ماجد صدیقی کی تخلیقات کی گنتی شاید پچاس تک پہنچ گئی ہے۔ یہ کام اُردو، انگریزی اور پنجابی تینوں زبانوں میں پھیلا ہوا ہے۔ یہی نہیں بلکہ غزل، نظم، نثر، بچوں کا ادب اور طنز و مزاح کے میدانوں میں بھی ماجد نے خاصا کام کیا ہے۔ اُردو، پنجابی عروض میں جس قدر اوزان شعر متداول تھے ماجد نے ان سب کو برتا نئی سے نئی زمینیں جن میں چمکدار غزلیں کہی گئیں تھوڑے بہت فرق کے ساتھ ماجد کے ہاں بھی استعمال ہوئیں یوں اس کے ہاں ہمہ گیری اور پھیلاؤ اسی طرح نمایاں ہے جس طرح اس کے ہنر میں تخلیقات کی کثرت۔
ماجد نے غالب سے لے کر اب تک کی شاعری کے اچھے رنگوں سے کسب فیض کیا ہے اس کے مجموعہ ہائے غزل۔ ۔ ۔ غزل سرا۔ ۔ ۔ میں فرد فرد کے عنوان سے جو اشعار جمع کئے گئے ہیں وہ پنجابی کے ماہئے اور بولی دونوں کا تاثر لئے ہوئے ہیں یوں اس کی ہمہ داری نے پنجاب کے اس مثبت اثر کے لئے اردو ادب میں ایک دریچہ کھولنے کی ایک منفرد کوشش کی ہے۔ غزل سرا میں ماجد کے پانچ اردو شعری مجموعہ جمع ہو جاتے ہیں ’’آنگن آنگن رات‘‘ ان کے علاوہ ہے۔
ماجد کی شاعری کی نمایاں پہچان سارے فکری رویّوں کی اجتماعیت اور سارے ممکنہ میدانوں میں طبع آزمائی سے ابھرتی ہے۔ اس کے یہاں بہت سے رنگوں کے دھارے بھی جمع ہوتے ہیں اور بہت ساری علامتوں اور تشبیہوں کا ہجوم بی نظر آتا ہے۔ تشبیہات و استعارات کا یہ نظام ایسے ایسے علائم الفاظ پر بھی محیط ہے جو غزل کی صنف میں اس سے پہلے نہیں برتے گئے تھے۔ مثلاً ہرن، جال، عقاب، چڑیا، تبر، ابروباد، سزا، عجز، بگولے، لڈو، سیڑھیاں، سانپ، کوا، کتاب صرف چند ایک مثالیں ہیں۔ اس کے پاس ایک بہت وسیع زندگی کا پھیلاؤ ہے سو ایک انتہائی وسیع زندگی کا منظر نامہ اس کے شجر کی دہلیز پر کھلتا ہے۔ اثر لکھنوی فراق اور احسان دانش کے بعد لوگوں نے لمبی غزلیں کہنا ترک ہی کر دیا تھا۔ ماجد نے بہت طویل غزلیں بھی کہی ہیں۔ جو ناصر کاظمی کی طرح چھوٹی اور رواں بحروں میں ہیں اور جن سے اس نے اپنے دو مجموعے آغاز کئے ہیں۔ ماجد نے بہت کچھ کر جانے کی سعی کی ہے لہذا اس کی شاعری کا پھیلاؤ کچھ ایسا ہے کہ ہر قسم کی بات ہر طرح کے احساس اور ہر سطح کے تجربے کو اس نے داخل غزل کیا ہے۔
سوال ہے تو یہ کہ اتنے بہت سے تجارب اور اتنی بہت سے تفاصیل کے باوجود ماجد اپنے فن کی وہ داد کیوں نہ پا سکا جو اتنا لکھنے والے کا فطری حق بنتی ہے۔
