ پارے سب ہمارے ہیں
ہمارے پہلوؤں میں جو سلگتے ہیں ہمہ وقتی
جو ماجد وسوسوں کے ہیں شرارے، سب ہمارے ہیں
ماجد صدیقی

مرے مدّعا و بیان میں، ہو ملائمت تری چال سی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 214
کوئی فاختائی سی نظم ہوکوئی اِک غزل ہو غزال سی
مرے مدّعا و بیان میں، ہو ملائمت تری چال سی
مری کیفیات کے صحن میں، ہے کہاں سے آئی ہے یہ ذہن میں
مرے ارد گرد تنی ہوئی یہ جو موجِ خوف ہے جال سی
کھلی آنکھ تب سے یہ سوچتے، گئی بِیت عمرِ طویل بھی
کہ نفس نفس میں ہے کیوں مرے؟ یہ گھڑی گھڑی ہے جو سال سی
ہوئیں التجائیں نہ بارور، کوئی چاہ ٹھہری نہ کارگر
نہ ہوئیں دعائیں وہ باثمر، تھیں جواختیار میں ڈھال سی
مرا تن بدن مرا عکس ہے، مری آنکھ ہے مرا آئنہ
وہی عمر اُس کی بَتائے ہے، ہے تنِ شجر پہ جو چھال سی
ترے لفظ لفظ میں ہے کھنک، ترے مکھ پہ فکر کی ہے دھنک
تری لَے بھی ماجِدِ خوش گلو، ہے رفیع، اوجِ کمال سی
ماجد صدیقی

پھول کھلیں تو کیوں تُو اُنہیں جلائے یارا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 213
چہروں کا دُھندلانا تجھ کو بھائے یارا
پھول کھلیں تو کیوں تُو اُنہیں جلائے یارا
وہ جو تیری دِید کو ترسیں، اُنہیں رُلانے
ابر و ہوا کے پیچھے کیوں چھپ جائے یارا
وصل سے کترائے ہے ہجر کی آنچ دلائے
کتنے ستم ہیں تُو جو نت دُہرائے یارا
وہ کہ راہ میں تیری بِچھ بِچھ جاتے ہیں جو
چالوں کا جادُو کیوں اُن پہ جگائے یارا
جانیں جائیں پر تُو تخت بچا لے اپنا
خلقِ خدا کو کس کس طَور نچائے یارا
اُن ہاتھوں کو جو فریاد بکف اُٹھتے ہیں
آہنی ہتھکڑیاں کیا کیا پہنائے یارا
ماجِد تیرا سخن ہے تیرا سدا کا جوبن
تُو چندا سا کاہے کو گہنائے یارا
ماجد صدیقی

شاید تختۂ عجز و نیاز ٹھکانے لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 212
بوریا بستر باندھنے کاوقت آنے لگا ہے
شاید تختۂ عجز و نیاز ٹھکانے لگا ہے
چرخِ سخن سے کونسا تارا جھڑنے کو ہے
کس بد خبری کا جھونکالرزانے لگا ہے
کم تولیں اور نرخ زیادہ لکھ کے تھمائیں
اہلِ غرض کا سِفلہ پن دہلانے لگا ہے
ملزم نے اِتنی رشوت ٹھونسی ہے اُس کو
تھانیدار اب ملزم سے کترانے لگا ہے
مجھ کو بِل میں گُھسنے سے پہلے ہی اُچک لے
چُوہا بِلّی جی کو یہ سمجھانے لگا ہے
نیولا داؤ دکھاکے، سانپ نوالہ کرکے
زیرِ حلق اُتار کے کیا اِٹھلانے لگا ہے
ماجِد گروی رکھ کے ہمارے آتے دِنوں کو
ساہوکار ہمیں کیا کیا بہلانے لگا ہے
ماجد صدیقی

چکوال

اِک دھرابی، ایک کریالہ ہے اِک ڈُھڈیال ہے

سب سے پہلا جو دبستاں ہے مرا، چکوال ہے

شہ مراد و شہ شرف کا، اللہ رکھی کا کلام

راجدھانی میں سخن کی منفرد ٹیکسال ہے

میں وہیں پیدا ہوا، اُبھرا بڑھا صد ناز سے

وہ علاقہ جو تحفّظ میں وطن کی ڈھال ہے

آنکھ کھولی نورپور کے ایک کچّے صحن میں

علم کے در تک جو لے آیا مجھے، بُوچھال ہے

جس سے وابستہ ہوا ہے میرے جیون کا سنگھار

مرکزِ لطف و سکوں اِک دیہہ وہ، پنوال ہے

ساجد و چشتی و ناطق میرے مشفق رہنما

میرا ہمدم عابدِ خوش فکر کا سُرتال ہے

تابش و شورش ملک، مشتاق قاضی اور جمیل

ہاں مری مانند سب کی اپنی اپنی چال ہے

میرے ہمجولی، مرے ساتھی ہیں احسان و کمال

اور محمّد خاں ۔۔۔ نگاہوں میں مری لجپال ہے

حیدرومنظور کا فتح و ظفر کا علم و فن

اپنے ہاں کے حسنِ شعروفن کا استقبال ہے

خانی و توقیرومنہاس و شمیم اور۔۔اور بھی

صحن میں چکوال کے، رونق فزا سی آل ہے

خواجہ بابر سے، صحافت میں امیر ایّاز تک

ہر کسی کے خوں سے مستقبل کا چہرہ لال ہے

اختران و قابل و ناسک، مسرّت، بیگ بھی

اِن سبھوں کا نقدِ فن بھی چشمۂ سیّال ہے

میرے بچّے بھی سخن میں اور فن میں طاق ہیں

جن کا لکھا میرا سرمایہ ہے، میرا مال ہے

وہ کہ اپنے گُن لیے بھارت میں ٹھہرا شہ نشیں

ہاں وہ من موہن بھی تو اِس خاک ہی کی آل ہے

(فہرست اہلِ قلم: شہ مراد، شہ شرف، اللہ رکھی ، ساجدعلوی، ریاض چشتی، افتخارناطق، عابدجعفری، تابش کمال، شورش ملک، مشتاق قاضی، جمیل یوسف، احسان الٰہی احسان، باغ حسین کمال، کرنل محمّد خاں، یحییٰ عیش، منظورحیدر، فتح محمّد ملک، محبوب ظفر عرفان خانی، توقیرعرفان، عابد منہاس، شمیم جاوید، خواجہ بابرسلیم، ایاز امیر، اخترملک، اقبال اختر، قابل جعفری، اعجازناسک، غلام عباس مسرّت، انور بیگ اعوان، اور من موہن سنگھ ۔)

ماجد صدیقی

ہم بندگان ہیں اُسی پروردگار کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 210
جینے کے دن بھی جس نے دئے ہیں ادھار کے
ہم بندگان ہیں اُسی پروردگار کے
یہ بھی نجانے کیوں مرے دامن میں رہ گئیں
کچھ پتّیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
گنوائیں کیا سے کیا جو مبلّغ ہیں خَیر کے
ہائے وہ سلسلے کہ جو ہیں گِیر و دار کے
اُس نے تو کھال تک ہے ہماری اُتار لی
زیرِ نگیں ہم آپ ہیں کس تاجدار کے
ہاں آکے بیٹھتے ہیں کبوتر جو بام پر
ہاں اقربا ہیں یہ بھی مرے دُور پار کے
تھہرائیں ہم رقیب کسے اور کسے نہیں
ہم یار بھی ہوئے ہیں تو جہاں بھر کے یار کے
کھویا ہے کیا سے کیا ابھی کھونا ہے کیا سے کیا
ماجد یہ کیسے دن ہیں گنت کے شمار کے
نذرفیض
ماجد صدیقی

پاکستان پراپرٹی، ڈیلر ہیں سیاست دان

جن کا فقط زراندوزی پر ہے کامل ایمان

ایسا کہے جو لٹکا دے بے شک اُس کو قانون

لیکن عدل بھی دیکھے ہے یہ سب کچھ بالایقان

ماجد صدیقی

دہشت و بد نظمی کا رقص ہے راہوں پر

اور گھروں میں بختِ خسیس کا پہرہ ہے

جنتا الجھی بازاروں کے نرخوں میں

حاکم سب آزاروں سے بے بہرہ ہے

ماجد صدیقی

خود انگریزتو اپنے دیس سدھار گیا

پر مکڑی سا پُونگ وہ پیچھے چھوڑ گیا

پالے گھوڑا پال وڈیروں کے ہاتھوں

آئنہ مستقبل کا ہمارے توڑ گیا

ماجد صدیقی

ہم ہیںِ معزول شہوں جیسے فقط پِیر نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 206
ہم ثمردار نہیں لائقِ توقیر نہیں
ہم ہیںِ معزول شہوں جیسے فقط پِیر نہیں
سَو ہیں گر ہم تو ہیں ہم میں سے فقط بیس نہال
کون ہے اپنے یہاں آج’ جو دلگیر نہیں
موج’ دریا سے ہے از خود ہی اُچھلتی آئی
پیش دستی میں ہماری کوئی تقصیر نہیں
جس نے بھی لاکھوں کروڑوں سے بڑھا لی پونجی
نام پر اُس کے یہاں کوئی بھی تعزیر نہیں
یاترا جو بھی کسی پینچ نگر کی کر لے
وہ زَبر ٹھہرے ہمیشہ کے لیے’ زِیر نہیں
پست سے جو بھی زروزور سے بالا ٹھہرا
سابقہ اُس کی جو تھی حال کی تصویر نہیں
جو رقابت سے چڑھے دار پہ ماجد صاحب
نام جو اُس کے لگے’ اُس کی وہ تقصیر نہیں
ماجد صدیقی

چہرے کے پھول رکھ لیے’ دل کی کتاب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 205
بچھڑے جب اُس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے’ دل کی کتاب میں
میدانِ زیست میں تو رہے تھے دلیر ہم
کمزور تھے تو صرف’ محبّت کے باب میں
کیا کیا بُرائیاں نہ سہیں جان و دل پہ اور
لوٹائیں نیکیاں ہی جہانِ خراب میں
تازہ نگاہ’ جس نے کیا ہم کو بار بار
کیا خوبیاں تھیں اُس کے بدن کے گلاب میں
قائم رہا اُسی کے سبب خیمہئ حیات
تھا جتنا زور’ خاک میں اُتری طناب میں
مدّت سے دل مرا ہے جو تاریک کر گیا
آتا ہے چودھویں کو نظر ماہتاب میں
نااہل ناخداؤں کی ناؤ میں جب سے ہے
ماجدگِھری ہے خلقِ خدا’ کس عذاب میں؟
ماجد صدیقی

دل جیسے گلے میں آ گیا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 204
کیا خوف معاً یہ چھا گیا ہے
دل جیسے گلے میں آ گیا ہے
ماجد صدیقی

جیسے معاً کہیں سے اضافہ ہو جاہ میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 203
ساعت وصالِ یار کی یوں ہے نگاہ میں
جیسے معاً کہیں سے اضافہ ہو جاہ میں
اُترے تھی صحنِ شوق میں جو بامِ یار سے
تھا کیا سرُور اُس نگہِ گاہ گاہ میں
دیکھا نہ زندگی میں پھر ایسا کوئی نشیب
کیا دلکشی تھی اُس کے زنخداں کے چاہ میں
کیا پھر سے رَخشِ قلب و بدن بے عناں ہُوا
ہے کھلبلی سی کیوں؟ یہ جنوں کی سپاہ میں
آمر پھٹا حباب سا جا کر فضا کے بیچ
دیکھا ہے یہ اثر بھی تو خلائق کی آہ میں
اِیندھن بِناں رواں کوئی پہیّہ نہ ہو سکا
تھا بے رسد جو رہ گیا آخر کو راہ میں
اچّھا ہُوا جو اِس سے ہو ماجد بچے رہے
آخر دھرا ہی کیا ہے فقط واہ واہ میں
ماجد صدیقی

ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 202
جگہ جگہ آنکھوں میں چُبھتے منظر ہیں
ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں
گُن جتلاتے ہیں کیوں ہم، آقاؤں سے
ہم جو حلقہ بگوشی ہی کے خُوگر ہیں
خودی کمائی ہے کیا؟چھینا جھپٹی سے
اوج نشینوں نے، جو سارے خود سر ہیں
عدل گہوں پر بھی ہے گماں زندانوں کا
عادل تک بھی جہاں کے اسیرانِ زر ہیں
نرخوں اور رویّوں تک میں دہشت کے
چُھپے ہُوئے کیا کیا پُھنکارتے اژدر ہیں
کب سے چِھنی ہے اِن سے جانے خوش خُلقی
شہر شہر کیونکر اُجڑے، بستے گھر ہیں
کانوں میں تو گُونج صدائے فلاح کی ہے
حال ہمارے ہی ماجد کیوں ابتر ہیں
ماجد صدیقی

کب سے نہیں ترس رہا رخت سفر کو میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 201
تیری قرابتوں کے دیئے بال و پر کو میں
کب سے نہیں ترس رہا رخت سفر کو میں
جب سے عطا ہوئی ہے مجھے دولتِ غنا
لاتا نہیں نظر میں کسی تاجور کو میں
کٹھکا ہو اُس پہ کیوں کسی بارانِ سنگ کا
دیکھوں جہاں کہیں کسی پھلتے شجرکو میں
یکجا ہوں جس میں عجز و انا و ادائے عدل
پاؤں تو کس طرح کسی ایسے بشر کو میں
جب بھی ملے سفیر کسی ملکِ خاص کا
حسرت سے گھورتا ہوں بس اپنے نگر کو میں
اِک اِک کا منتہائے غرض ہے بس اپنی ذات
’پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں،
ماجد شبانِ تار سا کب سے ہوں منتظر
کب پا سکوں گا حسبِ تمنّا سحر کو میں
ماجد صدیقی

کچھ کرے گر تو جاودانی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 200
عمر فانی ہے آنی جانی ہے
کچھ کرے گر تو جاودانی ہے
غیض میں اور، التفات میں اور
وہ کہ ہے آگ، وہ کہ پانی ہے
بس میں مشکل سے آئے مچھلی سا
خُو یہ اُس شوخ کی پرانی ہے
جیسے آب رواں پہ گُل تَیریں
چال میں اُس کی وہ روانی ہے
ظرف جس نے کشادہ تر رکھا
ہاں وہ انسانیت کا بانی ہے
نسل اُس کی فزوں ہوئی کیسے
یہ بھی آدم کی اک کہانی ہے
ہاں کبھی جانبِ نشیب نہ جا
تُو نے ماجد کہاں کی ٹھانی ہے
ماجد صدیقی

ماجد بدن تھا اُس کا کہ چھاگل سرور کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 199
اُٹھتا شباب اور فضا لُطفِ نُورکی
ماجد بدن تھا اُس کا کہ چھاگل سرور کی
جس کی چھنک دھنک ہمیں مدہوش کر گئی
اور صبر یہ کہ ہم نے وہ چُوڑی نہ چُور کی
شہکار اِک خدا کا تھا، مل کر جسے لگا
جیسے وہ کیفیت تھی کسی اَوجِ طُور کی
فتنہ زمیں پہ ہے کہ خرابی فلک پہ ہے
بدلی لگیں ادائیں سحر سے طیور کی
کچھ اور ہم سے ہو نہ سکا یا بھلے ہُوا
دعویٰ ہے یہ کہ ہم نے محّبت ضرور کی
تب سے رہا میں اگلے سَموں ہی کا منتظر
دیکھی ہے شکل جب سے درختوں کے بُور کی
خود رَو ہے جس کو دیکھیے، درس اُس سے کون لے
ابلیس کو سزا جو ملی تھی غرور کی
اِک اِک ادا ہے آپ کی ماجد! پسندِ دہر
پر شاعری پسند نہیں ہے حضور کی
ماجد صدیقی

ہم ہیں معزول شہوں جیسے فقط پِیر نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 198
ہم ثمردار نہیں لائقِ توقیر نہیں
ہم ہیں معزول شہوں جیسے فقط پِیر نہیں
سَو ہیں گر ہم تو ہیں ہم میں سے فقط بیس نہال
کون ہے اپنے یہاں آج، جو دلگیر نہیں
موج، دریا سے ہے از خود ہی اُچھلتی آئی
پیش دستی میں ہماری کوئی تقصیر نہیں
جس نے بھی لاکھوں کروڑوں سے بڑھا لی پونجی
نام پر اُس کے یہاں کوئی بھی تعزیر نہیں
یاترا جو بھی کسی پینچ نگر کی کر لے
وہ زَبر ٹھہرے ہمیشہ کے لیے، زِیر نہیں
پست سے جو بھی زروزور سے بالا ٹھہرا
سابقہ اُس کی جو تھی حال کی تصویر نہیں
جو رقابت سے چڑھے دار پہ ماجد صاحب
نام جو اُس کے لگے، اُس کی وہ تقصیر نہیں
ماجد صدیقی

ہم وہ ہیں جن کے سر پہ کہیں آسماں نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 197
امدادِ غیب کا ہمیں کوئی گماں نہیں
ہم وہ ہیں جن کے سر پہ کہیں آسماں نہیں
اِتنا تو اُس کے سامنے مشکل نہ تھا کلام
چھالا ہے اب تو جیسے دہن میں زباں نہیں
تیرِ نظر کی چاہ نے ایسا سُجھا دیا
ابرو ہے تیرا سامنے، کوئی کماں نہیں
کم نرخ کر لیے ہیں شہِ شہر نے تو کیا
کم کر لیے ہیں باٹ ہمیں کچھ زیاں نہیں
بولوں میں کھوٹ ہو تو ملیں رازداں بہت
بولیں کھرا کھرا تو کوئی ہمزباں نہیں
جب سے ہوس ہوئی اُسے ملبوس شاہ کی
اُس روز سے ہمارا کوئی پاسباں نہیں
ضو بھی ہے اِس میں اور تحّرک بھی ہے عجب
ماجد کا ہے کلام یہ ماہِ رواں نہیں
ماجد صدیقی

