یہ ایک انتہائی خوشگوار حیرت ہے کہ وطن عزیز کی تاریخ میں گزشتہ ایک عشرہ کے سیاسی اور سماجی مسائل کو ادب کے اوراق میں محفوظ کرنے کے لئے ایک بار پھر نثر کی بجائے شاعری ہی کارگر اور معاون ثابت ہوئی ہے اگرچہ روایتی طور پر اس کی تاویل اور شرح یہی بیان کی جاتی ہے کہ شاعری کا دامن تشبیہات، اشاروں، کنایوں اور علامتوں سے یوں مزین ہے کہ ایک ہی مصرع میں تلخ نوائی اور تُرش روئی کا بھرپور تاثر نظر آنے کے باوجود کہنے والا کسی گرفت میں نہیں ہو سکتا شعر کی خوبصورت قبا میں شکایتوں ملال، مایوسی کے جتنے بھی پیوند لگے ہوں قدغن کی کسی آنکھ میں یہ کھٹکتے نہیں چنانچہ جب اظہار و بیان کے سوتے خشک ہوتے محسوس ہوں تو شاعر ایک لفظ کی بوند سے تشنگی کے غرور کا پتھر کاٹتا رہتا ہے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ واقعی درست، معتبر، صائب اور محترم ہیں۔ لیکن میرے نزدیک معاصر ادب میں علامتی اور تجریدی افسانہ کی موجودگی کے باوجود اگر مسائل اور محسوسات کی عکاسی اور ترجمانی کا حق شاعری ہی نے ادا کیا ہے تو یہ کوئی معمولی نہیں بلکہ غیر معمولی بات ہے۔ اور اس عنوان سے یقیناً غور و فکر کی نئی جہتوں کا سراغ پانے کی کوشش کی جانی چاہئے۔

عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ شاعر اپنے ماحول یا ذات کے حوالے سے کسی واقعہ، واردات، بات اور مسئلہ سے متاثر ہوتا ہے۔ اپنے تجربہ، مطالعہ یا مشاہدہ کی مدد سے غیر شعوری طور پر اپنے وجدان اور ادراک کے مطابق اس کو اظہار کی وہ صلاحیت شعر کہنے کی ترغیب دیتی ہے جو اس کو فطرت نے عطا کی ہوتی ہے۔ اور جس میں انسانی کاوش کو حتمی طور پر خواہشوں کے باوجود کبھی کبھار کامیابی نہیں ہوتی۔ بعض اوقات شاعر کسکی ایک بات سے اتنا متاثر ہوتا ہے کہ وہ کئی شعر کہہ جاتا ہے اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک قیامت سر سے گزر جاتی ہے اور وہ کوئی لفظ نہیں کہہ پاتا۔ ۔ ۔ دراصل یہی وہ حد ہے جہاں سے نفسیات اور ماحولیات کا شاعری میں عمل دخل شروع ہو جاتا ہے اور ایسا ہونا بھی چاہئے۔

میں ذاتی طور پر شاعری کو الفاظ کا محتاج نہیں سمجھتا بلکہ الفاظ کو شاعری کا محتاج تصور کرتا ہوں۔ اس بات کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ شاعر ہے جو الفاظ کو ایک مجرد شے اور بے ہیئت سے بدل کر جیتا جاگتا اور سانسیں لیتا ہوا پیکر دے دیتا ہے۔ لفظ کو زندگی عطا کرنے کا معجزہ ہی تو شاعر کو ادب کی دنیا میں مسیحا بناتا ہے ورنہ دوسرے اہل قلم بھی تو وہی لفظ، وہی حروف، وہی زبان و بیان رکھتے ہیں جو شاعر کے پاس ہوتے ہیں لیکن اہلِ فکر و نظر بخوبی آگاہ ہیں کہ۔

تم مرے پاس ہوتے ہو گویا

جب کوئی دوسرا نہیں ہوتا

سبزے کو جب کہیں جگہ نہ ملی

بن گیا روئے آب پر کائی

یہ باتیں اپنی سادگی کے باوجود اگر پرکار اور پراسرار نظر آتی ہیں تو اس کا واحد سبب یہ ہے کہ ان کے پیچھے ایک شاعر کی قوت اظہار ہے۔ یہ اس کی جادوگری ہے کہ اس نے ایک بیانیہ جملہ کو اس مہارت اور چابکدستی سے یوں دو نیم کیا کہ اس کی خوبصورتی پر نثر کی سلطنت قربان کی جا سکتی ہے لیکن یہ بات اپنی جگہ بہرحال مسلمہ اور بجا ہے کہ ہزاروں شعروں میں سے ایسا دل میں ترازو ہونے اور روح میں سما جانے والا شعر ایک آدھ ہی ہوتا ہے بلکہ یہ بھی ضروری نہیں، ممکن ہے ایک بھی نہ ہو۔