ہر زمانے کے شاعر نے اپنے لئے نیا لحن چنا اور اپنے لئے علیحدہ راہ ترتیب دینا چاہی سو میر و غالب اور اقبال سے متاثر ہوتے ہوئے بھی لوگوں نے ان اکابر سے ہٹ کر اظہار کے قرینے اختیار کئے اس لئے کہ ان کی تہہ میں جداگانہ شناخت بنانے کا یہی احساس موجود تھا۔ اسی باعث آج ادب میں صرف صنف غزل ہی کو لے لیں تو اس میں اتنی رنگا رنگی اور اتنا تنوع دکھائی دیتا ہے کہ گلشن در گلشن روش در روش رنگ و بو کی جدولیں چشم و گوش کے در وا کئے استقبال کے لئے موجود ملتی ہیں۔ ہر عہد نے اپنے اپنے اظہار کے خزینے خود ہی بنائے مگر جدید عہد نے تو اپنے استعارے بھی خود ہی تراشے۔ لہذا پچھلے ربع صدی کے عرصے میں غزل کی زبان بہت کچھ بدلی ہے مگر یہ سارا کچھ ہونے کے باوجود روایت ایک نظر نہ آنے والے تسلسل کی شکل میں سب تازہ گوؤں کے ہاں نبھی ہے۔ مگر ماجد اس روایت سے منہ موڑتا دکھائی دیتا ہے۔ نئے الفاظ غزل میں مدتوں سے آہستہ آہستہ داخل ہوتے آ رہے ہیں مگر ماجد کے ہاں اجنبی الفاظ کا ایک ریلا ملتا ہے اسی طرح اس کی غزل میں انگریزی الفاظ کا دخول بھی ہے جس کی روش اس کے پچھلے مجموعے ’’آغاز‘‘ کے ساتھ ہی آغاز ہو گئی ہے۔ اس کی غزلوں میں بعض مقامات پر شہروں کے نام بھی ملتے ہیں اور یہ سارا کچھ رفتہ رفتہ ایک اجنبی اظہار کی صورت اختیار کر گیا ہے سو ماجد فطرتاً کلاسیکی اور روایتی ہونے کے باوجود روایت مخالف رویّہ اختیار کر لیتا ہے۔
فکری حوالے سے ماجد کے لئے کئی مسائل تھے۔ اوّل یہ کہ اس نے خیر و صداقت اور حسن کے مسلمہ معیاروں کے متوازی اپنے ہی معیار قائم کرنے کی کوشش کی ہے خیر پر اس کا یقین انسانو ں کی بدکرداری شقاوت اور جبر کے ماحول نے متزلزل کر دیا سو وہ دنیا میں خیر کی حکمرانی کا قائل ہی نہیں رہا صداقت اس کے خیال میں اس جہان سے باہر کا عنصر ہے ورنہ صداقت کے دعووں میں اتنا ٹکراؤ نہ ہوتا حسن اس کے یہاں الوہیت تک کے سفر سے زیادہ جسم ہی کے پیکر محسوس میں رہتا ہے لہذا منطقی طور پر مرد و زن کے لئے ایک دوسرے کا جسم ہی حسن ہے اور یہیں ماجد پر جنس کا باب وا ہوتا ہے اور ’’تمازتیں ‘‘ نام کی کتاب ترتیب پاتی ہے۔ اچھائی اور سچائی کے ناتے ماں کا تصور اس کے ہاں بالکل جداگانہ معنی پاتا ہے اور حسن کے ناتے جنس اس کے یہاں جداگانہ صداقت بنتی ہے۔
ماجد کی اُردو غزل کے عنوانات و موضوعات میں شکایت زمانہ اچھائی پر یقین کی بجائے اس دنیا میں جاری شر کے احساس سے پھوٹتی ہے۔
صدق جذبوں میں بھی پہلا سا نہیں ہے ماجد
اب نہیں خضر بھی وہ، راہ دکھانے والے
عنفوان شباب کی محرومیاں، محبت میں نارسائی ، جنس اور باب حسن کی کشور تجربات غم ،طاقتور کے جبر ، مطلق کا خوف اور اندیشہ ء فردا اور کمزور کے استحصال پر مبنی نظامِ جہاں پر طنز بڑے نمایاں طور پر سامنے آتے ہیں۔ ماجد کی شاعری کا مزاج ایک ذاتی سوانح کا رنگ لئے ہوئے ہے سو اس کی غزل مذکورہ بالا موضوعات پر بات کرتے ہوئے بھی تخصیص مقامیت اور ذاتی حوالوں کے اظہار کی تصاویر ہی سامنے لاتی ہے کم از کم ذاتی احوال ہر جگہ بنیادی تصوری کی صورت میں سامنے آتے ہیں۔