رخت میں نقدِ بقا باندھتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 196
ہم جو مضموں کی ہوا باندھتے ہیں
رخت میں نقدِ بقا باندھتے ہیں
اہلِ فن لفظ و ندا میں دیکھو!
کیسے سپنوں کا لکھا باندھتے ہیں
دل کے مَیلے ہیں جو کھولیں کیسے
جو گرہ اہلِ صفا باندھتے ہیں
جور بے طرح سخن میں لائیں
وہ جو زینب کی ردا باندھتے ہیں
وہ جنہیں اَوج نشینوں سے ملے
طرّۂ ناز بڑا باندھتے ہیں
وسوسہ دل میں نہ پالیں کوئی
ہم کہ ہر عہد کُھلا باندھتے ہیں
سوداکاری میں اَنا کی پڑ کے
لوگ جسموں کی بہا باندھتے ہیں
جو ہنرور ہیں نئی نسلوں کے
مٹھی مٹھی میں جلا باندھتے ہیں
وہ کہ موجد ہیں۔۔درونِ مادہ
نو بہ نو عکس و صدا باندھتے ہیں
بیٹیاں عمر بِتائیں روتے
اُن کو ماں باپ کُجا باندھتے ہیں
زور تن میں ہو تو ہر بات میں ہم
ناروا کو بھی روا باندھتے ہیں
ہو جہاں ذکرِ عقائد اس میں
ہم صنم تک کو خدا باندھتے ہیں
اپنے جیسوں پہ جو ڈھاتے ہیں ستم
اپنے پلّو میں وہ کیا باندھتے ہیں
سینہٗ شب میں کرے چھید وہی
ہم کہ جگنو کو دِیا باندھتے ہیں
ہم کبوتر کے پروں میں ماجد
لطفِ یاراں کا صلہ باندھتے ہیں
ماجد صدیقی

سرِدشت آہو کا رم دیکھتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 195
نشیلا، ترا ہر قدم دیکھتے ہیں
سرِدشت آہو کا رم دیکھتے ہیں
سرِ سرو بھی تیری قامت کے آگے
لگے جیسے اندر سے خم دیکھتے ہیں
مناظر جہاں ہوں دل آزاریوں کے
شہِ وقت اُس سمت کم دیکھتے ہیں
ہماری کسی بات سے تو نہیں ہے؟
یہ کیوں؟تیرے پلّو کونم دیکھتے ہیں
دُھواں دُھول اور شور ہیں عام اِتنے
کہ سانسوں تلک میں بھی سم دیکھتے ہیں
تری آنکھ پر راز افشانیاں ہیں
ترے پاس بھی جامِ جم دیکھتے ہیں
مسلسل ہے ماجد یہ کیوں ژالہ باری
کہ ہر سو ستم پر ستم دیکھتے ہیں
ماجد صدیقی

وہ جسے اوّل و آخر کا خدا کہتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 194
جسم در جسم ہے رگ رگ میں بسا، کہتے ہیں
وہ جسے اوّل و آخر کا خدا کہتے ہیں
کسی میدان میں جو جو بھی ہوئے عقدہ کُشا
اُن مسیحاؤں کو، جویائے شفا کہتے ہیں
کاش ہم آپ بھی اُس جیسا کھرا ہو دیکھیں
جنس در جنس جسے سارے کھرا کہتے ہیں
ایسا کہنے میں نہ دے ساتھ تو باطن، ورنہ
ہم ہیں مسجودِ ملائک، یہ کُھلا کہتے ہیں
کچھ تو پاس ایسوں کے ہوتی ہے کوئی اسکی دلیل
قُربِ جاناں کو جو جنّت کی ہوا کہتے ہیں
چشمِ جاناں سے بھی جھلکے تو ہے پرتو اُس کا
جس کو ہم وصفِ حیا، وصفِ خدا کہتے ہیں
کچھ تو ماجد ہے سبب اِس کا وگرنہ، کیسے
شوخ چہروں کا تجھے، مدح سرا کہتے ہیں
ماجد صدیقی

پاؤں نہ بھولنے کبھی طُولِ سفر کو میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 193
ٹھہروں جہاں کہیں بھی پہر دو پہر کو میں
پاؤں نہ بھولنے کبھی طُولِ سفر کو میں
جب سے عطا ہوئی ہے مجھے دولتِ غنا
لاتا نہیں نظر میں کسی تاجور کو میں
کٹھکا ہو اُس پہ کیوں کسی بارانِ سنگ کا
دیکھوں جہاں کہیں کسی پھلتے شجرکو میں
یکجا ہوں جس میں عجز و انا و ادائے عدل
پاؤں تو کس طرح کسی ایسے بشر کو میں
جب بھی ملے سفیر کسی ملکِ خاص کا
حسرت سے گھورتا ہوں بس اپنے نگر کو میں
اِک اِک کا منتہائے غرض ہے بس اپنی ذات
’پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں،
ماجدشبانِ تار سا کب سے ہوں منتظر
کب پا سکوں گا حسبِ تمنّا سحر کو میں
ماجد صدیقی

بستے بستے بس ہی جائیگی یہ بستی ایک دِن

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 192
اپنے ہاں بھی ختم ہو گی شب پرستی ایک دِن
بستے بستے بس ہی جائیگی یہ بستی ایک دِن
اِس کی بھی قیمت بڑھے، کچھ قدر اِس کی بھی بڑھے
کیا پتہ رہنے نہ پائے خلق سستی ایک دِن
بس اِسی امید پر گزرے کئی دسیوں برس
ہم بھی منوائیں گے آخر زورِ ہستی ایک دِن
بس نہ تھا جن پر، جو قادر تھے، وہ قرضے کھا گئے
رنگ یوں لائی ہماری فاقہ مستی ایک دِن
عزم جو ہم نے اتارا ہے سخن میں، وہ کہے
بالادستی میں ڈھلے گی زیردستی ایک دِن
جنکے قدموں میں پڑے ہیں، ہاں اُنہیں کھنگال کر
ڈھونڈھ ہی لیں گے بالآخر وجہُ پستی ایک دِن
جان لے ماجد تری نِت کی دُعاؤں کے طفیل
بامرادی پائے گی خلقت ترستی، ایک دِن
ماجد صدیقی

بِیج کو وقت ہے درکار شجر ہونے تک

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 191
اہلِ دل اہلِ نظر اہلِ ہُنر ہونے تک
بِیج کو وقت ہے درکار شجر ہونے تک
پوچھنا چاہو تو اربابِ طرب سے پوچھو
کیا سے کیا چاہیے سُرخاب کا پر ہونے تک
معتقد قیس کے فرہاد کے ہوکر دیکھو
اپنے قدموں میں سجنوا کا نگر ہونے تک
سینہ زوری کوئی برتے کوئی سٹہ بازی
کیا سے کیا منزلیں ہیں صاحبِ زر ہونے تک
یہ تو شاہین ہی جانیں کہ ہے کب تک ممکن
فاختاؤں کا سفر لقمۂ تر ہونے تک
قربِ جاناں کا ہے محدود میّسر آنا
دل کے جل اُٹھنے تلک، آنکھ کے تر ہونے تک
یہ تو ماجد ہی بتائے گا ہے کتنی کتنی
موت سے دست و گریبانی اَمَرہونے تک
ماجد صدیقی

لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 190
جتنا کچھ بھی ہے ہمارے لب اظہار کے پاس
لطف مشکل ہی سے پاؤ گے یہ دو چار کے پاس
ہم کہ آدابِ جنوں سے بھی تھے واقف لیکن
کیوں کھڑے رہ گئے اُس شوخ کی دیوار کے پاس
وہ بھی محتاجِ سکوں ہے اُسے کیا عرض کروں
کیا ہے جُز حرفِ تسلی مرے غمخوار کے پاس
مان لیتے ہیں کہ دیوارِ قفس سخت سہی
سر تو تھا پھوڑنے کو مرغِ گرفتار کے پاس
تھے کبھی برگ و ثمر پوشش گلشن ماجدؔ
پیرہن گرد کا اب رہ گیا اشجار کے پاس
ماجد صدیقی

ہم رہ سکے نہ خَیر کو بھی شر کہے بغیر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 189
محسن کو اہل مسلکِ دیگرکہے بغیر
ہم رہ سکے نہ خَیر کو بھی شر کہے بغیر
ہوتے نہ جن کے، جاگنے پائے ہمارے بھاگ
اُن کھیتیوں کو کیا کہیں بنجر کہے بغیر
تا غیر کہہ کے مجھ کو غبی خوش رہا کرے
’سنتا نہیں ہوں بات مکرّر کہے بغیر،
ہاں جس کا قُربِ خاص ہے سونے سا قیمتی
اُس شوخ کو کہیں بھی تو کیا؟ زرکہے بغیر
جس نے خدا سے ہٹ کے کیا، جی کو جو لگا
آدم کو ہم بھی کیا کہیں خودسرکہے بغیر
اپنے یہاں یہی تو خرابی ہے جا بہ جا
کمتر بھی خوش نہ ہو کبھی برتر کہے بغیر
شاعر بھی ہے وہ صرف معلّم نہیں حضور!
ماجد کو کیا کہو گے سخنور کہے بغیر
ماجد صدیقی

آنکھوں میں بندھا لاگے ہے ماجد کی سماں اور

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 188
دن خوب بھی آنے کو ہیں گویا کہ یہاں اور
آنکھوں میں بندھا لاگے ہے ماجد کی سماں اور
پلّو کسی بیوہ کا، بکھرتی کوئی دھجّی
ہاتھوں میں غریبوں کے لہکتے ہیں نشاں اور
لیتے ہوئے لگتی ہے نشانہ مرے دل کا
چہرے پہ مری قوسِ قزح کے ہے کماں اور
راتوں میں جھلکتے ہیں جو دُولہوں دُلہنوں کے
کچھ روز سے ہیں ذہن میں اپنے بھی گماں اور
یہ حزبِ مخالف ہے کہ انبوہِ حریصاں
گویائی سے اپنی جو کرے اپنا زیاں اور
بجلی جو گئی ہے تو غزل ہونے لگی ہے
’رُکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور،
یاور ہی سے ممکن ہے جو ہو پائے کبھی تو
ماجد تری غزلوں سی غزل کوئی کہاں اور
ماجد صدیقی

چونکے نہ بعد میں نیا اخبار دیکھ کر

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 187
ٹی وی پہ ننگِ قوّتِ اظہار دیکھ کر
چونکے نہ بعد میں نیا اخبار دیکھ کر
لمحوں میں جیسے موسم گُل ہم پہ چھا گیا
ہم کِھل اُٹھے گُلاب سے وہ یار دیکھ کر
قبل از سزائے مرگ ہی جاں سے گزر گئے
ہم اپنے ہاں کے عدل کا معیار دیکھ کر
اغیار کی کمک پہ ہیں کیا کیا اُچھل رہے
حکّام، کامیابیٔ سرکار دیکھ کر
تڑپے بہت کہ جس نے ہمیں دی حیاتِ نَو
رہبر وہ رشکِ خضر، سرِدار دیکھ کر
لگنے لگا ہے وہ بھی ضرورت کی کوئی شے
گھرگھر میں خلقِ ہِند کے اوتار دیکھ کر
چاہوں یہ میں رہیں نہ یہ دھاگے الگ الگ
تسبیح ہاتھ میں، کہیں زُنّار دیکھ کر
گر سن سکے تو سن مرے دل کے جہازراں؟
’لرزے ہے موج مَے تری رفتار دیکھ کر،
پہنچے نہ کوئی دیوتا اصلِ گناہ تک
دھتکارتا ہے وہ بھی گنہگار دیکھ کر
ہر حکمراں فروغِ جہالت پہ خوش رہے
اُلّو بھی مطمئن ہے شبِ تار دیکھ کر
قامت کا ملک ملک کی، تُم ناپ دیکھنا
طُرّہ ملے ہے آہنی ہتھیار دیکھ کر
’بستی میں ٹُھنک گیا ہے یہ کیوں ؟بانس کی طرح،
کہتے تو ہوں گے جھونپڑے، مِینار دیکھ کر
کیا کیا رئیس اَینٹھنے رقبہ نکل پڑے
اُس کے بدن کا حلقۂ پٹوار دیکھ کر
بکھرے ہیں کنکروں سے جو ماجد یہاں وہاں
یاد آئیں کیوں گُہر ترے اشعار دیکھ کر
ماجد صدیقی

چاند چہروں کو بڑا فرق پڑا میرے بعد

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 186
مجھ سا کوئی نہ مِلا مدح سرا میرے بعد
چاند چہروں کو بڑا فرق پڑا میرے بعد
قدر داں مجھ سا اسے بھی کوئی کم کم ہی ملا
ہاں مکدّر ہوئی آنکھوں میں حیا میرے بعد
تہہ میں اُترا نہ کوئی اصل سبب تک پہنچا
عقدۂ کرب کسی پر نہ کُھلا میرے بعد
ضَو سخن کی مرے، جس جس پہ بھی کُھلنے پائی
جسم در جسم دیا جلتا گیا میرے بعد
جاتا ہو گا کبھی ابلیس بھی گھر تو اپنے
کب اکیلا ہے سرِعرش خدا میرے بعد
اُس نے بھیجے ہیں سدھرنے کو مرے کتنے رسول
کوئی اچّھا نہ خدا کو بھی لگا میرے بعد
کہیں اعراف پہ جھگڑے، کہیں دوزخ سے فرار
کچھ نہ کچھ فتنے ہُوئے ہوں گے بپا میرے بعد
آگ میں پھول تلافی کو کِھلائے ماجد
کبھی مُوسیٰ کو دیا اُس نے عصا میرے بعد
ماجد صدیقی

وہ نہ مَے سی نگار میں پایا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 185
جو مزہ لمسِ یار میں پایا
وہ نہ مَے سی نگار میں پایا
مدّعا پیڑ کے پنپنے کا
پیڑ کے برگ و بار میں پایا
عکسِ وصل و قرابتِ جاناں
موسموں کے نکھارمیں پایا
لطف، صبح و شبانِ ہجراں کا
چشمِ اخترشمار میں پایا
طَور اِک ایک سے الجھنے کا
دیدۂ ہوشیار میں پایا
خوف کیا کیا اِن اپنی آنکھوں نے
اپنے سہمے دیار میں پایا
وصف کِھلنے کا اور مہکنے کا
ماجدِ گل شعار میں پایا
ماجد صدیقی

بِیچ صحرا کے شجر یاد آیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 184
ماں کا اور باپ کا گھر یاد آیا
بِیچ صحرا کے شجر یاد آیا
شیر کا لقمۂ تر یاد آیا
اِک ہرن سینہ سپریاد آیا
عدل میں ٹیڑھ جہاں بھی دیکھی
اپنا اندھیر نگر یاد آیا
اُس سے وُہ پہلے پہل کا ملنا
جیسے گنجینۂ زر یاد آیا
سحر سے جس کے نہ نکلے تھے ہنوز
پھر وہی شعبدہ گر یاد آیا
جب بھی بہروپیا دیکھا کوئی
سر بہ سر فتنہ و شر یاد آیا
میروغالب کی توانا سخنی
ہائے کیا زورِ ہُنر یاد آیا
پڑھ کے ماجد تری غزلیں اکثر
کسی فردوس کا در یاد آیا
ماجد صدیقی

وہ جو چشم و دل کا سرور تھا، کوئی لے گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 183
جو نظر کی شاخ کا بُور تھا، کوئی لے گیا
وہ جو چشم و دل کا سرور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ دید جس کی نشہ شہی سا لگا کیا
وہ کہ وجہِ ناز و غرور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ دل میں جس کا قیام، دل کاوقار تھا
وہ کہ چیت رُت کا ظہور تھا، کوئی لے گیا
وہ جو مستیاں تھیں فضاؤں میں وہ ہوا ہوئیں
وہ کہ شاخچوں پہ انگور تھا، کوئی لے گیا
وہ کہ جس کے لفظ تھے ضو فشاں شب تار میں
وہ کہ میرے عشق کا طور تھا، کوئی لے گیا
ماجد صدیقی

بہ دوشِ باد ناچنے سوار کر دیا گیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 182
شجر سے جھڑتے برگ کو یہی ہُنر دیا گیا
بہ دوشِ باد ناچنے سوار کر دیا گیا
یہ اور بات رہنما بجز شغال کچھ نہیں
ہمیں دیا گیا ہے جو بھی شیرِ نر دیا گیا
ہمِیں ہیں عزم کے سوا، جنہیں نہ کچھ عطا ہوا
جنہیں نہ زاد کوئی بھی، پئے سفر دیا گیا
جنہیں بہم ہے برتری، وہ ہم سے بس یہی کہیں
’جھکے تو ہو فرازتر، تمہیں وہ سر دیا گیا،
پیمبری کے باب میں جو زیبِ گوش و جیب ہے
کبوتروں سا خوب ہے یہ نامہ بر دیا گیا
کھلی ہے جب بھی آنکھ، دہشتیں پڑی ہیں دیکھنی
ہمیں نہ کوئی اور مژدۂ سحر دیا گیا
جو ہو طلب تو اور کیا ہو ماجِدِحزیں! تُجھے
ولائتوں سے کم نہیں جو فکرِ تر دیا گیا
ماجد صدیقی

مہرباں جھونکے جو آئے بھی تو کر پائیں گے کیا؟

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 181
دل کے اندر کی ہیں جو ضربات، سہلائیں گے کیا؟
مہرباں جھونکے جو آئے بھی تو کر پائیں گے کیا؟
کردئے اپنے تلذّذ کو نوالے تک گراں
تخت والے عجز اپنا اور دکھلائیں گے کیا؟
چاند کا گھر میں اُترنا ہو بھلے اعزاز، پر
سر پہ اُتری چاند پر ہم پِیر، اِترائیں گے کیا؟
رہنما صاحب اِنہی کے دم ہیں ذِیشان آپ
ہم کہیں گے حالِ خلقت، آپ فرمائیں گے کیا؟
پایہ ہائے زر سے قائم تخت پر۔۔۔ظلّ اِلٰہ
اِرتقا پر دھن لٹا دینے سے باز آئیں گے کیا؟
زندگی میں تو مزے دنیا کے کچھ بھائے نہیں
آخرت میں بھی مزے دنیا کے ہی پائیں گے کیا؟
ہو چلی ہیں حرص میں آنکھیں تلک جن کی سفید
جو ازل کے ڈھیٹ ہیں ماجد وہ شرمائیں گے کیا؟
ماجد صدیقی

