شاعر ماجد صدّیقی کو بُوڑھے زمانے نے سب سے پہلے تب پہچانا جب ترقی پسند مصنفین کے نعروں کوتازہ تازہ چُپ لگی تھی اوراُن کے دفتر سیل مُہر تھے۔ انہی دنوں معاشرے اور بستیوں کے دلوں میں جاگزیں فاصلوں کی جانب نمایاں ہڈیوں والا ایک نحیف ہاتھ آگے بڑھا۔ اُن فاصلوں کو جانچنے کی خاطر۔ اُن فاصلوں کو ناپنے کی خاطر۔

 یہ کمزور ہاتھ پہلے گاؤں کے ایک نا تربیت یافتہ سکول ٹیچر کا اور پھر پروفیسر ماجد صدّیقی کا تھا۔ اُس نے ایسے عزم اور ایقان کے ساتھ یہ ہاتھ آگے بڑھایا۔ کہ کئی فربہوں اور تواناؤں نے اپنے اپنے ہاتھ کھینچ کر اپنی اپنی بغلوں میں دبا لیے۔ اور ملک کے نامور اہلِ قلم،  ادیب اور شاعر منو بھائی نے جنہوں نے اس کتاب کا سرورق بنایا تھا اور فلیپ بھی لکھا تھا۔ کہا

 ــ’’مانا کہ ہم بھی فاصلے ناپنے والے ہاتھوں کے ساتھ ساتھ رہے ہیں۔ اور اپنے آپ کو ہم معاشرے کا عکاس اور نمائندہ بھی کہتے ہیں پر علاقہ ونہار کا یہ نوجوان اس میدان میں ہم سے بازی لے گیا ہے‘‘

 گزرے زمانے بھی کیا من بھاونے زمانے تھے۔ لوگ سچ کہتے تھے اور من بھاونے لگتے تھے۔ اب اگر کوئی سچ کہے تو لوگ اس کا منہ چِڑاتے ہیں۔ لکھنے والے کہتے ہیں ’’ہم جو کچھ بھی لکھیں اُسے معیار مانو۔ ‘‘

 فاصلے اور تفرقے ناپتے ماجد صدّیقی کے یہ ہاتھ معاشرے کی بے اصولیوں ،  ظلم زیادتیوں ،  نفرتوں کدورتوں ،  بغض و عناد کے ہاتھوں پڑی ہوئی دُوریوں کی پیمائش کرتے رہے اور ان ہاتھوں نے ایسا کرتے ہوئے تقریباً آدھی صدی بِتا ڈالی۔

 ماجد ان راستوں پر ’’ادھ اسمان‘‘ جا کر بڑے ’’اچیچ‘‘ کے ساتھ ’’سچ سہاگ‘‘  کا پتہ لگانے والی ’’سُونہاں لیندی اکھ‘‘ بنا۔ اس نے ’’گنگے دیاں رمزاں ‘‘ اور ’’ہاسے دا سبھا‘‘ دیکھا۔ ’’رتینجناں ‘‘۔ ’’رات دی رات‘‘۔ ’’سُون سنگھار‘‘  اور۔ ۔ ’’ترہیائی سدّھر‘‘ کی منزلوں تک پہنچا اور اب ’’ڈھلدی شام کا رُکھ‘‘  بن کے ہماری راہوں میں آن کھڑا ہُوا ہے۔

 ڈھلتی شام کے اس شجر کے پاس خدا جانے کس کس کے لیے کیا کیا سُکھ سندیس ہیں۔ کس کس کی تُنک گوئیاں ہیں۔ کس کس کی حسرتیں اور کس کس کی پیاسی تمنّائیں ہیں لیکن اس شجر کے پتوں سے جب بھی ہوا سرگوشیاں کرتی ہے یہی کہتی ہے۔

ناتوانوں کا میت آج بھی کوئی نہیں

سچ کے ساتھ سانجھ آج بھی کٹھن ہے

پیار پریت اور انصاف کے سودے آج بھی گراں ہیں

 لیکن طرفہ امر یہ ہے کہ وُہ آج بھی اسی انہماک سے ان سارے بکھیڑوں میں گم ہے۔ اور اب تو اس کی آواز اور بھی زیادہ گونج دار اور پاٹ دار ہے۔ وُہ دندنا کے کہتا ہے۔

’’بُرج منارے ڈھاہ دیندا اے

ویلا لپرے لاہ دیندا اے‘‘

 لیکن کوئی بات نہیں۔ زوال آشنا بُرج تو اس نے زندگی بھر کوئی بنایا ہی نہیں۔ البتہ اس نے وقت کے کیا کیا چڑھتے اُترتے سیل دیکھے۔ کیا کیا روگ کاشت کیے اور ان کی کیا کیا فصلیں نہ اُٹھائیں۔ اور کیا کیا اداس شامیں گزاریں۔ کئی نظارے،  کئی یادیں ،  کئی فریادیں ،  کئی سپنے،  کئی خوف،  کئی فراق اس کی سانسوں میں سماتے رہے اور اُس نے انہی کے ساتھ زندگی کا ’’ شام کا یہ شجر‘‘ پالا۔