مرے خدا اس جہاں میں میرے لئے ہی قحط الرجال کیوں ہے
مری زباں کو سمجھنے والا نہ کوئی رمز آشنا ہو جیسے
بہ عہد نو ہوا سارا ہی کاذب
بزرگوں نے ہمیں جو کچھ دیا ہے
خالق اپنی خلق سے کھنچ کر
عرش پہ جانے کیا کرتا ہے
بہلانے مجھ بچے کو وہ
جنت کا لالچ دیتا ہے
اب تک اس تک جانے والا
گستاخی ہی کا رستا ہے
خدا کے بارے میں یہ تصور بھی موجود ہے کہ:
جتنا اپنے ساتھ ہے کوئی
اتنا اس کے ساتھ خدا ہے
کاش ماجد اس تصور کو آگے بڑھا کر آج تک بھی لے آتا۔
ملیں اجداد سے رسمیں ہی ایسی
شکنجہ ہر طرف جیسے کسا ہے
ایک خدا سے ہٹ کر بھی کچھ قادر راہ میں پڑتے ہیں
جن کی اونچی دہلیزوں پر اس سر کو خم ہونا ہے
ہے منانا اسی خدا کو ہمیں
جس کو آدم پہ اعتبار نہ تھا
زمیں پر کون کیسے جی رہا ہے
خدا بھی دور ہی سے دیکھتا ہے
گریزاں ہیں نجانے کیوں ہمیں سے
زمانہ بھی مقدر بھی خدا بھی
ماجد کی غزل کا روایت دوست لہجہ ان تیکھے اور ماضی بیزار تجربوں سے ذرا بھی لگا نہیں کھاتا۔ اپنی پوری روایت سے بے اطمینانی کے باوجود ماضی سے اسے جو کرنیں نصیب ہوتی ہیں ان کرنوں میں ذات نبیؐ سے تعلق بھی اہم ہے (اس حوالے سے گو غزل میں کوئی اشارہ یا استعارہ نہیں آیا تاہم اس موضوع پر ’’سرونور‘‘ میں اس نے قلم ضرور اٹھا ہے) حسینؓ اور ابو ذر غفاریؓ سے تعلق خاطر اس کی غزل کو اپنی تہذیبی روایت کے دو اہم ترین گوشوں تک بھی لے جاتا ہے۔ ماں کے علاوہ ان اہم اسماء سے تعلق اسے خیر کے روایتی تصور کے قائم کرنے میں بہرحال مدد فراہم کرتا ہے۔ سو کمزور اور مسکین کی جانبداری اس کی غزل میں واشگاف لفظوں میں بولتی دکھائی دیتی ہے اور یوں ماجد انقلابی ہوتے ہوئے بھی حسینی اور ابو ذری ہو جاتا ہے اس کے یہاں معاشرے اور سیاست کے ناتے بہت کچھ کہنے کے باوجود معاشرتی تبدیلی کے احساس یا سیاسی شعور کی موجودگی آج مزاحمت پسندوں کو دکھائی نہیں دے رہی جس کی وجہ اس کے لہجے کی دھیرج اور آواز کی نرمی بھی ہے اور مختلف النوع رویّوں کا اجتماع بھی۔ ورنہ اس کے ایسے اشعا ر بھلا کہاں نظر انداز ہو سکتے تھے۔
مرضی کا برتاؤ اندر والوں سے
باہر والوں سے ہے جنگ اصولوں کی
کاش اس شاعر کے ہاں ماضی سے ملنے والے شکست ذات کے تجارب سے ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا مداوا ہوا ہوتا پھر شاید ماجد یوں نہ کہتا۔
بتلائے کہ سر کون سی دہلیز پہ خم ہو
کر دے یہی مشکل کوئی آسان ہماری
شکست ذات اور درد و غم کے یہی تجربے اس کے لئے اقبال کو سمجھنا مشکل کرتے اور میر و غالب تک اسے بہ سہولت لے جاتے ہیں یہیں سے اس کی شعری جمالیات ترتیب پاتی ہے شاید اسی لئے وہ کہتا ہے کہ:
ہم تلک پہنچی ہے جو ماجد یہی میراث تھی
فکر غالب کی اور انداز تکلم میر کا
