بسیار گو عمیق فکر شاعر ماجد صدیقی ہمارے اردو شاعری کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہے جو رواں صدی کی ساٹھ کی دہائی کے ابتدائی سالوں میں ابدی افق پر طلوع ہوئی تھی۔ ساٹھ کی دہائی ہمارے اردو ادب میں بہت اہمیت کی حامل ہے۔ سیاسی طور پر جمہوریت کی قدروں کو پائمال کر کے آمریت کا دیو استبداد ہمارے سروں پر مسلط ہو گیا تھا استحصالی قوتوں نے عوام کے مفاد کو مجروح کر دیا تھا۔ پابندیٔ اظہار نے لوگوں کی زبانوں پر تالے لگا دیئے تھے عدل و انصاف کا خون ہو رہا تھا۔ ان حالات میں نیا افسانہ، نئے علامتی رنگ میں وقوع پذیر ہوا ناراض نوجوانوں کا غلغلہ عام ہوا۔ ماجد صدیقی نے انہی واقعات کے منظر نامے میں اپنی شاعری کا چراغ روشن کیا جو تا حال فروزاں ہے اور جس کی منور لَو ہمیں زندگی کی تاریک راہوں میں منزل نمائی کا کام دے رہی ہے۔ ماجد صدیقی نے ان تمام حقائق کو ایک باشعور حساس مدبر ذی ہوش فرد کی حیثیت سے بنظرِ غائر دیکھا اور محسوس کیا۔ وہ نہ تو ان حالات و واقعات سے دل برداشتہ ہو کر آنسو بہانے میں مصروف ہوا اور نہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہو کر ناراض نوجوانوں کی صف میں شامل ہوا۔ اس نے ایک سچے اور کھرے شاعر کی حیثیت سے اپنے مشاہدات اور تجربات کو فن کی بھٹی میں پکا کر غزلوں اور نظموں کی شکل میں پیش کیا۔ اس اظہارِ فن میں اس نے کسی ابہام ناقابل فہم استعاروں اور لایعنی علامتوں کا سہارا لے کر نہ تو قاری کو خوف زدہ کیا اور نہ مرعوب کیا۔ اس نے غزل کی خالص کلاسیکی روایت کو اپنے عصری پسِ منظر میں رکھ کر آگے بڑھایا۔ اس کے ہاں غزل کی وہ خاص خصوصیت ہے جسے وزیر آغا نے یوں کہا ہے:۔
’’غزل کی امتیازی خصوصیت تخلیقی مطالعہ نہیں بلکہ اجتماعی محاکمہ ہے۔ ‘‘
ماجد صدیقی کی غزل میں وہی اجتماعی محاکمہ ہے جو ہمیں میر تقی میر، میر درد، آتش، غالب، اقبال، فیض کے ہاں ملتا ہے۔ جس طرح غزل ان شعراء کے ہاں ان کے سماجی اور سیاسی ماحول کی آئینہ دار ہے۔ اسی طرح ماجد صدیقی کی غزل اس کے اپنے ماحول کی مکمل طور پر ترجمانی و عکاسی کرتی ہے۔
سخناب ماجد صدیقی کی غزلوں کا تازہ مجموعہ کلام ہے جو گذشتہ سال آسمان ادب پر روشن ستارے کی طرح طلوع ہوا۔ پیشتر ازیں وہ کم و بیش پچیس تصانیف کا خالق ہے۔ اس کی تصانیف میں غزلیں، نظمیں، نعتیں، نوحے اور نثر پارے تک شامل ہیں۔ وہ پنجابی اور اُردو دونوں زبانوں میں اپنا کلام کہنے پر یدِ طولیٰ رکھتا ہے سخناب کی غزلوں کی روشنی میں جب میں اس کی شاعری کا تنقیدی مطالعہ کرتا ہوں تو مجھے ان میں سیاسی، اقتصادی، معاشرتی اور اخلاقی طور پر اجتماعی محاکمہ اور محاسبہ ہی نہیں بلکہ پورا اجتماعی کرب اور دکھ کی دلدوز تصویریں اور دلفگار آوازیں ملتی ہیں۔ یوں وہ اپنے ذاتی دکھ اور المیے کو عظیم اجتماعی المیے اور درد کے پسِ منظر میں رکھ کر اپنے احساسات کو سبک سار کر لیتا ہے۔ وہ اپنی ذات کو کُل سے علیحدہ کر کے نہیں بلکہ کُل کے ساتھ مطابقت کر کے دیکھتا ہے اس لئے اس کے ہاں جھنجھلاہٹ کی جگہ ٹھہراؤ، اور رکھ رکھاؤ۔ جمالیاتی سبھاؤ وقار سنجیدگی اور متانت کا رنگ غالب ہے وہ زندگی کو میر تقی میر کی فقیرانہ شان، اقبال کی قلندرانہ آن کے ساتھ روحانی بلندی سے دیکھتا ہے اسے اپنے فقر و غنا پر بھروسہ بھی ہے اور ناز بھی۔
شاہی بھی قربان ہو اس پر
ماجد کو جو فقر ملا ہے
