تعارف

ماجد صدیقی (1938–2015) اردو اور پنجابی کے ممتاز شاعر ہیں جن کا شمار منفرد لب و لہجے کے جدیدیت پسند اساتذہ میں ہوتا ہے​۔ اُن کی پہچان بالخصوص ایک غزل گو شاعر کی حیثیت سے قائم ہوئی اور ان کا اردو غزلوں کا پہلا مجموعہ ’’آغاز‘‘  کے عنوان سے شائع ہوا​۔ اس اولین شعری کتاب نے 1960 اور 1970 کی دہائی میں اردو غزل کو ایک تازہ آواز عطا کی جس میں روایت اور جدت کی دلکش آمیزش تھی۔ زیرِ نظر مضمون میں ہم آغاز کی غزلوں کے فکری رجحانات، اسلوب اور شعری جمالیات کا جائزہ لیتے ہوئے اردو غزل کے فنی محاسن پر روشنی ڈالیں گے، نیز کلاسیکی شعری روایت کے اثرات اور جدید غزل میں ماجد صدیقی کے منفرد مقام کا تجزیہ پیش کریں گے۔ یہ تنقیدی مطالعہ مستند حوالوں کے ساتھ ساتھ کلاسیکی شعرا سے تقابل بھی شامل کرے گا تاکہ ماجد صدیقی کے کلام کی معنویت اجاگر ہوسکے۔

غزلوں کے فکری رجحانات

ماجد صدیقی کی شاعری اپنے عہد کے فکری رجحانات کی آئینہ دار ہے۔ اگرچہ انہیں کسی خاص ادبی تحریک سے وابستہ نہیں کیا جا سکتا، تاہم ان کے ہاں ترقی پسندانہ رجحانات ضرور پائے جاتے ہیں​۔ انہوں نے اپنی شاعری کو زندگی کی حقیقتوں کے قریب تر رکھا اور شعوری طور پر روایتی موضوعات اور اندازِ بیان سے خود کو دور رکھا​۔ آغاز کی غزلوں میں روایتی عشقیہ مضامین کے ساتھ عصرِ حاضر کے شعور اور زندگی کے مسائل کی جھلکیاں بھی ملتی ہیں۔ ایک طرف عاشقانہ درد و گداز ہے تو دوسری جانب روزمرّہ حیات کے دکھ بھی موضوع بنتے ہیں۔ مثال کے طور پر ایک غزل میں کہتے ہیں:

مَیں تیرے لئے ہوں مانتا ہوں
مجھ کو غمِ روزگار بھی ہے​

اس شعر میں محبوب کے عشق کا اظہار بھی ہے اور ساتھ ہی ساتھ روزگار کے غم کا تذکرہ بھی، جو ایک جدید حساسیت کی علامت ہے۔ اسی طرح ایک اور شعر میں زندگی سے بے زاری اور وجودیاتی کرب یوں زبان پکڑتا ہے:

جیتا ہوں کہ جی رہا ہوں ماجدؔ
جینا ہے کہ ناگوار بھی ہے​

یہ اندازِ بیان بتاتا ہے کہ ماجد صدیقی محض روایتی عشقیہ وارداتِ قلب تک محدود نہیں رہتے بلکہ زندگی کی بے معنوی اور انسانی حالات پر بھی نظر رکھتے ہیں۔ خود شاعر کے نزدیک شاعری دل کی دھڑکنوں کا شمار ہے اور یہ دھڑکنیں ان کی نظموں اور غزلوں میں جگہ جگہ سنائی دیتی ہیں​۔ اُن کے کلام میں جگہ جگہ ایک خودکلامی کا انداز ملتا ہے جس میں شاعر اپنی تشنہ حسرتوں کو بہ شکلِ غزل گنگناتا دکھائی دیتا ہے، اور اسی باعث ان کی رومانویت میں ایک خاص درد و سوز شامل ہو گیا ہے​۔ یعنی اُن کے ہاں محبت کا جذبہ محض خوابناک یا تصنعی نہیں بلکہ ایک داخلی کرب اور سچائی لیے ہوئے ہے جس سے قاری بھی خود کو وابستہ محسوس کرتا ہے۔