 پیڑوں کے ساتھ ماجد صدّیقی کی سانجھ ویسے بھی بڑی پُرانی ہے۔ اب تو خیر سے وُہ شہری ہو چکا ہے لیکن اس کا اندرون اب بھی ہم آپ کی طرح ’’پینڈو‘‘ ہے۔ اس کی ڈھلتی شام کا شجر بھی گاؤں ہی کا پیڑ ہے۔ جہاں گٹاروں کی چہکاریں ،  چڑیوں کی چلچوہٹیں۔ لمبی ہو ہو جاتی رات کے خوف سے اپنے ہونے کی شہادتیں دے دے کی جینے اور مرنے کا مفہوم سمجھاتی ہیں اور اس کے بعد رات کی اندھی چُپ گاؤں کے اور منظروں سمیت انہیں اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔ اور پھر جب علی الصباح پنچھیوں کی آنکھیں کھلتی ہیں اور انہیں یہ خبر ہوتی ہے۔ کہ رات ہی رات کے اندر کیا کیا کچھ بدل گیا ہے۔ کیا کیاآندھیاں چلی ہیں۔ کس کس گھونسلے کے بچّے سانپ نے نگل لیے ہیں۔ اور کس کس کی چہکار ہواؤں نے لوٹ لی ہے۔

 ماجد کے پاس یہ سب راز ہیں۔ وُہ شاہد ہے چاندنی کے پھولوں سے لے کر چاند کی سرزمیں پر اترتی میّت تک کا۔ اس نے صبح سے ہمکنار ہوتا ہنستا آسمان بھی دیکھا ہے۔ اور شبنم برساتی آنکھیں بھی۔ اس نے نَو بہ نَو اور رنگ برنگی تصویریں اُتار کے ان میں بہت تھوڑی تصویروں میں سے ’’ڈھلدی شام دا رُکھ‘‘  بنایا ہے۔ یہ اُس کے ۳۲ سالوں پر محیط سفر کی سوچوں کا زائچہ سا ہے اور بس۔

نھیرے دے وچہ ہتھ کتھے جا وجیا اے

اُس کمرے دے سارے لاٹو جاگ پئے

 یہ تو آپ سمجھیں کہ ایک حادثہ سا ہو گیا ہے۔ ورنہ ’’ڈھلدی شام دا رُکھ‘‘  اس کی اپنی دردوں سجی شاعری کا ایک بہت ہی منفرد انگ ہے

’’ڈھلدی شام دا‘‘ کا یہی ایک منظر دیکھیں۔ ۔ ۔ ۔

ہر ڈبدا سورج اوہ ہوکا لگدا اے

اگلے دن لئی سانبھ کے جس نوں رکھدے نیں

ہفدے پنچھی

اپنیاں کُھلیاں چُنجاں وچہ

 میں ماجد کے ہانپتے پنچھیوں کو بڑی مدّت سے جانتا ہوں۔ اور مجھے علم ہے کہ وُہ کیونکر ہانپتے ہیں۔ اُن کی چونچیں کیوں خالی ہیں۔ اُن کے حصے کا رزق کون ہڑپ کر گیا ہے۔ شام سے آگے رات نہ ہوتی تو میں خود ماجد صدّیقی سے پُوچھتا۔ ’’میرے وِیر مجھے یہ تو بتا کہ تُجھے جس نے اتنی عمر گزار دی ہے۔ کوئی کھوج بھی لگا ہے۔ کہ اِن ہانپتے پنچھیوں کی چوگ کس نے اُڑا لی ہے۔ ‘‘

خیال کی آنکھیں ماجد صِّدیقی کاچہرہ دیکھ کر یہی کہتی ہیں۔

 ’’دیکھ تو سہی! وُہ وقت کا رہٹ چلاتے چلاتے تھک چکا ہے۔ اب ملائم،  خُنک اور سکون کی رات اُسے اس کی شام سمیت اپنی آغوش میں سلانے لگی ہے اور آپ لوگوں کو یہ پُوچھنا یاد آ رہا ہے۔ پہلے پُوچھنا تھا نا۔ اس لیے کہ وُہ تو روزانہ یہی کہتا رہا۔ صرف آپ نے التفات سے سنا نہیں۔ یقین نہ آئے تو اسی کتاب میں اُس کی طویل نظم۔ ۔ ’’پُچھاں گل وراگاں والی‘‘ پڑھ کے دیکھیں۔ اس نظم میں اُس نے جگ کے والی کے در پہ دستک دے کر داؤ فریب والی ساری باتیں ایک ہی سانس میں کھول کے رکھ دی ہیں۔