بتا جاناں! تُو اِن میں ہے بسا کیا؟

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 180
شگفتِ گُل ہے کیا؟ رقص صبا کیا؟
بتا جاناں! تُو اِن میں ہے بسا کیا؟
چڑھا کر ناک چھوتا ہے جو ہر شے
لکھے گا امتحاں میں لاڈلا کیا؟
پسِ ابروہوا جھانکے ہے چندا
حیاداری میں وہ ہم پر کُھلا کیا؟
تڑپتے بوٹ جیسے گھونسلوں میں
سسکنے لگ پڑی خلقِ خُدا کیا؟
نگاہِ شاہ طُرّوں پر لگی تھی
بہ سوئے کمتراں وہ دیکھتا کیا؟
نہیں جب سامنے، جس نے بنائے
نصیبوں کا کریں اُس سے گِلا کیا؟
لبوں کو ہے جو لپکا چُومنے کا
ہماری اِس میں ہے ماجد خطا کیا؟
ماجد صدیقی

کہہ کے سچ اخبار نے چہرہ گلستاں کردیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 179
خونِ ناحق کا اِک اِک دھبّہ نمایاں کردیا
کہہ کے سچ اخبار نے چہرہ گلستاں کردیا
سنسنی کی بھیج کر خبریں فضائے دہر نے
خود پرِیشاں تھی ہمیں بھی ہے پرِیشاں کردیا
لمحۂ گزراں نے رُوئے قاتل و دلدار کو
ہاں ہمارے ہی لیے تو، ہے رگِ جاں کردیا
پرسشِ پُرفن سے دل کی تہہ میں جو جو تھا ملال
یارلوگوں نے اُسے رنجِ فراواں کردیا
جیسے کرنیں ہوں دلِ اندوہگیں میں آس کی
جگنوؤں نے رات کو کیا کیا درخشاں کردیا
وسعتِ دشتِ تعلق میں اکیلا چھوڑ کر
کیوں غزالِ جاں کو ہم نے نذرِ گُرگاں کردیا
پوچھتے ہیں مبتدی مجھ سے کہ اے ماجد میاں!
کس طرح تو نے غزل کو ہے دبستاں کردیا
ماجد صدیقی

گھونسلے میں لوٹے تو گھونسلا جلا پایا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 178
برق و باد کو ہم نے یوں جلا بُھنا پایا
گھونسلے میں لوٹے تو گھونسلا جلا پایا
پیار کے لبادے میں گائے دوہ ڈالی ہے
ہم نے کیا سبھوں نے یوں اپنا مدّعا پایا
مُزدکش کسانوں نے بند باندھنے کیا تھے
کھیت کھیت ژالوں نے راستہ کُھلا پایا
اور سب کو رہنے دو پُھول بھی کِھلے جب تو
جس کو چھیڑ کردیکھا اُس کے باحیا پایا
جو ہُنر بھی آتا تھا وہ دکھا کے بندر نے
حظ اُٹھانے والوں کو بُت بنا کھڑا پایا
جس کو مِل گئی کُرسی، جس کو مِل گئے ٹھیکے
اور اِک محل اُس کا شہر میں اُٹھا پایا
جو ذراسا بھی اُترا تیرے خِظّۂ فن میں
اُس نے آخرش ماجد لطفِ بے بہا پایا
ماجد صدیقی

وہ معرکہ ٔ عشق تھا جو سر نہ ہُواتھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 177
جب تک وہ بدن شَوق کو ازبر نہ ہُواتھا
وہ معرکہ ٔ عشق تھا جو سر نہ ہُواتھا
جمہور کے ہاتھوں سے چِھنا تخت نہ جب تک
دل آمر و فرعون کا پتّھر نہ ہُواتھا
جب جان پہ بن آئی تو ظالم بھی پُکارا
ایسا تو بپا کوئی بھی محشر نہ ہُواتھا
بیداد وہ کرتا رہا ہر داد کے بدلے
جب تک کہ حساب اُس کا برابر نہ ہُواتھا
ٹیکسی اُسے مِل جائے گی، بی اے جو کرے گا
اعزاز یہ پہلے تو میّسر نہ ہُواتھا
یہ دیس لُٹا ہے تو مسیحاؤں کے ہاتھوں
جتنا ہے یہ اب اتنا تو ابتر نہ ہُواتھا
تُو نے تو تب تک کبھی آگے کی نہ ٹھانی
جبتک ترا ماجد کوئی ہمسر نہ ہُواتھا
ماجد صدیقی

آلام ہی کا ذہن میں پل پل ورُود تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 176
طُرّہ یہی حیات کا بہرِ نمود تھا
آلام ہی کا ذہن میں پل پل ورُود تھا
افسوس یہ ہے یہ تو سمجھ ہی سکا نہ میں
شامِل ہر ایک خَیر میں میرا وجود تھا
آباد ہم بھی اُس رہِ آباد پر ہُوئے
کچھ گرد جس کی دَین تھی، کچھ شور و دُود تھا
ایثار ہی کا درس بڑوں نے دیا مجھے
چاہت شروع ہی سے مرا تاروپود تھا
جیون میں ہاں وُہی تو مرے مہرباں رہے
جن کا بزعمِ خویش وطیرہ ہی جُود تھا
پلّے پڑی رہی ہے اُنہی کے تمام قَوم
تذلیلِ قوم جن کے لیے کھیل کُود تھا
ماجد سخن جو وقف کیا بھی تو اُن کے نام
پیشہ زِیاں دَہی تھا، غرض جن کی سُود تھا
ماجد صدیقی

حق بِین و حق شناس تھا میداں کا مرد تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 175
ماجد کا پُوچھتے ہو ؟گُنوں میں جو فرد تھا
حق بِین و حق شناس تھا میداں کا مرد تھا
لکھنے لگا تھا کربِ شجر کی حکائتیں
برگانِ سبز میں جو کوئی کوئی زرد تھا
ہم بھی دبک چلے تھے نہ کیا کیا بکنجِ ذات
موسم نگاہِ یار کا جس دن سے سرد تھا
شاید اِسی سبب سے اُسے آئے ہم بھی بیچ
وہ کارنر مکان کہ جو صیدِ گرد تھا
لوگوں کے پیٹ کاٹ کے و ہ ایٹمی ہوئے
جن جن کو اہلِ زور سے شوقِ نبرد تھا
نکلا ہوا تھا جیسے برسنے بہ کشتِ سبز
ہم عاشقوں ساابر بھی صحرا نورد تھا
تعمیرِ ذات کو اُسے درکار تھا یہ گُن
حاکم کو کب عوام کے بچّوں کا دردتھا
ماجد صدیقی

ڈھونڈا بہت ہے پر ہمیں وُہ مِل نہیں رہا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 174
اخلاص ہمرہوں کا بھی حاصِل نہیں رہا
ڈھونڈا بہت ہے پر ہمیں وُہ مِل نہیں رہا
سچ بھی تُم اِن پہ لاؤ کبھی تو۔۔۔ بہ رُوئے شاہ
جوڑا لبوں کا کیا جو کبھی سِل نہیں رہا
ہاں ہاں وہی کہ جس میں جھلکتا تھا میں کبھی
کیوں ہونٹ پر تمہارے وہ، اب تِل نہیں رہا
ہاں ہاں یہ ہے مرا ہی بدن، سخت جاں ہے جو
کانٹوں پہ بھی گھسٹتے ہوئے چِھل نہیں رہا
اپنے ہی جانے کیسے بکھیڑوں میں کھو گیا
تُم پر کبھی نثار تھا جو، دِل نہیں رہا
بیشک سُخن ہمارا ہو بادِ صبا مگر
اُس سے بھی اُس کا غُنچۂ دِل، کِھل نہیں رہا
ثابت ہیں اِس میں اب تو برابر کے نُور و نار
ماجد یہ جسم اپنا فقط گِل نہیں رہا
ماجد صدیقی

سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 173
شہر تو کیا ملک بھی بِن نظم کے بے آب تھا
سارے انگناؤں میں لطفِ آشتی اک خواب تھا
ہم بھی رانجھے کی طرح کہتے یہی پائے گئے
ہائے وہ اُس کا بدن، مخمل تھا جو کمخواب تھا
خلق کے کردار سے جب سے لُٹی تھی راستی
سب شکم پُر تھے مگر دل کا سکوں نایاب تھا
شہ ہُوا جس شخص کو اُس کے جھڑے پر لگ گئے
جو بھی اہلِ تخت تھاایسا ہی بس سُرخاب تھا
طَے شدہ نظمِ حکومت کوئی بھی رکھتا نہ تھا
اَوج پانے کو جسے دیکھا وہی بے تاب تھا
جو سُجھائے گا نئی راہیں، رہے گا یاد بھی
وہ سخن ہم نے کہا ماجد کہ جو سُخناب تھا
ماجد صدیقی

سانس لینا خلق کا اُس دیس میں بھاری ہوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 172
حکمراں انصاف سے خودہی جہاں عاری ہوا
سانس لینا خلق کا اُس دیس میں بھاری ہوا
مقتدربالحرص ہیں جو جبرسے اُن کے، یہاں
گردنوں کے گرد طوقِ عجز ہے دھاری ہوا
ختم کرد ے بُعدبھی بکھرے دھڑوں کے درمیاں
اور فسادِ دیہہ کا باعث بھی پٹواری ہوا
کھاؤ آدھا پیٹ، آدھا ہو نثارِ دیوتا
پاپ جھڑوانے کا نسخہ، ہائے کیا جاری ہوا
خامشی آمر کی ماجِد گل کِھلائے اور ہی
اور سخن ایسا کہ جو وجہِ دل آزاری ہوا
ماجد صدیقی

اور معالج کئی ایسوں کا مسیحا نہ ہُوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 171
کھیل ٹھہرا کسی مجروح کا اِحیا نہ ہُوا
اور معالج کئی ایسوں کا مسیحا نہ ہُوا
جس کی رگ رگ سے ترشّح ہے پُرانے پن کا
یہ کھنڈر سا ہے جو، دِل یہ تو ہمارا نہ ہُوا
کِشتِ جابر پہ رُتیں اور سے اور آتی گئیں
حق میں اُس کے تھا جو چاہا کبھی ویسا نہ ہُوا
دستِ منصف سے قلم اور طرف چل نکلا
رفعتِ دار پہ جو طَے تھا، تماشا نہ ہُوا
ٹیڑھ جو جو بھی تھی اُس کی وہ قبولی ہم نے
صرفِ جاں تک سے بھی کجرو سے گزارا نہ ہُوا
درجنوں ’دیس سنبھالے، کو پُھدکتے اُترے
پر کسی ایک سے بھی اِس کا مداوانہ ہُوا
جو بھی غاصب ہے بچو اُس سے کہ ماجد! اُس کی
نیّتِ خاص کسی کا بھی سہارا نہ ہُوا
ماجد صدیقی

دھجیوں کا ہُوا گلدان، گریباں نہ ہُوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 170
شدّتِ خبط کا یہ تو کوئی عنواں نہ ہُوا
دھجیوں کا ہُوا گلدان، گریباں نہ ہُوا
تلخیوں کی کوئی حد اور نہ ہے کوئی حساب
بس یہ اِک دل ہے ہمارا کہ پریشاں نہ ہُوا
اِس خرابی کو بھی تم کفر کے لگ بھگ سمجھو
جو بھی ضدّی ہے کیے پر وہ پشیماں نہ ہُوا
مائیں بچّوں سے بچھڑتی ہیں تو روئیں جیسے
یوں تو بادل بھی کبھی پیار میں گریاں نہ ہُوا
باغ کا یوں تو نہ مفہوم بدلتے دیکھا
زردیوں کا ہُوا طوفان، گلستاں نہ ہُوا
نام پیاروں کے رِہا ہوتے پرندے دیکھے
نہ ہُوا گر تو ہماراکوئی پُرساں نہ ہُوا
تُو نے دی اِس کو لغت اور طرح کی ماجد!
تُجھ سا پہلے تو کوئی شخص غزلخواں نہ ہُوا
ماجد صدیقی

جبر ہم پر وگرنہ کیا نہ ہُوا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 169
ہاں جو فرعون تھا خُدا نہ ہُوا
جبر ہم پر وگرنہ کیا نہ ہُوا
شرم کیا کیا دلائی شیطاں کو
ٹس سے مس وہ مگر ذرا نہ ہُوا
جیسا مینار بھی بنا ڈالو
وہ کبھی زیر آشنا نہ ہُوا
ماں چِھنی، ماں کی گود سے لیکن
کوئی بچّہ کبھی جُدا نہ ہُوا
رونا دھونا سدا کا کارِ ثواب
لب کِھلانا مگر روا نہ ہُوا
ساتھ تھا اُس کا محض دریا تک
بادباں سر کا آسرا نہ ہُوا
خود سے ہر چھیڑ لی سبک اُس نے
تھا غنی، ہم سے وہ خفا نہ ہُوا
جب بھی اُترا ہمارے انگناں وہ
تیرہواں روز چاند کا نہ ہُوا
جام ہونٹوں پہ رکھ کے کچھ تو اُنڈیل
یوں تو کچھ قرضِ مے ادا نہ ہُوا
آکے بانہوں میں یُوں نہ زُود نکل
یہ تو عاشق کا کچھ صِلا نہ ہُوا
مجھ سے حاسد نہ چھین پائے تجھے
ماس ناخون سے جدا نہ ہُوا
تھا جو چاقو قریبِ خربوزہ
وار اُس کا کبھی خطا نہ ہُوا
اُس سے جو جوڑ تھا نہ ماجد کا
کھنچ گیا گر تو کچھ بُرا نہ ہُوا
ماجد صدیقی

طے تھا پہلے سے سجنوا کو سزا ہو جانا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 168
حکمِ حاکم ہی تھا عادل کی رضا ہو جانا
طے تھا پہلے سے سجنوا کو سزا ہو جانا
کل جو قاتل تھے سیاست میں ہوئے مِیت ابکے
’باور آیا ہمیں پانی کا ہوا ہو جانا،
سارے ماں باپ تھے بچّوں سے بچھڑنے والے
تھا اُدھر پھول کا خوشبو سے جدا ہو جانا
ہو چلا کام جو برسوں کا دنوں میں تو لگا
قید سے قبل ہی قیدی کا رِہا ہو جانا
’ہاں، کا اک لفظ دُلہنیا سے جو کہلایا گیا
تھا دُلہنیا پہ غلامی کا روا ہو جانا
عمر کی شامِ تلک بُھولے نہ بُھولا اب تک
اُس بُتِ شوخ کے پیکر کی قبا ہو جانا
ہے مہا پاپ تو ماجد ہے سرِ ارض یہی
دیکھتے دیکھتے نیّت کا بُرا ہو جانا
ماجد صدیقی

بادلوں سا ہے میّسر مجھے ذیشاں ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 167
مجتمع ہونا، بہ یک وقت پریشاں ہونا
بادلوں سا ہے میّسر مجھے ذیشاں ہونا
زندگی میں کبھی وہ دن بھی فراہم تھے مجھے
بیٹھنا بِیچ میں بچّوں کے، گُلِستاں ہونا
میں ہوں شہکارِ خدا، میں نہ خدا کہلاؤں
مجھ کو یہ طَور سکھائے مرا انساں ہونا
گاہے گاہے جو سخن میں نہیں حدّت رہتی
طبعِ شاعر کا ہے یہ، مہرِ زمستاں ہونا
زر کہ جو وجہِ بشاشت ہے کہاں اپنا نصیب!
ہے تو قسمت میں فقط، رنجِ فراواں ہونا
وہ کہ ہیں اہلِ وسائل انہیں کھٹکا کس کا
ہے اُنہیں ہیچ غمِ جاں، غمِ جاناں ہونا
گاہے گاہے کی خطا ہے مرا خاصہ ماجد!
اور یہ عظمت ہے مری اس پہ پشیماں ہونا
ماجد صدیقی

اور ابھی دکھائیگا زور آسماں اپنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 166
برق و رعد کے ہاتھوں باندھ کر سماں اپنا
اور ابھی دکھائیگا زور آسماں اپنا
دیکھ لو، پُھنکا آخر، کب تلک بچا رہتا
زد پہ سازشوں کی تھا یہ جو آشیاں اپنا
آنکھ آنکھ اُترا ہے زور ژالہ باری کا
کھیتیاں اُجاڑ اپنی، گاؤں بے نشاں اپنا
خود نہ اُس سے کہہ پائے گر تو اُس پہ کیا کُھلتا
رہ گیا وہ ہکلاتا تھا جو ترجماں اپنا
سچ کہیں تو نِت کا ہے المیہ ہمارا یہ
گھر کے راج پر جھپٹے ہے جو پاسباں اپنا
وہ بھی دل میں رکھتی تھیں ساجنا ہمیں سا جو
کرب وُہ نہ کہہ پائیں ہم سے، تتلیاں اپنا
ماں نے جو بھی چاہا تھا ہم نے کر دکھایاہے
فیضِ عزم سے ماجد! نطق ضَو فشاں اپنا
ماجد صدیقی

