ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 222
شجر پہ تو نہ نم تلک بھی نقدِ زر دیا گیا
یہ کیا ؟ سوار’ دوش پر ہوا کے کر دیا گیا
یہ اور بات رہنما بجز شغال کچھ نہیں
ہمیں دیا گیا ہے جو بھی شیرِ نر دیا گیا
ہمِیں ہیں عزم کے سوا’جنہیں نہ کچھ عطا ہوا
جنہیں نہ اور کچھ بھی توشہءِ سفر دیا گیا
جنہیں بہم ہے برتری’وہ ہم سے بس یہی کہیں
جھکے تو ہو فرازتر ‘ہمیں وہ سر دیا گیا
کبھی نہ ہم نے آنکھ کھول کر نگاہ کی کہیں
یہ ہم جنہیں کبوتروں سا نامہ بر دیا گیا
کھلی ہے جب بھی آنکھ’دہشتیں پڑی ہیں دیکھنی
ہمیں نہ کوئی اور مژدہءِ سحر دیا گیا
تجھے ہے ماجِدِ حزیں عطا وہ’ لطفِ خاص ہے
ولائتوں سے کم نہیں جو فکرِ تر دیا گیا
ماجد صدیقی