ماجد صدیقی کی فکری جہات میں ترقی پسندی کا عنصر قابلِ ذکر ہے۔ اگرچہ وہ باقاعدہ کسی تحریک (مثلاً حلقۂ اربابِ ذوق یا ترقی پسند تحریک) سے منسلک نہ تھے، لیکن ظلم، ناانصافی اور معاشرتی ناہمواری پر ان کی گہری نظر تھی جس کا اظہار ان کی غزل کے بین السطور ہوتا ہے۔ وہ اعلانیہ سیاسی نعروں کے بجائے علامتی انداز میں اپنے عہد کی صورتِ حال بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر موسموں اور کونپلوں کے استعارے استعمال کر کے جدید دور کی گھٹن یا امید کا ذکر کرتے ہیں۔ زندگی کی حقیقتیں بیان کرنے میں بھی ان کا لب و لہجہ نرم مگر موثر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں ہمیں انسانی احساسات کے تقریباً سارے رنگ مل جاتے ہیں: عشق کی لطافت بھی اور حیاتِ اجتماعی کا شعور بھی۔ اس امتزاج نے آغاز کی غزلوں کو فکری طور پر ہم عصر شعرا کے کلام سے الگ اور نمایاں کیا۔ ان کے نزدیک شاعری محض تفننِ طبع نہیں بلکہ انسانی دل کی دھڑکنوں اور سماجی شعور دونوں کی ترجمان ہے۔

اسلوب اور شعری جمالیات

ماجد صدیقی کا اسلوب ان کے منفرد لب و لہجے کا غماز ہے۔ ان کی زبان سادہ، رواں لیکن ادبی شان لیے ہوئے ہے۔ کلاسیکی رنگ بھی موجود ہے مگر تازگی کے ساتھ۔ ان کے کلام میں جہاں ایک طرف روایتی الفاظ و تراکیب نظر آتی ہیں وہیں عصری لغت اور مناظر بھی جھلکتے ہیں۔ ناقدین نے نشان دہی کی ہے کہ ماجد صدیقی بعض الفاظ اور استعاروں کو بار بار استعمال کرتے ہیں جن سے ان کے اسلوب کا ایک نقش ابھرتا ہے۔ مثلاً اژدر، شجر، شاخ، پتّا، آشیانہ، قفس، جسم، آئینہ، گُل، ثمر، حَبس اور کاغذ جیسے الفاظ ان کی غزلوں میں کثرت سے آئے ہیں​۔ یہ تمام الفاظ کلاسیکی شاعری کے محبوب استعاروں اور علامات کی یاد دلاتے ہیں، جنہیں ماجد صدیقی نئے سیاق و سباق میں برتتے ہیں۔ اس سے ان کی شاعری میں ایک طرف تسلسلِ روایت پیدا ہوتا ہے تو دوسری طرف تازہ کاری بھی نظر آتی ہے۔

ماجد صدیقی غزل کی روایتی ہئیت (بحر، ردیف، قافیہ) کو برتنے میں کمال مہارت رکھتے ہیں۔ اُن کی ہر غزل بحر کی خوش آہنگی اور لفظوں کی موسیقیت لیے ہوئے ہوتی ہے۔ قافیے اور ردیف کا انتخاب ایسا دلنشیں ہوتا ہے کہ اشعار کانوں میں رس گھولتے ہیں۔ مثال کے طور پر آغاز میں شامل ایک خوبصورت غزل کا مطلع دیکھیے:

آنکھوں میں ترا دیار بھی ہے
دل درد سے ہمکنار بھی ہے​

اس مطلع میں سادگیِ بیان بھی ہے اور دلگیری بھی۔ "درد سے ہمکنار” جیسی تراکیب اس بات کی غماز ہیں کہ شاعر نے کلاسیکی زبان کو برتا ضرور ہے مگر اس میں اپنی تازہ کاری بھی شامل کی ہے۔ اسی طرح ایک اور غزل میں وہ جدید تہذیبی مناظر اور رنگینیوں کو شاعرانہ پیکر دیتے ہیں:

ساڑھی کی سبز ڈال میں لپٹی ہوئی بہار
کیا کچھ شباب تھا نہ سکوٹر کی چال پر​

اس شعر میں محبوب کے سبز ساڑھی میں ملبوس ہونے کو بہار سے تشبیہ دیا گیا ہے اور ساتھ ہی اُس کے اسکوٹر پر سوار ہونے کی ادا کو بیان کیا ہے۔ یہ سراسر جدید دور کا منظر ہے جسے شاعر نے غزل کی کلاسیکی تشبیہاتی فضا میں اس طرح پیش کیا کہ مضمون نیا بھی ہے اور دلکش بھی۔ اسی غزل کا ایک اور شعر دیکھیے جہاں ہلکے طنز و ظرافت کے ساتھ حسن کی عارضی کیفیت کا بیان ہے:

میک اَپ اُتر گیا تو کھنڈر سی وہ رہ گئی
جیسے سحر کا چاند ہو ماجدؔ زوال پر​

یہاں محبوبہ کے بناو سنگھار اتر جانے پر اس کے چہرے کو کھنڈر سے تشبیہ دیا اور پھر اس منظر کو صبح کے ڈوبتے ہوئے چاند سے ملا کر ایک حسین مگر طنزیہ پیکر بنایا ہے۔ اس قسم کے اشعار ماجد صدیقی کے اسلوب میں شگفتگی اور حقیقت نگاری دونوں کے امتزاج کو ظاہر کرتے ہیں۔ وہ معمولی اور روزمرہ زندگی کے مناظر (جیسے بک اسٹال، ٹیبل کی تال، سکوٹر، گھنٹی وغیرہ) کو بھی شاعرانہ جمالیات کا حصہ بنا لیتے ہیں​، جو اردو غزل میں جدت کا پہلو ہے۔

شعری جمالیات کی بات کی جائے تو ماجد صدیقی کے ہاں استعارہ و علامت کی سطح پر بڑی نفاست پائی جاتی ہے۔ وہ ایک شعر میں بیک وقت خارجی منظر اور باطنی کیفیت کو اس انداز سے جوڑتے ہیں کہ شعر کئی معنوی پرتیں اختیار کر لیتا ہے۔ مثلاً آغاز ہی کی ایک غزل میں کہتے ہیں:

پھولنا شاخ پہ غنچہ غنچہ

اور اک ساتھ پریشاں ہونا

اس میں شاخ پر غنچوں کا کھلنا اور فوراً بکھر جانا زندگی کی ناپائیداری اور خوابوں کے ٹوٹنے کی علامت بن گیا ہے۔ اس طرح کے پیکر ان کی غزلوں میں جا بجا ہیں، جو قاری کے حظِ جمالیات میں اضافہ کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر ماجد صدیقی کی شاعری کلاسیکی تغزل کی لطافت اور جدید محسوسات کی شدت کو یکجا کر کے ایک دلکش شعری کائنات تخلیق کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ناقدین ان کی غزلوں کو خوبصورت اندازِ بیان اور منفرد اسلوب کا حسین امتزاج قرار دیتے ہیں​۔

اردو غزل کے فنی محاسن کا اظہار

غزل کو اردو شاعری میں صنفِ لطیف بھی کہا جاتا ہے اور صنفِ مشکل بھی – یہ لطیف اس لیے کہ اس میں جذبے کی لطافت بدرجہ اتم ہوتی ہے اور مشکل یوں کہ محدود لفظوں میں گہری بات کہنا ہرکس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔ ماجد صدیقی کی غزلیں اردو غزل کے انہی فنی محاسن کا بہترین اظہار ہیں۔ اول تو وہ غزل کی کلاسیکی ہئیت اور تکنیک کے پابند رہتے ہوئے بھی اس میں نئے مضامین باندھنے کا ہنر رکھتے ہیں۔ اُن کے اشعار میں ایجاز و اختصار کے ساتھ معنی آفرینی پائی جاتی ہے، جو اچھی غزل کا خاصہ ہے۔ ہر شعر اپنے اندر ایک دنیا رکھتا ہے، مگر پھر بھی غزل کے مجموعی مزاج سے ہم آہنگ رہتا ہے۔ یہ خوبی غزل کی روایت میں میر و غالب سے چلی آرہی ہے اور ماجد صدیقی اسے نئے دور میں بھی زندہ رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پر آغاز کی غزلوں میں کہیں صرف دو مصرعوں میں عشق کا روایتی رنگ سمٹا ہوا ہے، تو کہیں کسی ایک شعر میں عصری آدمی کی پوری داستان سما گئی ہے۔ اس طرح ان کی غزلیں موضوع کے تنوع کے باوجود وحدتِ احساس رکھتی ہیں، جو فنِ غزل کا ایک حسن ہے۔

