ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 59
سوچ بدن میں زہر نیا پھیلائے گی
رات گئے تک نیند نہ مجھ کو آئے گی
بار بار جو اُگ آتی ہے راہوں میں
کس کس سے دیوار یہ چاٹی جائے گی
ڈال ڈال کر کوسنے پھیلی جھولی میں
بُڑھیا دیر تلک اب تن سہلائے گی
آگ سے جس نے اپنا ناطہ جوڑ لیا
وُہ رسّی کیا اپنا آپ بچائے گی
لطف و سکوں کا جھونکا تک جو پا نہ سکی
قوم مری کس موسم پر اِترائے گی
ابکے آب میں جال بِچھا جو چَوطرفہ
مچھلی مچھلی اُس میں جان گنوائے گی
ماجِد کُود کے دیکھ تو عزم کے دریا میں
بعد کی صورت بعد میں دیکھی جائے گی
ماجد صدیقی