ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
ماجد تجھ پہ خصوصی یہ انعام ہُوا
جتنا ترا ہے؟ روشن کس کا نام ہُوا
پیشِ نظر رہتا ہے ہمیشہ اُس کا بدن
وہ کہ جو تُندیٔ صہبا سے ہے جام ہُوا
جیسا ہوا ہم سے اُس کے دُور ہونے پر
ایسا کس کے بچھڑنے پر کُہرام ہُوا
قاتلِ محسن تک بھی جہاں برحق ٹھہرے
کون اُس دیس سا مفروضوں کا غلام ہُوا
حاکم جیسے تخت پہ اِک دن کو اتریں
سکّہ تک ہے اُن کے سبب سے چام ہُوا
جیسے بُھنے دانوں کا اُگنا ناممکن
اچّھے دنوں کا خواب خیالِ خام ہُوا
ماجد صدیقی