دیگر فنی محاسن میں ان کی غزلوں کی موسیقیت اور آہنگ قابلِ داد ہے۔ وہ ردیف اور قافیہ کے صوتی اثر سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ کسی غزل میں ردیف لمبی ہے تو کہیں ایک لفظی مختصر، مگر ہر جگہ ردیف کا اعادہ شعر میں نغمگی بھر دیتا ہے۔ بحور کا انتخاب بھی وہ خیال اور مضمون کے مطابق کرتے ہیں؛ نرم جذبوں کے لیے ہلکی بحریں اور رزمیہ یا فلسفیانہ رنگ کے لیے قدرے بلند آہنگ بحور۔ اس فنی پختگی کا نتیجہ یہ ہے کہ آغاز کے اکثر اشعار پڑھنے اور سننے والے کو اپنے ردھم میں گرفتار کر لیتے ہیں۔

غزل کے فن کا ایک بڑا جوہر یہ بھی ہے کہ ہر شعر میں خیال کا اک جہان سمٹ آئے اور پھر انہی چھوٹے چھوٹے جہانوں سے کُل غزل کی کائنات بنے۔ ماجد صدیقی اس ہنر میں طاق ہیں۔ آغاز کی غزلوں میں کہیں وصل و ہجر کے روایتی تذکرے ہیں تو کہیں زندگی کی حقیقتوں کے ادراک سے پھوٹنے والے خیال۔ لیکن ہر شعر فنی طور پر اپنا مستقل وجود بھی رکھتا ہے اور مجموعی طور پر غزل کے مزاج کا حصہ بھی ہے۔ ان کے بعض اشعار میں رمز و کنایہ اور ابہام کی کیفیت بھی پیدا ہوتی ہے جو اعلیٰ درجے کی غزل کا امتیاز سمجھا جاتا ہے کہ قاری خود معنی کے کئی رنگ اخذ کر سکے۔ یوں ماجد صدیقی کی غزلیں فکری و فنی ہر دو لحاظ سے اردو غزل کی درخشاں روایت کو آگے بڑھاتی ہیں۔ ان کی شاعرانہ صناعی کا اعتراف خود ان کے ہم عصر شعرا نے بھی کیا ہے۔ ان کے فن کی رفعت کا تذکرہ کرتے ہوئے آفتاب اقبال شمیم لکھتے ہیں

’’زورِ ہنر ایسا ہے کہ ہر ہائیکو بے ساختہ شعری گفتگو کا لطف دیتی ہے‘‘

(اگرچہ یہ حوالہ ان کی ہائیکو شاعری کے بارے میں ہے، مگر غزل میں بھی ان کی فنی مہارت ایسی ہی بے ساختگی سے لبریز ہے)۔ غرض، ماجد صدیقی نے فنِ غزل کے کلاسیکی محاسن – مترنم بحر، پابند ردیف و قافیہ، ایجاز و کنایہ، تہہ داریِ معنی – کو بر قرار رکھتے ہوئے عصرِ حاضر کے مضامین کو سمویا ہے اور یوں غزل کی صنف کو وسعتِ اظہار میں ایک نیا باب عطا کیا ہے۔

کلاسیکی شعری روایت کے اثرات

ماجد صدیقی اگرچہ نئے زمانے کے شاعر ہیں لیکن ان کے کلام پر کلاسیکی اردو شعری روایت کے گہرے اثرات مرتسم ہیں۔ خود اُن کی تربیت بھی ادبی لحاظ سے کلاسیکی شعرا کے سائے میں ہوئی – انہوں نے ایم اے اردو کیا اور بچپن سے شاعری کا ذوق اپنی شاعرہ والدہ سے پایا​، لہٰذا میر، غالب، اقبال اور دوسرے اردو اساتذۂ سخن ہی نہیں بلکہ پنجابی شاعری کے اساتذہ جیسے میاں محمد بخش، بلھے شاہ اور ایسے دوسروں کا رنگِ سخن ان کے وجدان میں شامل ہے۔ ناقدین کی رائے میں ماجد صدیقی نے شاعری میں میر اور غالب سے فیض حاصل کیا ہے اور جہاں کہیں وہ مسائلِ حیات کا ذکر کرتے ہیں وہاں میر و غالب کے رنگِ تغزل کی جھلک صاف نظر آتی ہے​۔ یعنی اُن کی شاعری میں وہی سوز و گداز، وہی انسانی درد اور وہی عاشقانہ وقار دکھائی دیتا ہے جو میر و غالب کا خاصہ ہے۔ مثال کے طور پر میر تقی میر نے دنیا کے معاملات پر اپنے غم کو کچھ یوں بیان کیا تھا کہ

