تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

گناہ

نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 84
نگاہ ہم پہ جو وہ گاہ گاہ کرتے رہے
نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے
تھے اُن کے ناز نظر میں، نیاز تھے اپنے
بیاں حکایتِ محتاج و شاہ کرتے رہے
بھٹکنے دی نہ نگہ تک کسی کی پاس اپنے
یہی وہ جبر تھا جو اہلِ جاہ کرتے رہے
ہر ایک شب نے دئیے زخم جو ہمیں، اُن پر
ستارۂ سحری کو گواہ کرتے رہے
ہمیں سے پوچھئے اِس ربط میں مزے کیا ہیں
کہ رفعتوں سے ہمیں رسم و راہ کرتے رہے
چمن میں برق نے پھر کی ہے کوئی صنّاعی
ہوا کے ہونٹ جبھی واہ واہ کرتے رہے
کرم غیاب میں کچھ اُس سے تھا جُدا ماجدؔ
ہمارے سامنے جو خیر خواہ کرتے رہے
ماجد صدیقی

شجر کی ژالوں سے جس طرح رسم و راہ ٹھہرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 159
یونہی کچھ اُس کا بھی ہم سے شاید نباہ ٹھہرے
شجر کی ژالوں سے جس طرح رسم و راہ ٹھہرے
وہ دشمنِ جاں بھی اب نہ اترے مقابلے میں
کہو تو جا کر کہاں یہ دل کی سپاہ ٹھہرے
جدا جدا ہی دکھائی دے بخت ہر شجر کا
چمن میں پل بھر کو جس جگہ بھی نگاہ ٹھہرے
یہ ہم کہ جن کا قیام بیرونِ در بھی مشکل
اور آپ ہیں کہ ازل سے ہیں بارگاہ ٹھہرے
مڑے حدِ تشنگی وہ چھو کر بھی ہم جہاں پر
زباں کا بیرونِ لب لٹکنا گناہ ٹھہرے
یہ کِبر پائے دکھا کے پنجوں کا زور ماجدؔ
فضائے صحرا میں جو کوئی کج کلاہ ٹھہرے
ماجد صدیقی

ثبوت ورنہ سزا کو نہ کچھ گناہ میں تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 110
کھنچا تھا ہم سے وہی جس کی بارگاہ میں تھے
ثبوت ورنہ سزا کو نہ کچھ گناہ میں تھے
جہاں جہاں سے ملے رنج جس قدر بھی ہمیں
وفا کی راہ میں وہ سب کے سب نگاہ میں تھے
تھے سر بلند جو بد نیتی کی زد میں تھے
جو چاہکَن تھے گرفتار خود ہی چاہ میں تھے
قدم ہی ایک نہ تھے نوکِ تیغ پر اپنے
نجانے اور بھی کیا مرحلے نباہ میں تھے
نہ دسترس میں ہُوا حسن جب تلک اُس کا
عجیب وسوسے جذبات کی سپاہ میں تھے
بدن تھا اُس کا کہ اِک سلطنت بہم تھی ہمیں
مزے تھے اور ہی جو اُس جلال و جاہ میں تھے
گلہ ہے برق سے ماجدؔ نہ آشیاں سے ہمیں
شجر نحیف تھا خود جس کی ہم پناہ میں تھے
ماجد صدیقی

اُسی سے تابِ سفر عزم کی سپاہ میں ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 26
شبِ سیہ میں جگنو سا جو نگاہ میں ہے
اُسی سے تابِ سفر عزم کی سپاہ میں ہے
ذرا سا ہے پہ نہ ہونے کا اور ہونے کا
ثبوت ہے تو فقط خواہشِ گناہ میں ہے
جو بے ضرر ہے اُسے جبر سے اماں کیسی
یہاں تو جبر ہی بس جبر کی پناہ میں ہے
زمیں کس آن نجانے تہِ قدم نہ رہے
یہی گماں ہے جو لاحق تمام راہ میں ہے
نجانے نرغۂ گرگاں سے کب نکل پائے
کنارِ دشت جو خیمہ، شبِ سیاہ میں ہے
بڑھائیں مکر سے کیا ربط، جی جلانے کو
یہ ہم کہ جن کا یقیں ہی فقط نباہ میں ہے
نہ اور کچھ بھی سہی نام ہے ہمارے ہی
جلال جتنا بھی ماجدؔ مزاجِ شاہ میں ہے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