ہم سے کُھلنے پر وہ آیا تو بہت سارا کُھلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 165
رکھ دیا دل کھول کر گویا ہو سر تا پا کُھلا
ہم سے کُھلنے پر وہ آیا تو بہت سارا کُھلا
رات کی رانی کی خوشبو میں صبا کے رقص میں
ہم نے آنکھیں ہی نہ کھولیں ورنہ وہ کیا کیا کُھلا
اپنے ہاں کی جو سیاست ہے، شکستہ خط میں ہے
جیسے اہلِ دِہ پہ پٹواری کا ہو بستا کُھلا
پُھول دِکھلایا تو اُس نے چاند دکھلایا ہمیں
جیسے جیسے ہم کُھلے ہم پر بھی وہ ویسا کُھلا
دیکھنے میں گو ہمارے پاس آن اُترا ہے وہ
جھیل میں اُترا جو چندا ہم پہ وہ اُلٹا کُھلا
رام کرنے کو ہمیں تاکا کبھی جھانکا کیا
وہ کہ پیکر تھا حیا کا ہم پہ کب پُورا کُھلا
ہاں کبھی یوں بھی کیا تھا ہم نے سجدہ شُکر کا
ہاں کسی چنچل کا ماجد ہم پہ بھی در تھا کُھلا
ماجد صدیقی

ہو کے معزول حدِ ملک سے عُریاں نکلا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 164
غاصبِ تخت نہ جو صاحبِ ایقاں نکلا
ہو کے معزول حدِ ملک سے عُریاں نکلا
لوٹ کر پر بھی نشیمن میں نہ اُس کے پہنچے
گھونسلے سے جو پرندہ تھا پرافشاں نکلا
ہاں وہی کچھ ہی تو رکھتے ہیں سیاست داں بھی
ہیروئن والوں کے گھر سے ہے جو ساماں نکلا
عدل خواہی کی اذاں کیسے لبوں پر آتی
شہر کا شہر ہی جب شہرِ خموشاں نکلا
فیصلے اور کے توثیق تھی جن پر اُس کی
وہ بھی انصاف کے حُجلوں سے پشیماں نکلا
تھا بدن جس کا ہمیں حفظ کتابوں جیسا
ہم سے وہ شخص بھی ابکے ہے گریزاں نکلا
تیرا ہر بَیت ہے کھنگال کے دیکھاہم نے
آج کا عہد ہی ماجد ترا عنواں نکلا
ماجد صدیقی

وہ کہ ہے جو خاکِ پا وہ آسماں ہو جائے گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 163
پینچیاں بانٹے ہے جو گر مہرباں ہو جائے گا
وہ کہ ہے جو خاکِ پا وہ آسماں ہو جائے گا
پر نکالے گا سیاست کی فضا میں گر کوئی
اُس کو ازبر نُسخۂ پٹواریاں ہو جائے گا
کل کمائی گھر کے چوگے پر ہی گر لگتی رہی
جو بھی گھر ہے چیل ہی کا آشیاں ہو جائے گا
دور میں نااہل مختاروں کے تھا کس کو پتہ
سیب جیسا ہی ٹماٹر بھی گراں ہو جائے گا
نازِ قامت جس کو ہوخود وقت اُس سے یہ کہے
دیکھ تیرا سروِ قامت بھی کماں ہو جائے گا
دہشتیں خانہ بہ خانہ یہ خبر پھیلا چکیں
امن کا اک اک پنگھوڑا بے اماں ہو جائے گا
عشق کی رُت جا چکی پھر بھی یہ ماجد دیکھ لے
’دوستی ناداں کی ہے جی کا زیاں ہو جائے گا،
ماجد صدیقی

نہیں ہے اس میں شامل شائبہ تک ناروائی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 162
ذریعہ جو بھی ہم اشرافیہ کی ہے کمائی کا
نہیں ہے اس میں شامل شائبہ تک ناروائی کا
بہانے منصفی کے بلّیوں کی لے اُڑا روٹی
کیا کیا فرض بندر نے ادا، حق آشنائی کا
بچھڑ کر اُن سے جیون بھر وہی یادوں میں رہتا ہے
جو پہلو پاس بچّوں کے ہے تھوڑی دلربائی کا
بہت اچّھا ہے جتنی جس کسی کی جس سے بن آئے
پھر اُس کے بعد تو پڑتا سمندر ہے جدائی کا
گدھا گاڑی پہ بیٹھوں تک میں جو اُترا ہے برسوں سے
دیا جائے نہ کیوں چوکوں پہ تمغہ اُس ڈھٹائی کا
ہمارے تذکروں سے مسخرے زراور بھی کیا کیا کمائیں گے
بنیں گے کب تلک ہم آپ عنواں جگ ہنسائی کا
خودی کا فلسفہ اقبال کا کب رنگ لائے گا
گرے گا ہاتھ سے شاہوں کے کب کاسہ گدائی کا
ہمارے قائدِ اعظم کہیں یہ جا نشینوں سے
ادا کرکے دکھایا کیا سے کیا حق رہنمائی کا
عجب نسخہ عمل میں آ گیا ہم میں سے بعضوں کے
پلیدی نیّتوں میں، منہ پہ دعویٰ پارسائی کا
پرخچے کتنے جسموں کے نجانے جا اُڑاتا ہے
جہاں بھی جا کے پہنچا ہاتھ دہشت کے قصائی کا
جو ماجد کر کے چوری مخبروں سے مار کھا بیٹھے
انہیں درپیش ہے اب مرحلہ کیا کیا صفائی کا
ماجد صدیقی

اور وارث شاہُ نے ناٹک دکھایا ہِیر کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 161
ہم نے رانجھے کو بنایا ہے نشانہ تِیر کا
اور وارث شاہُ نے ناٹک دکھایا ہِیر کا
جانے کیسے ہانپتے جیون بِتائے گی دُلہن
پڑ گیا دُولہے پہ سایہ گر کسی ہمشیر کا
یہ کرشمہ بھی کہیں منڈی سے دُوری کا نہ ہو
شہد کہتے ہیں کہ ہوتا ہے نِرالا دِیر کا
طُولِ قامت ناپتے اُس شوخ کا ہم پر کُھلا
ذائقہ کچھ اور ہوتا ہے زَبَر اور زِیر کا
بحر میں جا کر جو کہلائی ہے سونامی کی لہر
ہاں وہ نالہ تھا ہم ایسے ہی کسی دلگیر کا
کج ادائی دے گئی آرائشِ گیسو اُسے
ہاں یہی چرچا سُنا ہے اُس کے ٹیڑھے چِیر کا
وہ کہے، ہو تازگی تو رُوئے جاناں کی سی ہو
اور داعی ہے تو ماجد شعر میں تاثِیر کا
ماجد صدیقی

کسی اِک بدن پہ، اِک سا، اگر اختیار ہوتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 160
سفرِ حیات اپنا بڑا لطف دار ہوتا
کسی اِک بدن پہ، اِک سا، اگر اختیار ہوتا
نہ حکومتی سلیقے ہمیں آ سکے دگرنہ
یہ جو اب ہے ایسا ویسا، نہ کوئی دیار ہوتا
نہ کجی کوئی بھی ہوتی کسی فرد کے چلن میں
جسے راستی کہیں سب، وہ اگر شعار ہوتا
کبھی گھٹ کے ہم بھی بڑھتے تو بجا ہے یہ ہمیں بھی
کسی چودھویں کے چندا سا بہم نکھار ہوتا
نہ ہُوا کہ ہم بھی کرتے بڑی زرنگاریاں، گر
زرِ گُل سا پاس اپنے زرِ مستعار ہوتا
کبھی رہنما ہمارا نہ بنا یہ قولِ غالب
’اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا،
کوئی ہے کمی جو ماجد ہے ہمیں میں ورنہ اپنا
وہ جو ہیں جہاں میں اچّھے، اُنہی میں شمار ہوتا
ماجد صدیقی

دُعا کا ہاتھ اپنا کاش ایسے بھی اُٹھا ہوتا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 159
خُدا سے مانگتے جو، اُس سے پہلے مِل چکا ہوتا
دُعا کا ہاتھ اپنا کاش ایسے بھی اُٹھا ہوتا
کئی فرعون چھوڑے، پر نہ خود فرعون بچ پایا
اگر بندہ نہ ہوتا تو وُہی اب بھی خُداہوتا
ہم اُس سے پُوچھتے، کم مائیگی شاہکار کی کیوں ہے
خُدائے عزّو جَل سے سامنا گر ہو سکا ہوتا
کسی جارح کے منہ پر ہم طمانچہ ہی لگا سکتے
ہمیں بھی اختیار ایسا کوئی تو دے دیا ہوتا
ہمیں دریا میں اپنی بے بسی پر کیوں پڑا کہنا
ہمارے نام تِنکے ہی کا کوئی آسرا ہوتا
بغیرِ پِیر تھی دُشوار گر تجھ تک رسائی تو
ہمارا پِیر پھر غالب سے کم بھی کوئی کیا ہوتا
دہانِ مرگ چھُو چُھو کر مُڑے جو، گر نہ مُڑ پاتے
نہ ہم ہوتے نہ ماجد قصۂ کرب و بلا ہوتا
نذرِ غالب
ماجد صدیقی

مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 158
بہم رہے نہ سدا قُربِ یار کا موسم
مثالِ قوسِ قزح ہے یہ پیار کا موسم
نشہ حیات کا سارا اُسی میں پنہاں تھا
کسی بدن پہ جو تھا اختیار کا موسم
نجانے کیوں ہے یتیموں کے دیدہ و دل سا
جہاں پہ ہم ہیں اُسی اِک دیار کا موسم
ہے قحطِ آب کہیں، اور قحطِ ضَو ہے کہیں
نگر پہ چھایا ہے کیا شہریار کا موسم
جو چاہیے تھا بہ کاوش بھی وہ نہ ہاتھ آیا
محیطِ عمر ہُوا انتظار کا موسم
اُنہیں بھی فیض ہمیں سا ملا ہے دریا سے
اِدھر ہی جیسا ہے دریا کے پار کا موسم
گزرنا جان سے جن جن کو آ گیا ماجد
نصیب اُنہی کے ہُوا اَوجِ دار کا موسم
نذرفیض
ماجد صدیقی

ضَو سے ہر کنکری گُہَر کر دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 157
چاند چہرہ کبھی اِدھر کر دے
ضَو سے ہر کنکری گُہَر کر دے
کاش محصورِ شب دیاروں میں
انگناں انگناں کوئی سحر کر دے
اُس پہ قدرت لٹائے قادر بھی
جس کو وہ صاحبِ ہنر کر دے
شاہ ایسا کوئی بہم نہ ہُوا
بڑھ کے جو زیر کو زبر کر دے
تو کہ ہے خیر بانٹنے والا
کم ہمارے یہاں کی شر کر دے
گردِ ادبار ہے جمی جن پر
اُجلے اُجلے وہ سب نگر کر دے
میں بھی تو چھاؤں بانٹنا چاہوں
تُو مجھے راہ کا شجر کر دے
وُہ کہ جنّت میں ہے جو موعودہ
اس جہاں میں وہ میرا گھر کر دے
زردیاں بھیج کر خزاؤں کی
سارے ہم سوں کو اہلِ زر کر دے
نذرفیض
ماجد صدیقی

ہم بھی دربار میں سر اپنا جھکانے جاتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 156
فرقِ نا اہل کو کچھ اور اٹھانے جاتے
ہم بھی دربار میں سر اپنا جھکانے جاتے
ہم گئے کیوں نہ کسی جشن میں آزادی کے
دیس کے بخت پہ ہی اشک بہانے جاتے
ہم نے زردار تلک کے جو قصیدے لکھے
خَیر بالفعل بھی اس سے کبھی پانے جاتے
ہوں وہ قزّاق کہ رہبر پہ قضّیے اُن کے
ہو کے منسوب نہ ہم سے کہیں مانے جاتے
وہ کہ ہے دور بہت دور پہنچ سے اپنی
ہم بھی بستی کبھی اس مہ پہ بسانے جاتے
چاہے دنیا میں کہیں بھی ہمیں ملتی جا کے
دقلتِ امن وہ ہم کیوں نہ چرانے جاتے
جیسے نبّاض ہو یا کوئی مسیحا ماجد!
کاش اس طور سے ہم بھی کبھی مانے جاتے
نذرفراز
ماجد صدیقی

ہر سُو غضب کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو!

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 155
جبر و جفا ہے، قہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
ہر سُو غضب کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
گم ہو گئی تھی جس میں وہ لیلیٰ کا دشت ہے
سر پر کڑی دپہرہے اور ہم ہیں دوستو!
سانسوں دواؤں رشتوں غذاؤں تلک میں بھی
حرص و ہوا کا زہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
قدموں پہ گنگناتی ہوئی، دسترس سے دور
لطفِ رواں کی نہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
زورآوروں کے بِیچ جھپٹّے ہیں نَو بہ نَو
ٹیڑھی ادائے دہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
بے امن و بے سکوں ہے جو ہر لحظہ ہر گھڑی
بستا اجڑٹا شہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
نذرِ منیرنیازی
ماجد صدیقی

’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو،

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 154
گل پھینکتے ہو، وار بھی اِک سات کرو ہو
’’تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو،
مسکان کے کچھ بعد ہی یہ تیوری کیوں ہے
تم اچّھے بھلے روز کو کیوں رات کرو ہو
کب جُوئے مئے خاص کو تم کرنے لگے عام
کب آنکھ کو تم وقفِ خرابات کرو ہو
تم بات کرو اُن سے جو برّاق تمہیں دیں
ہم خاک نشینوں سے کہاں بات کرو ہو
تم یوں تو کِھلاتے ہی نہیں غنچۂ لب کو
تم بات بھی کرتے ہو تو خیرات کرو ہو
کچھ کوڑیاں کرتے ہو جو تنخواہ میں ایزاد
حاتم کی سخاوت کو بھی تم مات کرو ہو
نسلوں کا یہ رونا ہے تمہارا نہیں ماجد!
تکرار سے کیوں شکوۂ حالات کرو ہو
نذرِڈاکٹر کلیم عاجز
ماجد صدیقی

زیبِ تن جوڑا کفن ہونے لگا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 153
میں وطن میں بے وطن ہونے لگا
زیبِ تن جوڑا کفن ہونے لگا
نام پر جس کے خزانے بھر چلے
خونِ انسانی بھی دَھن ہونے لگا
دورِ نَو میں خوب کیا ناخوب کیا
اسلحے کی کاٹ، فن ہونے لگا
جبر سے اُگ آئِیں خیمہ بستیاں
شہر سا آباد بن ہونے لگا
جانے کیوں اپنوں کے ہاتھوں حشرزا
اپنے حصے کا گگن ہونے لگا
تُندِیاں پا کر ہوائے دہر میں
تلخ تر ماجد سخن ہونے لگا
شمالی علاقہ جات میں دہشت گردی کے حوالے سے
ماجد صدیقی

فائدہ؟ جی سے جانے کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 152
عدل نہیں ہاتھ آنے کا
فائدہ؟ جی سے جانے کا
دیکھنا تھا چندا کو بھی
مرحلہ داغ اپنانے کا
خبروں والے جان چکے
کیا کیا فن دہلانے کا
ہم تم بھی تو تھے سجناں
عنواں کبھی فسانے کا
ہاتھ آتا ہے کبھی کبھی
موسم پھول کھلانے کا
اہلِ سیاست گُر جانیں
بہلانے پُھسلانے کا
کاش کوئی سیکھا ہوتا
ماجد طَور زمانے کا
ماجد صدیقی

سانس بھی دیس میں مشکل ہی سے در آتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 151
ناک کی سیدھ میں چلنے کا ہُنرآتا ہے
سانس بھی دیس میں مشکل ہی سے در آتا ہے
تب پتہ چلتا ہے یہ، پینگ میں جب جھول پڑے
راہ گم کردہ بہت دیر میں گھرآتا ہے
واہمے طَے رہِ منزل نہیں کرنے دیتے
ہاتھ کم کم ہی سجنوا کا نگر آتا ہے
ہرکہیں بانٹتے تم خیر کی سوغات پھرو
گود میں لَوٹ کے بس تحفۂ شر آتا ہے
ہو فرشتہ بھی تو ابلیس کا پَیرَو نکلے؟
گھر میں سُسرال کے، کیسا ہے جو بر آتا ہے
یہ نگر اپنا بھی کیا مزرعۂ شر ہے کہ جہاں
دن کو بھی گھر سے نکلتے ہوئے ڈر آتا ہے
چاہے ماجد! اُسے تُم آن۔۔کہ پہچان کہو
مرتبہ ہاتھ جو آئے تو بہ زر آتا ہے
ماجد صدیقی

جو بھی الجن ہیو اسے یار بنا رکھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 150
ہم نے خدشوں کو بھی دلدار بنا رکھا ہے
جو بھی الجن ہیو اسے یار بنا رکھا ہے
ہم نے ڈالی ہے یہ پانی میں مدھانی کیسی
مفت کی بحث کو تکرار بنا رکھا ہے
آنسوآن کو وہ تپایا کہ شرر ٹھہرے ہیں
اوس کی آب کو بھی نار بنا رکھا ہے
رہبروں نے بس اک اپنی شفا کی خاطر
قوم کی قوم کو بیمار بنا رکھا ہے
لُوٹھا اہلِ وطن کو ہے شعار اپنا ہوا
کُنجِ اندوختہ اُس پار بنا رکھا ہے
ہم کہ ہیں اہلِ قناعت ہمیں دیکھو آ کے
روئیے روشن سحر آثار بنا رکھا ہے
کیسے موضوع یہ اپنائے ہیں ہم نے ماجد
فن کو بھی روز کا اخبار بنا رکھا ہے
ماجد صدیقی

یہی موضوع نطق و لب کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 149
ہم سے الجھاؤ جَورِ شب کا ہے
یہی موضوع نطق و لب کا ہے
کیوں وہ غُرّا کے کھوئے وقر اپنا
رنج بس اُس کے اِس تعب کا ہے
نت اسے ڈھونڈتے ہیں از سر نو
وہ جو بچھڑا نجانے کب کا ہے
کوئی قانون کی نہ بات کرے
حکمِ حاکم نصیب سب کا ہے
ہم نہیں جنگلی پہ جنگلیوں سا
ہم پہ الزام کیوں غضب کا ہے
پہلی سیڑھی سے نت سفر ہو شروع
اپنا جینا کچھ ایسے ڈھب کا ہے
دشمنیء ہے نصیب اوروں کا
یہ جو ماجد ہے دوست سب کا ہے
ماجد صدیقی