راہ دور عشق میں روتا ہے کیا

آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا

وغیرہ، اور غالب کا مشہور شعر ہے:

بسکہ دشوار ہے ہر کام کا آساں ہونا
آدمی کو بھی میسر نہیں انساں ہونا​

غالب انسانی کمال کو دسترس سے باہر بتاتے ہیں، لیکن ماجد صدیقی اپنے ایک شعر میں گویا اس خیال کو آگے بڑھاتے ہوئے عصرِ حاضر کے انسان کا حال یوں کہتے ہیں

’’ قّصۂ دہر کا عنواں ہونا

ہے میّسر مجھے انساں ہونا ‘‘

 یہاں ایک طرح سے کلاسیکی تصورِ انسانیت کو نئے عہد کے احساسِ خودی کے ساتھ برتا گیا ہے۔ یوں ان کے بعض اشعار کلاسیکی شعرا کے اشعار کی بازگشت یا ان سے مکالمہ محسوس ہوتے ہیں۔

ماجد صدیقی کے ہاں کلاسیکی علامتوں اور تلمیحوں کا استعمال بھی ملتا ہے۔ عشقیہ غزل کا روایتی منظرنامہ؛ جس میں محبوب کا کوچہ، ہجر کی راتیں، قفس میں اسیر بلبل، خزاں و بہار کے استعارے۔ یہ سب عناصر ماجد کی غزلوں میں موجود ہیں، تاہم وہ انہیں اپنے انداز میں ڈھالتے ہیں۔ مثال کے طور پر آغاز میں ایک جگہ کہتے ہیں

’’تھے کبھی ہم بھی گلستاں ماجدؔ

 اب وطیرہ ہے بیاباں ہونا‘‘

اس میں گلستاں اور بیاباں کا جو تضاد ہے وہ کلاسیکی ادب (مثلاً غالب کے شعر ’’در و دیوار سے ٹپکے ہے بیاباں ہونا‘‘) کی یاد دلاتا ہے، مگر ماجد صدیقی نے اسے اپنے حالات کا استعارہ بنا کر پیش کیا ہے۔ اسی طرح قفس، آشیاں، صیّاد وغیرہ جیسے الفاظ ان کی شاعری میں آ کر ایک طرف تو میر، درد اور مومن کی یاد دلاتے ہیں لیکن ساتھ ہی کوئی نئی معنویت بھی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ سب کلاسیکی روایت کے اثر ہی ہیں کہ ماجد صدیقی کی جدید غزل بھی اس تسلسل کا حصہ محسوس ہوتی ہے جو ولی دکنی سے لے کر اقبال تک چلتا آیا ہے۔

کلاسیکی روایت سے گہری واقفیت کے باعث ماجد صدیقی نے بعض کلاسیکی شعرا کے کلام پر کام بھی کیا۔ انہوں نے فیض احمد فیض کی غزلوں کا ایک انتخاب پنجابی زبان میں ترجمہ کیا جو ’’رات دی رات‘‘  کے نام سے شائع ہوا۔ فیض خود کلاسیکی روایت اور جدید فکر کا سنگم تھے، اور ماجد صدیقی بھی اسی امتزاج کے قائل نظر آتے ہیں۔ وہ فیض کے مداح ہیں اور انہیں عہد ساز شاعر مانتے ہیں​، اگرچہ ان کی رائے میں فیض کو ایک ہی موضوع سے وابستہ رہنے کے باعث کچھ محدودیت کا نقصان اٹھانا پڑا​۔ شاید اسی لیے ماجد صدیقی نے اپنی شاعری میں موضوعات کا دائرہ وسیع رکھا اور صرف عشقِ مجازی یا وطن تک خود کو محدود نہیں کیا۔ لیکن تغزل اور کلاسیکی وقار کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا۔ ان کے ہاں جب کبھی فکرِ معاش یا عصری مسائل کا ذکر آتا ہے، بیان میں وہی نزاکت اور رمزیت برقرار رہتی ہے جو کلاسیکی شاعری کا خاص وصف ہے۔ خلاصہ یہ کہ ماجد صدیقی نے کلاسیکی شعری روایت سے روحانی غذا بھی حاصل کی اور فنی اسباق بھی، لیکن اسے محض تقلید تک محدود نہیں رکھا بلکہ اسی سرمایۂ روایت کو نئی جہات کے ساتھ آگے بڑھایا ہے۔ اس امتزاج نے ان کی غزل کو ایک طرف کلاسیکی شاعری کی عظمت سے جوڑے رکھا اور دوسری طرف جدید حسیت سے مالامال کر دیا۔

