انسان کے مزاج کی پرداخت اور کردار کی تعمیر میں اس کے گردو پیش کا غیر معمولی عمل دخل ہوتا ہے۔ بچپنے کے گہرے نقوش ذہن کی سوچ پر مرتسم ہوتے رہتے ہیں۔ جو جوانی کے دور میں اپنا رنگ دکھاتے ہیں۔ ذہن میں محفوظ شدہ مدھم تصویریں کانکریٹ صورت میں کھل کر ظاہر ہونے کے لئے بے تاب ہوتی ہیں۔ بلبلوں کے نغمے، قمریوں کی کوکو، خمروں کی حق سرائی، ’’واہن‘‘ یعنی نغموں کی آبشار کی گونج یہ وہ سماعت نواز صدائیں تھیں جن سے ماجد صدیقی کے کان بچپنے ہی سے خوب آشنا تھے۔ باغات کے پھلوں، پھولوں کے بوسے لینے والی ہوا ہر صبح ماجد کو خوشبوؤں کے تحفے پیش کرتی۔ نغموں اور خوشبوؤں کا ایک قریہ ماجد کے سامنے حسن فطرت کے بے شمار حسین و جمیل مناظر کی ایک ضخیم البم تھی جو ہر لحظہ ماجد کی آنکھوں کے سامنے کھلی رہتی تھی۔ ان پہاڑوں، ان پُر لطف وادیوں میں گھومنے پھرنے والے حساس انسان کو حسن فطرت سے کس درجہ آشنائی اور موانست ہو گی۔ یہ اس کا دل اور اس کا دماغ ہی جانتا ہے۔ یہی وہ البم ہے جو ماجد کے مشاہدات کے مجموعے کی تمہید ہے۔ جہاں ماجد پر حسن فطرت کی آغوش وا ہوئی۔ وہاں قدرت نے سوز و گداز کا پیکر اس کی شفیق ماں اسے عطا
کی۔ یہ خاتون اپنے پہلو میں سرور کائنات کے عشق کی آگ رکھتی تھی۔ اس آگ میں اس خاتون کا پہلو دن رات دہکتا رہا۔ اس کی آنکھوں کی پلکیں اکثر بھیگی رہتیں صوم و صلوٰۃ کی پابندی اس کا شعار تھا۔ اور عشقِ رسولؐ اس خاتون کے ایمان کی جان۔ آخری دم تک ماجد کی ماں کی زندگی اسی روش پر رواں رہی۔ پیری سے جسم لاغر و نا تواں تھا۔ مگر عشقِ رسولؐ تھا کہ روز بروز فزوں تر، ماجد کے سر پر اس عظیم خاتون کا مشفقانہ ہاتھ تھا۔ گرد و پیش نے اسے نغمے اور خوشبوئیں بخشیں تو اس کی ماں کے دودھ نے ماجد کو سوز و گداز کی گراں مایہ متاع عطا کی۔
ہم آپ آج جسے ماجد صدیقی کہتے ہیں اس کی ماں اسے عاشق حسین کہہ کر پکارتی تھی۔ ہمارا شاعر اب پانچ بچوں کا باپ ہے۔ مگر اس کی ماں جس کی آنکھوں میں گہری چمک تھی۔ جب بھی ماجد کو تیز نگاہوں سے دیکھتی تو یہ سہم جاتا کبھی کبھی اس کے سامنے رو بھی دیتا اور بے اختیار اپنی ماں کے ہاتھ چومنے لگ جاتا۔
آج سے تقریباً 27برس قبل میں نے ماجد کو پہلی بار دیکھا وہ میٹھے سروں میں ماہیا گانے کے باعث اپنے احباب کے حلقے کا امام تھا۔ حالی کی نظم ’’وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا‘‘ ماجد اپنی آنکھیں بند کئے وجد آفریں لہجے میں گایا کرتا تھا۔ یہ اس کی اپنی پسند کی نظم تھی۔ جو یقیناً ماجد کے قلبی گداز کی عکاس تھی۔ ماجد کے ’’ماہیا‘‘ کے متاثرین میں ایک میں بھی تھا۔ ابھی ہمارا شاعر، شاعر کی حیثیت سے ہمارے سامنے نہیں آیا تھا لیکن مجھے اس قدر محسوس ہو چلا تھا کہ اس کے اندر شاعر چھپ کر بیٹھا ہے۔ پہاڑ کے اندر کا لاوا کسی دن پھوٹے گا۔