کہ جیسے جھیل میں چندا اُتر کے ہنستا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 148
وہ پاس آ بھی گیا پھر بھی دور بستا ہے
کہ جیسے جھیل میں چندا اُتر کے ہنستا ہے
بہ فیضِ وقت ہیں خیمے تمام استادہ
جو توڑ توڑ طنابیں بھی ان کی کستا ہے
وہ برگ گل ہے وہ تتلی کے ہے پروں جیسا
نظر کی آنچ سے اس کا بدن جھلستا ہے
جو ذی مقام ہے، ذی زر ہے، ذی شرف بھی ہے
اسی کا قولِ مبارک اک اک خجستا ہے
سعادتیں بھی سبھی ایٹنٹھتے ہیں زروالے
انہی کے واسطے قُربِ خدا بھی سستا ہے
بندھی ہیں گنجلکیں جن میں خراب نیّت کی
ہماری زیست بھی پٹواریوں کا بستا ہے
ماجد صدیقی

وہ راہوں پر پھول کھلانے نکلا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 147
منظر منظر کو مہکانے نکلا ہے
وہ راہوں پر پھول کھلانے نکلا ہے
دھجی دھجی ضابطے زیبِ زبان کیے
غاصب خلق خدا کو سدھانے نکلا ہے
راست روش سے ہٹا کے، دشت سیاست میں
بدّو رہ اِک اور سجھانے نکلا ہے
مون سون کی خبریں اپنے ساتھ لیے
جھونکا بن کی پیاس بجھانے نکلا ہے
پاپی ہیں جو بزرگ انہیں دہلانے کو
بچّہ سچ کا علم لہرانے نکلا ہے
کوئل نے اور بلبل نے جو سجائی ہے
کوّا بھی اس بزم میں گانے نکلا ہے
دشت میں جو چھالوں میں اترا وہ پانی
وحشی لُو۔۔۔۔نمناک بنانے نکلا ہے
ویب سائٹوں سے کتابِ چہرہ نما تک میں
ماجد لکھا کہا پہنچانے نکلا ہے
ماجد صدیقی

ہر شہری اس رنج پہ کھویا کھویا لگتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 146
ملکِ عزیز کا جو قانون ہے سویا لگتا ہے
ہر شہری اس رنج پہ کھویا کھویا لگتا ہے
بِن حاصل کے سونے ہیں کھلیان تمنّا کے
کھیت کھیت یوں بیج آسیب کا بویا لگتا ہے
اہلِ زمین نہ جانیں بادل کہنے کیا آئیں
خاک کا منہ کاہے کو نت نت دھویا لگتا ہے
ماں بھی اداس ہے بیٹیاں گھر والی کیونکر نہ ہوئیں
باپ بھی تنہائی میں رویا رویا لگتا ہے
گھر گھر میں ناچاکی کا اور باہرنخوت کا
سانس سانس میں ایک سا زہر سمویا لگتا ہے
ذکر سنو اس ذی قدرت کا صحنِ گلستاں میں
پتّا پتّا جس کی ثنا میں گویا لگتا ہے
ماجد صدیقی

دِن دِن گنجینہ، لطفِ پامال کا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 145
گزرے وقت کی بپتا حاصل سال کا ہے
دِن دِن گنجینہ، لطفِ پامال کا ہے
خدشہ ہے تو ہرپل سانس کے گھٹنے کا
مستقبل کا کیا ہو، رونا حال کا ہے
دہشت و وحشت میں موسیقی کیا پنپے
اُکھڑا اُکھڑا مُکھڑا ہرسُر تال کا ہے
قدم قدم پر کھال ادھڑتی لاگے ہے
حال بہت پتلا اپنی اس ڈھال کا ہے
قامت، بالا ہو نہ ہمِیں ناداروں کی
سِحر یہ ہم پر کس شاطر کی چال کا ہے
چہرہ چہرہ ایک اداسی چھائی ہے
کھنڈر کنڈر نقشہ تازہ جنجال کا ہے
ماجد اپنے بے دم دیس کے پیکر سے
گِدھ گِدھ ہی کا رشتہ ماضی و حال کا ہے
ماجد صدیقی

کس نے کہاں پر کھو جانا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 144
کل جانے کیا ہو جانا ہے
کس نے کہاں پر کھو جانا ہے
خبر خبر نے وسوسۂ نَو
ذہن بہ ذہن سمو جانا ہے
اٹا ہوا ہر دن کا چہرہ
شبنمِ شب نے دھو جانا ہے
تخت سے چمٹا رہا جو، آخر
اُس نے اُس پر رو جانا ہے
گنگا میں ہر پاپ کا دھبّہ
دھن والوں نے دھو جانا ہے
ماضی کا خمیازہ سر پہ
آن پڑا ہے تو جانا ہے
لفظ لفظ روداد کا ماجد!
اشک بہ اشک پرو جانا ہے
ماجد صدیقی

بندر جو میدان میں بھوکا پیٹ دکھانے نکلا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 143
کس کے نام پہ سکّے وہ دیکھو تو کمانے نکلا ہے
بندر جو میدان میں بھوکا پیٹ دکھانے نکلا ہے
پچھلے صَید کیء سیری سے ہنستا مسکاتا جنگل میں
شیر ہرن کے بچّوں کو شاید بہلانے نکلا ہے
لفظوں کی تابانی سے، خوش گوئی، چرب زبانی سے
جھوٹا ہے جو سچّوں کو پھر سے جُھٹلانے نکلا ہے
خود سے نکاح کرانے اور اسقاط حمل دُہرانے کو
کون ہے جو بے وقت، حکومتِ وقت گرانے نکلا ہے
جان نہ پایا کتنے کھرے ہیں نرخ لکے بازاروں میں
ماجد جھوٹ کے کھیت میں سچ کی فصل اُگانے نکلا ہے
ماجد صدیقی

آنکھ میں آشتی تُجھی سے ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 142
دل کی آسودگی تُجھی سے ہے
آنکھ میں آشتی تُجھی سے ہے
روح افزا و گُلستاں پرور
پنکھڑی پنکھڑی تُجھی سے ہے
تیرے قدموں سے ضَوفشاں ذرّے
رہ بہ رہ زرگری تُجھی سے ہے
چند دن ہیں حیات کا عنواں
اُن دنوں کی شہی تُجھی سے ہے
تونے الزام دھو دئے سارے
زندگانی بَری تُجھی سے ہے
لوگ مانیں گے ایک دن ماجد!
رفعتِ شاعری تُجھی سے ہے
اپنے نام
ماجد صدیقی

کبھی کبھی خوددار کو بھی ڈرنا پڑتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 141
خوشامد کا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے
کبھی کبھی خوددار کو بھی ڈرنا پڑتا ہے
قائداعظم، بھٹو ہونا بھی آساں ہے
پر یوں ہوتے جیتے جی مرنا پڑتا ہے
پنجابی میں ٹھیک کہا کہنے والوں نے
کوتاہی کا ہرجانہ بھرنا پڑتا ہے
اس کے شوخ بدن پہ حکومت خوب ہے لیکن
بیچ میں تن داری کا بھی دھرنا پڑتا ہے
اپنی زباں کے ہیرے بکھرانے سے پہلے
دوسروں کی باتوں کا بھس چرنا پڑتا ہے
نبی ولی تو اب نہیں آتے لیکن اب بھی
موجدوں خلّاقوں کا دم بھرنا پڑتا ہے
ماجد اس دنیا میں بھگتیں ہم وہ سارا
بچّیوں کو سسرال میں جو جَرنا پڑتا ہے
ماجد صدیقی

ہو کرم یا قہر ہر دو کے میاں جینا تو ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 140
چرخ سے بوندیں گریں یا بجلیاں جینا تو ہے
ہو کرم یا قہر ہر دو کے میاں جینا تو ہے
سندھ اور پنجاب کا چاہے عذابِ سَیل ہو
کربلا سا دشت ہو چاہے زباں جینا تو ہے
ہم پہ واجب آمروں کے حکم کی تعمیل بھی
ہوں بھلے جمہوریت کی تلخیاں جینا تو ہے
ہو بھلے نازک بدن پر مہرباں راتوں کی اوس
ہوں بھلے پیروں تلے چنگاریاں جینا تو ہے
چہرہ چہرہ منعکس چاہے ہلالِ عید ہو
رُو بہ رُو شکنوں کی ہوں گلکاریاں جینا تو ہے
چُھٹ کے غیروں سے گرفتِ خویشگاں میں ہوں اسیر
ہوں غلامی کی گلے میں دھاریاں جینا تو ہے
آپ اُنہیں ماجد قفس کی تیلیاں کہہ لیں بھلے
سو بہ سو چاہے ہوں ذمّے داریاں جینا تو ہے
ماجد صدیقی

ہمارے گرد وہ بَیری سپاہ اتری ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 139
تفنگ داغتی جو’ٹھاہ ٹھاہ، اتری ہے
ہمارے گرد وہ بَیری سپاہ اتری ہے
درشتگی مں ڈھلے ان تلک پہنچنے میں
ملائمت جو پئے اہلِ جاہ اتری ہے
گرسنگان میں ہے عضو عضو بٹنے لگی
وہ فاختہ کہ جو بہر پناہ اتری ہے
بنام عامیاں خیرات مرحمت جو ہوئی
بڑے بڑوں پہ بھی وہ گاہ گاہ اتری ہے
یہ نسل بھی نہ شہان سفید فام سی ہو
جو ہم سے خیر سے، کرنے نباہ اتری ہے
بغرض جاں طلبی یا پئے مسیحائی
ہمارے قلب میں اس کی نگاہ اتری ہے
ثمر تھے جو بھی عطا وہ عطائیوں کو ہوئے
اور ہم پہ گونجتی بس واہ واہ اتری ہے
ماجد صدیقی

لگے ہے جیسے کسی شاہ پر کودیکھا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 138
قلم کو دیکھا ہے رختِ ہنر کو دیکھا ہے
لگے ہے جیسے کسی شاہ پر کودیکھا ہے
وہ جس سے سے لمس و قرابت کے ہیں مزے منسوب
بڑی کریدس سے، ہاں اُس شجرکودیکھا ہے
کسی کے دم سے جہاں رونقیں تھیں رقص کناں
بہت اداس بھی پھر اس نگر کودیکھا ہے
شکار ملنے پہ جو سرفراز لگتا تھا
خفیف رُو بھی اسی شیرِ نر کودیکھا ہے
دلوں کے تاج شب و روز ہیں بہم جس کو
بڑے ہیء ٹھاٹھ میں اُس تاجور کودیکھا ہے
وہ جس کی نِت کی دِہاڑی پہ ہو گزر ماجد
کب اُس غریب نے انبارِ زرکودیکھا ہے
ماجد صدیقی

لب و زبان پہ نامِ خدا کا چرچا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 137
پسِ یقیں ہے جو حرص و ہوا کا چرچا ہے
لب و زبان پہ نامِ خدا کا چرچا ہے
نقاب میں بھی جو ہے بے نقاب، آنکھ ہے وہ
اُدھر بس آنکھ میں شرم و حیا کا چرچا ہے
یہ آئی ہے چمنب قُرب سے ترے ہو کر
سحر سحر جو یہ بادِ صبا کا چرچا ہے
ہے جس کے نام پہ شاید اس خبر بھی نہیں
سخن میں یہ جو کسی آشنا کا چرچا ہے
اسے خلافِ ریاست بھی گر کہیں تو بجا
کہ میڈیا کا غضب انتہا کا چرچا ہے
یہ لیڈروں کی نظر فوج پر ہی کیوں ہے لگی
بیاں بیاں میں یہ کس مدّعا کا چرچا ہے
ملے بھی تو کئی برسوں میں شاذ شاذ ملے
فقط خبر ہی ماجد سزا کا چرچا ہے
ماجد صدیقی

شاید تختۂ عجزونیاز ٹھکانے لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 136
بوریا بستر باندھنے کا وقت آنے لگا ہے
شاید تختۂ عجزونیاز ٹھکانے لگا ہے
چرخِ سخن سے کونسا تارا جھڑنے کو ہے
کس بد خبری کا جھونکا لرزانے لگا ہے
کم تولیں اور نرخ زیادہ لکھ کے تھمائیں
اہلِ غرض کا سفلہ پن دہلانے لگا ہے
ملزم نے اتنی رشوت ٹھونسی ہے اس کو
تھانے دار اب ملزم سے کترانے لگا ہے
مجھ کو بِل میں گُھسنے سے پہلے ہی اُچَک لے
چوہا بلّی جی کو یہ سمجھانے لگا ہے
نیولا داؤ دکھا کے سانپ نوالہ کرکے
حلق سے آگے بھیج کے کیا اٹھلانے لگا ہے
ماجد گروی رکھ کے ہمارے آتے دنوں کو
ساہوکار ہمیں کیا کیا بہلانے لگا ہے
ماجد صدیقی

اصل میں بس میں ہمارے ہے تو آج کا دن ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 135
اچّھے امکانات کا اچّھے کاج کا دن ہے
اصل میں بس میں ہمارے ہے تو آج کا دن ہے
آج تو سال کے بعد ہے پھر بندھن دن اپنا
آج تو جاناں دل پر تیرے راج کا دن ہے
ہونٹ سجیں جس دن بھی شوخ سخن سے وہ دن
نام اس شوخ خرام کے شوخ خراج کا دن ہے
ایک نہ ایک علالت ہر لمحے کو لاحق
اپنے یہاں کوئی بھی تو نہیں جو علاج کا دن ہے
زور جہالت سے ورنہ ناکیں کٹ جائیں
اپنے یہاں ہر دن ہی رسم و رواج کا دن ہے
ہے مفقود روایت اک دوجے کے بھلے کی
کوئی نہیں ایسا جو اچّھے سماج کا دن ہے
بن سمجھے عمریں تک گزریں رسوائی میں
سمجھیں تو ماجد ہر دن ہی لاج کا دن ہے
ماجد صدیقی

ساتھ ہی جانے کونداسا کیوں آنکھوں میں لہرایا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 134
آشیان کا پہلا تنکا روئے شجر پہ ٹکایا ہے
ساتھ ہی جانے کونداسا کیوں آنکھوں میں لہرایا ہے
ایک سوال ہے سُوئے عدالت کیوں نہ گئے وہ اس کیخلاف
بازاروں میں جس کا پتلا سُولی پر لٹکایا ہے
صبح سویرے کل کی طرح تازہ اخبار کے عنواں سے
تازہ خون کے نقش لیے پھر ایک مرقّع آیا ہے
پینچ وہی سردار وہی جو روند کے آئیں خلقت کو
اگلوں نے بھی پچھلوں سا انہی کو گلے لگایا ہے
پھول پھول کا حال سنائے وہ جو اگلے پھولوں کو
ہم نے تو اُس بھنورے کو اپنا مرشد ٹھہرایا ہے
سچ پوچھیں تو اس نے بھی بُش صاحب ہی کا حق مارا
اوباما نے کیسے ماجد امن انعام کمایا ہے
ماجد صدیقی

ہو جو پیری میں دم تو کیا کہنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 133
لے میں ہو زیر و بم تو کیا کہنے
ہو جو پیری میں دم تو کیا کہنے
دم آخر تلک خیالوں میں
ہو غزالوں سا رم تو کیا کہنے
ہائے یہ سرو قامتی اپنی
ہو نہ پائے جو خم تو کیا کہنے
شوخ لفظی، عمیق فکری میں
دے دکھائی صنم تو کیا کہنے
التفات شہان و فرعوناں
بیش ہو اور نہ کم تو کیا کہنے
ہو کہیں، باہمی تعلق میں
رہ سکے جو بھرم تو کیا کہنے
میر و غالب کے درمیاں ماجد
ہو جو مسند بہم تو کیا کہنے
ماجد صدیقی

کوئی ہوا کا جھونکا؟ جو جیون کی آس بندھائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 132
موسم کی جانب سے کیوں الٹا پیغام ہی آئے
کوئی ہوا کا جھونکا؟ جو جیون کی آس بندھائے
گھر گھر بھی اک آمر خود کو اتّم ہی کہلائے
اپنے کہے پر اوّل و آخر کبھی نہ جو شرمائے
آتے جاتے موسموں سے میں کیوں یہ بات نہ پوچھوں
انسانی چہرے کا چاند ہی نت نت کیوں گہنائے
کہتے ہیں پیڑوں کے پھل پیڑوں سے اچّھے لاگیں
بچّوں بچّیوں کی اولاد بھی یونہی من کو بھائے
بیٹا بیٹا ماں کے جوتے تک بھی سر پر رکھے
پر اپنے بچّوں کی ماں کجو نت نیچا دکھلائے
دھرمی دھرمی چرچا اپنے دھرم کا کبھی نہ بھولے
دوسرے دھرم کے لوگوں کو لیکن جھوٹا ٹھہرائے
ماجد بات کو گنجلک صورت بھی تو کبھی دیا کر
حالی سی کیا سادہ نثری غزلیں سامنے لائے
ماجد صدیقی

گلی گلی کے بدامنی کے نہ شرر ہوتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 131
کاش فساد سبھی سرکار کے سر ہوتے
گلی گلی کے بدامنی کے نہ شرر ہوتے
ہم نہ پہنچ پائے ایوانوں میں ورنہ
سب کے سب ایوان عوامی گھر ہوتے
لعنت بھجیے ایسی راہنمائی پر
ہم نہ کبھی خودساختہ ملک بدر ہوتے
بول ہمارے بھی سچ ہوتے گر ہم بھی
صاحب رقبہ ہوتے صاحب زر ہوتے
کیا گیا ہوتا گر روشن چہروں کو
بے آباد نہ یئوں یہ اپنے نگر ہوتے
بات کی تہہ میں بھی اے کاش اتر سکتے
شاہ ہمارے گر کچھ اہلِ ہنر ہوتے
ذوق کو شاہ کی قربت کیسے بہم ہوتی
وہ بھی اگر ماجد ہم سے خودسر ہوتے
ماجد صدیقی

کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 130
کچھ غیر، خوش خصال تھے سو یار ہو گئے
کچھ یار تھے کہ باعثِ آزار ہو گئے
کچھ لوگ وہ تھے اپنے خصائل کے زور پر
جیتے ہوئے بھی خیر سے مردار ہو گئے
کچھ لوگ تھے کہ جنکی مثالی تھی تاب و تب
وہ بھی مرورِ وقت سے آثار ہو گئے
ہائے یہ ہم کہ خیرکے جویا رہے سدا
کن کن نحوستوں سے ہیں دوچار ہو گئے
دیکھا جو آنکھ بھر کے کبھی چاند کی طرف
ہم اس کیے پہ بھی ہیں گنہگار ہو گئے
ہر سانس ہی میں سوز سمایا رہا سو ہم
آخر کو آگ ہی کے خریدار ہو گئے
غالب نہ جن کے فہم میں ماجد سما سکا
ہاں ہاں وہ ذوق ہی کے طرفدار ہو گئے
ماجد صدیقی

کون سا لمحہ نجانے آخری لمحہ بنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 129
سانس ہی سینے کے اندر جانے کب دشنہ بنے
کون سا لمحہ نجانے آخری لمحہ بنے
اپنے ہاں تاریخ میں ایسا ہوا اکثر کہ جب
ظلم کے ہاتھوں سروں سے کٹ کے سر، تحفہ بنے
ہٹ کے اس سے ہو چلیں کیوں ماہیٔ بیرونِ آب
ہم کہ جس ماحول کا بچپن سے ہیں حصہ بنے
مظہرِ شوق شگفتہ شہریوں کا جانیے
جا بجا سڑکوں پہ جو خودساختہ رخنہ بنے
سخت رسوا عدل کا نعرہ وہ ہے اپنے یہاں
ہر نئے رہبر کا جو کچھ دن نیا شوشہ بنے
دوسرا غاصب جو برتے پہلے غاصب کے لیے
تخت سے نکلا وہ تختہ دار کا تختہ بنے
جو غزل بھی کہہ وہ ماجد کہہ کچھ اس انداز سے
بہر یاور دیس سے دوری کا جو تحفہ بنے
ماجد صدیقی

ساعت ساعت جشن منا لے ہنس لے جی لے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 128
سانس سانس کا کیف چُرا لے ہنس لے جی لے
ساعت ساعت جشن منا لے ہنس لے جی لے
کھلتی کلیوں کی خوشبو میں تیوری دھو لے
لطف جہاں بھی ملے وہ اڑا لے ہنس لے جی لے
دن کا موتیا رات کی رانی یک جا کرلے
ایک مہک دوجی میں ملا لے ہنس لے جی لے
ہجر کی دھول کو چہرے پر نہیں جمنے دینا
قربتِ یاراں جی میں سنبھالے ہنس لے جی لے
زیب کف لمحات کیے شبنم کے موتی
ساتھ رات کے بھنگڑا ڈالے ہنس لے جی لے
آنکھ میں چبھنے والی ہر تصویر مٹا کے
یاد یاد ماضی کی کھنگالے ہنس لے جی لے
ہاں ماجد یاور کے دیس سے آنے والا
ہرجھونکا سینے سے لگا لے ہنس لے جی لے
ماجد صدیقی

آنکھ میں مچلی نظر کا لطف لے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 127
سانس کے پل پل سفر کا لطف لے
آنکھ میں مچلی نظر کا لطف لے
ساتھ لاتا ہے جو پیاروں کا ملاپ
انگناں انگناں اُس سحر کا لطف لے
اوس سے بھیگے جو وصلِ یار کے
پھول جیسے اُس پہر کا لطف لے
کربِ خلقت کے سبب بڑھتا ہے جو
تن میں اُس سوزِ جگر کا لطف لے
وہ کہ جو اظہارِ خوبی پر ملے
جی کہے تو ایسی زر کا لطف لے
جب مخالف ہو ہوائے دہر تو
سنسناتے بال و پر کا لطف لے
ہاں عطا ہے سب سے ہٹ کر جو تجھے
تُو بھی ماجد اُس ہنر کا لطف لے
ماجد صدیقی

ہونٹ ہلا اور پھول کھلا دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 126
رُت کو نیا جامہ پہنا دے
ہونٹ ہلا اور پھول کھلا دے
مَے اک اور ملا دے مَے میں
مستیٔ قرب کا جام چڑھا دے
صبر نہ جس میں ہو تیس دنوں کا
مُژدۂ عید ابھی وہ سنا دے
جس کے بعد جِناں ملتی ہو
حشر مری جاں میں وہ اٹھا دے
نام ترے یہ جو دل نے سجائی
آ اِس بزم کے بھاگ جگا دے
قرب ترا گر معجزہ ہے تو
آ اور اجڑے بدن کو جِلا دے
جس نے ترا قد کاٹھ بڑھایا
ماجد کے لکھے کو دعا دے
ماجد صدیقی

اور ہے جو رہبروں کا غول ہے باہر کہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 125
ڈِیل آقاؤں سے کرتے جو کہے اندر کہے
اور ہے جو رہبروں کا غول ہے باہر کہے
ناگ اپنے درمیاں کے، سیر ہو کر جو کہیں
بعد چڑیوں کے نگلنے کے وُہی اژدر کہے
یہ سفر کرنے کو ملتا ہے بھلا کب بار بار
زندگانی کے سفر کو دل کہاں دُوبھر کہے
ہاں یہی دنیا ہمیں پوجے گی اک دن دیکھنا
آج ہم سے حق پرستوں کو جو ہے خودسرکہے
آدمی اُس کا کہا گر مان لے تو خوب ہے
وقت کوئی درس بھی کرنے کو جب ازبر کہے
اپنی ڈِکشن ہو مگر جو ہو پتے کی بات ہو
میں کہوں یا سعدیہ یا بات وہ یاور کہے
ریل پیل اِسکی نہ شاہوں کے یہاں بھی ہو سکے
جگ جسے فتنہ کہے ماجد جسے تُو زر کہے
ماجد صدیقی

باغِ حیات میں ہر سُو، پت جھڑ رقص کرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 124
دریا دریا جُو جُو، پت جھڑ رقص کرے
باغِ حیات میں ہر سُو، پت جھڑ رقص کرے
پتّی پتّی پھونک کے کومل پھولوں کی
اور ہتھیا کر خوشبو، پت جھڑ رقص کرے
سبزہ زرد پڑے تو دُھنک کر رہ جائے
ششدر ہوں سب آہو، پت جھڑ رقص کرے
ماند ہوئے ہیں، جتنے بھی رنگ شبابی تھے
سہم چلے ہیں گُلرو، پت جھڑ رقص کرے
روش روش لہراکر تُند بگولوں سی
اور پھیلا کر بازو، پت جھڑ رقص کرے
باغوں اور مکانوں اور ایوانوں تک
روزِ ازل سے بدخُو، پت جھڑ رقص کرے
عین عروج پہ کھیتوں اور کھلیانوں میں
ماجِد کب مانے تُو، پت جھڑ رقص کرے
ماجد صدیقی

عادلِ اعلیٰ بھی ہے تسبیح دکھلاتا ملے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 123
درمیاں مذہب کو لانے کا عجب چرچا ملے
عادلِ اعلیٰ بھی ہے تسبیح دکھلاتا ملے
بات پس منظر میں کچھ ہے اور وہ معمولی نہیں
تیرا میرا نام ہونٹوں تک پہ کیوں لکھا ملے
دل ہمارا بھی ہے ڈانواڈول کچھ ایّام سے
اُسکی آنکھوں میں بھی ہے پھر سے بھنور اٹھتا ملے
وہ جو بندر سا نچانے لگ پڑے نامِ عوام
داؤ اس جانب سے بھی ہے کچھ نہ کچھ چلتا ملے
ہو وہ ماجد کی غزل یا ہو کبوتر کی اڑان
آن ہے ہر دو کی اِک اِک پل جداگانا ملے
ماجد صدیقی

تُند ہوا پتّوں کو یوں بہلانا جانے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 122
جھاڑ کے شاخ سے ناچ نئے سکھلانا جانے
تُند ہوا پتّوں کو یوں بہلانا جانے
حکم پہ اپنے خلق خدا کو چلانا جانے
غاصب پینچ نگر کے ساتھ ملانا جانے
زیر کماں منصف سے دلائے ساری سزائیں
کوئی ستمگر ہو یہ گُر اپنانا جانے
شیر ملائے جیسے سامنے آئے ہرن سے
کون بھلا کس سے یوں آنکھ ملانا جانے
وہ کیا جانے ایندھن بھی بننا ہے اسے ہی
پیڑ تو پھل دینا اور پھول کھلانا جانے
ہاں ایسا بھی اپنے یہاں ہی ہوا ہے ورنہ
کون کسی کی خاطر خود کو جلانا جانے
کون ہے ایسی لاج عدالت کی جو رکھے
ماجد ہی سقراط سا زہر چڑھانا جانے
ماجد صدیقی

ساتھ بیگانگی کی خو جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 121
تو کہ زر ہے جدھر بھی تو جائے
ساتھ بیگانگی کی خو جائے
دل کے پہلو سے یوں شباب گیا
دھن لٹے جیسے آبرو جائے
ایسی پھیلے خبر قرابت کی
گل رخوں سے، کہ چار سُو جائے
دل میں بچوں کی خیر کا سندیس
باغ میں جیسے آبجو جائے
سو بہ سو ساتھ اپنی خوشبو کے
پھول مہکے تو کو بہ کو جائے
ایسے لاگی ہمیں خطا اپنی
آگ جیسے بدن کو چھو جائے
یار ماجد تیاگ نفرت کو
برق کیونکر یہ مو بہ مو جائے
ماجد صدیقی

پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 120
تم ایسے ہمہ لطف تھے جب یار ہمارے
پھر کیوں نہ گئے جسم کے آزار ہمارے
فرہاد کی ضربت، کہیں قربِ سگِ لیلیٰ
اذہان میں کیا کیا نہیں آثار ہمارے
تم ایسے حسینوں سے بہ چشم و لب و آغوش
باغات کے باغات ہیں سرشار ہمارے
چہروں پہ مسرّت کے تھے کچھ ایسے کرشمے
چنداؤں میں، تاروں میں تھے انوار ہمارے
جو دکھ ہمیں ہونے تھے رقیبوں کے وہ سر تھے
گر تھے بھی تو ایسے ہی تھے آزار ہمارے
تم ذہن نشیں پہلے پہل جب سے ہوئے تھے
ابتک ہیں حسیں تب سے یہ افکار ہمارے
ہے اب بھی بہم قرب و تلطّف ہمیں اُن کا
ماجد تھے جو آغاز سے دلدار ہمارے
ماجد صدیقی

کیا کچھ انس ہمیں تھا گاؤں کی راہوں سے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 119
پگڈنڈی پگڈنڈی پھر تے تھے شاہوں سے
کیا کچھ انس ہمیں تھا گاؤں کی راہوں سے
یاد ہے جیب میں دال کی تازہ پھلیاں بھر کے
شام کو بکریاں جا کے وصولنا چرواہوں سے
یاد ہے عید کو پیڑ پیڑ پر پینگ جھلانا
اور نظر کا ٹکراؤبے پرواہوں سے
یاد ہیں قدغن و بندش کے وہ سلسلے سارے
چُوڑیاں لپٹی دوشیزاؤں کی بانہوں سے
یاد ہیں چوپالوں پر کبھی کبھی کے بھنگڑے
جن کے درودیوار تھے سب جلوہ گاہوں سے
یاد ہیں اک جانب ہونٹوں پہ ہنسی کی پھوہاریں
دوسری جانب شعلے سے اٹھتے آہوں سے
یاد ہیں اک جانب وہ نچھاور ہوتے رشتے
دوسری جانب واسطے اپنے بدخواہوں سے
یاد ہیں ماجد اک جانب وہ ٹوٹکے ٹونے
دوسری جانب فیض کے حیلے درگاہوں سے
ماجد صدیقی

حریصِ دہر تھے جو تاجدار کیا کرتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 118
بِنائے بختِ وطن استوار کیا کرتے
حریصِ دہر تھے جو تاجدار کیا کرتے
بغیرِ قربِ نگاراں بِتائے جو دن بھی
ہم اپنی زیست میں وہ دن شمار کیا کرتے
گلاب رُو تو سجاتے رہے ہم ایلبم میں
ہم اور بہرِ فروغِ بہار کیا کرتے
ہوا نہ کاج کوئی ہم سے ہوشمندی میں
بھلا ہم اور بغیرِ خُمار کیا کرتے
اِدھر اُدھر تو ہمیں دیکھنے دیا نہ گیا
سفر ہم اور کوئی اختیار کیا کرتے
نفاق و بغض ہی اندوختہ تھا جب اپنا
فضائے ہم نفساں سازگار کیا کرتے
بھنور کے بیچ تو ہم تھے نہیں تھے وہ ماجد
ہماری جان بچانے کو یار کیا کرتے
ماجد صدیقی

جویا صحافتی ہیں زرِ بے شمار کے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 117
آیت بھی چھاپتے ہیں تو ساتھ اشتہار کے
جویا صحافتی ہیں زرِ بے شمار کے
بندوں پہ بندگان کو اپنے خدائی دے
احسان کیا سے کیا نہیں پروردگار کے
ٹھہرائیں ہم رقیب کسے اور کسے نہیں
ہم یار بھی ہوئے تو جہاں بھر کے یار کے
یہ بھی نجانے کیوں مرے دامن میں رہ گئیں
یہ پتّیاں کہ نقش ہیں گزری بہار کے
سیراب بھی کرے ہے پہ کاٹے بہت زمیں
فیضان دیکھنا شہ دریا شعار کے
گنوائیں کیا سے کیا جو مبلّغ ہیں خیر کے
ہائے وہ سلسلے کہ جو ہیں گیر و دار کے
اس نے تو کھال تک ہے ہماری اتار لی
زیر نگیں ہم آپ ہیں کس تاجدار کے
ہاں آ کے بیٹھتے ہیں کبوتر جو بام پر
ہاں اقربا ہیں یہ بھی مرے دور پار کے
بدلے میں ان کے کرنا پڑے جانے کیا سے کیا
یہ زندگی کے دن کہ ہیں یکسر ادھار کے
ماجد ترا سخن بھی سکوں رہرووں کو دے
گن تجھ میں بھی تو ہیں شجر سایہ دار کے
ماجد صدیقی

کہ موت جان سے چُوزے پہ ہے جھپٹنے لگی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 116
یہ گردِ ضعف ہے کیا؟رُوح جس سے اَٹنے لگی
کہ موت جان سے چُوزے پہ ہے جھپٹنے لگی
بہ نامِ تفرقہ کیا کیا سرنگ نفرت کی
نہیں ہے گھر میں نہتّوں کے جا کے پھٹنے لگی
تو کیا ہمِیں میں کوئی فرق ہے کہ جس کے سبب
ہماری ناؤ ہی ہرسیل میں الٹنے لگی
یہ ٹَڈی دَل سا نجانے کہاں سے آ دھمکا
علالتوں میں ہے کیوں فصلِ جان بٹنے لگی
اگرچہ کرب نے جاں تک نچوڑ لی لیکن
گُماں کی دُھند بہت کچھ ہے اِس سے چھٹنے لگی
کنارِ دیدہ و لب سے، مرُورِ عمر کے ساتھ
جو چاشنی بھی تھی مانندِ موج ہٹنے لگی
پتنگ عزم کی ماجِد ہے ڈانواں ڈول سی کیوں
لگے ہے ڈور کہیں درمیاں سے کٹنے لگی
ماجد صدیقی

شکل ہے ان چنداؤں کی بھی گہنائی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 115
ہم جیتے تھے چُھو چُھو جن کی گولائی
شکل ہے ان چنداؤں کی بھی گہنائی
منظرِ خاص کوئی تھا نظر میں دمِ رخصت
ویسے تو یہ آنکھ نہیں ہے بھر آئی
گرمئی شوق کی جھلکی روزنِ ماضی سے
سُوئے فلک اک آگ سی قامت لہرائی
ہاں جس کی کل کائنات ہی اتنی تھی
بڑھیا نے یوسف کی قیمت دہرائی
دہشت سے جانے کن نوسر بازوں کی
خلقِ خدا ہے اک ایڑی پر چکرائی
سڑک سڑک پر دُود اڑانیں بھول گیا
بارش ہو چکنے پر ہر شے دھندلائی
ماجد آج کی دنیا دیکھ کے کھلتا ہے
آدم نے کچھ سوچ کے جنّت ٹھکرائی
ماجد صدیقی

طرّۂ امتیاز ہے، لاج ہے، وہ ہے پت مری

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 114
وہ کہ سخن کے نام پر ٹھہری ہے سلطنت مری
طرّۂ امتیاز ہے، لاج ہے، وہ ہے پت مری
میں کہ ہوں صاحبِ شرف اور خدا کا شاہکار
بیچ ملائکہ کے بھی کیا کیا بنی نہ گت مری
جن کو جز اپنی ذات کے سوجھے نہ وقرِ دیگراں
ایسے سبھوں کے منہ پہ ہے لعن مرا، چپت مری
عجزونیاز کا سبب جس سے بھی پوچھیے، کہے
میں کہ غلام رہ چکا، جاتی نہیں یہ لت مری
خائنِ بے مثال سے پوچھاتو اس نے یہ کہا
ہاں جو جواریوں کی ہو، ہاں ہے وہی بچت مری
ڈھونڈے ہوں لفظ لفظ کا کیا ہے وجودکیاعدم
جب سے ہوئے کبیدہ رُو، گوش مرے سُنَت مری
ماجد سادہ لوح ہوں میں کہ مجھے پتہ نہیں
کندہ بہ بام اوج ہے، شعر مرا لخت مری
ماجد صدیقی

