(نوٹ۔ خاور اعجاز نے یہ رائے ماجد صدیقی کی محض ایک کتاب پڑھ کر قائم کی، میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ہر شاعر کی زندگی کے مختلف ادوار میں اس کا انداز بدلتا رہتا ہے، اپنی عمر کے آخری حصے میں انہوں نے تجرباتی جو شاعری کی، اس حوالے سے اس مضمون کی کئی باتیں درست ہیں، لیکن اگر ان کی تمام شاعری پر ایک اچٹتی نظر بھی ڈالی جائے تو اور بہت سارے پہلو نظر آتے ہیں جن کا تذکرہ اس مضمون میں نہیں۔ یاور ماجد)

غالب و میر کی ریس تو عین حماقت ہے
ماجدؔ سا بھی شعر کہاں کہہ پائے کوئی

یہ شعر ماجدؔ صدیقی کی محض تعلّی نہیں۔ اردو شاعری میں ایسے شعرا کی تعداد شاید ایک ہاتھ کی انگلیوں جتنی ہو جن کا طرزِ سخن کسی اور سے نہیں مِلتا۔ میری مراد نظیر اکبر آبادی، اقبال، شکیب جلالی اور ظفر اقبال سے ہے۔ جعفر زٹلی کا نام نہیں لیا کہ اس کا کلام فارسی میں ہے ورنہ بہ اعتبارِ طرزِ سخن وہ اسی گروہ کا رکن ہے۔ علی اکبر عباس بھی اپنی ایک کتاب’’رچنا‘‘ کی حد تک انہی میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ اس مختصر سی فہرست کے آخر میں ماجد صدیقی بھی کھڑا نظر آتا ہے۔ مَیں یہ قطعاً نہیں کہہ رہا کہ محولا بالا شعرا ایک ہی سطح کے ہیں لیکن مَیں یہ ضرور کہوں گا کہ ان میں ایک قدر مشترک ہے اور وہ ہے اپنے عصر سے مختلف ہونا۔ نظیر اکبر آبادی کی آواز میں کوئی دوسری آواز سنائی نہیں دیتی۔ اقبال ؔنے غزل کا قبلہ ہی بدل دیا۔ شکیب ؔنے آئندہ کی شاعری کا رخ موڑ دیا اور ظفر اقبال نے غزل کا منھ توڑ دیا ہے ! ماجد صدیقی نے ان میں سے کچھ نہیں کیا۔ اس نے غزل کا ایسا مزاج دریافت کیا ہے جو ایک طرف تو اس کے عہد کی بود و باش سے لگّا کھاتا ہے اور دوسری طرف اس کے عہد کے کسی دوسرے شاعر سے مطابقت نہیں رکھتا۔ خود اس کا اپنے بارے میں کہنا ہے

