ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 152
عدل نہیں ہاتھ آنے کا
فائدہ؟ جی سے جانے کا
دیکھنا تھا چندا کو بھی
مرحلہ داغ اپنانے کا
خبروں والے جان چکے
کیا کیا فن دہلانے کا
ہم تم بھی تو تھے سجناں
عنواں کبھی فسانے کا
ہاتھ آتا ہے کبھی کبھی
موسم پھول کھلانے کا
اہلِ سیاست گُر جانیں
بہلانے پُھسلانے کا
کاش کوئی سیکھا ہوتا
ماجد طَور زمانے کا
ماجد صدیقی