اس پس منظر میں جب جدید شاعری کی بحث کا جائزہ لیں تو صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ اس میں رنگ و نور اور جاذبیت و حیرانی تو بدرجہ اتم ہے لیکن وہ جوہر جسے شعریت کہا جا سکتا ہے اس کا عموماً فقدان ہی دکھائی دیتا ہے۔ بلکہ سچی بات تو یہ ہے کہ جدید شاعری میں سے شعریت بالکل اسی طرح عنقا اور معدوم ہے جیسے تیسری دنیا کے ممالک میں خود کفالت۔ ۔ ۔ !

میں ضروری خیال کرتا ہوں کہ اس مرحلہ پر نثری نظم کا حوالہ بھی بطور ثبوت پیش کر دوں۔ بے شک نثری نظم کو بطور صنف کے تسلیم کیا جا سکتا ہے کیونکہ اس میں قطعاً کوئی حرج اور قباحت نہیں۔ ہر صنف اپنی توانائی، تازگی اور تخلیقی قوت کے بل بوتے پر اپنی بقا کا جواز فراہم کرنے میں آزاد ہے اور اس کا فیصلہ وقت خود کرتا ہے۔ جو نقادوں سے زیادہ عمر رکھتا ہے۔ میری ان باتوں سے یہ مراد ہرگز نہ لی جائے کہ میں جدید شاعری کا مخالف ہوں۔ میرا یہ قطعاً مؤقف اور استدلال نہیں بلکہ میں اس حقیقت کو تسلیم کرنے والوں میں سے ہوں قدیم شاعری کبھی جدید تھی۔ اور ہر جدید شاعری کو قدیم ہونا ہے۔ لہذا یہ بحث ترک کر کے بات صرف اور صرف شاعری کی کی جانی چاہئے۔

برادرِ مکرم ماجد صدیقی کا تازہ شعری مجموعہ آنگن آنگن رات حال ہی میں شائع ہوا ہے جو ان کی غزلیات پر مشتمل ہے یقیناً یہ وہی غزلیات ہیں جو گذشتہ چند برسوں کے دوران مختلف مواقع اور مراحل پر تخلیق کی بھٹی سے کُندن ہو کر نکلیں چنانچہ ان میں سے بیشتر کو ملکی و قومی امور کا ترجمان اور عکاس قرار دیا سکتا ہے یہ شعری مجموعہ کی پہلی غزل کا مطلع ہے۔

خاموشیوں میں ڈوب گیا ہے گگن تمام

لو کر چلے ہیں سارے پرندے سخن تمام

جب کہ آخری غزل کا مقطع سے پہلا شعر ہے۔

جتنے ہرے شجر تھے لرزنے لگے تمام

خاشاک تھے کہ سامنے دریا کے ڈٹ گئے

میں ان دونوں اشعار کو گزشتہ عشرہ کی اس تاریخ کا بیان تصور کرتا ہوں جسے اہل وطن نے اپنی آنکھوں کے سامنے ترتیب کے عمل سے گزرتے دیکھا اس کا ایک ایک لمحہ ایسا جاں گسل اور اذیت ناک تھا کہ حساس دل تو ایک طرف سنگدل بھی تڑپ اٹھے سیاسی امور اور عوامل کو نعرہ بازی، سطحیت اور عوامی رنگ میں گلی کوچوں میں لے آنا اور اس کوشش میں ہر طرح کے عذاب برداشت کرنے کا منصب سیاسی کارکن اور رہنما ادا کرتے چلے آ رہے ہیں لیکن سیاسی رموز کو تخلیقی سطح پر ذہنی و فکری حوالے سے معتبر بنانے اور ان کی تدوین اور تہذیب کا حق اہلِ قلم ہی ادا کرتے ہیں چنانچہ ہر مرتبہ کی طرح اب کی بار بھی ایسا ہی ہوا۔ جن شعراء نے ’’ہم پرورشِ لوح و قلم کرتے رہیں گے۔ ‘‘ کی روایت کو استحکام بخشا ان میں ماجد صدیقی ایک نمایاں اور اثر انگیز لہجہ لے کر ابھرا اس کا جذبہ اپنی تمام تر شدتوں اور گہرائیوں کے باوجود نہایت سلیقہ اور قرینہ سے ہم آہنگ دکھائی دیتا ہے لہذا اس کی شاعری میں جلسہ جلوسوں کی طرز کی مقبولیت تو نہیں البتہ زندہ لوگوں کی سچی دہائی ضرور ہے۔ ؎

