تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

گھر

ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 202
جگہ جگہ آنکھوں میں چُبھتے منظر ہیں
ہم کس کج نظمی کی، پیہم زد پر ہیں
گُن جتلاتے ہیں کیوں ہم، آقاؤں سے
ہم جو حلقہ بگوشی ہی کے خُوگر ہیں
خودی کمائی ہے کیا؟چھینا جھپٹی سے
اوج نشینوں نے، جو سارے خود سر ہیں
عدل گہوں پر بھی ہے گماں زندانوں کا
عادل تک بھی جہاں کے اسیرانِ زر ہیں
نرخوں اور رویّوں تک میں دہشت کے
چُھپے ہُوئے کیا کیا پُھنکارتے اژدر ہیں
کب سے چِھنی ہے اِن سے جانے خوش خُلقی
شہر شہر کیونکر اُجڑے، بستے گھر ہیں
کانوں میں تو گُونج صدائے فلاح کی ہے
حال ہمارے ہی ماجد کیوں ابتر ہیں
ماجد صدیقی

ضَو سے ہر کنکری گُہَر کر دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 157
چاند چہرہ کبھی اِدھر کر دے
ضَو سے ہر کنکری گُہَر کر دے
کاش محصورِ شب دیاروں میں
انگناں انگناں کوئی سحر کر دے
اُس پہ قدرت لٹائے قادر بھی
جس کو وہ صاحبِ ہنر کر دے
شاہ ایسا کوئی بہم نہ ہُوا
بڑھ کے جو زیر کو زبر کر دے
تو کہ ہے خیر بانٹنے والا
کم ہمارے یہاں کی شر کر دے
گردِ ادبار ہے جمی جن پر
اُجلے اُجلے وہ سب نگر کر دے
میں بھی تو چھاؤں بانٹنا چاہوں
تُو مجھے راہ کا شجر کر دے
وُہ کہ جنّت میں ہے جو موعودہ
اس جہاں میں وہ میرا گھر کر دے
زردیاں بھیج کر خزاؤں کی
سارے ہم سوں کو اہلِ زر کر دے
نذرفیض
ماجد صدیقی

سانس بھی دیس میں مشکل ہی سے در آتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 151
ناک کی سیدھ میں چلنے کا ہُنرآتا ہے
سانس بھی دیس میں مشکل ہی سے در آتا ہے
تب پتہ چلتا ہے یہ، پینگ میں جب جھول پڑے
راہ گم کردہ بہت دیر میں گھرآتا ہے
واہمے طَے رہِ منزل نہیں کرنے دیتے
ہاتھ کم کم ہی سجنوا کا نگر آتا ہے
ہرکہیں بانٹتے تم خیر کی سوغات پھرو
گود میں لَوٹ کے بس تحفۂ شر آتا ہے
ہو فرشتہ بھی تو ابلیس کا پَیرَو نکلے؟
گھر میں سُسرال کے، کیسا ہے جو بر آتا ہے
یہ نگر اپنا بھی کیا مزرعۂ شر ہے کہ جہاں
دن کو بھی گھر سے نکلتے ہوئے ڈر آتا ہے
چاہے ماجد! اُسے تُم آن۔۔کہ پہچان کہو
مرتبہ ہاتھ جو آئے تو بہ زر آتا ہے
ماجد صدیقی

گلی گلی کے بدامنی کے نہ شرر ہوتے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 131
کاش فساد سبھی سرکار کے سر ہوتے
گلی گلی کے بدامنی کے نہ شرر ہوتے
ہم نہ پہنچ پائے ایوانوں میں ورنہ
سب کے سب ایوان عوامی گھر ہوتے
لعنت بھجیے ایسی راہنمائی پر
ہم نہ کبھی خودساختہ ملک بدر ہوتے
بول ہمارے بھی سچ ہوتے گر ہم بھی
صاحب رقبہ ہوتے صاحب زر ہوتے
کیا گیا ہوتا گر روشن چہروں کو
بے آباد نہ یئوں یہ اپنے نگر ہوتے
بات کی تہہ میں بھی اے کاش اتر سکتے
شاہ ہمارے گر کچھ اہلِ ہنر ہوتے
ذوق کو شاہ کی قربت کیسے بہم ہوتی
وہ بھی اگر ماجد ہم سے خودسر ہوتے
ماجد صدیقی

جنت ہی کا نمونہ ٹھہرے اپنا گھر بھی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 110
پھول مرے انگناں میں بھی ہیں ہونٹوں پربھی
جنت ہی کا نمونہ ٹھہرے اپنا گھر بھی
موسم ہی ہے پالنے والا ہمیں پھہاروں
موسم ہی کرنے والا ہے زیر و زبر بھی
کیسے فرشتہ ٹھہرے، اور شیطان ہو کیسے؟
انساں ہی میں خیرہے انساں ہی میں شر بھی
گھر سے نکل کے گھر لوٹ آنا مشکل لاگے
کنواں بنی ہے موت کا اک اک راہگزر بھی
کھلی فضاؤں میں بھی اُڑانیں ہیں آزردہ
موم لگے لگتے ہیں اپنے بال و پر بھی
پاس ہوں یہ تو آدمی سونا ورنہ مٹی
ماجد جی کیا چیزیں ہیں یہ سیم و زر بھی
ماجد صدیقی

