جداگانہ ذائقے کی حامل  اردو غزل

 ڈاکٹر توصیف تبسم

شاعری ایک سماجی عمل ہے ہر شاعر اپنی شاعری کے لئے خام مواد گرد و پیش ہی سے حاصل کرتا ہے نظر کے سامنے پھیلے ہوئے مناظر کی سختی جب شاعر کی شخصیت میں ڈھل جاتی ہے تو عکس اصل سے بھی زیادہ خوب صورت محسوس ہونے لگتا ہے اور ماجد صدیقی کی غزل اپنے وسیع تر مفہوم میں اسی طرح کا ایک سماجی عمل ہے۔

جیسے ہر شاعر کا شعر ہوتا ہے مگر وہ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے سماجی شعور ماجد کے شعروں میں اس درجہ کار فرما نظر آتا ہے کہ ہم اسے اس کی غزل کا ایک ممتاز رجحان قرار دے سکتے ہیں ماجد صدیقی نے صنف غزل ہی کو ذہنی و جذباتی اکتشافات کا وسیلہ بنایا ہے غزل دراصل ایک گریباں گیر صنف سخن ہے جو اس وقت خوب پنپتی ہے جب معاشرہ کسی بحران سے دوچار ہو غزل کی پوری تاریخ اس امر کی شاہد ہے کہ معاشرے میں ٹھہراؤ اور سکون کی کیفیت جب بھی پیدا ہوئی غزل کا داخلی سوز بجھ کے رہ گیا اور وہ زیادہ سے زیادہ بازی گروں اور کرتب دکھانے والوں کے ہاتھ میں ایک کھلونا بن کے رہ گئی مگر ماجد صدیقی کی غزل میں یہ سماجی شعور محض وطن کے سیاسی منظر نامے تک محدود نہیں بلکہ اپنے وسیع تر تناظر میں پوری زندگی پر چھایا ہوا دکھائی دیتا ہے ماجد کی غزل کا اپنا ایک جداگانہ ذائقہ ہے غزل کے ایمائی اسلوب کے ساتھ ساتھ خارجی حقائق کے بیان اور شاعر کے لہجے کی گداختگی ایسے عناصر ہیں جنہوں نے اس کی غزل کی خارجیت اور داخلیت کی خوشگوار آمیزش کے پہلو بہ پہلو غزل نظم اور گیت تینوں اصناف شاعری کو ایک وحدت بنا دیا ہے ماجد صدیقی کے قدم افادہ کی زمین پر جمے ہوئے ہیں شعر اس کی بوطیقا میں محض تفریح کا ذریعہ نہیں افلاطون کے سامنے اگر ایسی شاعری ہوتی تو اپنی مثالی ریاست سے شاعروں کو جلا وطن کرنے کا حکم وہ کبھی نہ دیتا۔