شاعری میری عبادت، شاعری میرا شعار
اور طبعاً ہے مِرا اللہ والوں میں شمار

            اپنے ماحول سے ماجد صدیقی کی جڑت نظیر اکبر آبادی کی یاد دلاتی ہے۔ ماجدؔ اگرچہ نظیرؔ کی طرح کا بنجارہ نظر نہیں آتا کیوں اس طرح کا کردار اب ہمارے عہد کی زندگی کو درکار نہیں رہا لیکن ماجدؔ کی اپنے عہد کے منظر نامے، معاشرے، گرد و پیش، سوسائٹی اور اس کے معاملاتِ بست و کشاد سے اتنی گہری واقفیت ہے کہ وہ نظیر اکبر آبادی کا چلتا پھرتا سایہ محسوس ہوتا ہے۔ اس نے نظیرؔ کے بنجارے سے آوارہ خرامی سیکھی ہے۔ کسی ایک مقام پر قیام بنجارے کی سرشت میں داخل ہے نہ آوارہ خرامی میں۔ ماجدؔ شعر کی ایک زمین سے دوسری اور دوسری سے تیسری میں سفر پذیر رہتا ہے اور مسخر کر لی گئی سرزمین پر دوبارہ قدم نہیں رکھتا۔ ماجدؔ کے ہاں نظیرؔ جیسی ہمہ گیریت تو نہیں مگر اُسی کی طرح بھاری بھر کم فلسفیانہ مضامین بھی نہیں۔ اُسی کی طرح سیدھے سادے انداز میں حقیقت نگاری کی ہے یہی وجہ ہے کہ اُسی کی طرح اپنے دور کے شعرا کے زیرِ استعمال رہنے والے زیادہ تر الفاظ، جو ایک لگے بندھے نظام کی پیداوار ہوتے ہیں، ماجدؔ کی غزل کا حصہ نہیں بنے۔ اس نے ناقدین کی پروا کیے بغیر غزل میں عام بول چال اور عوامی محاورات کی شاعری کی ہے۔ نظیرؔ کی طرح ماجدؔ بھی خواص کا نہیں بل کہ عوام کا شاعر ہے۔ غزل کی معروف روایت نے اس کے ہاں بہت کم جگہ پائی ہے۔ اس نے محض خیال کے بل بوتے پر شعر نہیں کہے بل کہ اپنے گرد و پیش کے سوز و ساز سے متاثر ہو کر شاعری کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے ہاں خارجی عوامل کی بہتات ہے۔ باطن میں جھانکنے کے موقعوں سے اس نے شاید جان بوجھ کر احتراز کیا ہے لیکن ایسا بھی نہیں کہ اس کے دل کے جذبات بالکل سرد ہو گئے ہوں۔ تغزل کی گرمی اس کے سینے کو گرماتی ہے مگر یہ آنچ زمانۂ گذشتہ کی آنچ سے مختلف ہونے کے سبب ہمارے دلوں میں کوئی چنگاری بھڑکانے کی بجائے محض رخساروں کو تمتما کر آگے بڑھ جاتی ہے۔

            اس کے ہاں اکبر الہ آبادی کی طرح ہلکے پھلکے طنز و مزاح کے ہمراہ بہت سے انگریزی الفاظ اور بہت سے ایسے اردو الفاظ در آئے ہیں جو معاصر غزل کے مزاج سے یکسر مختلف ہیں مثلاً چیف ایگزیکٹو، پنشن، مٹھی چاپی، ٹاس(کرکٹ میچ والا)، سجنوا، چقندر، سویّاں(عید والی)، انرجی، ٹوکا اور چھُرا(اگلے وقتوں میں خنجر اور کٹار ہوتی تھی)، مِلک شیک، ٹرم(مدت)، شڑاپ، اسقاطِ حمل، ٹماٹر، پاکٹ منی، موٹر وے، دھڑن تختہ، ٹریفک، آنکھ مٹکا، پھنّے خان، پرس، کمپیوٹر اور الیکشن وغیرہ لیکن اکبر الہ آبادی کی طرح انسانی نفسیات کے لطیف پہلو ماجدؔ کے ہاں دست یاب نہیں۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ متذکرہ بالا الفاظ کو غزل کے گلے کا ہار بنانے میں کیا دقتیں اور قباحتیں ہو سکتی ہیں لیکن وہ کہیں کہیں تصنع اور تکلف کے باوجود اپنی پُر گوئی کے زور پراس کٹھن منزل سے بھی گذر گیا ہے۔ ۔ اس کے ہمراہ کچھ اشعار پر اکبر الہ آبادی کا پرتو بھی نظر آتا ہے جیسے :

بنتا تھا جو اس نے نہیں لوٹایا تھا
ہم نے اس سے پیار کا نوٹ بھنایا تھا
ایسا فیض کیے کا اپنے کس نے پایا
جیسا جوتا شاہ نے راج کے انت میں کھایا
عدل کی میت پہ رو آئے میاں
ہم عدالت سے بھی ہو آئے میاں
اپنی بے حیثیتی پر جگ ہنسائی کا نہیں
سچ کہوں منصف تو یہ موقع دہائی کا نہیں
کیا سے کیا کھُل کھُل چلی ہے اس کے چہرے کی کتاب
ہم کریں تو کیا کہ اب موسم پڑھائی کا نہیں
مستقبل اس قوم کا کیا ہونا ہے جس کے
اہلِ قیادت بات کریں تو ہکلاتے ہیں
وہ شوخ جب بھی کبھی شغلِ دل ربائی کرے
مَیں ڈیڑھ ہُوں تو مجھے چھُو کے وہ اڑھائی کرے
رہنماؤں نے بس اک اپنی شفا کی خاطر
قوم کی قوم کو بیمار بنا رکھا ہے