ہمارا شاعر جس حیرت انگیز انداز سے اچانک شاعر کی حیثیت سے سامنے آیا وہ خاص طور پر قابل ذکر ہے۔ 1954ء کا برس تھا۔ روزنامہ تعمیر راولپنڈی سے خوب دھوم دھڑلے کے ساتھ شائع ہوتا تھا۔ مکرمی محمد فاضل مدیر اخبار کی جانب سے مجھے ایک ’’ٹیلی گرام نما‘‘ خط موصول ہوا۔ کہ عیدِ میلاد النبیؐ کا خصوصی نمبر شائع کیا جانے والا ہے جس کے سلسلہ میں اخبار کو میری قلمی معاونت کی ضرورت ہے۔ میں نے دوسرے روز نعتیہ نظم بھجوا دی۔ میں نے یہ نظم ماجد کے خوش نویس ہاتھ سے لکھوائی تھی۔ عیدِ میلاد النبیؐ نمبر چھپ کر سامنے آیا۔ جس میں میری نظم شامل تھی مگر ایک گوشے میں ایک اور خوبصورت سی نظم آخری صفحے کی زینت تھی جس کا مصنف عاشق حسین صدف تھا۔ عاشق حسین نام پڑھ کر مجھے یقین آگیا کہ یہ وہی ہے جس کے متعلق اب تک یہی معلوم تھا کہ وہ صرف ماہیا گاتا ہے۔
ہمارے شاعر کی یہ پہلی نظم تھی جو کسی معروف شاعر کی تصنیف معلوم ہوتی تھی۔ ’’صدف‘‘ تخلص ماجد کا اپنا تجویز کردہ تھا۔ چند روز بعد قاضی عبد السلام صاحب ریٹائرڈ انسپکٹر آف سکولز نے ہمیں اکٹھا آتے دیکھا تو فرمانے لگے آج ساجد ماجد کیسے آئے۔ اسی وقت سے عاشق حسین مستقل طور پر ماجد بن گئے۔ ماجد شعر گوئی میں یک لخت تیز ہو گیا۔ مجھے جہاں کہیں اس کے شعر میں جھول یا ڈھیلے پن کا احساس ہوتا میں اسے کھینچ دیا کرتا اگر ماجد سے کوئی پوچھتا کہ فنِ شعر میں آپ کے استاد کون ہیں تو وہ انجانے پن میں جھٹ سے میرا نام لے لیا کرتا۔ لیکن امر واقعہ یہ ہے۔ کہ شعر گوئی کے فن میں ماجد کا کوئی استاد نہیں۔
سطور بالا میں میں نے جس نعتیہ نظم کی اشاعت کا ذکر کیا ہے وہ ماجد کی شاعری کا سنگِ بنیاد تھا۔ اس نظم کے چھپ جانے سے ہمارے شاعر کو خاصا حوصلہ نصیب ہوا۔ اب وہ باقاعدگی سے ادبی جرائد و رسائل اور اخبارات کا مطالعہ کرنے لگا۔ غزل کہتا یا نظم روزنامہ تعمیر کی نذر کر دیتا۔ روزنامہ تعمیر نے ماجد کے ذوقِ شعر گوئی کی تعمیر میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ تعمیر میں چھپ چھپ کر جب ماجد کی تشنگی کم ہونے لگی تو اس نے امروز کا رخ کیا ان دنوں امروز کا ہفتہ وار ادبی ایڈیشن ملک کے ادبی حلقوں میں شوق سے پڑھا جاتا تھا۔
