نئی پنجابی غزل کا ابتدائی کھوج لگانے کے لئے ہمیں بہت دور نہیں جانا پڑتا۔ پچھلی ربع صدی میں پانچ چھ ایسے نام ہمارے سامنے آتے ہیں جنہوں نے پرانی روش سے ہٹ کر پنجابی غزل کو ایک نئی اور نرول راہ سُجھائی ہے غزل کو آج کی زبان دی ہے اور اسے دور جدید کے فکر و خیال کے اظہار کے قابل بنایا ہے۔ ان شاعروں نے زمیں پر رہتے ہوئے زمین کی باتیں کی ہیں۔ اپنے عہد سے آنکھیں نہیں چرائیں یہ وہ صاحب اِدراک سخن ور ہیں جو پنجابی غزل کو اس مقام تک لے آئے ہیں جو مقام عصر حاضر کی اردو غزل کو حاصل ہے۔
اس امر سے کسے انکار ہو سکتا ہے کہ اردو کے مقابلے میں اہلِ پنجاب کی مادری زبان پنجابی کے ساتھ ہمیشہ سوتیلی اولاد جیسا سلوک کیا گیا ہے۔ جہاں تک اردو غزل کا تعلق ہے۔ اسے لکھاری بھی بہت ملے ہیں اور سرکاری سطح پر بھی ہمیشہ اس کی حوصلہ افزائی کی جاتی رہی ہے۔ جبکہ پنجابی زبان عوامی قصّوں اور لوک کہانیوں سے کبھی تجاوز نہیں کر سکی مگر اب وہ وقت آ گیا ہے جب پنجابی غزل کو اردو غزل کے برابر لانے کی سنجیدہ کوششوں کا آغاز ہو چکا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ پنجابی لکھنے والوں نے پنجابی غزل کو۔ ۔ ۔ ۔ نیا لب و لہجہ دیتے ہوئے فکر و خیال کے اعتبار سے بھی اسے اردو غزل کے برابر لا کھڑا کیا ہے اور اگر تنگ نظری سے کام نہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ ہماری موجودہ پنجابی غزل اردو غزل کے ساتھ کندھا ملا کر چلنے کے قابل ہو چلی ہے۔
اردو غزل کی طرح پنجابی غزل پر بھی ابتدا ہی سے فارسی زبان و ادب کی چھاپ چلی آ رہی ہے وہی گل و بلبل اور زلف و رخسار کی باتیں زندگی سے ہٹ کر فکر و خیال کے تجربے اور ہوائی کہانیوں کا بیان پنجابی غزل کے موضوعات میں بھی شامل رہے ہیں اور بہت کم شاعر ایسے ہیں جنہوں نے پنجابی غزل کو نئے آہنگ سے ہمکنار کیا ہو۔
اب جبکہ پنجابی غزل کے آنگن میں نئے سورج کی کرنیں پہنچنے لگی ہیں پچھلی ساری کی ساری روایتیں دم توڑتے سایوں کی طرح بھاگتی دِکھائی دیتی ہیں اور فکر جدید کی روشن دھوپ جگہ جگہ پھیلتی جا رہی ہے۔ آج کی پنجابی غزل پڑھتے ہوئے گھٹن کا نہیں بلکہ تازگی کا احساس ہوتا ہے۔ اس لئے کہ نئے لکھنے والوں نے پنجابی غزل کو وہ معنوی کشادگی دے دی ہے جو اس سے پہلے کبھی اسے میسّر نہیں تھی۔ اِن ہی پنجابی غزل گو شعراء میں ایک نام ماجد صدّیقی کا بھی ہے۔
ماجد صدّیقی کی غزل میں دوسرے جدید شعراء کی طرح انسانی کرب و الم کا اظہار ملتا ہے۔ ماجد وقت اور ماحول کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا جانتا ہے۔ وہ جو بات بھی کرتا ہے اس کا مواد اپنے آس پاس کے ماحول ہی سے اخذ کرتا ہے۔ ماجد کے دُکھ آج کے عہد کے کسی بھی لکھاری جیسے ہیں جنہیں وہ اپنی پوری کھلی آنکھوں کے ساتھ دیکھتا ہے۔ ماجد کا خاصہ یہ ہے کہ وہ ہر گزرتی پل کو ٹھونک بجا کر دیکھتا ہے اور اس سے وہی اثر قبول کرتا ہے جو اثر کسی سچے فنکار کو قبول کرنا چاہئے۔