اور اسی رویّے سے ماجد توازن کی تلاش میں گو مگو کے عالم تک بھی پہنچتا ہے۔
جاتا میں جان سے کہ خیال اس کا چھوڑتا
ماجد یہی تو فیصلہ کرنا محال تھا
اور اسی گو مگو کے باعث خوف کی کیفیت یہ ہے کہ:
دیوار کے کانوں سے ڈرا لگتا ہے شاید
ماجد کو کئی دن سے غزل خواں نہیں دیکھا
اس کے خوف اور گو مگو کے اندر بھی نیز اس کے ہاں جبر سے شدید نفرت کے پس پردہ بھی صرف شاعر ہی کے مسائل نہیں ہیں اس انسان کے مسائل بھی ہیں۔ جسے کسب معاش کی سزا بھی ہے۔
میرے بھی بچے ہیں تمہارے جیسے ہی
ریڑھی والا نت یہ ہانک لگاتا تھا
ماجد اپنے بارے میں بھی مختلف وقتوں میں مختلف طرح کے احساسات سے دو چار رہتا ہے۔ وہ ماجد جو کہتا ہے کہ:
جس کو تم معمولی شخص سمجھتے ہو
وہ ماجد ہے اگلا عہد اسی کا ہے
وہ یہ کہنے پر بھی مجبور ہے کہ:
بہت سے نقش ہیں تشنہ ابھی مصور حسن
یہ جگ ہنسے گا ابھی سامنے نہ لاؤ مجھے
اور یہ بھی کہ:
ادھر ہیں لوگ نگاہوں میں جن کی راکھ ہوں میں
ادھر ہو تم کہ بتاتے ہو اک الاؤ مجھے
عالم یہ ہے کہ ایک طرف تو مصنف دس دس پندرہ پندرہ دنوں میں پوری کتاب لکھ کر اسے مطبع کی راہ تک دکھا دیتا ہے تحریروں کے انبار لگا دیتا ہے مگر دوسری طرف یوں بھی محسوس کرتا ہے۔
ماجد ہو اس سے شکوہ بہ لب تم جو ہر نفس
سوچو تو زندگی کو ابھی تم نے کیا دیا
شعر کہنے کے لئے کسی شاعر کو باوضو یا باخدا ہونے کی ضرورت نہیں پڑتی شعر تو بے خدا لوگ بھی کہتے ہیں اور بڑی خوبی سے کہتے ہیں مگر جب شاعر کے ضمیر و وجدان میں تو (ماجد کی طرح) خدا موجود ہو مگر اس کا تصور خیر و حوبی اس سے زیادہ واضح تعلق سامنے نہ لاتا تو ٹوٹ پھوٹ کا اندیشہ اور بھی زیادہ نمایاں ہو جاتا ہے۔ ماجد اس ساری ٹوٹ پھوٹ کے باوصف اگر ثابت قدم ہے تو شاید اس لئے کہ خدا سے تمام تر شکووں کے باوجود اس کے یہاں اس طرح کے اشعار بھی بہرحال ملتے ہیں۔
مہک مہک ترا اک رنگ گل بہ گل تری لے
تجھے لکھوں بھی تو کیا کیسے گنگناؤں تجھے
ماجد کے تصور حسن کی رسائی ’’وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‘‘ تک زیادہ جلی صورت میں دکھائی دیتی ہے۔ اس نے حسن نسوانی کو بہت قریب سے دیکھنے اور دکھانے کا جتن کیا ہے۔ ’’روپ ‘‘ کی رباعیاں ہوں ’’مثنوی زہر عشق‘‘ ہو یا حسرت کی غزل۔ کہیں بھی جنس کے محاکات اتنی وارفتگی سے بیان نہیں ہوئے جس رسان سے ماجد نے جنس کا ذکر کیا ہے۔ سو وہ کہتا ہے۔
بدن تھا اُس کا کہ اِک سلطنت بہم تھی ہمیں
مزے تھے اور ہی جو اُس جلال و جاہ میں تھے
اسی طرح کے اور محسوسات اس کے یہاں اس طرح مرتب ہوتے ہیں۔
ہر اک نظر پہ عیاں ہو بقدرِ حَظ طلبی
تمہیں یہ قید سی کاہے کو پیرہن کی ہے
بھلا سکے نہ وہ پل اس کے قرب کا ماجد
جب اپنا ہاتھ اندھیرے میں پرنیاں پر تھا