گنتی کے چند شعراء کے علاوہ، باقی تمام سخنوروں میں یکسانیت کی جھلک نظر آتی تھی۔ چند گنی چنی ترکیبیں، تشبیہیں اور استعارے ہر شاعر کے نوک قلم تھیں۔ نیا خیال کسی کو سوجھتا نہ نئی ترکیب اخبارات کے کسی صفحے پر دکھائی دیتی۔ ان دنوں سخنوروں نے اپنی انفرادیت تسلیم کرانے کے لئے نئے نئے جادے اختیار کئے۔ جدا جدا سوچوں کے گُل کھلائے غزلوں کے انبار لگ گئے مگر یوں محسوس ہوتا کہ سب جگالی ہے شعرا چند لفظوں کے حصار کے اندر محبوس تھے۔ وہ اس حبس سے نکلنے کے لئے ہاتھ پاؤں مار رہے تھے۔ کہ ایک گوشے سے اختر امام رضوی کی اجنبی سی آواز سنائی دی جس میں بے پناہ کرب تھا۔ احساس کی آگ کا شعلہ تند و تیز تھا الفاظ کی تراش خراش بے حد محنت کا ثبوت مہیا کرتی تھی۔ اختر امام رضوی کی سوچ کا زاویہ بھی مختلف اور منفرد تھا یہ آواز چار سال سنائی دیتی رہی اس کے بعد پھر سننے میں نہیں آئی۔ ماجد نے چند غزلیں اختر امام رضوی کے رنگ میں کہنے کی کوشش کی۔ شاید اسے تقلید پسند نہیں تھی۔ بہر کیف دھند تھی یا کہر ماجد اس راہ پر نہ چل سکا اور جیسے تھک کر بیٹھ گیا اردو کے دوسرے شعراء جو اردو غزل گوئی سے کنی کترانے لگے تھے۔
ماجد بھی اسی صف میں نظر آنے لگا۔ یہ بھی غزل کہنے کے باوجود محسوس کرنے لگا کہ یہ سعیِٔ بے حاصل ہے۔ وہ افسردہ تھا۔ بے چین تھا اور کرب میں مبتلا کہ انہی ایام میں ماجد کی منو بھائی سے ملاقات ہوئی مُنّو بھائی صحافت کی دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے اور پنجابی شاعری میں بے مثال آواز، اسی صحافی شاعر سے ماجد کی دوستی دوسرے الفاظ میں پنجابی شاعری سے دوستی کا آغاز تھا ان دنوں میں نے اپنی کتاب ’’من دی موج‘‘ کی کتابت و اشاعت کا سارا کام ماجد کے سپرد کر رکھا تھا جس کے سلسلے میں ہمارا شاعر کئی کئی روز تک راولپنڈی میں منو بھائی کے یہاں قیام پذیر رہتا ادبی مباحث میں شریک ہوتا اور اس کے شعری نظریات و اعتقادات سے بھرپور استفادہ کرتا۔ منو بھائی سے ملاقات نے ماجد پر اردو غزل گوئی کا دروازہ بند کر دیا تھا۔ ایک دروازہ بند ہو تو دوسرا کھلتا ہے اب اردو کی بجائے ماجد پر پنجابی غزل کی راہیں کھل گئیں۔ ہمارے شاعر کے ذہن میں پنجابی کلچر کے احوال و مشاہدات تہ در تہ مجتمع تھے اس کے پہلو میں کرب انگیز محسوسات کا لاوا اُبل رہا تھا۔ اس کی آنکھ خوب و ناخوب کی خوب خوب تمیز کرتی۔ جمال و حسن کی رعنائیاں اسے اپنی سمت