اسماناں دل گھُورے
ماجد دھرتی جایا
آج کے اہل قلم حضرات کو ایک نہیں لاکھوں دُکھوں کا سامنا ہے۔ اپنی ذات کا دُکھ، زمانے کی بے مہری اور بے حسی کا دُکھ، وقت کی بدلتی قدروں کا دُکھ، ہجومِ خلائق میں جینے بسنے کے باوجود اکیلا ہونے کا دُکھ اور خدا جانے اور کیا کیا دُکھ ہیں جو صاحبِ احساس لوگوں کو اپنے نرغے میں لئے رکھتے ہیں۔
کی غیراں کی اپنیاں کیتا ماجد کی کچھ دسئیے
اِس دل نوں رَل مِل کے سبھناں وار و واری لٹیا
آج کے انسان کا المیہ یہ ہے کہ دھرتی سے اس کا رشتہ ٹوٹتا دِکھائی دیتا ہے یوں جیسے زمین اُس کے پیروں تلے سے نکلتی جا رہی ہو۔ آسمان اُس کی پہنچ سے دور ہو اور اُسے بار بار اِس احساس کا سامنا ہوتا ہے جیسے وہ خلا میں لٹکتا جا رہا ہے۔ آج کے انسان کا یہی کرب ماجد کے اِس شعر میں ملاحظہ کیجیے۔
خورے کنی وار میں وچ خلاواں لٹکیا
امبر مینتھوں دُور سن دھرتی سی منہ موڑیا
زندگی اور موت کے درمیان یہ طرزِ اظہار اُس دشوار گزار گھاٹی کا بیان ہے جب زندگی تو اپنے اختتام کو پہنچ چکی ہوتی ہے لیکن موت کا آغاز ابھی نہیں ہو پاتا۔ زندگی اور موت کے درمیان یہ ایک گھڑی ایسی گھڑی ہے جسے صدیوں پر بھاری قرار دیا جا سکتا ہے اور اس شعر میں اِس قدر تاثیر اور گہرائی ہے کہ ہر پڑھنے والے کو اِن دو سطروں میں اپنا احساس صاف صاف دھڑکتا سنائی دیتا ہے۔
احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر ہے۔ ؎
گو مرے دل کے زخم ذاتی ہیں
اِن کی ٹیسیں تو کائناتی ہیں
ماجد کے اشعار پڑھتے ہوئے بار بار اِس صداقت کا کشف ہوتا ہے کہ ہر بڑے اور اچھّے لکھاری کی طرح وہ بھی ذات کے کرب کا اظہار ایسے کھرے انداز میں کرتا ہے کہ اس کی بات اُس کی اپنی نہیں رہتی ہماری آپ کی بات بن جاتی ہے۔ ماجد کی غزل میں کرب تو اس کی اپنی ذات کا ہے مگر اُس کی چبھن اُس کے پڑھنے والے بھی محسوس کرتے ہیں۔ ماجد کا فنی کمال یہی ہے کہ اُس نے ہر کسی کو اپنے ذاتی تجربوں میں شامل کر لیا ہے۔ اُس کے اشعار پڑھتے ہوئے بار بار یہ احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنی فنی استعداد سے اپنے پڑھنے والوں کو اپنے دل کے بہت قریب لا کھڑا کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ماجد کے قارئین اسے لمحہ بہ لمحہ اور زیادہ پیار سے پڑھتے اور اپنے قریب محسوس کرتے ہیں۔
