تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

کمائی

قلعہ بند اَیوان ہیں، یارا دُہائی کا نہیں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 74
تا بہ منصف، تا بہ شہ، رستہ رسائی کا نہیں
قلعہ بند اَیوان ہیں، یارا دُہائی کا نہیں
ہاں بہت مَیلے ہیں وہ، لیکن مفیدِ رہبراں
مجرموں کو کوئی اندیشہ دُھلائی کا نہیں
کیا سے کیا کھل کھل چلی ہے اُس کے چہرے کی کتاب
ہم کریں تو کیا، کہ اب موسم پڑھائی کا نہیں
رگ بہ رگ اِک دوسرے میں آخرش ضم یو ں ہوئے
یار سے کوئی علاقہ اب جُدائی کا نہیں
ہاتھ سُکھ کی بھیک کو اُٹھنے لگے ہیں یا خدا
ہم نے حصہ آپ سے مانگا خُدائی کا نہیں
ہے تو شاہوں کو ہمارے بہرِ عشرت یہ جنوں
قوم کے افراد کو لپکا گدائی کا نہیں
وہ کہیں ماجد’ سخن مایہ، ہے کیسے اینٹھ لی
ہم کہیں یہ دَھن، دلالت کی کمائی کا نہیں
ماجد صدیقی

یہ ایک شمعِ سخن ہم نے جو جلائی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 22
ضیائے دہر، اندھیروں میں کھینچ لائی ہے
یہ ایک شمعِ سخن ہم نے جو جلائی ہے
کوئی کوئی ہے خُلیفہ خُدا کا ایسا بھی
تمام خلق میں جس کے سبب دُہائی ہے
مِلا ہے زاغ کو ٹُکڑا کہیں سے روٹی کا
اور ایک جُھنڈ کی اُس ایک پر چڑھائی ہے
بہ حقِ ہم نفساں ہے جو شر، یہ انساں ہے
کہ کل بھی جس نے قیامت نئی اُٹھائی ہے
نجانے کتنے دھڑوں میں ہے منقسم ٹھہری
وُہ نسل، روزِ ازل سے جو بھائی بھائی ہے
لگا رہا ہے تُو کیوں اِس کو داؤ پر ماجِد!
یہ آن ہی تو تری زیست کی کمائی ہے
ماجد صدیقی

جھُوٹ کی کھاد سے ہر فصل اُگائی جائے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 66
کیوں نہ تدبیر کوئی ایسی لڑائی جائے
جھُوٹ کی کھاد سے ہر فصل اُگائی جائے
ایک سے طور ہیں اِس شہر کے تیور اِک سے
عمر بیتے کہ یہاں رات بتائی جائے
بات سیدھی ہے حدِ سنگ دلی سے آگے
ساتھ یوسف کے کہاں تک کوئی بھائی جائے
دید کو جس کی فلک تک سے فرشتے اُتریں
ایسی بستی بھی کہیں کوئی بسائی جائے
جو بھی قیمت ہے کسی کی وہ جبیں پر لِکھ لے
یہ منادی بھی سرِ شہر کرائی جائے
راہ ایسی کوئی بتلا مرے واعظ! جس میں
رائیگاں عمر کی پچھلی نہ کمائی جائے
شور کٹیاؤں میں کیسا ہی مچا لے ماجدؔ
قصر تک شاہ کے، تیری نہ دُہائی جائے
ماجد صدیقی

وُہ مانے گا نہ اَب کوئی صفائی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
ترازُو ہاتھ جس منصف کے آئی
وُہ مانے گا نہ اَب کوئی صفائی
کھلائے گی کلی کو اور ہوا پھر
اُڑا لے جائے گی اُس کی کمائی
لگے، جیسے اندھیرے ہی میں بانٹے
وُہ جس کو بھی عطا کر دے خُدائی
بنے گا چھتر وُہ بیوہ کے سر کا
بڑوں نے جس کو اَب تختی تھمائی
ٹپکتی ہوں چھتیں جن کے سروں پر
لبوں پر کیوں نہ ہو اُن کے دُہائی
ہوئے بے اختیار ایسے کہ ہم سے
وُہ اِک اِک بات کی مانگے صفائی
نظر میں ٹُوٹتے تارے بسا کر
تِرا لہجہ ہوماجدؔ کیا رجائی
ماجد صدیقی

خدا اُس کو خدائی دے رہا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 7
جہاں جس کی دُہائی دے رہا ہے
خدا اُس کو خدائی دے رہا ہے
چُرا کر خضر کا جامہ ہمیں وہ
سلگتی جگ ہنسائی دے رہا ہے
پڑی زد جرم کی جس پر وہ چُپ ہے
جو مجرم ہے صفائی دے رہا ہے
بگولہ گھیر کر ہر ذِی طلب کو
ثمر تک نارسائی دے رہا ہے
وہ لاوا جو سِلے ہونٹوں کے پیچھے
دہکتا ہے سُنائی دے رہا ہے
وہ دے کر زر دریدہ عصمتوں کو
اُنہیں اُن کی کمائی دے رہا ہے
تناؤ ساس کے تیور کا ماجدؔ
دُلہن کو ’منہ دِکھائی‘ دے رہا ہے
ماجد صدیقی

جس کو اُونچا سُنائی دیتا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 146
وُہ اُسے ہی خُدائی دیتا ہے
جس کو اُونچا سُنائی دیتا ہے
کون بَونا بنے چھُڑا کے مجھے
کون میری صفائی دیتا ہے
سر بلندی مجھی سے ہے جس کی
کب مجھے وُہ رہائی دیتا ہے
ہے قرابت اُسی سے مالی کی
پیڑ جو بھی کمائی دیتا ہے
کون ہے وُہ چمن کے آنگن سے
جو مہک کو جُدائی دیتا ہے
ہر ستم کوش کو چلن اُس کا
کتنا ارفع دکھائی دیتا ہے
سنگ کب موم میں ڈھلے ماجدؔ
دل یہ کس کی دہائی دیتا ہے
ماجد صدیقی

سُنا جائے نہ ہم سے شور پتّوں کی دُہائی کا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 17
پھِرا ہے جب سے موسم ٹہنیوں کی بے ردائی کا
سُنا جائے نہ ہم سے شور پتّوں کی دُہائی کا
ہم اُن آبادیوں میں، منتظر ہیں سر چھپانے کے
نمٹنے میں نہ آئے کام ہی جن کی چُنائی کا
لگاتے کچھ تو جنّت بھی ہمارے ہاتھ آ جاتی
مگر حصہ خدا کے نام کرتے، کس کمائی کا
ہمارے نام تھا منسوب جانے جرم کس کس کا
نہ تھا آساں کچھ ایسا، مرحلہ اپنی صفائی کا
مجھے اک عمر، جس شاطر نے پابندِ قفس رکھا
وُہی اَب منتظم بھی ہے مرے جشن رہائی کا
کہے پیراہنِ بے داغ، بگلے کا یہی ماجد
وہی ہے پارسا دعویٰ جسے ہے پارسائی کا
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