کھینچتیں مگر وہ بوڑھوں کی طرح خاموش رہنے لگ گیا اس نے کئی سال احباب سے کنارہ کشی میں گزارے وہ خود خاموش تھا مگر اب اس کی بجائے اس کا قلم بولنے لگا تھا۔ بھارت اور پاکستان کے پنجابی رسائل و جرائد میں اس کا کلام شائع ہونے لگا۔ کل ریڈیو پر فیچر تھا تو آج گیت ہے۔ اور چار دن بعد مشاعرے میں شرکت ہے اب اس کے شب و روز سر بسر ادبی ہنگاموں کی نذر ہوتے ماجد کے بے تکلف احباب میں اس کے ’’رت جگے‘‘ ایک داستان بنے ہوئے ہیں۔ ایک دن ماجد نے خود انکشاف کیا کہ اس نے کسی کتاب یا کسی شخص سے اتنا استفادہ نہیں کیا جتنا کہ رت جگوں نے اس کے دل کو گداز اور دماغ کو منور کیا ہے۔ میرے یہاں کئی کئی روز تک رکتا راتوں جاگتا۔ دن ہنگاموں میں بسر کرتا اس کی نیند کا حساب کتاب آج تک مجھ سے مخفی ہے۔ وہ رت جگوں سے نشہ حاصل کرتا ہے۔ اور رت جگے اسے سرشاری بخشتے ہیں۔
منو سے ماجد کی ملاقات اور پنجابی شاعری میں اس کے انہماک کا ذکر ہو رہا تھا پنجابی میں ماجد جس کرب اور اذیت کا شکار تھا اسے وہ اپنے قلم کے ذریعہ سینے سے صفحہ قرطاس پر منتقل کر رہا تھا۔ اس دور میں ماجد نے بہت کچھ کہا اور جو کہا۔ سب واقعیت کی خوبصورت اور رنگین تصویریں ہیں۔ ہمارے شاعر کے پنجابی موضوعات، معاشرتی، ناہمواری، اقتصادی بدحالی، معاشی الجھنوں، نفسیاتی مسائل، انسانی جوہر کی قدر نا شناسی، دنیا کے دکھ درد، اخلاقی اقدار کی پائمالی، حسن و عشق کے نازک و لطیف معاملات اور حسن فطرت کی رعنائی پر مشتمل ہیں۔ ایک ایک تشبیہہ کو تین تین چار چار تشبیہوں سے ایک ہی جست میں واضح کرنا رواں دوں بحریں خوبصورت کسے ہوئے الفاظ کا بہاؤ پنجابی کلچر کی تصویریں اور ان میں تجربہ و مشاہدہ کی قوس ِ قزح کے سے رنگ، زور بیان اور زبان پر ماہرانہ گرفت ماجد کی فنی خصوصیات میں شامل ہیں۔
ماجد پر ایک بار پھر اردو غزل گوئی کا دروازہ کھل گیا۔ اسے دوبارہ اردو غزل گوئی کی طرف راغب کرنے والی اس کی پنجابی شاعری ہے۔ پنجابی شاعری نے اس کے قلم کو جو قدرتیں اور ثروتیں عطا کیں۔ اب انہیں وہ اردو غزل گوئی پر نچھاور کرنے کے لئے بے تاب ہو گیا۔ اب ماجد کی پنجابی شاعری سستانے لگی۔ اس کی تمام تر توجہ اردو غزل گوئی پر مرکوز ہو گئی۔ ماجد کے سینے میں ایک بار پھر گویا لاوا پھوٹا۔ اس نے بے حجابانہ اردو غزل گوئی سے آنکھ لڑائی ماجد کی اردو غزل گوئی سے یوں تو دیرینہ آشنائی تھی مگر ان کے درمیان حجابات حائل تھے۔ جب پنجابی شاعری نے ان حجابات کو اٹھانے میں اپنا ہاتھ بڑھایا۔ تو ماجد اور اردو غزل گوئی دونوں ہم کنار ہو گئے۔ ماجد کے نزدیک اردو غزل محبوب صنف شاعری ہے اور اردو غزل کے نزدیک ماجد محبوب غزل گو شاعر ہے۔

تبصرہ کریں