ماجد کے کرب کا کوئی ایک رُخ نہیں ہے۔ وہ ذات اور کائنات کے روایتی دُکھ سے بھی دوچار ہے اور اپنے عہد کے نئے نویلے دُکھوں سے بھی اپنی ماں دھرتی سے لگاؤ اور اس سے وابستہ سیاسی بے چینیوں کی کڑواہٹ اُس کے شعروں میں جا بجا ملتی ہے۔ اُس کے یہ زخم بہت گہرے ہیں۔ جو اُس کا جینا محال کر دیتے ہیں مگر وہ کیا کرے اِن دُکھوں سے چھٹکارا بھی تو ممکن نہیں ہے۔ شاید اِسی لئے وہ اِس امر کا اظہار اِس طرح کرتا ہے۔
دُکھ متر ہن دوستو نھیریاں کر دے لو
دنیا نے اُس کی راہوں میں کانٹے بچھا رکھے ہیں۔ اُس کی مسافتوں کو مشکل بنا رکھا ہے اُسے کسی منزل پر نہیں پہنچنے دیتی۔ اُس کی جھولی میں جتنے پھول اور جتنی کلیاں ہیں دنیا نے وہ سارا کچھ لُوٹ لیا ہے۔ اُس کے ساتھ دُنیا کا لٹیروں جیسا سلوک اُس کی شاعری کا ایک نمایاں موضوع ہے جو اِس طرح کے شعروں کے ذریعے ہمیں ماجد کی اندرونی کیفیات سے آگاہ کرتا ہے۔
کنیاں نوں ادھ راہ اِس رکھیا کنیاں نوں اِس لٹیا
فر وی اِس بے مہر زمانے توں نئیں پلہ چھٹیا
کربِ ذات اور کربِ کائنات کے ساتھ ساتھ ماجد کے شعروں میں یاروں کے دئیے ہوئے دُکھوں کا بیان بھی ملتا ہے۔ مگر قابلِ داد امر یہ ہے کہ ماجد اپنے پیاروں کے دُکھ درد کو بھی بچھڑے ہوؤں کی نشانیاں سمجھتا ہے اور جب بھی اکیلا بیٹھتا ہے ان نشانیوں سے اپنا جی بہلاتا رہتا ہے۔
دُکھ گنیندے اُنگلاں اُتے بہہ کے کلھ مکلھے
ایہو نشانی یاراں دتی ایہو ہتھاں دے چھلے
ماجد بھی دوسرے لکھاریوں کی طرح اِسی دنیا میں جی بس رہا ہے اُس کے محسوسات دوسروں سے جداگانہ نہیں مگر اندازِ بیان سراسر اُس کا اپنا ہے۔
مرزا غالبؔ نے کہا تھا۔
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں
ماجد کے لئے بھی دُکھ درد کی یہ کڑواہٹ قابلِ برداشت ہو جاتی ہے وہ آلامِ حیات کا عادی ہو جاتا ہے۔ غم و اندوہ اُسے تلخ دُکھائی نہیں دیتے بلکہ کہیں کہیں تو ایسا ہے کہ موت کا احساس بھی اُس کے لئے خوشی کا سامان فراہم کرنے لگتا ہے۔
کل تیکن تے زہر سی دُکھاں دی کڑوان وی
اج میں سمجھاں موت وی ہے اِک جام شراب دا
ورہیاں دے نیلے امبراں تے توں اَئی ٹمکدا تارا
خوشیاں دیا انملیا سمیاں ! پل تے کول کھلو
زندگی کی مشکلات نے اُس کے حوصلے بلند کر دئیے ہیں اور اب ایسا ہے کہ اِن مشکلات پر قابو پانے کے لئے وہ جان تک کی بازی لگانے سے بھی گھبراتا نہیں ہے۔
اِس مقام پر لوگ چاہے ماجد کو نادان کہیں یا دانا، ماجد اِس مقام سے بہت آگے نکل آیا ہے اب اُسے نطشے کی طرح ان سچّی حقیقتوں کا عرفان ہو چلا ہے۔ جو کچھ بننے کے لئے انسان کو غم و آلام کا مقابلہ کرنے کا حوصلہ دلاتی ہیں۔ دُکھ درد کے حق میں یہ تصور انتہائی صحت مندانہ تصور ہے جو ذاتِ انسانی کو ترفّع سے ہمکنار کرتا ہے۔ اِسی لئے ماجد اِس طرح کے اعلانات کرنے سے بھی نہیں چُوکتا۔
میرے اندر کالک دُکھ دی میرا مکھڑا چن اشمان
میں آپوں سینہ داغیا مینوں رون مرے ارمان