یادآئے محکوم کا دیہہ بدر ہونا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
حکم پہ پینچوں کے یک دم بے گھر ہونا
یادآئے محکوم کا دیہہ بدر ہونا
سنتے ہیں خُو بُومیں لگے فرعونی سا
صاحبِ رقبہ ہونا، صاحبِ زر ہونا
عمرِ اخیر میں یوں بھی دیکھنا پڑتا ہے
جسم و جسامت کا ویران شجرہونا
ہر مجہول ہمیں ہی دھر لے جاتا ہے
عیب جو ہے تو ہمارا اہلِ ہنر ہونا
کوئی نہ مجھ سا پِٹ جائے، وہ خاک کہے
جس کا نصیبہ ٹھہرے راہ گزر ہونا
سچ پوچھیں تو بادشہی سے کم تو نہیں
آج کے دورِگراں میں اپنا گھر ہونا
ویسے بھلے ماجدہو ہمِیں سا، پہ اندر سے
صاحبِتاج کو چاہیے پیغمبر ہونا
ماجد صدیقی

اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂِ شر سے نکلے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
خس و خاشاک بھی کب کے ہیں بھنور سے نکلے
اک ہمیں ہیں کہ نہیں نرغۂِ شر سے نکلے
زخم وہ کھل بھی تو سکتا ہے سِلایا ہے جسے
ہم بھلا کب ہیں حدِ خوف و خطر سے نکلے
یہ سفر اپنا کہیں جانبِ محشر ہی نہ ہو
ہم لیے کس کا جنازہ ہیں یہ گھر سے نکلے
کل جو ٹپکے تھے سرِ کوچۂِ کوتہ نظراں
اشک اب کے بھی وہی دیدۂ تر سے نکلے
عکس کچھ اپنا ہی آئینہ حالات میں تھا
سٹپٹائے ہوئے جب دامِ سفر سے نکلے
کون کہہ سکتا ہے ماجدؔ کہ بایں کم نگہی
حشر کیا ساعتِ آئندہ کے در سے نکلے
ماجد صدیقی

دیس سے ہٹ کر کون ٹھکانہ گھر سا ہو

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 12
جس کا اندر جنّت کے اندر سا ہو
دیس سے ہٹ کر کون ٹھکانہ گھر سا ہو
بیشک دِل اُس میں اُلجھے پر فتنہ وُہ
زن سا اور زمیں اور نہ زر سا ہو
رحمتِ یزداں تک سے بھی وہ ڈر جائے
جس کھیتی پر بادل ٹوٹ کے برسا ہو
اُس خطّے میں اچّھے دن کم کم آئیں
تخت جہاں کا بھی حقدار کو ترسا ہو
گُنی بہت اور اپنی آن کا رکھوالا
جس کا بیٹا ہو میرے یاور سا ہو
اپنے یہاں گھر بار کے سب دکھ سہنے کو
حوصلہ ہو تو ماجِد وُہ ساگر سا ہو
ماجد صدیقی

سرسوں کی رُت ہے اور ہے کشتِ نظر اداس

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
یابس دنوں کی یاد سے ہے سر بہ سر اداس
سرسوں کی رُت ہے اور ہے کشتِ نظر اداس
جیسے یہ اب ہیں کُند نہ تھیں اِن کی یوں سُریں
دیکھے نہیں تھے ایسے کبھی نغمہ گر اداس
ساقط ہُوا ہے جیسے اُبھرتے ہی آفتاب
اب کے کچھ اِس طرح سے ہوئے بام و در اداس
حیراں نہیں تھے یوں کبھی اشکوں کے آئینے
اُترا نہیں تھا اِن میں نگر کا نگر اداس
یوں تو اٹا نہ تھا کبھی گردِ سکوت سے
راہوں میں اِسطرح تو نہ تھا ہر شجر اداس
دونوں پہ موسموں کا اثر یوں کبھی نہ تھا
ششدر ہوں میں اِدھر تو اُدھر میرا گھر اداس
جیسے الاؤ پر سے کبوتر گزر کے آئے
لَوٹا ہے اب کے ہو کے بہت نامہ بر اداس
پہروں کے پہر،یُوں کبھی گڈ مڈ ہوئے نہ تھے
شب ہے اداس، شام اداس اور سحر اداس
پُورا ہُوا تو ساتھ ہی گھٹنے لگا یہ چاند
ماجد ہے اِس حیات کا سارا سفر اداس
ماجد صدیقی

کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 143
وہ فردِ جرم کا غلبہ ہے دربہ در دیکھا
کہ بے قصور نہ بستی میں کوئی گھر دیکھا
بدن میں خوف سے پائی سکت نہ جنبش کی
یہ انکسار بھی باوصفِ بال و پر دیکھا
بس اِتنا یاد ہے قصہ گرانیٔ شب کا
کوئی گلاب نہ کِھلتا دم سحر دیکھا
لہو کی آنچ لیے جو بھی تا بہ لب آیا
وہ حرف بعد میں لکھا بہ آبِ زر دیکھا
ہُوا ہو برق کی مانند سامنا جس سے
جدا نہ ذہن سے ہوتا ہوا وہ ڈر دیکھا
چمن کا حال وہ ماجدؔ! کہے گا کیا جس نے
ہر ایک شاخ کے پہلو میں ہو تبر دیکھا
ماجد صدیقی

فلک سے فیض کے طالب ہیں پھر شجر اپنے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 120
لُٹا کے حرصِ نمو میں گل و ثمر اپنے
فلک سے فیض کے طالب ہیں پھر شجر اپنے
نظر، خیال، گماں، تشنگی تمّنا کی
نہ آئے لوٹ کے جتنے تھے نامہ بر اپنے
یتیم جیسے جواں ہو کے بھی یتیم رہے
اُسی طرح کے گماں اور وہی ہیں ڈر اپنے
فضا کے دوش سے کس آن پھینک دیں جانے
مسافتوں سے شکستہ یہ بال و پر اپنے
ملا وُہ یار تو دل یوں مچل اُٹھا ماجدؔ
کہ بعدِ عمر مُڑے جیسے کوئی گھر اپنے
ماجد صدیقی

اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 92
سحر تو ایک سی گُرگ و غزال پر اُترے
اُداس شام مگر ایک ہی کے گھر اُترے
سنی پکار نہ آئی صدا سسکنے کی
نجانے کون سی گھاٹی میں ہم سفر اُترے
نکل کے چاند سے کیوں راہ بھول جاتی ہے
وُہ چاندنی کہ جو بیوہ کے بام پر اُترے
انہی پہ سانپ نگلتے ہیں ناتوانوں کو
سفیر بن کے سکوں کے ہیں گو شجر اُترے
مری بھی رُوح کا ساگر ہُوا کرم فرما
مری بھی آنکھ میں دیکھو تو ہیں گہر اُترے
سمیٹ لائے جہاں بھر کے رتجگے ماجدؔ
وہ ذہن جس پہ فلک سے کوئی ہُنر اُترے
ماجد صدیقی

شاخ کو، پھر ہے تبر، یاد آیا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 31
جس سے لرزاں تھی وُہ ڈر، یاد آیا
شاخ کو، پھر ہے تبر، یاد آیا
حبس سانسوں میں، جہاں بھی اُترا
مُجھ کو ہجرت کا، سفر یاد آیا
چاند تھا جن کا، چراغاں مَیں تھا
پھر نہ وُہ بام، نہ در یاد آیا
زخم سا محو، جو دل سے ٹھہرا
کیوں اچانک، وُہ نگر یاد آیا
کیسی سازش یہ صبا نے، کی ہے
کیوں قفس میں، گلِ ترا یاد آیا
بُوند جب، ابر سے بچھڑی ماجدؔ
مُجھ کو چھوڑا ہُوا گھر، یاد آیا
ماجد صدیقی

اہلِ نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 42
مجھ سے کشیدہ رو ہیں کیونکر میرے ہنر کے لوگ
اہلِ نظر میں بھی ہیں گویا تنگ نظر کے لوگ
جیسے کم سن چوزے ہوں مرغی کے پروں میں بند
جبر کی چیلوں سے دبکے ہیں یوں ہر گھر کے لوگ
ہر فریاد پہ لب بستہ ہیں مانندِ اصنام
عدل پہ بھی مامور ہوئے کیا کیا پتّھر کے لوگ
صبح و مسا ان کے چہروں پر اک جیسا اندوہ
منظر منظر ہیں جیسے اک ہی منظر کے لوگ
کچھ بھی نہیں مرغوب اِنہیں، کولہو کے سفر کے سوا
میرے نگر کے لوگ ہیں ماجد اور ڈگر کے لوگ
ماجد صدیقی

مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 13
تھا نہ جانے کون سے بے رحم ڈر کا سامنا
مَیں نہ کر پایا کبھی اپنی نظر کا سامنا
کرچیاں اُتری ہیں آنکھوں میں اندھیری رات کی
اور اُدھر مژدہ کہ لو کیجو سحر کا سامنا
ننھی ننھی خواہشوں کا مدفنِ بے نُور سا
زندگی ہے اب تو جیسے اپنے گھر کا سامنا
تجربہ زنداں میں رہنے کا بھی مجھ کو دے گیا
بعد جانے کے ترے دیوار و در کا سامنا
پیرہن کیا جسم کا حصہ سمجھئے اَب اسے
تا بہ منزل ہے اِسی گردِ سفر کا سامنا
دیکھنے زیبا ہیں کب ایسے کھنڈر بعدِ خزاں
کون اب کرنے چلے شاخ و شجر کا سامنا
کچھ کہو یہ کس جنم کی ہے سزا ماجدؔ تمہیں
روز و شب کیوں ہے یہ تخلیق ہُنر کا سامنا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