ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 115
ہم جیتے تھے چُھو چُھو جن کی گولائی
شکل ہے ان چنداؤں کی بھی گہنائی
منظرِ خاص کوئی تھا نظر میں دمِ رخصت
ویسے تو یہ آنکھ نہیں ہے بھر آئی
گرمئی شوق کی جھلکی روزنِ ماضی سے
سُوئے فلک اک آگ سی قامت لہرائی
ہاں جس کی کل کائنات ہی اتنی تھی
بڑھیا نے یوسف کی قیمت دہرائی
دہشت سے جانے کن نوسر بازوں کی
خلقِ خدا ہے اک ایڑی پر چکرائی
سڑک سڑک پر دُود اڑانیں بھول گیا
بارش ہو چکنے پر ہر شے دھندلائی
ماجد آج کی دنیا دیکھ کے کھلتا ہے
آدم نے کچھ سوچ کے جنّت ٹھکرائی
ماجد صدیقی