اب وہ غم و الم سے گھبراتا نہیں۔ اُنہیں اپنا میت سمجھتا ہے اور کھلے بندوں اُن کا سواگت کرتا ہے۔ اُس کے یہ میت اُس کی راہوں میں جگہ جگہ چراغ اٹھائے کھڑے ہیں اور اُسے قدم قدم پر آگے بڑھنے کا سلیقہ سکھا رہے ہیں۔ ماجد کی شاعری کا یہ پہلو بے حد خوشگوار ہے اِس لئے کہ اُس نے معروف شاعر ’’وان گو‘‘ کی طرح
Suffer without complaint
کو اپنا اصولِ حیات بنا لیا ہے اب اُس پر جو ستم بھی ٹوٹے وہ اُسے خاموشی سے اپنی جان پر سہہ لیتا ہے اور شکایت کے لیے لب تک نہیں کھولتا۔
اپنے منہ سے موت نہ مانگنا۔ توڑ پھوڑ کے آج کے دَور میں ایک صحت مندانہ علامت ہے۔ یہ وہ عالی ظرفی ہے جو ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی۔
ماجد کی چاروں اور آنکھوں سے اندھی چپ اور برف جیسی سرد مہری ہے۔ پھر بھی اسے یہ چاؤ ضرور ہے کہ اُس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی اِس خاموشی کا سحر ٹوٹے اور کسی خوبصورت آواز کا چھناکا اُس کے جینے کی گھڑیوں کو آسان بنا دے اِس طرح کا مثبت طرزِ طلب اُس کے اکثر شعروں میں جھلکتا دِکھائی دیتا ہے۔
راحت و آسودگی کی تلاش اور سہل انداز سے جینے کی امنگ ماجد کو ہر حال میں کچھ نہ کچھ کرتے رہنے پر مجبور کئے رکھتی ہے وہ چاروں طرف سے منفی قوتوں کے نرغے میں ہونے کے باوجود زندہ رہنے کی راہ نکالنے کی فکر میں رہتا ہے۔
وہ دل کی اندھیر نگری کو روشن کرنے کے لئے کسی نہ کسی اہتمام میں مصروف دِکھائی دیتا ہے۔ وہ نئی نئی امنگوں اور آشاؤں کا شاعر ہے جن کا دامن وہ اپنے ہاتھ سے نکلنے نہیں دیتا اور اُس کا یہ احساس اُس کی پوری پوری غزلوں میں دمکتا دِکھائی دیتا ہے۔ وہ کہتا ہے۔
میں غالب گیت الاپدا جیہی نپی اِکو چپ
اج گُنگا وانگ پہاڑ دے میری گُھٹ کے رہ گئی جان
اُٹھ ماجد فکراں کاڑھیا اَجے جیون تیرے ہتھ
توں ایس دھرتی دا بالکا تیری چن دے دیس اڑان
’’اُٹھ ماجد فکراں کاڑھیا‘‘ ۔۔ اِس مصرعے میں کس قدر توانائی سمائی ہوئی دِکھائی دیتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے شاعر چند لفظوں میں صدیوں پر پھیلے ہوئے انسانی ارتقا کے حوالے سے ایک نئے حوصلے کی کرن نکالتا نظر آتا ہے۔ ماجد کا ایک اور شعر ہے۔
ماجد چپ دا اوڑھنا کرئیے لیر و لیر
ہسئیے اتھرو روک کے اکھیاں لئیے دھو
اِس چھوٹے سے شعر کے تیور بھی دیکھنے اور محسوس کرنے کے قابل ہیں اُس کا ایک اور شعر دیکھئے۔
ہمتاں دے راہ دس گئے لوکی ترنا ساڈا وَس
صدیاں توں پئی وگدی ماجد درداں بھری جھناں
اِس شعر میں خلا کی تسخیر جیسی انسانی کوششیں ابنائے آدم کی ہمت اور حوصلہ اور عزم و ارادہ بھلا کیا کچھ نہیں ہے۔
Psalm of life میں Long fellow کہتا ہے۔
Lives of great men all remind us
We can make our lives sublime
And departing leave behind us
Foot prints on the sands of time.