            گیت اور دوہے کا عوامی انداز بھی اس کی غزل کا حصہ بنا ہے جیسے یہ شعر بالکل دوہا لگتا ہے:

چاہے بعد میں ایسوں کا کتنا ہی ماتم ہووے
جس کا نرخ یہاں چڑھ جاوے کم کم ہی کم ہووے

اور یہ غزل گیت کے قریب ہے:

نامہ بر ! تُو لوٹ بھی آ رے
خیر خبریا کوئی سنا رے

            یہ انداز اس کے ہاں اس کی ماں بولی پنجابی اور بولیوں ٹھولیوں سے دلچسپی کی عطا ہے۔ یہاں یہ کہنا دلچسپی سے خالی نہ ہو گا کہ اس نے پنجاب کی خاص صنفِ سخن ’’بولی‘‘ کو اردو میں بھی متعارف کرایا ہے۔ جدید عہد کی غز ل کے لوازمات کی جھلک بھی آپ کو اس کے ان اشعار میں نظر آئے گی:

کشتِ جاں میں بن گیا مرکز وہی کہرام کا
جسم میں چپکے سے اُگ آیا جو پودا شام کا
مستیاں یہ کن نگاہوں کی نگر پر چھا گئیں
کس کے جلوے سے چمک اٹھا کنارا بام کا
بات یہ سچ ہے، فرش پہ جنتِ عرضی ہے
عمرِ اخیر میں قربتِ یار کی آب و ہَوا
سہل تھا جینا یہاں بس کور چشموں کے لیے
دیدۂ بیدار تو اک مستقل آزار تھا
آپ آئے ہمارے گھر۔ ۔ یعنی
خاک پر آسماں اتر آیا
رحلِ دل پر اتر آئی تِرے چہرے کی کتاب
منعکس ذہن میں ہے ہائے یہ کس دور کا خواب
قربتِ یار کا جب سے ہے احساس بہت
لگتا ہے دولت ہے اپنے پاس بہت
ابرو پہ اس کے دیکھ لِیا ہم نے خم اک اور
کرتا ہے کب وہ مہلتِ قربت بہم اک اور
اپنے گُنوں میں تھے جو عجب آشکارا لوگ
ہم سے بچھڑ گئے ہیں بہت سے ستارا لوگ
جیون دیپ نے بجھ جانا ہے، آج نہیں تو کل
خلق کو ہم نے یاد آنا ہے، آج نہیں تو کل
نشہ حیات کا سارا اُسی میں پنہاں تھا
کسی بدن پہ جو تھا اختیار کا موسم
فتنے بہت ہیں، خیر کے پہلو بہت ہی کم
شب زاد بے شمار ہیں، جگنو بہت ہی کم
بڑے بھی ہیں تو فقط وہم میں گمان میں ہم
ہزار نیک سہی کم ہیں پر جہاں میں ہم
پروں میں شام باندے لا رہے ہیں
پرندے گھونسلوں کو آ رہے ہیں
بغور دیکھ لِیا کر، نہ پاس جال کے رکھ
یہ شہرِ درد ہے پائوں ذرا سنبھال کے رکھ
ہر لڑکی کے من کی تختی کے اوپر
اندر خانے نام لِکھا رہ جائے کوئی
رُت کا نیا جامہ پہنا دے
ہونٹ ہِلا اور پھول کھِلا دے
تم ایسے ہمہ لطف تھے جب یار ہمارے
پھر کیوں نہ گئے روح کے آزار ہمارے
اصل حقیقت کپڑے کی تب کھُل پاتی ہے
کاریگر کے ہاتھوں جب وہ سِل جاتا ہے
جینا ہے تو عقل کے نرغے میں مت آنا
اُس جانب جانا جس جانب دل جاتا ہے

آخر میں کہوں گا کہ ماجدؔ صدیقی بوند بوند سخن کو دھارا بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ امید ہے وہ اپنے اس ہنر کو سخن کے نئے سے نئے چشمے نکالنے میں استعمال کرتا رہے گا۔