پروفیسر ماجد صدیقی کی 4تصانیف (سروِ نور، سچ سہاگ، اُچیچ  اور تمازتیں ) حال ہی میں منظر عام پر آئی ہیں۔ سرو نور نعت و منقبت کا مجموعہ ہے۔ ’’تمازتیں ‘‘ ان کی تازہ اردو غزلیات کا خرمن ہے اور سچ سہاگ اور اُچیچ  ماجد کے حسین و متین پنجابی شعری مجموعے ہیں۔ اس حساب سے اب تک ان کی گیارہ تصانیف (اردو پنجابی) منظر عام پر آ چکی ہیں بلکہ اگر ان کی ایک کتاب کو جس کا نام۔ ۔ ۔ ’’چار کتابیں ‘‘ ہے۔ اس کے نام کے مطابق اعداد اور نمبر دیئے جائیں تو ماجد صدیقی کی شائع شدہ تصانیف کی تعداد پندرہ ہو جاتی ہے اور ترجمے کی پانچ کتابیں ان پر مستزاد ہیں گویا چالیس سال کی عمر میں ماجد صدیقی بیس شعری و نثری مجموعوں کے منصف ہو چکے ہیں۔ مصنف ہونا بجائے خود ایک سعادت ہے لیکن ’’تمازتیں ‘‘ کا مصنف ہونا اور ہی بات ہے چند اشعار آپ بھی ملاحظہ فرمائیے۔

ہے جسم سے جسم کا سخن کیا

یہ بزم کبھی سجا کے دیکھو

ہالہ ہے کہ اس کا ہے گریباں

مطلع ہے کہ اس کی آستیں ہے

نظر میں تازگی عریانی جمال کی تھی

لہو میں تلخئی شیریں دم وصال کی تھی

طلوع میں بھی مرے شوخیاں تو تھیں لیکن

مزہ تھا اس میں جو ساعت مرے زوال کی تھی

جب بھی دیکھوں یہ فلک ابر ہٹا کر دیکھوں

میں بدن کا ترے کھلتا ہوا منظر دیکھوں

اوج کے لمس سے پہنچوں بہ سرچشمہ ء لطف

پر جو ایدھر سے اتر پاؤں تو اودھر دیکھوں

اپنے بدن کے لمس کی تبلیغ دیکھنا

ہم سحر آؤری کے پرستار ہو گئے

ہر لطف ہے اس میں ہر مزہ ہے

ماجد کی غزل ہے کیوں نہ گاؤں

کرکٹ کے میدان میں ماجد خان اور اب ادب کے میدان میں پروفیسر ماجد صدیقی دھڑا دھڑ ’’رنزیں ‘‘ بنا رہے ہیں اور زور صرف ’’دھڑا دھڑ‘ پر ہی نہیں۔ دونوں کی کشش ان کے اسٹائل میں مضمر ہے۔ جس طرح ماجد خان۔ ’’رنزیں ‘‘ بھی بہت بناتے ہیں اور کھیلتے بھی ستھرا ہیں اسی طرح ماجد صدیقی صرف بہت ہی نہیں بلکہ بہت اچھا بھی لکھتے ہیں۔ اور واقعہ یہ ہے کہ ان جیسا بہت لکھنے والا اور بہت اچھا لکھنے والا۔ ۔ ۔ بہت کم نظر آئے گا کہ نہ تخلیق کا اتنا بڑا الاؤ ہر شخص کو دیعت ہوتا ہے جو فطرت نے ماجد کو بخشا ہے اور نہ ہر شخص۔ ۔ ۔ ماجد کی طرح ادب کے لئے زندگی سے جلاوطن ہونے پر آمادہ ہوتا ہے۔ اگر میں ماجد کے بچوں سے ملا نہ ہوتا تو میں اس کو ہرگز شادی شدہ تک تسلیم نہ کرتا۔ میں نہیں سمجھتا کہ وہ پڑھانے، پڑھنے اور لکھنے اور اپنے لکھے ہئے کو چھپوانے کے علاوہ کوئی اور کام کس وقت کرتا ہے۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا ہے۔ گیسوئے سخن کی آرائش کے سوا اس نے زندگی کی ہر آرائش اپنے اوپر حرام کر رکھی ہے۔ شعر و سخن کے گیسو سنوارنے میں وہ اس قدر منہمک رہتا ہے کہ خود اس کے اپنے گیسو طویل ہونے کے ساتھ ساتھ علیل بھی ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ ماجد کا طرۂ امیاز صرف محنت اور لگن ہی نہیں ہے۔ وہ ذہانت کی چاندنی کا کھلیان بھی ہے اس کی خوبصورت کتابیں جہاں کتابوں کے شیلف کو دلہن بنا دیتی ہیں وہاں نہاں خانئہ دل کو بھی روشنی بخشتی ہیں۔ وہ اپنے قلم کے ذریعے تاریکیوں کے خلاف جہاد میں مصروف ہے اور جہاں جہاں ماجد صدیقی کا مورچہ قائم ہے اہل نظر وہاں وہاں سے تاریکی کو پسپا ہوتا دیکھ رہے ہیں اور یہ قابل رشک مقام کم اہل قلم کو نصیب ہوتا ہے۔