جدید غزل میں منفرد مقام

ماجد صدیقی کی شاعری خصوصاً آغاز کا جائزہ لیتے ہوئے یہ بات روزِ روشن کی طرح سامنے آتی ہے کہ انہوں نے روایت اور جدّت کے سنگم پر اپنی ایک الگ راہ نکالی۔ جدید اردو غزل میں ان کا مقام اس اعتبار سے منفرد ہے کہ وہ نہ تو کسی تحریک کے زیرِ اثر ڈگر کے شاعر ہیں اور نہ ہی شہرت کے لیے رائج الوقت فارمولا اپنانے والے۔ وہ اپنی طرز کے خود تخلیق کار ہیں​۔ ان کا ادبی حلقوں میں آنا جانا بہت محدود رہا اور تمام عمر انہوں نے ایک غیر شوریدہ مگر معتبر تخلیقی سفر طے کیا​۔ اس گوشہ نشینی یا انفرادیت پسند رویے کا اثر یہ ہوا کہ وہ ادبی گروہ بندیوں سے دور رہ کر بھی اپنی پہچان بنانے میں جہاں کامیاب ہوئے وہاں ناکام بھی ٹھہرے کیونکہ شعری منظر نامے پر ان لوگوں کا ہی ذکر رہتا ہے جو سماجی طور پر فعال ہوں یا کسی نہ کسی واقعے کے سبب اخباروں کی زینت بنے رہیں۔ ان کے قریب جو شاعرانہ ذوق رکھنے والے احباب تھے، مثلاً خاقان خاور، آفتاب اقبال شمیم، ساجد علوی وغیرہ​، وہ سب ان کی قدر کرنے والے تھے۔ اپنے چند معاصرین میں ماجد صدیقی خاص طور پر شکیب جلالی، ناصر کاظمی اور ریاض مجید کا ذکر محبت سے کرتے ہیں​۔ یہ وہ شعرا ہیں جنہوں نے کلاسیکی غزل کے رنگ کو جدید احساس کے ساتھ برتا۔ ماجد صدیقی شکیب جلالی کو بالکل منفرد اور اعلیٰ مقام کا حامل سمجھتے تھے اور ناصر کاظمی کی ملائمتِ بیان کے معترف تھے​۔ اسی طرح ظفر اقبال کی نئی طرز کی غزل کو پسند کرتے تھے لیکن ماجد صدیقی نے اپنی روش وہی رکھی جو ان کے مزاج اور فن کے لیے موزوں تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنی الگ پہچان برقرار رکھی۔

جدید غزل میں ان کا مقام متعین کرتے ہوئے یہ امر بھی قابلِ ذکر ہے کہ انہوں نے اردو کے ساتھ ساتھ پنجابی میں بھی غزل کہی اور خوب کہی​۔ پنجابی زبان میں غزل کہنے والے بہت کم شاعر ہوئے ہیں، اور ماجد صدیقی کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے دونوں زبانوں میں شاعری کر کے دونوں کے ادب کو مالامال کیا۔ ان کا پنجابی غزل کا پہلا مجموعہ 1964 میں شائع ہوا​ اور اردو کا پہلا مجموعہ 1971 میں – یوں وہ بیک وقت دو محاذوں پر ایک نئے سفر کا آغاز کر رہے تھے۔ پنجابی کی شاعرانہ روایت (جس میں لوک رنگ، صوفیانہ روایت اور حقیقت پسندی ہے) نے ان کی اردو شاعری کو ایک جداگانہ رنگ دینے میں مدد دی​۔ ان کی شاعری میں جو بے تکلفی اور براہِ راست زندگی کے مسائل تک رسائی ہے، اس کے پس منظر میں ان کا پنجابی تجربہ بھی کارفرما رہا​۔ یہ ایک انوکھا امتزاج ہے جو بہت کم شعرا کو نصیب ہوا۔ اسی امتزاج نے جدید اردو غزل میں ان کی آواز کو اوروں سے الگ اور توجہ طلب بنایا۔

