ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 71
ہمیں کاہے کو ہر پل پت جھڑوں سے بدگمانی ہے
نظر کیونکر نہ رکھیں اُس پہ جو رت بھی سہانی ہے
تعفّن آشنا ٹھہرے نہ ہو نابُود نظروں سے
وہ پانی خاک پر جس کو بہم پیہم روانی ہے
سحر کا دوپہر کا اور زوالِ شام کا منظر
تری ہو یا مری سب کی بس ایسی ہی کہانی ہے
حضور اپنے جو ہم جنسوں سے نت سجدے کراتا ہے
زمینی مت کہو اُس کو وہ حضرت آسمانی ہے
کسی کے جھوٹ کو تم جھوٹ ثابت کرکے دیکھو تو
سنو پھر اس سے کیا کیا پاس اُس کے گلفشانی ہے
وہ کنجشک و کبوتر ہو کہ ماجِد فاختہ اُس کے
پر و بازو میں لرزہ امن خواہی کی نشانی ہے
ماجد صدیقی