لطفِ باہم سے ہوئے وصل میں سرشار بہت
جرعۂ قرب سے اُس کے گئے آزار بہت
بدن اس شوخ کا اک بھید سا ہے
مگر یہ بھید مجھ پر کھل چکا ہے
’’تمازتیں ‘‘ میں سے چند اشعار خصوصی طور پر قابل مطالعہ ہیں۔
ہاں وہی دن کہ مرے حکم میں تھا تیرا بدن
جانے کب لوٹ کے آئیں وہ زمانے میرے
یہ تنہا روی ترک کر دو کہ اس میں فقط ٹھوکریں ہیں
مکرر جسے جسم چاہے کوئی ضرب ایسی بھی کھاؤ
لباس ابر بھی اترا مہ بدن سے تیرے
حجاب جو بھی تھے حائل اٹھا دیئے تو نے
نظر میں تازگی عریانی ء جمال کی تھی
لہو میں تلخی ء شیریں دم وصال کی تھی
طلوع میں بھی مرے شوخیاں تو تھیں لیکن
مزہ تھا اس میں جو ساعت مرے زوال کی تھی
وگرنہ تجھ سا طرح دار مانتا کب تھا
جو اس میں تھی تو کرامت مرے سوال کی تھی
کسی افق کو تو ہم تم بھی دیں جنم آخر
یہ آسمان و زمیں بھی کسی جگہ تو ملیں
کچھ اسے بھی ناز محبوبی کا نشہ ہے بہت
کچھ طبیعت ان دنوں اپنی بھی آمادہ نہیں
یہ تعلق جو طبیعت کی آمادگی پر منحصر ہے صرف اور صرف بدن ہی کا سفر ہے۔
کچھ ایسی چاہ ہمیں ہی نہیں ہے بھنوروں سی
بدن ملا ہے تمہیں بھی تو گلشنوں جیسا
سو شاعر کے ماضی کی یادوں میں آج کے توانا سہاروں میں جسم کے لطف کی لذیذ یادیں جا بہ جا ملتی ہیں۔
خوشبو میں غوطہ زن تھے نہائے تھے نور میں
کس درجہ ہم تھے غرق بدن کے سرور میں
وہ کہ جس کی دید کا ہے ذائقہ کچھ اور ہی
شہد کا چھتا نظر آئی لباس تنگ میں
’’تمازتیں ‘‘ کی یہ شاعری چند دنوں میں پوری کتاب بنا گئی مگر جسم اور لذتِ جسم والا رویّہ شاعر کے ہاں ’’ہوا کا تخت‘‘ ’’سخناب‘‘ ’’غزل سرا‘‘اور ’’آغاز‘‘ غرض سب غزلیہ مجموعوں میں برابر موجود ہے۔ اس لئے کہ یہ رویّہ شاعر کے تصور جمال سے اوّل سے آخر تک مربوط ہے۔
زبان اور اظہار کی اس ساری تنہا روی کے باوصف اور اعتماد کے اس سارے حوالوں کے بغیر جو روایت کا تعلق عطا کرتا ہے ماجد کا تخلیقی عمل نہ صرف جاری ہے بلکہ ماجد کے اس قدرے نمایاں پہلو سے ہٹ کر غزل سرا کا قاری ایک اور ہی طرح کے جہاں معنی کھو کر رہ جاتا ہے۔ اس لئے کہ کون ہے جو ’’غزل سرا‘‘ کے اس طرح کے بے شمار اشعار سے صرف نظر کر سکتا ہے۔
پوچھا یہ کس نے حال مری بود و باش کا
چھینٹا دیا یہ کس نے دہکتے تنور میں
ہوئی ہے دم بخود یوں خلق جیسے
کوئی لاٹو زمیں پر سو گیا ہے
ڈوب کے مرنے والوں کی فہرست لئے
تختہ سا اک جھیل کنارے آن لگا
آجر سوچے دیکھ کے تن مزدوروں کے
کتنا سونا نکلے گا ان کانوں سے
جو بھی قیمت ہے کسی کی وہ جبیں پر لکھ لے
یہ منادی بھی سر شہر کرائی جائے
کسی عمارت پہ لوح کم مائگاں نہ لٹکے
بڑے بڑوں ہی کے نام یہ انتساب دیکھا
دم بہ خود اتنا بھی ہو ماجد نہ جلتی دھوپ سے
آسماں پر دیکھ وہ بدلی سے اک چھانے لگی

تبصرہ کریں