تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

ڈال

یہ شہرِ درد ہے پاؤں ذرا سنبھال کے رکھ

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 105
بغور دیکھ لیا کر، نہ پاس جال کے رکھ
یہ شہرِ درد ہے پاؤں ذرا سنبھال کے رکھ
چھپا نہ مصلحتاً، عیب عیبیوں کے کبھی
کجی ہو جو بھی، فضا میں اُسے اچھال کے رکھ
جو تاب ہے تو، وُہی کر گزر جو کرنا ہے
نظر میں وسوسے، ہر آن مت مآل کے رکھ
ملے گی گر تو اِسی سے اُٹھان جیون میں
فنا کی بانہوں میں بانہوں کو اپنی، ڈال کے رکھ
طلوع جو بھی ہُوا، جان اُسے جنم دن سا
عزیز اسی سے، سبھی دن تُو سال سال کے رکھ
لکھا تھا نام کبھی جس شجر پہ، ساجن کا
چھپا کے پرس میں ٹکڑے اب اُسکی چھالکے رکھ
وہی جو عمرِ گزشتہ سا کھو گیا ماجِد
قلم کی نوک پہ اب، نقش اُس جمال کے رکھ
ماجد صدیقی

میرے چَرکوں کا اندمال کہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 83
میرا ماضی بنے گاحال کہاں
میرے چَرکوں کا اندمال کہاں
بادلوں نے فلک کو اوڑھ لیا
ہاں سجائی ہے اُس نے شال کہاں
سیر کردے جو عین پِیری میں
اُس نوازش کا احتمال کہاں
محفلیں جن کے نام سجتی تھیں
میروغالب سے ماہ و سال کہاں
تاپ سے دھوپ کے جلی لاگے
سبز پیڑوں کی ڈال ڈال کہاں
لوگ چندا تلک سے ہو آئے
کام کوئی بھی ہو، محال کہاں
اب جو ماجد ہیں ہم بھی چل نکلے
اب ہے پسپائی کا سوال کہاں
ماجد صدیقی

جلدی ملن کی راہ کوئی اے سجن نکال

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 49
قوس قزح میں، رنگِ شفق میں دِکھا جمال
جلدی ملن کی راہ کوئی اے سجن نکال
حالات کا گراف صعودی ہوا ہے یوں
امسال اور تلخ ہے جتنا تھا پچھلا سال
نمٹا اُسے ہی جو روشِ کج کی دَین ہے
کہتا ہے کون، اور بکھیڑوں میں خود کو ڈال
ہجر و وصال کی ہے کہیں، سازشوں کی ہے
ہر فون پر ہے اور اداؤں کی قیل و قال
بیٹے کی چاہ میں ہیں اگر بیٹیاں بہت
مردِ حریص!اور کوئی راہ دیکھ بھال
نسبت اگر ہے لمحۂ موجود سے تری
ہتھیا کہیں سے عزم و عمل کی بھی کوئی فال
ہیں اور بھی تو ساحر و منٹو و فیض سے
ماجد پٹے ہوؤں کی نہیں ایک تو ہی ڈھال
ماجد صدیقی

ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
نظر میں واہمے، دل میں خیال کیا کیا تھے
ملے جو ہم تو لبوں پر سوال کیا کیا تھے
وُہ کرکے وار چلے تو غرور سے لیکن
قدم اُنہیں بھی اُٹھانے محال کیا کیا تھے
زمیں اجاڑ، فضا پُر شرر، فلک عریاں
پئے عذاب نظر کو وبال کیا کیا تھے
مہک ہماری لگی بھی تو ہاتھ صرصر کے
کسے جتائیں کہ اپنے کمال کیا کیا تھے
چٹک گلوں کی کہیں دُھول کا سکوت کہیں
رُتوں کے رنگ سجے ڈال ڈال کیا کیا تھے
بہ شکلِ خواب تھا امکانِ وصلِ یار سدا
عُروج کیا تھے ہمارے زوال کیا کیا تھے
رُتوں نے عہد سبھی محو کر دئیے، ورنہ
حروفِ ربط لکھے چھال چھال کیا کیا تھے
تھا ابتدا سے یہی حبس، ہے جو اَب ماجدؔ
نہ پوچھ مجھ سے مرے ماہ وسال کیا کیا تھے
ماجد صدیقی