انسانیت زہر پیالے کیوں پیتی ہے؟  نفرت پیڑوں کی طرح کیوں پنپتی ہے؟ اہلِ حق کے ہونٹ مُقفّل کیوں رہتے ہیں ؟اور یہ منظرنامے کہاں سے ٹپک پڑتے ہیں

’’کدھرے جالاں دے وچہ پھس کے

جل دیاں مچھیاں دے ساہ اُکن

کدھرے بگلے داء چِھل لاون

کدھرے اِلّاں چوُچے چُکن‘‘

 جی ہاں !نظم تو ختم ہو گئی ہے لیکن ماجد کی کسی بات کا جواب کہیں سے نہیں آیا۔ شاید جواب ہے بھی کوئی نہیں۔ ایک ہی لمبی چُپ ہے۔ صدیوں طویل بچھوڑوں جیسی چُپ۔ میں کہتا ہوں ’’چھوڑ نادان!کیا ڈھونڈتا ہے اِن باتوں سے۔ ‘‘

 اسی کتاب میں اُس نے میرے ساتھ بھی یہ تنک گوئی روا رکھی ہے۔

’’دل وچہ اترے آل دوال دیاں سولاں نوں

سوچ دی سوئی لے کے اوہ وی کڈھدا رہندا

مین کیہ دُکھ نیں ، میں اس بارے کُجھ نئیں کہندا

 جی ہاں !وُہ بھی کچھ نہیں کہتااور میں بھی اُس سے یہ نہیں پُوچھتا کہ وُہ کیونکر کچھ نہیں کہتا۔

 مجھے پتہ ہے کہ اگر میں یوں کروں گا تو وہ اور دُکھی ہو جائے گا۔ اس لیے کہ میرا اور اس کا دُکھ سانجھا جو ہے۔

اس کے اپنے کہے مُوجب

’’میں سچ مکئی کے دُودھیا دانوں جیسی باتیں نت دیہاڑے گاؤں سے شہر لانے کا کام کرتا رہتا ہوں۔ اور وہاں سے لوٹتے جھوٹ فریب کے بسکٹ اور پَیٹیاں رنگین کاغذوں میں لپیٹ لپیٹ کرگاؤں لے لے جاتا ہوں۔‘‘ لیکن اگر سچ پُوچھیں تو کسر اس نے بھی چھوڑی کوئی نہیں ہے

 وُہ انہی جھوٹ فریب کی شکلوں شبیہوں کے درمیاں پالتی مارے بیٹھا ہے۔ لیکن اس کا احساس ویسے کا ویسا ہے۔ کھرا اور نرول۔ ایک سچے اور کھرے پینڈو کا احساس۔

وڈیاں مچھیاں ،  نگلن نکیاں مچھیاں نُوں

شہر کدیں پنڈاں نوں پنگرن دیندے نئیں

 جی ہاں !بلکہ دیہات کو اُلٹا شہر بنائے دیتے ہیں۔ اور ان شہروں میں بھی جب ’’ڈھلدی شام دا رُکھ‘‘ گھنا ہو جائے تو اُسے اس امر کا پتہ بھی لگنے لگتا ہے

جد وں وی رُت کھل کھیڈن دی آؤنی ایں

کانواں چڑیاں دے انڈے پی جانے نیں

 ماجد نے اپنے اِس مجموعے میں پیڑوں کی آسودگیاں ،  دیس شاعری’’ منظوم لوری قاعدہ ‘‘ اور گنتی ’’بال کہانیاں‘‘ اور ’’بال کھیلوں کے گیت‘‘  تقریباً چھ سات کتابیں یک جا کر کے چھاپ دی ہیں

لیکن سب کتابوں کا چہرہ مُہرہ ایک جیسا ہے۔ اور وُہ چہرہ مُہرہ اس کے اس موقف کو اُجاگر کرتا ہے۔ کہ زندگی سب انسانوں کی میراث ہے۔ ۔ ۔ تو پھر وُہ ہر کسی کے چہرے کا غازہ کیوں نہیں ٹھہرتی۔ یہ سوال ماجد سے پہلے سقراط نے بھی اُٹھایا تھا۔ اور زہر کا جام چڑھا کے خاموش ہو گیا تھا۔

 میں تو کہتا ہوں۔ ۔ ۔ ماجد یار! اب تو درد بھرے رونے سے چُپ ہی بھلی ہے۔ اور یقین کر لے کہ تیری اس چُپ کی اور تیری کومل شاعری کی قیمت زمانہ ضرور چکائے گا اس لیے کہ وقت کسی کا حق کبھی مارتا نہیں ہے۔