اس عظیم فقر کی معراج پر پہنچ کر ماجد زندگی کا بھرپور مشاہدہ و محاکمہ کرتا ہے۔ وہ بیک وقت سماجی زندگی سے وابستہ بھی ہے اور سے غیر وابستہ بھی۔ اس لئے اس کے ہاں محاکاتی عمل بہت نمایاں ہے وہ معاشرے کے دکھ اور کرب کو اپنے لہو میں گردش کرتا ہوا محسوس کرتا ہے اور جب وہ ان تمام تجربات و مشاہدات کو غزل کے نازک آبگینوں میں پیش کرتا ہے تو ہم سب کے دل کی آواز بن جاتا ہے وہ معاشرے کا نباض، مفسر اور ترجمان بن کر استحصالی کو بے نقاب کرتا ہے۔ وہ واضح طور پر جہد للبقا (Survival of the fittest)کے خوف ناک ڈرامے کو دیکھتا ہے اور ہمیں یہ تمام بھیانک تصویریں دکھا کر ہماری سوچ کے اُفق کو کشادہ کرتا ہے وہ ہماری فکری نظر کو اس بے رحم کشمکش کی طرف منعطف کرتا ہے جس میں ہر بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو لقمۂ تر بناتی ہے جس میں امیر غریب کو اور حاکم محکوم کو اور طاقت ور کمزور کو اپنا نخچیر بناتا ہے۔ انسانی اخلاقی اقدار کے مٹتے ہوئے کرب انگیز مناظر کو ماجد صدیقی اپنے اشعار کا موضوع بناتا ہے چند اشعار مُشتِ نمونہ از خروارے کے طور پر ملاحظہ کیجئے۔
دیکھی جہاں کہیں بھی کوئی جانِ نا تواں
پنجہ وہیں پہ آ کے پڑا ہے عقاب کا
اپنی چال سلامت رکھتے
شیر ہرن پر ٹوٹ پڑا ہے
بن کر کالی رات وہ دیکھو
کوا چڑیا پر جھپٹتا ہے
ہم بھلا تصویر کیا کھینچیں گرفتِ وقت کی
سانپ چڑیا کو سلامت ہی نِگل جانے لگا
اس خوف ناک ڈرامے میں جب وہ عدل و انصاف کا خون ہوتے دیکھتا ہے تو بے اختیار بول اٹھتا ہے۔
کمال فن ہے یہی عہد نو کے منصف کا
کہ جو پکار بھی اٹھی کہیں دبا دی ہے
ماجد صدیقی بنیادی طور پر کلاسیکی مزاج کا حامل شاعر ہے اسی لئے اس کے ہاں ایک ٹھہراؤ ہے۔ نظم و ضبط اور حُسنِ تناسب ہے۔ اس کی شاعری قوتِ حیات سے لبریز اور فکر انگیز ہے اس کے ہاں نہ کوئی انقلابی نعرہ بازی ہے اور نہ ہی رومانی انداز جمال پسندی اور نہ تخیلی پیکر تراشی ہے وہ کسی سیاسی نظریاتی گروہ سے وابستہ بھی نہیں۔ اسی لئے وہ اپنے موضوعات کو نہ تو رومانوی پیراہن پہناتا ہے اور نہ انہیں جمالیاتی رنگ ریزی سے معنی خیز بناتا ہے وہ شاعری کو افکار و جذبات کی ترسیل مؤثر حربے کے طور پر استعمال کرتا ہے اگر اس کے سامنے کوئی انقلابی سیاسی نظریہ ہوتا تو شاید اہل وطن اس کے محبوب ہوتے، حاکم وقت رقیب اور خود عاشق کے رُوپ میں جلوہ گر ہو کر موہوم انقلاب کی پھلجھڑیاں چھوڑتا۔ وہ تو پیغمبرانہ صفات اور درویشانہ بصیرت کا حامل فنکار ہے جو عصری حقیقتوں کا وجدانی ادراک کر کے انہیں اپنے اشعار میں ڈھالتا ہے۔ اس کی شعری کائنات ہمیں گہرے لمحاتِ فکر عطا کرتی ہے ہماری نظر کو وسعت آشنا اور ضمیر کو بیدار کرتی ہے اس کے ہاں استحصالی آندھی اور جابر قوتوں کے جو پیکر ابھرتے ہیں ان میں بلی، بھیڑیا، عقاب، چیل، شیر اور مار خاص طور پر قابل ذکر ہیں اس طرح مظلوم و مقہور طبقہ سے منسلک افراد کے لئے اس کے ہاں تیتر، چڑیا، ہرن اور کبوتر جیسے پیکر اُبھرتے ہیں یہ تمام نسلیں ماجد صدیقی کے شعری وجدان کی تخلیق ہیں۔ اور انفرادی شان کی غماز ہیں۔
گذشتہ کئی برسوں سے سیاسی منظر نامہ پر جو تاریک گھٹائیں چھائی ہوئی ہیں اور جس کی زد میں اظہار و بیان کے جو سانچے آئے اس طرف کس خوب صورتی اور فنکاری سے ماجد ہماری توجہ منعطف کراتا ہے۔
ہے تقاضا کہ بات کرنے کو
چھلنیاں حلق میں لگائیں ہم
حلق میں چھلنیاں لگانے کی ترکیب بالکل نئی اور انوکھی ہے۔ شعری لطافتوں اور نزاکتوں کا شعور ماجد کے ہاں بدرجہ اَتم ہے۔ ماجد صدیقی کے شعری چراغ کی لَو اگرچہ بہت نرم اور دھیمی ہے لیکن دھیرے دھیرے بلندی کی طرف مائل ہے۔ کون جانے کہ یہ لَو کب شعلہ اور جوالا میں تبدیل ہو جائے۔

تبصرہ کریں