ہاتھوں میں ہو کمان مگر تیرِ انتقام

اس کے جگر کے پار کوئی دوسرا کرے

تھا اندھیروں پہ قابو نہ اپنا کبھی، پھر بھی اِتنا کیا

حبسِ بے جا میں دیکھی جہاں روشنی، فیصلہ لکھ دیا

ہاتھ شہ رگ پہ بھی رکھتا ہے مدام

وہ کہ ظاہر میں مسیحا لاگے

نا خلف لوگوں پہ جب سے پھول برسائے گئے

شاخچوں پر انتقاماً تتلیاں اُگنے لگیں

ماجد صدیقی کی شاعری میں جذبات کی صداقت کے ساتھ دل سوزی اور فکر مندی کا عنصر بھی غالب محسوس ہوتا ہے وہ مسائل پر محض آنسو ہی نہیں بہاتا بلکہ ان کے حل کی تدبیر بھی تلاش کرنے کی دعوت دیتا ہے اس مقام سے وہ بڑا سبک تر ہو کر آگے نکل گیا ورنہ اندیشہ تھا کہ اگر وہ اس مرحلہ پر شعوری یا غیر شعوری طور پر کوئی حل تجویز کر دیتا اور اس پر ترقی پسند ہونے کا الزام عائد کر دیا جاتا جو اس کی شاعری کو معاشرہ کے خاص حلقوں اور سرکار کے حساس اداروں میں یقیناً متعارف کرنے کے کام آتا لیکن میرے نزدیک شاعر کا تعارف اگر اس کا شعر، اسلوب، آہنگ، لہجہ اور بیان نہیں تو وہ ریڈیو ٹی وی اور فلم کا بہت اچھا شاعر تو ہو سکتا مگر صاحبِ طرز شاعر نہیں ہو سکتا جبکہ ماجد صدیقی کی انفرادیت کے لئے اس کا یہ لہجہ اور رنگ کافی ہے۔

جب بھی دیکھا ہے تمناؤں کا یکجا ہونا

شام کے پیڑ پہ چڑیوں کا وہ کہرام لگا

ماجد خوف سے کیا کیا چہرے زرد ہوئے

دیکھ عجب سرسوں پھولی ہے ہر جانب

بدن جو ڈوب گئے ان کی ہچکیاں سن کر

ہوئی ندی کو بھی عادت سی گنگنانے کی

عام طور پر ایسا ہوتا ہے کہ شاعر کی کسی ایک غزل کا کوئی ایک شعر چونکا دینے والا اور سحر انگیز ہوتا ہے لیکن ماجد صدیقی کی سحر انگیزی ملاحظہ ہو کہ اس کی ہر غزل میں کوئی نہ کوئی شعر ضرور اپنے پیچھے ایک روشنی کی لکیر سی چھوڑ جاتا ہے ان اشعار پر معاً شہابِ ثاقب کا گمان اور خیال گزرتا ہے مگر میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ماجد کے اشعار ایسے شہاب ثاقب نہیں جو چند ساعتوں کو روشن اور گہری لکیر دکھا کر اُفق کی گود میں گرتے ہی کسی گمنام سمندر کی بے نام تہوں میں چھپ جاتے ہیں بلکہ یہ زمین پر اترنے والے وہ ٹکڑے ہیں جنہیں سائنسدان اپنی تجربہ گاہوں میں لے جاتے ہیں اور ان مطالعہ سے کائنات کے اسرار و عقدے وا ہونے میں مدد ملتی ہے گویا  ’’آنگن آنگن رات‘‘ ایک فرد ہی نہیں بلکہ پورے سماج۔ یعنی ہمارے سماج کے سیاسی و سماجی مسائل کا ایک ایسا بھرپور، معتبر اور منفرد شعری استعارہ ہے جو آنے والے دنوں میں اپنی شناخت خود ہو گا اور جس سے ایک عذاب زدہ ماضی کے زخموں کی ٹیسیں صاف طور پر سنائی دیتی رہیں گی۔