ساتھ دنوں کے ہر شکلِ احوال گئی

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 91
ہم نے کھیلی وقت سے جو بھی چال گئی
ساتھ دنوں کے ہر شکلِ احوال گئی
ڈھانپنے والے تھے ہم جس سے سر اپنا
اُس سودے میں ساتھ ہی اپنی کھال گئی
خواہش، لُطف کی آخری حد چھُو لینے کی
چھین کے ہم سے کیا کیا ماہ و سال گئی
دیکھا رنگ اور رُوپ دلائے جس نے اِنہیں
پیڑوں کو آثار میں وُہ رُت ڈھال گئی
ہمیں چِڑانے باغ سے آتی تھی جو صبا
آخر ہم سے بھی ہو کر بے حال گئی
اُس چنچل کی بات کچھ ایسی پیچاں تھی
رگ رگ میں جو سو سو گرہیں ڈال گئی
ماجدؔ بات ہماری لیکھ سنورنے کی
ہر جاتی رُت اگلی رُت پر ٹال گئی
ماجد صدیقی

خلق جِسے کمزور کا استحصال کہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 52
زورآور اُس فن کو اپنی ڈھال کہے
خلق جِسے کمزور کا استحصال کہے
دیکھ رہی ہے ہاتھ دُعا کا بن بن کر
بادل سے کیا اور چمن کی آل کہے
رُخصت ہوتے اُس سے وُہی کُچھ مَیں نے کہا
پیڑ سے جو کچھ ٹوُٹ کے گرتی ڈال کہے
اور بھی کیوں لوٹے جا کر انگاروں پر
کون کسی سے اپنے دل کا حال کہے
یہ بھی کسی کے دل کا نقشہ ہو شاید
تُو جس کو شیشے میں آیا بال کہے
آپ کے حق میں اگلے دن اچّھے ہوں گے
بات یہی ہم سے ہر گزرا سال کہے
دل کی بات تجھی سے جیسا کہتا ہو
فیض کہے ماجدؔ یا وُہ اقبال کہے
ماجد صدیقی

میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 1
افق پہ ذہن کے موزوں ہیں یُوں خیال ترے
میانِ قامت و رُخ جُوں سجے ہیں گال ترے
یہ دشتِ دید ترستا ہے کیوں نظر کو تری
بہ قیدِ چشم ہیں کیوں کر ابھی غزال ترے
گمان‘ برگ و ثمر پر ترا ہی صبح و مسا
خطوطِ حُسن ہویدا ہیں‘ ڈال ڈال ترے
ہرا بھرا ترے دم سے ہے گُلستانِ خیال
بہ کشتِ یاد فسانے ہیں چھال چھال ترے
اُسی سے رقص میں ہے شاخِ آرزوئے وصال
ہیں جس ہوا سے شگفتہ یہ ماہ و سال ترے
نکلنے دیں گے کہاں حلقۂ ضیا سے مُجھے
سحر نما یہ کرشمے ترے، خیال ترے
کبھی یہ شعر بھی ماجدؔ کے دیکھنا تو سہی
نقوش اِن میں بھی اُترے ہیں خال خال ترے
ماجد صدیقی

تو بھی ہمیں نہ جنّتِ فردا پہ ٹال دے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 27
جاناں! کبھی تو مژدۂ لطفِ وصال دے
تو بھی ہمیں نہ جنّتِ فردا پہ ٹال دے
ہم گمرہی میں، غیر مگر راستی میں فرد
دیتا ہے وُہ، جسے بھی، جو اوجِ کمال دے
سجنے لگے شرر جو سرِ شاخِ آرزو
ایسا ثمر تو باغ میں کوئی نہ ڈال دے
اتنا تو بخش دے ہمیں اخفائے دردِ دل
حدّت وُہ دے جو اشک کو آہوں میں ڈھال دے
ایسا کوئی نہیں کہ جو یُوسف کہے تجھے
چاہے سخن کو جتنا بھی ماجدؔ جمال دے
ماجد صدیقی

یُوں تو ہو گا یہ جی کچھ اور نڈھال

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
ہو نہ محتاجِ پرسشِ احوال
یُوں تو ہو گا یہ جی کچھ اور نڈھال
وہ ترا بام ہو کہ ہو سرِ دار
پستیوں سے مجھے کہیں تو اُچھال
گُل بہ آغوش ہیں مرے ہی لیے
یہ شب و روز یہ حسیں مہ و سال
دن ترے پیار کا اُجالا ہے
شب ترے عارضوں کا مدّھم خال
مَیں مقّید ہوں اپنی سوچوں کا
بُن لیا مَیں نے شش جہت اِک جال
بے رُخی کی تو آپ ہی نے کی
آپ سے کچھ نہ تھا ہمیں تو ملال
ہے اسی میں تری شفا ماجدؔ
لکھ غزل اور اِسے گلے میں ڈال
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