اگر شہرت کے پیمانے پر دیکھیں تو ماجد صدیقی کو فراز، محسن نقوی یا جون ایلیا جیسے بعض ہم عصروں جیسی عوامی مقبولیت نہیں مل سکی۔ اس کی ایک وجہ ان کی کم آمیزی اور سادہ مزاجی بھی تھی۔ انہوں نے ادبی دنیا میں اپنی دکان چمکانے کی بجائے خالص تخلیقی ریاضت پر یقین رکھا​۔ ڈاکٹر تصدق حسین راجا لکھتے ہیں کہ آج کے دور میں دکان چمکانے کے لیے محض اچھا ادب تخلیق کرنا کافی نہیں، بلکہ مضبوط گروہوں کا حصہ بننا ضروری ہو گیا ہے، اور ماجد صدیقی نے اس سے الگ تھلگ رہ کر خاموشی سے اپنا کام کیا​۔ تاہم ان کی شاعری کا جوہر اتنا قیمتی ہے کہ اسے زمانی گروہ بندیوں کی پرواہ نہیں۔ ان کے کلام پر تحقیقی مقالات لکھے جا چکے ہیں اور سنجیدہ ادب میں ان کو بھرپور خراج مل رہا ہے​۔ خود ماجد صدیقی کے لیے یہ امر یقینا اطمینان بخش تھا کہ وہ اردو شعر و سخن کی آبرو کو بڑھانے میں حصے دار ہیں​۔ جدید غزل میں ان کا حصہ یہ ہے کہ انہوں نے غزل کو محض غنائیت اور عشق بازی تک محدود رکھنے کے رجحان کی بجائے اس کو زندگی کے سنجیدہ موضوعات کا پیرہن پہنایا مگر اس کی کلاسیکی لطافت اور حسن کو مجروح بھی نہ ہونے دیا۔ ایسی شاعری اپنی الگ پہچان خود بناتی ہے۔ چنانچہ آج ماجد صدیقی کا ذکر جدید اردو غزل کے ان شاعروں میں ہوتا ہے جنہوں نے روایت اور جدیدیت کے امتزاج سے ایک نئے رنگِ تغزل کی بنیاد ڈالی۔

ماجد صدیقی کی غزلوں کی اولین کتاب آغاز دراصل اردو غزل میں ایک نئے آغاز کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس مجموعے کی غزلوں نے دکھایا کہ کس طرح ایک شاعر کلاسیکی ورثے سے فیض بھی حاصل کر سکتا ہے اور ساتھ ہی نئے دور کی فکری آگہی کو بھی اپنے کلام میں سمو سکتا ہے۔ ماجد صدیقی کے کلام میں فکری گہرائی، جذبے کی صداقت، زبان و بیان کی چاشنی اور فنی پختگی سب یکجا ہو گئے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ان کا شمار ان شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو غزل کی روایت کو آگے بڑھایا اور اسے عصرِ حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا۔ آغاز کی غزلیں آج دہائیاں گزرنے کے بعد بھی تازہ محسوس ہوتی ہیں کیونکہ ان میں انسانی احساسات کی سچائی اور آفاقیت موجود ہے۔ ماجد صدیقی کا کلام نہ صرف اپنی ذات میں قابلِ قدر ہے بلکہ اردو غزل کی مجموعی روایت میں بھی ایک گراں قدر اضافہ ہے۔ ان کی غزلوں کی معنویت اور فنی عظمت قاری کو محسوس بھی ہوتی ہے اور متاثر بھی کرتی ہے۔ بطور ایک صاحبِ طرز شاعر، ماجد صدیقی جدید اردو غزل میں ہمیشہ اپنے منفرد مقام کے ساتھ یاد رکھے جائیں گے کہ انہوں نے غزل کے دامن کو وسیع تر کیا اور اسے دل کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ کر کے ایک عہد آفریں شاعری تخلیق کی​۔ ان کی شاعری بلاشبہ تحسین کی مستحق ہے جو آنے والی نسلوں کو بھی کلاسیکی رنگ و آہنگ اور جدید حسیت کے سنگم پر تخلیق کے نئے امکانات کی طرف متوجہ کرتی رہے گی۔

فضل الرحمان عظیمی