اب تو ماجد صدّیقی ادبی رسائل میں کم کم نظر آتے ہیں ۔ لیکن کئی عشرے پہلے وہ ملک کے اکثر و بیشتر موقر جریدوں میں چھپا کرتے تھے۔ میں انہی دنوں سے ان کی شاعری ایک تواتر سے پڑھ رہا ہوں ۔ وہ اپنی طبع کے موسمِ باراں میں شعر کہتے ہیں ۔ لیکن یہ زود گوئی ان کے معیارِ فن پر کبھی اثرانداز نہیں ہوئی۔ ایک تو ان کا تخلیقی عمل جاری و ساری ہے۔ دوسرے ان کے ہاں نقدِ خیال’ جذبے کی سلامتی اور قدرتِ فن میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔
شاید یہ فیضانِ قدرت ہو کہ ہمارے ہاں فکر و وجدان کی زمین میں شاعری بڑی بہتات میں نمو پاتی ہے۔ ایسے شاعروں کی ہماری تاریخ میں کمی نہیں جو گنجان ثمر ور اور ہمیشہ بہار میں رہے ہیں ۔ مجھے معاً خیال آیا کہ عصرِ موجود میں بھی چند نوجوان شعرا ایسے پُر گو ہیں کہ تا حال ان کے کلام کے مجموعے تعداد میں ماجد صدّیقی کے مجموعوں سے کہیں زیادہ ہیں ۔ لیکن ان کی سطحِ شاعری ایسی ہے کہ ان کا ماجد صدّیقی سے موازنہ کرنا بجائے خود صریحاً ناانصافی ہوگی۔ لیکن عجیب ستم ظریفی ہے کہ ان شعرا کو تو فراخدلانہ پذیرائی مل رہی ہے۔ اور ایک جینوئین شاعر کے سلسلے میں ادب نے چپ سادھ رکھی ہے۔ ہمارے بعض سینیئر شاعر ایسے بھی ہیں جو کثرت سے لکھ رہے ہیں ۔ ان کا معیارِ ہنر بھی قابلِ قدر ہے لیکن ان کی جیبِ خیال عصری زندگی کے مسائل سے خالی ہے۔ ان کی غزل ہماری اجتماعی زندگی کے بگاڑ پر سوال اٹھانے سے کتراتی ہے۔ ان کا زورِ تخلیق بڑے وفور میں ہے۔ لیکن گردوپیش کی محرومیوں اور ناہمواریوں سے بالعموم غفلت میں رہتا ہے۔ ابھی ہم سے یہ ہی طے نہیں ہوا کہ ہمارا ادب کب تک اپنا الگ میلہ لگا کراس ہر لحظہ بدلتی دنیا سے کٹا رہے گا۔ اب تو دنیا ایسی جگہ بنتی جا رہی ہے۔ جہاں سمفنیاں راگوں میں ضم ہونے لگی ہیں ۔ سمندروں پار علاقے کمپیوٹر میں سمٹ کر ہماری بیٹھکوں میں آ بسے ہیں ۔ نئی نسل کا لڑکا چار پانچ زبانوں کے ملغوبے میں ای میل کرتا ہے۔ کیا ہم بہت پیچھے تو نہیں رہ گئے۔ اگر ہمیں اپنے موجود میں رہنا ہے۔ تو ہم خارجی دنیا کی حقیقتوں سے تا دیر چشم پوشی نہیں کر سکتے۔ ماجد صدّیقی کی تقصیر یہ ہے کہ اپنے گردوپیش کی بوالعجبیوں سے کمپرومائیز نہیں کر سکتا۔ نتیجتاً اسے اپنے وقت کے قاضیٔ ادب کی حمایت حاصل نہیں ۔ ’دل دل کرب کمان’ ماجد صدّیقی کی تازہ تخلیقات کا مجموعہ ہے۔ یہ کتاب پڑھ کر مجھے ماجد صدّیقی کی غزلوں میں ایک بڑھی ہوئی تلخی کا احساس ہوا۔
کچھ قطعِ رگِ جان سے’ کچھ قلقلِ خوں سے
بجتی ہیں محلاّت میں شہنائیاں کیا کیا
خود نام پہ دھبّے ہیں جو’ ہاں نام پہ اُن کے
ہوتی ہیں یہاں انجمن آرائیاں کیا کیا
فضائے تخت ثمر بار دیکھ کر ماجد
جو روگ شہر کو تھے شہریار بھول گئے
حقائق سے ڈرانے کو’ طلسمِ شر دکھانے کو
سرِ اخبار ماجد نقش ہیں چنگاریاں کیا کیا