مرے مدّعا و بیان میں ، ہو ملائمت تری چال سی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 113
کوئی فاختائی سی نظم ہو کوئی اِک غزل ہو غزال سی
مرے مدّعا و بیان میں ، ہو ملائمت تری چال سی
مری کیفیات کے صحن میں، ہے کہاں سے آئی ہے یہ ذہن میں
مرے ارد گرد تنی ہوئی یہ جو موجِ خوف ہے جال سی
کوئی گھر بغیرِ نگاہ باں، ہو اجاڑ جیسے سر جہاں
لگے آس پاس کی خلق کیوں؟ مجھے لحظہ لحظہ نڈھال سی
کھلی آنکھ تب سے یہ سوچتے، گئی بِیت عمرِ طویل بھی
کہ نفس نفس میں ہے کیوں مرے؟ یہ گھڑی گھڑی ہے جو سال سی
ہوئیں التجائیں نہ بارور، کوئی چاہ ٹھہری نہ کارگر
نہ ہوئیں دعائیں وہ باثمر، تھیں جواختیار میں ڈھال سی
مرا تن بدن مرا عکس ہے، مری آنکھ ہے مرا آئنہ
وہی عمر اُس کی بَتائے ہے، ہے تنِ شجر پہ جو چھال سی
ترے لفظ لفظ میں ہے کھنک، ترے مکھ پہ فکر کی ہے دھنک
تری لَے بھی ماجِدِ خوش گلو، ہے رفیع، اوجِ کمال سی
ماجد صدیقی

گئی کب ہے وہ بیماری ہماری

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 112
سفر میں تھی جو لاچاری ہماری
گئی کب ہے وہ بیماری ہماری
بہا لے جائے بارش، دھوپ بُھونے
مسلسل ہے دلآزاری ہماری
ہوئی نُوری نہ ماتھا تک گھسا کے
حیاتِ فانی و ناری ہماری
کریڈٹ کارڈ ملنے میں شہی ہے
چلے یوں خوب بینکاری ہماری
کھلا یہ ہے فقط بیگھہ زمیں سے
رہے ثابت زمینداری ہماری
کوئی اعزازماجد اینٹھنے کی
لگے ہے ابکے ہے باری ہماری
ماجد صدیقی

اور دہشت کا ہے نشاں جس کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 111
تیر اس کا ہے، ہے کماں جس کی
اور دہشت کا ہے نشاں جس کی
اُس سے ڈریئے کہ باؤلا ہے وہ
بدزبانی ہوئی زباں جس کی
وہ بھی انسان ہے ہمیں جیسا
ہے پہنچ تا بہ آسماں جس کی
جانے کس دن نہ مُڑ کے وہ آئے
راہ دیکھے ہے آشیاں جس کی
خوب در خوب نت جُوا کھیلے
بیٹیاں ہو چلیں جواں جس کی
خود کو ٹھہرائے شاہِ کرب و بلا
نہر ہے دشت میں رواں جس کی
ہاں وہ ماجدہے اہلِ دنیا سے
خُوبیاں ہیں ابھی نہاں جس کی
ماجد صدیقی

جنت ہی کا نمونہ ٹھہرے اپنا گھر بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 110
پھول مرے انگناں میں بھی ہیں ہونٹوں پربھی
جنت ہی کا نمونہ ٹھہرے اپنا گھر بھی
موسم ہی ہے پالنے والا ہمیں پھہاروں
موسم ہی کرنے والا ہے زیر و زبر بھی
کیسے فرشتہ ٹھہرے، اور شیطان ہو کیسے؟
انساں ہی میں خیرہے انساں ہی میں شر بھی
گھر سے نکل کے گھر لوٹ آنا مشکل لاگے
کنواں بنی ہے موت کا اک اک راہگزر بھی
کھلی فضاؤں میں بھی اُڑانیں ہیں آزردہ
موم لگے لگتے ہیں اپنے بال و پر بھی
پاس ہوں یہ تو آدمی سونا ورنہ مٹی
ماجد جی کیا چیزیں ہیں یہ سیم و زر بھی
ماجد صدیقی

جانیں خفیہ خفیہ اُجڑیں تیری، میری

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 109
پولوشن سے لِتھڑی سانسیں تیری، میری
جانیں خفیہ خفیہ اُجڑیں تیری، میری
جیتے جی سُونے ہیں انگنے ہم دونوں کے
بعد میں سج سکتی ہیں قبریں تیری میری
ذہن میں بچّوں جیسے سپنے پالناچھوڑیں
ڈوب نہ جائیں کاغذی کشتیاں تیری میری
بغض و حسد کے بَیری جھونکے چُوس رہے ہیں
امیدوں کی سجری شاخیں تیری میری
باعثِ کرب و بلا ہرجا اِک سی بدنظمی
چھت چھت آب کو ترسیں ٹینکیاں تیری، میری
آتے دنوں کے کیا کیا زائچے سامنے لائیں
ہاتھوں کی کج مج یہ لکیریں تیری، میری
ہم جھلکیں اُن میں، جھلکے ہیں ہماری نسلیں
شعر ہیں ماجد کے، تصویریں تیری، میری
ماجد صدیقی

گِھر کے آئے جو بادل ہوا لے گئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 108
پل کی پل میں سروں سے اُڑا لے گئی
گِھر کے آئے جو بادل ہوا لے گئی
وہ کہ تھی طالبِ سلطنت، دے کے جاں
سلطنت تا ابد، خود کما لے گئی
باعثِ کرب تھی جو پئے شہریاں
فِلتھ آخر وہ، باراں بہا لے گئی
لے کے مسند سے کُوئے ملامت تلک
اپنی کرنی تھی جو، جا بجا لے گئی
عیب کچھ بھی نہیں اُس میں قانون کا
جو لُٹا اُس کو ماجِد قضا لے گئی
ماجد صدیقی

کیا ہے ضرورت ڈرنے کی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 107
اپنے کیے سے مکرنے کی
کیا ہے ضرورت ڈرنے کی
چھینیں تخت جھِپَٹّے سے
اُف یہ حرص اُبھرنے کی
عید کا چندا کہتا ہے
ساعت ہے یہ سنورنے کی
بوڑھے، بیتے دن ڈھونڈیں
رُت آئی ہے نکھرنے کی
دھج سے جیے تو انساں کو
چِنتا ہو کیوں مرنے کی
بچپن ہی سے دُھن ہے ہمیں
پاتالوں میں اُترنے کی
ہاں ہاں تیرا سخن ماجد!
لَے ہے سریلی، جھرنے کی
ماجد صدیقی

عقداِک اور ہُوا ایک غلام اور بنی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 106
آل کی چاہ نبھانے کو نیام اور بنی
عقداِک اور ہُوا ایک غلام اور بنی
سینت رکھنے کو جو دل میں ہیں اُنہی شاموں سی
دفعتاً آپ کے مل جانے سے شام اور بنی
راہ چلتے ہوئے اک شوخ سے رستہ پوچھا
وجہ کچھ اور تھی پر وجہِ کلام اور بنی
حسرتِ تخت کے مارے ہوئے شاہوں کے لیے
سقّہ بچّے کی خدائی ہے پیام اور بنی
حسن و اعزاز میں بھی فرد تھے حضرت یوسف
اُن کا نیلام بھی اک وجہِ دوام اور بنی
چل کے آگے یہ کھلا ہم پہ کہ خوش خلقی کو
قید جو خود پہ لگائی تھی لگام اور بنی
سُرخیٔ شام سی ماجد ہے جو ہرشام تری
منفرد زینتِ پیشانیٔ بام اور بنی
ماجد صدیقی

یہ شہرِ درد ہے پاؤں ذرا سنبھال کے رکھ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 105
بغور دیکھ لیا کر، نہ پاس جال کے رکھ
یہ شہرِ درد ہے پاؤں ذرا سنبھال کے رکھ
چھپا نہ مصلحتاً، عیب عیبیوں کے کبھی
کجی ہو جو بھی، فضا میں اُسے اچھال کے رکھ
جو تاب ہے تو، وُہی کر گزر جو کرنا ہے
نظر میں وسوسے، ہر آن مت مآل کے رکھ
ملے گی گر تو اِسی سے اُٹھان جیون میں
فنا کی بانہوں میں بانہوں کو اپنی، ڈال کے رکھ
طلوع جو بھی ہُوا، جان اُسے جنم دن سا
عزیز اسی سے، سبھی دن تُو سال سال کے رکھ
لکھا تھا نام کبھی جس شجر پہ، ساجن کا
چھپا کے پرس میں ٹکڑے اب اُسکی چھالکے رکھ
وہی جو عمرِ گزشتہ سا کھو گیا ماجِد
قلم کی نوک پہ اب، نقش اُس جمال کے رکھ
ماجد صدیقی

تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 104
خامیاں اِس میں نہ اب اور بھی اِیزاد کرو
تختِ جمہور ہے وِیراں اِسے آباد کرو
وہ کہ جو برحق و شفّاف ہے جگ میں سارے
دیس میں ووٹ کی پرچی وُہی ایجاد کرو
الفتِ ملک کے پَودے کو کہو حصّۂ جاں
پرورش اُس کی بھی تم صورتِ اولاد کرو
خیر سے یہ جو ہے چُنگل میں تمہارے آئی
یہ جو محبوس ہے جَنتا اِسے آزاد کرو
قبر پر جس کی مجاور بنے بیٹھے ہو یہ تم
تھا چلن اُس کا جو شاہو، وہ چلن یاد کرو
دیس ہے لُوٹ نشانہ، تو خزانہ ہے بدیس
اِس نشانے کو نہ اب اور بھی برباد کرو
یہ نکالی ہے جو قامت، قدِ شمشاد ایسی
اور بھی بالا نہ تم یہ قدِ شمشاد کرو
کرب کی کھائی سے اب نکلوگے کیسے لوگو
چیخ کر دیکھو، چنگھاڑو، بھلے فریاد کرو
تھا جو اُستاد وہ تھا محتسبِ اوّل ماجد
تم ادا کیوں نہ حقِ بندگیٔ اُستاد کرو
ماجد صدیقی

اپنا اِک بھی طَور نہ بدلیں اور سِدھائیں اوروں کو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 103
نفرت کرنے والے خود بھی جلیں، جلائیں اوروں کو
اپنا اِک بھی طَور نہ بدلیں اور سِدھائیں اوروں کو
جو بھی ٹیڑھی چال چلے گا کب منزل تک پہنچے گا
ایسے جو بھی خسارہ جُو ہیں کیا دے پائیں اوروں کو
تُند مزاج سبھی اندر کا خُبث سجا کر ماتھوں پر
اپنا سارا پس منظر کیا کیا نہ دکھائیں اوروں کو
وہ لگ لائی جن کی نکیلیں ہیں اوروں کے ہاتھوں میں
خود ناچیں اور جی میں یہی چاہیں کہ نچائیں اوروں کو
جو بھی ہیں کج فہم وہ چِپٹا چاہیں، گول میں ٹُھنک جائے
اپنی رضا و مرضی کے اسباق سکھائیں اوروں کو
کون بتائے وہ تو خود جلتے ہیں چِخا میں چِنتاکی
لاحق کرنے پر تُل جاتے ہیں جو چتائیں اوروں کو
چُوسنیاں نوچیں، بیساکھیاں معذوروں کی چھنوائیں
ماجد صاحب آپ بھی کیا کیا کچھ نہ سُجھائیں اوروں کو
ماجد صدیقی

تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 102
میرے انگناں پھول کھلا دے خوشبودار، سہانے ہُو
تیرے نام جنہیں ٹھہراؤں میں تسبیح کے دانے ہُو
خلقِ خدا کے حق میں میرے خواب وُہ سچّے ہو جائیں
میں جن خوابوں کے بُنتا رہتا ہوں تانے بانے ہُو
حملہ آوروں، قْزّاقوں پر، گُستاخوں، منہ زوروں پر
میں جو تیر چلاؤں کیونکر ملیں نہ اُنہیں نشانے ہُو
میں اپنی بد بختی پر کاہے کو سبب ٹھہراؤں انہیں
نام پہ اچھّوں اور سچّوں کے بنتے ہیں جو فسانے ہُو
جس بھی شخص نے اپنی ریاضت سے قد کاٹھ نکالا ہے
اُس کو بَونے زچ کردیں گے، دِل یہ بات نہ مانے ہُو
کل کچھ بچّے باہم حسرتیں بانٹ رہے تھے یہ کہہ کر
عیدکا چندا ماموں آیا۔۔۔ عیدیاں اُنہیں دلانے ہُو
ننھی چیونٹیوں جیسا عزم لیے دل میں جب نکلا تو
ماجد کو بھی ملے ہیں سخن کی شیرینی کے خزانے ہُو
ماجد صدیقی

بڑھنے لگے دھرتی کے گھاؤ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 101
لاؤ کوئی مسیحا لاؤ
بڑھنے لگے دھرتی کے گھاؤ
دیکھ چکے ہیں ’آنکھ دِکھائی،
دیکھ چکے ابرو کا تناؤ
جُھلسیں اِک اِک بِن چھاتا کو
دھوپ میں پنہاں ہیں جو الاؤ
پھر چندا کچھ کر ڈالے گا
پھر سے بحر میں ہے ٹھہراؤ
حق گوئی ہے وطیرہ اپنا
بھلے ہمیں مجرم ٹھہراؤ
اے آدم فرزند ترے، ہم
دیکھ بِکے ہیں کس کس بھاؤ
چاند ایسے ہر مُکھ کو ماجِد
لاحق رہتا ہے گہناؤ
ماجد صدیقی

جانِ جہاں ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 100
لطف رساں ہو
جانِ جہاں ہو
ہم سمجھیں تم
لمسِ شہاں ہو
لفظ انوکھا
زیبِ زباں ہو
دل نگری کی
روحِ رواں ہو
ہم پہ جو صید ہیں
تنی کماں ہو
یاری میں کیوں
سود و زیاں ہو
تم ماجد کا
نطق و بیاں ہو
ماجد صدیقی

داؤ پہ داؤ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 99
شاہو! لگاؤ
داؤ پہ داؤ
آہوں سے کب
بجھیں الاؤ
مفروضوں سے
بھریں نہ گھاؤ
سچ کہنے سے
مت گھبراؤ
ہر خواہش کی
پینگ جھلاؤ
بات بات میں
پھول کھلاؤ
ماجِد دُکھتے
دِل سہلاؤ
ماجد صدیقی

بادل کم کم آئیں پہ جب آئیں تو دیکھو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 98
دنوں مہینوں میں مُکھ دکھلائیں تو دیکھو
بادل کم کم آئیں پہ جب آئیں تو دیکھو
عزم بڑھانے کواپنا، صیّاد پرندے
اُڑنے کو پر اپنے پھیلائیں تو دیکھو
مجرم، اہلِ تخت نہ کیوں ٹھہرائے جائیں
اُن کے زیر نگیں پِٹ پِٹ جائیں تو دیکھو
کورے ورق پر کیا سے کیا لکھا جاتا ہے
جھریاں چہرہ چہرہ پڑ پائیں تو دیکھو
ماجد جیب کھلے بندوں، کیسے کٹتی ہے
تاجرجب اپنا فن جتلائیں تو دیکھو
ماجد صدیقی

میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 97
تسکینِ قلب جس سی، کسی میں کہیں نہیں
میرے حسیں سا، اور کوئی بھی حسیں نہیں
ہاں ہاں رہے وہ میری رگِ جاں سے بھی قریب
ہے کو نسا پہر کہ وہ دل کے قریں نہیں
اُس کے لبوں سے لب جو ہٹیں تو کُھلے یہ بات
اُس کے لبوں سی مَے بھی نہیں، انگبیں نہیں
ابر وہیں اُس کے، آنکھ کا اُس کی خُمار الگ
صدرنگ اُس کی شکل سا کوئی نگیں نہیں
ہرشب ہیں جس کے رُوئے منوّر کے رنگ اور
جی! چاند تک بھی اُس سا درخشاں جبیں نہیں
اُس کی قرابتوں کے مضامیں جُدا جُدا
ہاں سچ ہے اُس سی کوئی غزل کی زمیں نہیں
ماجد ہیں جس کی خلوتیں تک مجھ پہ واشگاف
اُس جانِ جاں سے آنکھ چُراؤں نہیں نہیں
ماجد صدیقی

جمہور ہی کی ترجماں، جمہور کے در پَے یہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 96
تھوتھا چنا باجے گھنا، حزبِ مخالف ہے یہاں
جمہور ہی کی ترجماں، جمہور کے در پَے یہاں
جابر ہیں کچھ منہ زور بھی، ساتھ اُن کے ہیں خوشامدی
چیتوں کی ہے چنگھاڑ بھی’بکروں کی ہے بَے بَے یہاں
راگوں میں فائق جو ہُوا، رختِ خلائق جو ہُوا
جو راگ مرگ آثار ہے فریاد کی ہے لَے یہاں
اُن کے لیے، نادار ہیں بستے جو بے گھر بار ہیں
نایاب ہے بازار میں خوراک کی ہرشَے یہاں
بزم سرورِ عشق میں ہر آن دیتی ہے نشہ
چشمِ غزالی یار کی برسائے ہے جو مَے یہاں
ہاں جو بھلے کے بول ہیں، بے وز ن ہیں بے تول ہیں
جو ڈُگڈُگی لہرائے ہے ہو جائے اُس کی جَے یہاں
جو بَیل کولہو میں جُتے، ہم ہیں اُسی کے ہمقدم
جو کچھ ہمیں ہے دیکھنا، پہلے سے ہے وہ طَے یہاں
پَون صدی سے ایک سے احوال کیوں کیوں ہوئے
ماجد ہے بے لطف و سکوں جینا ہمیں تا کَے یہاں
ماجد صدیقی