ماجد کی زبان ہماری روزمرّہ زبان کے انتہائی قریب ہے۔ وہ بیشتر شاعروں کی طرح ڈھونڈ ڈھونڈ کر پنجابی کے پُرانے لفظ اپنے شعروں میں نہیں ٹھونستا بلکہ وہی زبان اپنے استعمال میں لاتا ہے جسے ٹکسالی کہا جا سکتا ہے۔ ماجد صدّیقی کے بات کرنے کا اپنا ایک سبھاؤ ہے اُس کے لہجے میں شیرینی اور رَس ہے۔ اور زبان میں بے ساختگی۔ یوں لگتا ہے جیسے وہ کسی کو سامنے بٹھا کے ہولے ہولے اُس سے محوِ گفتگو ہو۔ مثلاً دیکھئے۔
ساڈی گل نہ ٹوک
کِیہ آکھن گے لوک
یہ وہ لہجہ ہے جس میں کوئی لاگ لپٹ نہیں شاعر پیار کی شکایت بھی سیدھے سادے انداز میں کرتا ہے۔ وہ بات میں بَل نہیں ڈالتا۔ یوں لگتا ہے جیسے تخلیقِ شعر کے وقت ماجد وہ ماجد نہیں ہوتا جو عام گفتگو کے وقت ہوتا ہے۔ تخلیق کا لمحہ اُسے اپنی گرفت میں لیتے ہی ہماری ملاقات اُس ماجد سے کرا دیتا ہے جس کے ذہن میں جو خیال جس طرح آتا ہے اُسی طرح وہ خیال ہمارے محسوسات تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ بات غیر معمولی بھی ہے مگر اسلوب کی یہ صفائی شاعر کی فکری پختگی کا بہت بڑا ثبوت بھی فراہم کرتی ہے۔
نغمگی صنفِ غزل کی روح قرار پاتے ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ غزل کی عمارت ہی موسیقی پر اُستوار کی جاتی ہے تو شاید غلط نہ ہو۔ ماجد کی غزل میں یہ خوبی بھی بدرجۂ اتم موجود ہے بلکہ اِس سے بڑھ کر ایک اور وصف یہ ہے کہ اُس کی غزلوں میں بحور و قوافی اور ردیفوں کے ساتھ ساتھ اندرونی قوافی یعنی انٹر رائمنگ ایک اور اصنافی حسن کے ساتھ دیکھنے میں آتے ہیں۔ ماجد کا یہ وصف اُس کے حسن بیان کو اور بھی دو چند کر دیتا ہے۔ دو شعر دیکھئے:
کجھ یاداں سن ہانیاں اوہ وی انت پرانیاں
دل دا بوہا کھول کے کونہ کونہ لوڑیا
کجھ تصویراں رنگلیاں کجھ حرفاں دیاں سنگلیاں
غالب مگروں ماجدا اساں وی کیہہ جوڑیا
یہی نہیں بلکہ اُس کے یہاں ایسے شعر بھی ملتے ہیں جن میں تین تین اندرونی قافیے کندھے سے کندھا ملائے دِکھائی دیتے ہیں۔ یہ قافیے نہ صرف موسیقی کو اُبھارتے ہیں بلکہ شعر کی معنوی تاثیر کو بھی اور زیادہ گہرا کر دیتے ہیں۔ بات رُک رُک کے آگے بڑھتی ہے مگر ساون کی پھوار کی طرح قاری کے فکر و وِجدان میں اُترتی چلی جاتی ہے۔
اکھیاں وچ برسات جیہی سر تے کالی رات جیہی
دل وچ اوہدی جھات جیہی نقشہ بھری دپہر دا
اکو سوہجھ خیال ہی چلدا نالوں نال سی
فکراں وچ اُبال سی قدم نئیں سی ٹھہر دا
سینے دے وچ چھیک سی ڈاہڈا مِٹھڑا سیک سی
دل نوں اوہدی ٹیک سی رنگ اَئی ہور سی شہرا دا
