ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 93
مصلحتوں کے یہ سب فتنے ہیں
مجرم شاہ بھی بچ نکلے ہیں
ڈفلی ڈفلی رقص کریں ہم
ہم جو عقل کے سب اندھے ہیں
ہم بھی جیب کُھلے میں کٹا کے
گھر کا رستہ بھول گئے ہیں
بے سمتی کے قضیوں پر ہی
ہنگامے برپا دیکھے ہیں
بدخواہوں تک کے حق میں بھی
اپنی زباں سے پھول جھڑے ہیں
غاصبوں، مجرموں کے آپس میں
سمجھوتے ہی سمجھوتے ہیں
ماجد تو نے بَیت جو لکھے
آتے وقتوں کے ہیرے ہیں
ماجد صدیقی