زمیں پہ برق کے زورِ ہنر کو دیکھتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 95
وہ جس پہ کوند گئی اس شجر کو دیکھتے ہیں
زمیں پہ برق کے زورِ ہنر کو دیکھتے ہیں
کوئی تو رُخ ہے نہاں جمگھٹے میں زلفوں کے
سیاہ رات کے انگناں سحر کو دیکھتے ہیں
پیامِ یار پہ پیہم لگے ہیں گوش و نگاہ
کبوتروں کے کُھلے بال و پر کو دیکھتے ہیں
عقاب ٹوٹتے دیکھیں جو فاختاؤں پر
ہم اپنے حق میں روا خیروشر کو دیکھتے ہیں
ہم اس کے روپ میں ملزم جو واگزار ہوا
نجانے کیوں پسِ انصاف، زر کو دیکھتے ہیں
جو پھڑپھڑائے فضا میں بہ شکل شاہ سُرخی
جو رن سے آئےُنامہ بر کو دیکھتے ہیں
کبھی نہ اگلا سفر کر سکیں وہ طے ماجد
مآلِ کار جو رنجِ سفر کو دیکھتے ہیں
ماجد صدیقی

’جیون رس، کم دیکھ رہے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 94
ہونٹ ہونٹ سَم دیکھ رہے ہیں
’جیون رس، کم دیکھ رہے ہیں
ارضِ وطن پر بیتنے والا
کیا کیا موسم دیکھ رہے ہیں
خواب تلک میں جو نہ تھے، اب ہر سُو
پھٹتے وہ بم دیکھ رہے ہیں
چیں ہے جبینوں پرہر جانب
ابروؤں میں خم دیکھ رہے ہیں
ہم، سازش جس سمت ہے برپا
اُس جانب کم دیکھ رہے ہیں
صحراؤں میں پنپنے والے
پلک پلک نم دیکھ رہے ہیں
ماجِد بس اِک تیرے سخن میں
ہرنوں سا رم دیکھ رہے ہیں
ماجد صدیقی

مجرم شاہ بھی بچ نکلے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
مصلحتوں کے یہ سب فتنے ہیں
مجرم شاہ بھی بچ نکلے ہیں
ڈفلی ڈفلی رقص کریں ہم
ہم جو عقل کے سب اندھے ہیں
ہم بھی جیب کُھلے میں کٹا کے
گھر کا رستہ بھول گئے ہیں
بے سمتی کے قضیوں پر ہی
ہنگامے برپا دیکھے ہیں
بدخواہوں تک کے حق میں بھی
اپنی زباں سے پھول جھڑے ہیں
غاصبوں، مجرموں کے آپس میں
سمجھوتے ہی سمجھوتے ہیں
ماجد تو نے بَیت جو لکھے
آتے وقتوں کے ہیرے ہیں
ماجد صدیقی

فطرت نے بھی کرشمے کیا ابدان میں ڈھالے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 92
مستی بوس و کنار کی ہیں یا مَے کے پیالے ہیں
فطرت نے بھی کرشمے کیا ابدان میں ڈھالے ہیں
رقص کناں خوابوں سپنوں کی ٹھہریں فرد مثال
جگنو جگنو اپنی جگہ کچھ اور اُجالے ہیں
پاکستان میں شعر و فسانہ اور بھارت میں رقص
نصف صدی سے ہر دو فن اک ساتھ نرالے ہیں
بابِ عقائد میں معمولی کھوج پہ بھی اکثر
اہلِ نگاہ تلک کے لبوں پر چپ کے تالے ہیں
راہنما بھی تبدیلی کو انہی سے جا کے ملیں
آفت کے پرکالے ہیں جو لڑکے بالے ہیں
لیڈر ہوں تاجر ہوں یا ہوں ریاست کے داماد
کم کم انہیں سراہو وہ سب دیکھے بھالے ہیں
ماجد ہم جو ہمیشہ پِسے ہوؤں کی بات کریں
طنزاً اہل ادب کی نظر میں ہم بھی جیالے ہیں
ماجد صدیقی

ہم پرچم بن کر لہرانے والے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 91
ماں دھرتی کی آن بچانے والے ہیں
ہم پرچم بن کر لہرانے والے ہیں
وہ کہ جنہیں دعویٰ ہے جگائے رکھنے کا
لوگوں کو کچھ اور سُلانے والے ہیں
آئے تو کچھ اور بھی طعنہ زن نکلے
ساروں کی بگڑی جو بنانے والے ہیں
وہ سکّے جو سبک، افراطِ زر سے ہیں
دیس کو اور ہی دن دِکھلانے والے ہیں
جنہیں خریدا ہم میں سے بیگانوں نے
وہی تو ہیں جو ہمیں دہلانے والے ہیں
ماجد ہم کو بھی لا یعنی اندیشے
بستر تک میں، نِت تڑپانے والے ہیں
ماجد صدیقی

چٹی چمڑی والے پھر کیوں ہمیں سدھانے آئے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 90
کالا پانی بھیجنے والے پھر کیوں جھانکنے آئے ہیں
چٹی چمڑی والے پھر کیوں ہمیں سدھانے آئے ہیں
کتنی نسلیں، کتنے رقبے گروی ٹھہرے اُن کے عوض
نام جو اپنوں کے ہیں پر، وہ باہر کے سرمائے ہیں
جنگ زدہ خطّوں کے اندر کے احوال بتائے کون؟
کن کن دوشیزاؤں نے جبراً پہلو گرمائے ہیں
تند سخن سنتے سنتے حیلہ یہ بدن نے کیا شاید
عمرِ اخیر تلک پہنچے تو ہم بہرے کہلائے ہیں
ایسے بادل کھیتوں، بگھیاؤں پر کیسے برسیں گے
یہ جوگَرد بگولے صحراؤں پر آ کر چھائے ہیں
نقش نجانے کیا کیا دل کے سب اوراق پہ چھوڑ گئے
وہ چہرے جو گاہے گاہے اپنے من کو بھائے ہیں
رِیت روایت چھوڑ کے جنکا ذکر ہے غیروں تک نے کیا
زخم نہ کیا کیااپنوں تک سے ماجد ہم نے کھائے ہیں
دوہزاردس کے دوران ایک سیاسی فیصلے پر
ماجد صدیقی

منافع سارے اوروں کے خسارے سب ہمارے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 89
سیہ بختی، گراوٹ پر اجارے سب ہمارے ہیں
منافع سارے اوروں کے خسارے سب ہمارے ہیں
نگر میں نام پر الزام ہے جن کے، شقاوت کا
بظاہر خیر کے ہیں جو ادارے سب ہمارے ہیں
بھلے وہ شیر میں پانی کے ہوں یا جھوٹ کے سچ پر
ملاوٹ پر جو مبنی ہوں وہ دھارے سب ہمارے ہیں
شرارت ہو کہیں برپا ہمارے سر ہی آتی ہے
سجھائیں بدظنی ہی جو اشارے سب ہمارے ہیں
کہیں سے ہاتھ جگنو بھی جو آ جائیں تو ہم سمجھیں
فلک پر جس قدر ہیں ماہ پارے سب ہمارے ہیں
ہمارے پہلوؤں میں جو سلگتے ہیں ہمہ وقتی
جو ماجد وسوسوں کے ہیں شرارے سب ہمارے ہیں
ماجد صدیقی

لوگ ورنہ بہت غصیلے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 88
سامنے ظلم کے لجیلے ہیں
لوگ ورنہ بہت غصیلے ہیں
وہ یقیں بھی ہے کیا یقیں جس کے
ابتدا ہی سے پیچ ڈھیلے ہیں
دیکھیے یہ بھی زہرِ ناداری
ایک خلقت کے ہونٹ نیلے ہیں
بات کرنی جنہیں نہیں آتی
لفظ اُن کے بہت نُکیلے ہیں
اِتنے تیور رُتوں نے کب بدلے
جس قدر درد ہم نے جھیلے ہیں
اُسکی زلفوں سے اُسکی قامت تک
ناگ کیا کیا نہ ہم نے کیِلے ہیں
برگ کتنے ہی سبز ہوں ماجِد
بخت ساروں کے سخت پیلے ہیں
ماجد صدیقی

وہ بچّے پھر کھویا چین کہاں پاتے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 87
جن بچّوں سے اُن کے نوالے چھن جاتے ہیں
وہ بچّے پھر کھویا چین کہاں پاتے ہیں
جس سے دہن لرزائیں روز ہمارے لیڈر
یہ وہ جُگالی ہے جس سے ہم گھبراتے ہیں
مستقبل اس قوم کا کیا ہونا ہے جس کے
اہلِ قیادت بات کریں تو ہکلاتے ہیں
ساتھ نہیں دے سکنا تھا تو چاہت کیسی
اپنے کیے پر اب کاہے کو شرماتے ہیں
میر ہیں غالب و منٹو ہیں یا فیض ایسے ہیں
جن کی فرماں روائی کے ہم گُن گاتے ہیں
وہ ساری ہیں صاحب! مبتدیوں کی باتی
جن جن باتوں پر ہم ناحق اِتراتے ہیں
اپنوں پر شاہی قائم رکھنے کو ماجد
چھوٹے شاہ بڑوں کے پہلو گرماتے ہیں
ماجد صدیقی

پرندے گھونسلوں کو آ رہے ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 86
پروں میں شام باندھے لا رہے ہیں
پرندے گھونسلوں کو آ رہے ہیں
یہ کس صحرا میں آ ڈالا ہے ڈیرہ
بگولے کیوں ہمیں بہلا رہے ہیں
بچھاتی ہیں جو سانسوں میں سرنگیں
وہ خبریں اب نئے پل لا رہے ہیں
ہر اک دن گانٹھ بنتا جا رہاہے
اور ہم گھونسے اُسے دکھلا رہے ہیں
قدم ایقان کے رنجور کرنے
ہزاروں وسوسے بِھّنا رہے ہیں
جو جھکڑ چھینتے ہیں برگ ہم سے
نمو جانے وہی کیوں پا رہے ہیں
ماجد صدیقی

دلچسپی گر ہے تو خباثت میں ہے یہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 85
ہیر پھیر لفظوں کا شرافت میں ہے یہاں
دلچسپی گر ہے تو خباثت میں ہے یہاں
پچھلے ورق صدیوں کے الٹ پاؤ تو کہو
فن کی بڑھوتری صرف ریاضت میں ہے یہاں
خرما بھی اور ساتھ ثواب بھی ملتا ہے
فائدہ سمجھوتے کی سیاست میں ہے یہاں
ریل کی کھڑکی میں ہلتا اک ہاتھ کہے
المیہ کیا کیا حسن کی ہجرت میں ہے یہاں
شاخ سے توڑ کے پھل چکھیں تو یاد پڑے
لذّت جو جسموں کی قرابت میں ہے یہاں
غارت کر دے سارا تقدس چاہت کا
حرص کا کچھ عنصر کہ عبادت میں ہے یہاں
ماجد عمر گزار کے راز یہ ہم پہ کھلا
جو بھی مہارت ہے وہ خیانت میں ہے یہاں
ماجد صدیقی

چہرے کے پھول رکھ لیے دل کی کتاب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
بچھڑے جب اُس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے دل کی کتاب میں
میدانِ زیست میں تو بہت تھے دلیر ہم
دور از تضاد پر تھے محبّت کے باب میں
کیا کیا بُرائیاں نہ سہیں جان و دل پہ اور
لوٹائیں نیکیاں ہی جہانِ خراب میں
تازہ نگاہ جس نے کیا ہم کو بار بار
کیا خوبیاں تھیں اُس کے بدن کے گلاب میں
قائم رہا اسی کے سبب خیمۂ حیات
تھا جتنا زور خاک میں اُتری طناب میں
مدّت سے دل مرا ہے جو تاریک کر گیا
آتا ہے چودھویں کو نظر ماہتاب میں
نااہل ناخداؤں کی ناؤ میں جب سے ہے
ماجد گھری ہے خلقِ خدا کس عذاب میں
ماجد صدیقی

میرے چَرکوں کا اندمال کہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
میرا ماضی بنے گاحال کہاں
میرے چَرکوں کا اندمال کہاں
بادلوں نے فلک کو اوڑھ لیا
ہاں سجائی ہے اُس نے شال کہاں
سیر کردے جو عین پِیری میں
اُس نوازش کا احتمال کہاں
محفلیں جن کے نام سجتی تھیں
میروغالب سے ماہ و سال کہاں
تاپ سے دھوپ کے جلی لاگے
سبز پیڑوں کی ڈال ڈال کہاں
لوگ چندا تلک سے ہو آئے
کام کوئی بھی ہو، محال کہاں
اب جو ماجد ہیں ہم بھی چل نکلے
اب ہے پسپائی کا سوال کہاں
ماجد صدیقی

اُٹھا کے ہاتھ اُنہیں کاسۂ دُعا مانوں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 82
مرا نصیب یہ ہے خود کو بے نوا مانوں
اُٹھا کے ہاتھ اُنہیں کاسۂ دُعا مانوں
خمیر جس کا فقط گرد ہی سے اُٹھا ہو
میں ایسے ابر کو کس کھیت کی ردا مانوں
مری مراد پہ قابض ہیں بندگانِ خدا
کسے صغیر کہوں کس کو کِبریا مانوں
اِک عزم کا ہے سمندر تو اک کرم کا سحاب
جگر کو قلب سے کس طرح میں جدا مانوں
جسے کھنگال کے دیکھا وہ تھا اسیرِ ہوس
کسے حریص کہوں، کس کو باصفا مانوں
دباؤ کے ہیں کرشمے جسے جدھر لے جائیں
کسے میں فحش کہوں کس کو باحیا مانوں
یہ میرے فرق پہ چھاتا سی ہے جو صحرا میں
اِس اُڑتی ریت کو جُز ریت اور کیا مانوں
بروئے ارض ہم اہلِ خدا ہی کیوں کم ہیں
میں اہلِ شر کا یہ کیوں قولِ فتنہ زا مانوں
بڑا تضاد ہے ماجد کہے میں ہردو کے
بڑوں کا یا میں نئی نسل کا کہا مانوں
ماجد صدیقی

غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
گھر گھر رسماً زر کے ہیں انبار یہاں
غیروں کی محتاج مگر سرکار یہاں
رکھیں گرم فقط جیبیں کارندوں کی
ٹیکس بچائیں کیا کیا ٹیکس گزار یہاں
نرخ بڑھائیں وزن کریں کم چیزوں کے
ہوتا ہے یوں دُگنا کاروبار یہاں
بندشِ آب و ضیا پر ہر سو ہنگامے
سانس تلک لینا بھی ہوا دشوار یہاں
نسل بڑھائیں پودا اک بھی لگا نہ سکیں
بس اِک حد تک ہیں سارے ہُشیار یہاں
وہ جو ملا تھا وہ تو گنوا بیٹھے ہیں ہم
اُس سا ملے اب، کب دُرّ شہوار یہاں
ماجد جو بھی کہے کچھ کہہ دے سوتے میں
تجھ سی بہم کس کو چشمِ بیدار یہاں
ماجد صدیقی

تازہ جنم دہرائیں سیّاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 80
کِھل کے نہ پھر مرجھائیں سیّاں
تازہ جنم دہرائیں سیّاں
اچھے وقت کے نام پہ ہم لیں
اک دوجے کی بلائیں سیّاں
آس کے پودے پھر سے ہرے ہوں
کاش وہ دن لوٹ آئیں سیّاں
پلٹے قُرب کی عید کا دن اور
شوق کی پینگ جھلائیں سیّاں
بے چینی بڑھ جائے بدن کی
باہم گھل مل جائیں سیّاں
اپنے انگناں دیپ جلانے
جسم کی آنچ جگائیں سیّاں
ماجد چھپ کر بیٹھ رہیں تو
اُس کو کھوج دکھائیں سیّاں
ماجد صدیقی

سینت اِن میں آخر تک کے احوال میاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 79
کیمرے اِن دو آنکھوں کے سنبھال میاں
سینت اِن میں آخر تک کے احوال میاں
جھاڑ کے پچھلے پتے نئی بہار منا
خود سے عہد نیا کر سال بہ سال میاں
عقل تری بھی ہے مانند، سیاست کے
جان کے چل اِس حرّافہ کی چال میاں
یہی تو سرِ ورق ہے تیرے ظاہر کا
تازہ رکھ تو اپنی روشن کھال میاں
جیتے دم گر دن ہو جائے سیہ بھی کوئی
اُس کو سمجھ اپنے مکھڑے کا خال میاں
جن میں الجھ کے اپنے آپ پہ حرف آئے
جی میں پال نہ ایسے بھی جنجال میاں
ماجِد!رُو بہ عروج ہے تو، بس یہ دنیا
جسکی اک اک شے ہے رُو بہ زوال میاں
ماجد صدیقی

چہرے کے پھول رکھ لیے، دل کی کتاب میں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 78
بچھڑے جب اُس سے ہم تو بڑے پیچ و تاب میں
چہرے کے پھول رکھ لیے، دل کی کتاب میں
میدانِ زیست میں تو رہے تھے دلیر ہم
کمزور تھے تو صرف، محبّت کے باب میں
کیا کیا بُرائیاں نہ سہیں جان و دل پہ اور
لوٹائیں نیکیاں ہی جہانِ خراب میں
تازہ نگاہ، جس نے کیا ہم کو بار بار
کیا خوبیاں تھیں اُس کے بدن کے گلاب میں
قائم رہا اُسی کے سبب خیمۂ حیات
تھا جتنا زور، خاک میں اُتری طناب میں
مدّت سے دل مرا ہے جو تاریک کر گیا
آتا ہے چودھویں کو نظر ماہتاب میں
نااہل ناخداؤں کی ناؤ میں جب سے ہے
ماجدگِھری ہے خلقِ خدا، کس عذاب میں؟
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