آج بہت ساری نئی چیزیں ہماری روزمرّہ زندگی میں در آنے والی کسی بھی تبدیلی سے (جس میں نئے نئے الفاظ، نئی نئی علامتیں اور ڈکشن تیار ہو رہے ہیں۔ )ادب کو متاثر کیے بغیر نہیں رہتیں۔ ماجد کی غزل اِس نئی ڈکشن سے بھی بے بہرہ نہیں۔ ماجد نے ایسے الفاظ بھی جو ہماری غزل کے لئے اجنبی سمجھے جاتے تھے بڑے سبھاؤ کے ساتھ استعمال کئے ہیں اور نئے دور کے لفظوں، علامتوں اور استعاروں کو بھی اپنے شعروں کا باطن اجاگر کرنے کے لئے اپنے کام میں لانے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ یہاں بھی ماجد کا کمال یہ ہے۔ کہ وہ کسی بھی اجنبی یا نئے احساس کو۔ ۔ اپنی شاعری کا حصہ بناتے ہوئے اُسے ایسی بے ساختگی سے ہمکنار کر دیتا ہے جو بے ساختگی آسانی سے ہر کسی کے اختیار میں نہیں آنے پاتی شعر ملاحظہ ہو:
سڑکاں اُتوں بھرے بھراتے مکھڑے اُڈ اُڈ لنگھدے نیں
دل وِچ پہّیے لہہ جاندے نیں پِیلیاں چٹیاں کاراں دے
یہ اور اِس طرح کے دوسرے بے شمار شعروں میں ماجد نے لفظوں سے رنگوں کا کام لے کر نہ صرف تصویریں پینٹ کی ہیں بلکہ Projective method سے Cinematography کا وہ کمال پیش کیا ہے کہ۔ قاری کی ذہنی بساط جتنی بڑی ہو گی شعر کی تصویر بھی اتنی ہی بڑی بنتی جائے گی۔
توں سَیں میرے کول یا اُنج اَئی کوئی تصویر سی
خورے کیہا فریم سی خواباں وچ اکھوڑیا
ماجد کے یہاں ایسے اشعار کثرت سے ملتے ہیں جو ہماری جیتی جاگتی زندگی کی زندہ تصویریں ہیں۔ اُس کے شعروں میں فریم ڈاکیا، اخبار، کاریں، لاریاں، پنسل’ کاپیاں اور سڑکیں وغیرہ جیسے لفظوں کا استعمال عہدِ حاضر کے بیشتر اردو اور پنجابی شاعروں کی طرح قاری کو چونکانے یا الجھانے کے لئے نہیں ہوتا۔ اِس لئے کہ وہ ناکارہ جدیدیت کا قائل نہیں۔ وہ لفظ کے استعمال کا سلیقہ جانتا ہے اور چاہے لفظ کتنا ہی اجنبی کیوں نہ ہو۔ اُس کے شعر میں پروئے جانے کے بعد وہ لفظ قاری کا پرانا میت بن جاتا ہے۔
ہر ہفتے دی شام نوں دسے منہ اتوار دا
جئیوں بن چٹھیوں ڈاکیہ ہسے پیار جتائے کے
سُکے ورقے سُٹ جاندا اے ڈاکیہ نت اخباراں دے
کدے نہ آوے جیوندے جاگدے نامے دل دیاں یاراں دے
نئے نئے لفظوں اور نئی نئی علامتوں سے آج کا شاعر اظہار و بیان کی خوبصورتی کے لئے نئی نئی ترکیبیں بھی استعمال میں لاتا ہے اور لفظوں کے نئے نئے پیکر بھی تراشتا ہے۔ ماجد صدّیقی اِس میدان میں بھی غافل دِکھائی نہیں دیتا۔ اُس کے بیشتر اشعار پیکر نما ہوتے ہیں وہ images بنانے پر پوری طرح قادر ہے۔
آئیے ماجد صدّیقی کی اِس آرٹ گیلری کی تھوڑی سی سیر آپ بھی کر لیں۔
شام پوے تے رات ہنیری دسے شوہ دریا
دل بوٹے تے چڑیاں وانگوں سدھراں شور مچان
اکھر سکدے رہ گئے تینوں دل ہویا بے تھاں
پنسل کاپی لے کے لکھیا کدے نہ تیرا ناں
لفظ ہو یا ترکیب قافیہ ہو یا ردیف۔ ہر اکائی ماجد کے یہاں پہنچ کر اُس کی شعری فضا سے پوری طرح ہم آہنگ ہو جاتی ہے۔ پنجابی غزل ابھی اُس مقام پر نہیں پہنچی جو مقام اُسے حاصل کرنا ہے مگر توقع کی جا سکتی ہے کہ اگر اُسے ماجد جیسے صاحبِ کمال شعراء میسر رہے تو پنجابی غزل بھی نئے عہد کا ایک مکمل آئینہ بن جائے گی۔ اور یہ سارا کچھ یقیناً ہو گا اِس لئے کہ اُسے ماجد جیسے شاعر میسر ہیں جی ہاں جس کے اپنے اعتماد کا عالم یہ ہے۔
کنے لوک نگاہ وچ رہئے سن رنگ بکھیر دے
کوئی کوئی ماں دا لال سی ماجد تیرے جواب دا

تبصرہ کریں