ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 141
خوشامد کا ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے
کبھی کبھی خوددار کو بھی ڈرنا پڑتا ہے
قائداعظم، بھٹو ہونا بھی آساں ہے
پر یوں ہوتے جیتے جی مرنا پڑتا ہے
پنجابی میں ٹھیک کہا کہنے والوں نے
کوتاہی کا ہرجانہ بھرنا پڑتا ہے
اس کے شوخ بدن پہ حکومت خوب ہے لیکن
بیچ میں تن داری کا بھی دھرنا پڑتا ہے
اپنی زباں کے ہیرے بکھرانے سے پہلے
دوسروں کی باتوں کا بھس چرنا پڑتا ہے
نبی ولی تو اب نہیں آتے لیکن اب بھی
موجدوں خلّاقوں کا دم بھرنا پڑتا ہے
ماجد اس دنیا میں بھگتیں ہم وہ سارا
بچّیوں کو سسرال میں جو جَرنا پڑتا ہے
ماجد صدیقی