تلاش

ماجد صدیقی

شاعرِ بے مثال ماجد صدیقی مرحوم ۔ شخصیت اور شاعری

ٹیگ

چہرہ

میں آئنہ ہوں ٹھیک سے چہرہ بتاؤں گا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
ہو جس طرح کا۔۔ہاں اُسے ویسا بتاؤں گا
میں آئنہ ہوں ٹھیک سے چہرہ بتاؤں گا
دیکھو! عزیز عزّتِ انساں نہ ہو جسے
خلقت میں، میں اُسے ہی کمینہ بتاؤں گا
شوہرہے محترم، تو ہے بیوی بھی محترم
میں جاں نثار اُس کو بھی ماں سا بتاؤں گا
جرّاحِ بے مثال جو اِس دَورِ نو کے ہیں
ہر حال میں اُنہیں میں مسیحا بتاؤں گا
خلقت کی رہ سے جو بھی ہٹائیں رکاوٹیں
میں اُن سبھوں کو عہد کا آقا، بتاؤں گا
بہرِ عوام نظم ہو ڈھیلا جہاں، وہاں
ہر دل کو آئنوں سا شکستہ بتاؤں گا
قاری ہی خوب و زشت کہیں جوکہیں، کہیں
ماجد سخن کے باب میں میں کیا بتاؤں گا
ماجد صدیقی

رُک گیا ہے وہی رستہ میرا

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 24
تھا جو مشکل کا مداوا میرا
رُک گیا ہے وہی رستہ میرا
جُرعہِ غم ہے مجھے جُرعۂ مے
ٹوٹتا ہی نہیں نشّہ میرا
خُوب سُلگائی دبی آگ مری
حال پوچھا ہے یہ اچّھا میرا
خشک پتّوں سا وہ بچھڑا مجھ سے
دیکھ کر رنگ بدلتا میرا
عرش اور فرش ملے ہیں باہم
ہے عجب گھر کا یہ نقشہ میرا
مُسکراہٹ مرا غازہ ہی نہ ہو
دیکھئے غور سے چہرہ میرا
ایک باطن بھی ہے ہر ظاہر کا
کیجئے یوں نہ تماشا میرا
دفعتاً جیسے خُدا بن بیٹھا
دیکھ کر ہاتھ وہ پھیلا میرا
امتحاں میں مرے پرچے خالی
اور بڑا سب سے ہے بستہ میرا
چور جو دل میں چُھپا تھا ماجدؔ
کر گیا ہے وہ صفایا میرا
ماجد صدیقی

وُہ زلفیں وُہ چنچل چہرہ بھوُل گئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 53
شام کنارے چاند اُبھرتا بھُول گئے
وُہ زلفیں وُہ چنچل چہرہ بھوُل گئے
دشت میں دیکھی وُہ اُفتاد غزالوں نے
بچ نِکلے تو گھر کا رستہ بھُول گئے
آن گئے پر، جان گنوانا مشکل تھا
ہم تم بھی تو مسجدِ اقصیٰ بھول گئے
لاش دبانے میں تو رہے محتاط بہت
رہزن آلۂ قتل اُٹھانا بھُول گئے
مکڑا دھاگے کیوں ماجدؔ ہر آن بُنے
ہم اتنی سی بات سمجھنا بھول گئے
ماجد صدیقی

WordPress.com پر بلاگ.

Up ↑