ظاہر ہے کہ اپنے آدرش میں پرورش پانے والا شاعر اپنے خوابوں کی اس تسلسل سے پامالی کا منظر دیکھے گا۔ تو اس میں تلخی تو لازماً پیدا ہوگی۔ ایسی تلخی کا برملا اظہار بہرطور اپنے سچ کے ساتھ کمٹ منٹ سے بڑھ کربڑی جرأت کی بات ہے۔ کیونکہ یہ بات ادب کی نگرانی پر مامور آنکھ کی مرضی کے خلاف ہے اور شاعر کے لیے مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ کیا ان غزلوں میں رواں تلخی زہر خند میں تبدیل کی جا سکتی تھی۔ اس کا دارومدار تو شاعر کی خود احتسابی پر ہوتا ہے۔ اور اس پر بھی ہوتا ہے کہ وہ اظہار فن میں کس نقطہء نظر کو صحیح سمجھتا ہے۔ لیکن ’دل دل کرب کمان’ میں ایسے اشعار کی تعداد بھی کم نہیں ۔
سامنے اس یار کے بھی اور سر دربار بھی
ایک یہ دل تھا جسے ہر بار خوں کرنا پڑا
ہم کہ تھے اہلِ صفا یہ راز کس پر کھولتے
قافلے کا ساتھ آخر ترک کیوں کرنا پڑا
خم نہ ہو پایا تو سر ہم نے قلم کروا دیا
وُوں نہ کچھ ماجد ہوا ہم سے تو یوں کرنا پڑا
ذرا اس آخری شعر میں کہی ہوئی بالواسطہ بات پر غور کیجیے اور شاعر کو داد دیجیے۔ ماجد صدّیقی کی غزلوں کا عمومی رویّہ ترقی پسندانہ ہے۔ لیکن ان کا شعری رویّہ اور اسلوب اس ترقی پسندی سے ہٹ کر ہے جس پر ماضی میں نعرہ بازی کا الزام لگایا گیا۔ ماجد صدّیقی اس لحاظ سے ترقی پسند ہیں کہ وہ اپنی خارجی صورتِ حالات سے کبھی اغماض نہیں برتتے۔ نہ ہی عام عوام کی حمایت سے دست کش ہوتے ہیں ۔ ان کے ہاں ہمارے دانشور طبقے میں عام طور پر پائی جانے والی منافقت نظر نہیں آتی۔ فنی نقطۂ نظر سے ماجد صدّیقی نے کثرتِ شعر گوئی کو اپنی ریاضت کا حصہ بنایا ہے۔ اور غزل و نظم دونوں کو اردو روایت کے مطلوبہ فنی محاسن سے مزّین کیا ہے۔ وہ بڑی سہولت سے شعر کہتے ہیں ۔ یہ ضرور ہے کہ وہ بدلتے ہوئے ادبی رجحانات پر زیادہ توجّہ نہیں دیتے۔ اس لیے ممکن ہے کہ ان کی طرزِ اظہار نئے قاری کی توقع سے ذرا مختلف ہوتی ہو۔ ان کی شاعری میں گوناگوں اور ہمہ رنگ مضامین کی کوئی کمی نہیں ۔
’دل دل کرب کمان’ کے بالخصوص آخری حصے کی نظمیں ماجد صدّیقی کی شخصیت کے ایک اور پہلو کو اجاگر کرتی ہیں ۔ یہ نظمیں مجھے شاعر کا نوشتۂ وفا لگتی ہیں ۔ دوستوں’ دوستوں کے دوستوں’ بعض قومی اور ادبی شخصیتوں اور خود اپنے گھرانے کے بارے میں اتنا رچاؤ رکھنے والی نظمیں انسانی رشتوں کے احترام اور ذاتی تعلق میں پاسِ وفا کے عطر میں مہکی ہوئی ہیں ۔ یہ نظمیں شاعر کی کشادہ دلی اور دوسروں کے لیے محبّت کی دلالت کرتی ہیں ۔
ماجد صدّیقی ایک محبِ وطن’ شاعر ی کے ساتھ مکمل طور پر کومیٹڈ اور جینوئین شاعر ہیں ۔ وہ اپنی زمین اور ثقافت کے ساتھ اس درجہ جڑے ہوئے ہیں ۔ کہ ان کی غزلوں اور نظموں سے ونہار اور پوٹھوہار کی مٹی کی کی سوندھ اٹھتی ہے۔ وہ ان ایک پرت کے شاعروں سے کہیں آگے ہیں جنہیں آج کے دور میں پذیرائی ملی۔ مجھے یقین ہے کہ آنے والے دورِ جمہوریت میں ماجد صدّیقی کی شاعری ایک نئی توجّہ اور مطالعے سے فیض یاب ہوگی اور انہیں وہ مقام ضرور ملے گا جس سے وہ تا حال محروم ہیں ۔
آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں